متفرق مضامین

قراۤن کریم کی تصریحات اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں تیسری عالمی ایٹمی جنگ اور اسلام احمدیت کی فتح (قسط دوم۔ آخری)

(چوہدری ناز احمد ناصر۔ لندن)

تیسری جنگ کے بارے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کی پیشگوئیاں و ارشادات

مکرم فضل الٰہی انوری صاحب مرحوم، سابق امیر و مشنری انچارج جرمنی اپنی کتاب ’’حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی پیشگوئیاں۔ عالمی تغیرات کے بارے میں ‘‘ میں فرماتے ہیں۔ (یہاں کچھ حصے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی کتابوں سے مزید بھی لیے گئے ہیں )

1۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکراپنی کتاب ’’تجلیات الٰہیہ‘‘ کے پہلے صفحہ پر دنیا پر اۤنے والی بڑی جنگوں کی خبر دی ہے۔ اۤپ علیہ السلام اپنے ایک الہام کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’چمک دکھلاؤں گا اپنے نشان کی پنج بار‘‘

2۔ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس وحی الٰہی کا یہ مطلب ہے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے اور محض اس غرض سے کہ تالوگ سمجھ لیں کہ میں اسکی طرف سے ہوں، پانچ دہشتناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلے سے اۤئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں اور ہر ایک میں ان سےایسی چمک ہوگی کہ اس کے دیکھنے سے خدا یاد اۤجائے گا۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20صفحہ 395)

3۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں زلزلہ کی تعبیر ایک بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی بھی کی ہے۔ چنانچہ اۤپ علیہ السلام کی وفات کے تقریباً 6سال بعد جنگ عظیم اول کی صورت میں تباہی اۤئی، جب کہ دوسری عالمگیر تباہی جنگ عظیم دوم کی شکل میں 1939-1945ء میں ہوئی۔ ان دونوں جنگوں میں لاکھوں کے حساب سے تباہی ہوئی اور لوگ مارے گئے۔ ان دو جنگوں میں جانی و مالی نقصان یورپین ممالک اور جاپان کا ہوا۔ اس طرح باقی ماندہ بڑی اۤفتوں سے بھی مراد عالمگیر سطح پر ہونے والی جنگیں ہی ہیں، جن میں تیسری عالمگیر تباہی (جنگ) کے بادل نمایاں طور پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس تیسری عالمگیر تباہی کی ایک واضح علامت، جو اۤپ علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں مذکور ہے اور جو ابھی پوری طرح پہلی دو جنگوں میں ظاہر نہیں ہوئی، یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا کے بعض حصوں سے انسانی اور حیوانی زندگی مکمل طور پر مفقود ہو جائے گی، چنانچہ اۤپؑ فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر تباہی اۤئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا، ایسی تباہی کبھی نہیں اۤئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی اۤبادی نہ تھی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ368)

یہ وہ بھیانک نقشہ ہے جس کی کسی قدر صورت دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگا ساکی کے شہروں پر گرائے جانے والے جوہری بموں کی ہلاکت اۤفرینی سے ملتی ہے اور اگر کسی وقت تیسری عالمگیر جنگ چھڑ گئی، جس کے حتمی اۤثار ابھی سے نظر اۤ رہے ہیں، تو کچھ بعید نہیں کہ جس قسم کے بم، ہائیڈروجن اور نائٹروجن بموں کی شکل میں منصہ شہود پر اۤ چکے ہیں، ان کی ہلاکت خیزیوں کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر حصوں سے زندگی کلیۃً مفقود ہوجائے۔

4۔ نیز فرمایا: ’’اس دن اۤسمان سے ایک کھلا کھلا دھؤاں نازل ہوگا اور اس دن زمین زرد پڑجائے گی، یعنی سخت قحط کے اۤثار ظاہر ہوں گے۔ میں، بعد اس کے جو مخالف تیری توہین کریں تجھے عزت دوں گا اور تیرا اکرام کروں گا۔ وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام نا تمام رہے اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑ دے جب تک تیرے تمام کام پورے نہ کرے۔ میں رحمٰن ہوں اور ہر ایک امر میں تجھے سہولت دوں گا۔ ہر ایک طرف سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ98)

5۔ پھرایک اور جگہ پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اے سننے والو! تم یاد رکھو کہ اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں اۤئیں تو سمجھ لو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ لیکن اگر ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیا اور شدت گھبراہٹ سے دیوانہ سا بنا دیا اور اکثر مقامات سے عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچایا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نےمیرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 396)

5۔ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ جس عذاب کے لئے یہ پیشگوئی ہے، اس عذاب کو خدا تعالیٰ نے بار بار زلزلہ کے لفظ سے بیان کیا ہے۔ اگر چہ بظاہر وہ زلزلہ اور ظاہر الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا۔ لیکن چونکہ عادت الٰہی میں استعارات بھی داخل ہیں اس لئے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالباً تو وہ زلزلہ ہوگا ورنہ کوئی اور جاں گداز اور فوق العادت ہے جو زلز لہ کارنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ جلد پنجم)

6۔ فرمایا: ’’کیا تم خیال کرتے ہوکہ تم امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہوگا….اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوئی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور اۤبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد و یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی اۤنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئےاور وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ269)

7۔ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ کی ایک بڑی علامت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا مرکز ملک شام ہوگا، جیسا کہ ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ اۤپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ….دنیا میں ایک حشر برپا ہوگا۔ وہ اول الحشر ہوگا اور تمام بادشاہ اۤپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کشت و خون ہوگا کہ زمین خون سے بھر جائے گی اور ہر ایک بادشاد کی رعایا بھی اۤپس میں خوفناک لڑائی کرے گی، ایک عالمگیر تباہی اۤوے گی اور ان تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہوگا۔‘‘ (تذکرۃ المہدی، حصہ دوم، صفحہ3)

8۔ اب دیکھنے کی بات ہے کہ پہلی دونوں جنگوں نے اگرچہ اپنی وسعت اور ہلاکت خیزی کے اعتبار سے دنیا کے اکثر ممالک کو بری طرح متاثر کیا، لیکن ان میں سے کسی کا مرکز ملک شام نہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم، اۤسٹریا کے ولی عہد شہزادہ، فرڈیننڈ، کے قتل کے نتیجے میں شروع ہوئی اور جرمنی، روس، انگلستان، بیلجیم، فرانس اور یوگوسلاویہ کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی ترکی اور اٹلی تک پہنچ گئی۔ دوسری جنگ عظیم، جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی اور پھر یورپ کے اکثر ممالک کو، بشمول روس، اپنی تباہ کاریوں کا نشانہ بناتی ہوئی، جاپان سمیت مشرق بعید کے ممالک تھائی لینڈ اور انڈونیشیا وغیرہ تک پہنچ گئی۔ مگر تیسری عالمگیر جنگ کا مرکز، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق شام کا ملک بتایا گیا ہے، یعنی وہ علاقہ جسے اصطلاحاً مڈل ایسٹ کہتے ہیں۔ اس جنگ سے ہونے والی تباہی کا جو نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے درج ذیل باتیں قابل ذکر ہیں:

الف۔ یہ جنگ دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

ب۔ ملک شام یعنی شرق اوسط کے ممالک سب سے زیادہ اس سے متاثر ہوں گے۔

ج۔ اپنی ہلاکت میں یہ جنگ گذشتہ دونوں جنگوں سے سبقت لے جائے گی۔

9۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ، نے لند ن کے وانڈزورتھ ہال میں منعقد ہونے والے ایک تاریخی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے، جوپہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہوگی۔ دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخود رہ جائے گا۔ اۤسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہوگی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر اۤرہے گا۔ دونوں متحارب گروہ، یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست، ہر دو تباہ ہو جائیں گے، ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی، ان کی تہذیب و ثقافت برباد اور ان کا نظام درہم برہم ہوجائے گا….شاید اۤپ اسے افسانہ سمجھیں مگر جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے، وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں، کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔‘‘ (امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ، صفحہ9)

10۔ جب یہ تاریخی خطاب سنایا گیا تھا، اس وقت دنیا کی دوسری بڑی طاقت یعنی روس ( سوویٹ سوشلسٹ ریپبلک (U.S.S.R) کے نام سے پورے عروج پر تھا اور اگرچہ یہ اس وقت، جیسا کہ اس کے لیے مقدر تھا، وہ بطور ایک سپرپاور اور بطور فلسفہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے تا ہم بطور ایک ایٹمی طاقت اس کا وجود ابھی تک قائم ہے اور عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں وہ پھر اتنی طاقت اور قوت پکڑ جائے کہ مغربی طاقتوں کی اۤنکھوں میں اۤنکھیں ملانا شروع کر دے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 22؍اپریل2003ء کو منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد دنیا میں امن کے بارے میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے مختلف ذرائع ابلاغ از قسم پرنٹ میڈیا اور ڈیجیٹل الیکٹرانک میڈیا، مختلف سربراہان مملکت اور عیسائیوں کے مذہبی پیشوا کو خطوط لکھ کراوربیت الفتوح لندن میں سالانہ امن کانفرنسز کے قیام سے ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان کانفرنسز میں امن کے سلسلے میں کی گئی کاوشوں کو اجاگر کرنے کے لیے ’’امن ایوارڈ‘‘ کا بھی اجرا فرمایا۔ اس ایوارڈکا دنیا میں مختلف لوگوں کی طرف سے کی گئی کوششوں پر ہر سال جلسہ سالانہ یوکے پر اعلان کیا جاتا ہے جب کہ امن کانفرنس پریہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔

خطابات

اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مختلف پارلیمنٹس میں جا کر خطابات بھی فرمائے، جیسے یورپین پارلیمنٹ، کیپیٹل ہل (USA) وغیرہ میں جا کر مقتدر لوگوں کو امن کی طرف بلایا، جن میں مختلف عناوین از قسم ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت، امن عالم وقت کی ضرورت، وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات، امن کی کنجی۔ بین الاقوامی اتحاد، انصاف کی راہ۔ قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلیمات، اسلام امن اور محبت کا مذہب، کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیںنیز عالمی بحرانوں پر اسلامی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی۔

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطاب ’’ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’… ساری دنیا میں بے چینی اور خلفشار پھیلتا اور بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اۤج کی دنیا میں تصادم، بے چینی اور بعض ممالک میں عوام اۤپس میں لڑائی اور جنگ کر رہے ہیں اور بعض ممالک میں عوام حکومت سے بر سر پیکار ہیں یا اس کے برعکس حکام اپنے ہی عوام کے خلاف صف اۤرا ہیں …اۤج کے دَور میں خدا کی ایک قہری تجلی ایک اورعالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جنگ کے بد اثرات اور تباہی صرف ایک روایتی جنگ یا صرف موجودہ نسل تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ درحقیقت اس کے ہولناک نتائج اۤئندہ کئی نسلوں تک ظاہر ہوتے رہیں گے…اگر ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو جو لوگ براہ راست اس کی زد میں اۤئیں گے ان کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ لوگ اۤناًفاناً ہلاک ہو جائیں گے یا مجسموں کی صورت میں منجمد ہو جائیں گے۔ پینے کا پانی، غذا اور سبزہ وغیرہ ایٹمی تابکاری سے ناقابل استعمال ہو جائیں گے۔ اس تابکاری کے اثرات سے جو بیماریاں پیدا ہوں گی ہم اس کا صرف تصور کر سکتے ہیں …اگر ایٹمی ہتھیار اۤج دوبارہ استعمال ہوتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ بعض ممالک کے کچھ حصے مکمل طور پر دنیا کے نقشے سے مٹ جائیں اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے…لہٰذااس امن کانفرنس کے ذریعہ میں تمام دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کی تعلیمات اور پیغام محبت، ہمدری، نرمی، امن اور اۤشتی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ (امن کا پیغام، صفحہ 53تا 65 اردو ترجمہ)

خطوط

اسی طرح اۤپ نے دنیا کے مشہور مذہبی اور دنیاوی ملکوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے، چند ایک نمونۃً پیش خدمت ہیں:

1۔ اسرائیل کے وزیر اعظم کو خط میں لکھا: ’’میری اۤپ سے درخواست ہے کہ دنیا کو جنگ کے دہانہ پر پہچانے کی بجائے اپنی انتہائی ممکنہ کوشش کریں کہ انسانیت عالمی تباہی سے محفوظ رہے۔ باہمی تنازعات کو طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی بجائے گفت و شنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں تا کہ ہم اپنی اۤئندہ نسلوں کو تابناک مستقبل مہیا کر سکیں، نہ یہ کہ ہم انہیں معذوریوں کا تحفہ دینے والے ہوں۔‘‘

2۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کو اۤپ نے توجہ دلائی: ’’اۤج ہر طرف اضطراب اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے، یعنی دنیا کے کچھ خطوں میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں شروع ہو چکی ہیں جب کہ بعض اور علاقوں میں عالمی طاقتیں قیام امن کے بہانہ سے مداخلت کر رہی ہیں۔ اۤج دنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کی دشمنی پر کمربستہ ہے یا کسی دوسرے ملک کا حمایتی بنا ہوا ہے، لیکن انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف کوئی متوجہ نہیں۔ عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جاچکی ہے۔‘‘

3۔ امریکہ کے صدر اوباما کو لکھا: ’’ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ اۤف نیشنز کی ناکامی اور 1932ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سرفہرست تھا۔ اۤج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات بر ملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دَور کے معاشی مسائل اور 1932ء والے بحران میں بہت سی قدریں مشترک دکھائی دے رہی ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ممالک داخلی بد امنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا…بنی نوع انسان کو خدائے واحد کو پہچاننے کی سخت اور فوری ضرورت ہے جو سب کا خالق ہے اور انسانیت کی بقاکی یہی ایک ضمانت ہے ورنہ دنیا تو رفتہ رفتہ تباہی کی طرف گامزن ہے ہی۔‘‘

4۔ عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم کو لکھا: ’’میری دعا ہے کہ عالمی راہنما دانشمندی سے کام لیتے ہوئے اقوام عالم اور افراد کے مابین موجود چھوٹے چھوٹے تنازعات کو عالمگیر بننے سے بچانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں ‘‘

5۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کو لکھا: ’’میری درخواست ہے کہ ہم ہر جہت اور ہر ایک پہلو سے اپنی تمام تر سعی بروئے کار لا کر دنیا سے نفرت کو مٹا دیں۔ اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ہماری اۤئندہ نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی اور ناکامی کی صورت میں ہماری اۤئندہ نسلیں ہمارے اعمال کی پاداش میں ایٹمی جنگ کی وجہ سے ہر جگہ تباہ کن نتائج کا سامنا کریں گی اور اپنی اۤنے والی نسلوں کو ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں پھیلنے والی مسلسل تباہی کا تحفہ دے رہے ہوں گے اور یہ نسلیں اپنے ان بڑوں کو جنہوں نے دنیا کو عالمی تباہی میں د ھکیل دیا، کبھی معاف نہیں کریں گی۔

میں ایک دفعہ پھر اۤپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ ایک عالمی طاقت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ پس اگر اۤپ چاہیں تو عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرکے دنیا کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ لہذا برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو دنیا میں قیام امن کے لئے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ اۤپ کو اور دیگر عالمی سربراہان کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے۔‘‘

(عالمی بحران اور امن کی راہ۔ اردو ترجمہ، صفحہ10تا12)

6۔ متحدہ روس کے صدرکو خط: ’’موجودہ حالات کے پیش نظر میں اپنے خطبات اور خطابات میں بلا امتیاز ہر ایک کو خالق حقیقی کی طرف سے عاید کردہ ذمہ واریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ شام کے تیزی سے بدلتے حالات اور اۤپ کی قابل تحسین کوشش نے مجھے اۤپ کو یہ خط لکھنے پر اۤمادہ کیا جب اۤپ نے دنیا کو میدان جنگ میں کودنے کی بجائے باہمی بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ کسی ملک کے خلاف جارحیت نہ صرف اس خطہ میں جنگ کا باعث بن سکتی ہے بلکہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اس حوالہ سے ایک مؤقر مغربی اخبار میں اۤپ کے حالیہ مضمون پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی جس میں اۤپ نے نشان دہی کی ہے کہ ایسا طرز عمل انتہائی خطرناک اور جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے والا ہوگا۔ اۤپ کے اس واضح اور امن پسند مؤقف کی وجہ سے بڑی بڑی طاقتیں اس سے باز رہیں اور انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعہ گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اۤپ کے اس بر وقت قدم نے دنیا کو درپیش ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ۔ اردو ترجمہ، صفحہ264)

احمدیت یعنی حقیقی اسلام کاعالمی روحانی غلبہ

مکرم فضل الٰہی انوری صاحب مرحوم، سابق امیر و مشنری انچارج جرمنی اپنی کتاب ’’حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی پیشگوئیاں عالمی تغیرات کے بارے میں ‘‘ میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے غلبہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

1۔ پیشگوئیاں یہ بھی بتاتی ہیں کہ روس، بحیثیت قوم، تیسری عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں سے جلد تر نجات پاکر اسلام کی طرف بڑے زور کے ساتھ رجوع کرے گا۔ جماعت کے تیسرے خلیفہ اور امام، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطاب میں اس جنگ کی ہولناکیوں سے اہل دنیا، بالخصوص اہل مغرب، کو انتباہ کرنے کے بعد اۤخر پر فرمایا: ’’پس تیسری عالمگیر تباہی کی ا نتہا، اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتدا ہو گی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف حضرت محمد ارسول اللہؐ کے پیغام کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘ (امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ، صفحہ 10، فرمودہ 1967ء بمقام لندن)

2۔ تیسری عالمگیر جنگ کے بارے میں حضرت بانی سلسلہ کے چوتھے جانشین، حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ، نے بھی بعض تصریحات فرمائی ہیں۔ چنانچہ اۤپؒ نے حضرت بانیٔ سلسلہ کی زلزلوں سے متعلق پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ان زلازل کو اۤپ علیہ السلام نے عالمی جنگوں سے تعبیر فرمایا۔ ان میں سے ابھی ایک تیسری جنگ بھی ہونا باقی ہے…. اگرچہ دنیا کے دانشور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح یہ تیسری جنگ کا زلزلہ ٹال دیں۔ مگر نا ممکن ہے کہ وہ ایسا کر سکیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو جو فرقان عطا ہوئی، اس فرقان میں ان زلزلوں کی پیشگوئی بھی شامل تھی۔‘‘

3۔ اور پھر ان زلزلوں کی نسبت حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی ایک اور الہامی خبر کہ ’’پھر بہا ر اۤئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘ (الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ303)کی روشنی میں درج ذیل لطیف نکتہ بیان فرمایا:

’’یہاں میں ’’پھر بہار اۤئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘ کا مضمون اۤپ کو سمجھا دوں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں صرف اس بہار کا ذکر ہے جو مارچ /اپریل میں ہمارے ملک میں اۤتی ہے۔ لیکن بعض اور ملکوں میں وہ مئی میں بھی اۤتی ہے، جون میں بھی اۤتی ہے۔ گویا بہار کے موسم شمال اور جنوب میں بدلتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے غور کیا تو مجھے خیال اۤیا کہ بہار سے مراد قوموں کے عروج کا وقت ہے یا قوموں کا مالی نظام اور قوموں کی فتوحات (جب) ایک خاص عروج کو پہنچ جاتی ہیں تو وہ وقت ہوتا ہے جب لازماً بحران اۤنا ہوتا ہے۔ اورہمیشہ وہی بحران ہے جو جنگوں پر منتج ہوا کرتا ہے….پس ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ایسی بہار اۤنے والی ہے، اۤئندہ بھی اۤیا کرے گی کہ قومیں سمجھیں گی کہ ہم اپنی ترقی کے عروج تک جا پہنچے ہیں۔ اس وقت خدا کی بات ضرور پوری ہوگی اور انہیں ان زلازل کا منہ دیکھنا نصیب ہوگا۔‘‘

4۔ اور پھر اۤپ نے بھی جنگ عظیم اول کو ان موعودہ زلازل میں سے پہلا زلزلہ اور جنگ عظیم دوم کو دوسرا زلزلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’اور اب تیسرا زلزلہ بھی ضرور اۤنا ہے…. میں خیال کرتا ہوں کہ بعید نہیں کہ ہماری زندگیوں میں اۤئے تاکہ اس کے بعد ہونے والی فتح اسلام کو ہم اپنی اۤنکھوں سے دیکھ لیں۔‘‘ (خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 1998ءبحوالہ الفضل انٹرنیشنل 26؍نومبر 1999ء)

5۔ دنیا کے دانش وروں اور مدبروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اس خیال کا حامی ہے کہ اگرتیسری عالمگیر ایٹمی جنگ لگ گئی تو بنی نوع انسان کا اس خطہ ارض سے خاتمہ ہو جائے گا۔ کیونکہ ایسے خطرناک، مہلک اور سریع الاثر ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں کہ ان کے استعمال سے چند لمحوں میں ہر ذی روح رخت سفر باندھ لے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کے ساتھ احمدیت کا غلبہ وابستہ ہے۔ جیسا کہ اوپر کی پیشگوئیوں سے ظاہر ہے بے شک یہ جنگ اپنے ساتھ تباہ کاریوں اور ہولناکیوں کے لشکروں کے لشکر لے اۤئے گی لیکن پھر بھی تمام بنی نوع انسان کو ہلاک نہیں کر سکتی۔ عیسائیت اس تیسرے زور دار جھٹکے کے نتیجے میں پاش پاش ہو جائے گی اور پھر احمدیت کے غلبے کی ابتدا پوری اۤب وتاب سے اپنے اندر درخشندہ پہلو لیے صفحہ زمین پر رونما ہو گی اور پھر یہ غلبہ تا قیامت رہے گا۔

6۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ جس قدر خدا نے تباہی کا ارادہ کیا ہے وہ پورا ہو چکے گا۔ تب خدا کا رحم پھر جوش مارے گااور پھر غیر معمولی اور دہشتناک زلزلوں کا ایک مدت تک خاتمہ ہو جائے گااور جیسا کہ نوح کے وقت میں ہوا کہ ایک خلق کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا، ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20صفحہ339)

7۔ پھر فرمایا: ’’نہ بت رہیں گے، نہ صلیب رہے گی اور سمجھدار دلوں پر سے ان کی عظمت اٹھ جائے گی اور یہ سب باتیں باطل دکھائی دیں گے اور سچے خدا کا چہرہ نمایاں ہو جائے گا….

خدا اپنے بزرگ نشانوں کے ساتھ اور اپنے نہایت پاک معارف کے ساتھ اور نہایت قوی دلائل کے ساتھ دلوں کو احمدیت کی طرف پھیر دے گا اور وہی منکر رہ جائیں گےجن کے دل مسخ شدہ ہیں۔ خدا ایک ہوا چلائے گا جس طرح موسم بہار کی ہوا چلتی ہے اور ایک روحانیت اۤسمان سے نازل ہوگی اور مختلف بلاد اور ممالک میں بہت جلد پھیل جائے گی۔ جس طرح بجلی مشرق و مغرب میں اپنی چمک ظاہر کر دیتی ہے، ایسا ہی روحانیت کے ظہور کے وقت میں ہوگا۔ تب جو نہیں دیکھتے وہ دیکھیں گے اور جو نہیں سمجھتے وہ سمجھیں گے اور امن اور سلامتی کے ساتھ راستی پھیل جائے گی‘‘ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 312)

اۤخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو اسلام احمدیت کو جلد قبول کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ اس عالمگیر تباہی سے بچائے جائیں۔ اۤمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button