متفرق مضامین

قبل از خلافت استحکام خلافت کے لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا مضبوط کردار (قسط دوم۔ آخری)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

’’خلافت اولیٰ کے زمانہ میں مَیں نے دیکھا کہ جو ادب اور احترام اور جو اطاعت اور فرمانبرداری آپ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی کرتے تھے اس کا نمونہ کسی اور شخص میں نہیں پایا جاتا تھا‘‘

خلافت کے متعلق نزاع اور آپؓ کی الوالعزمی

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی واضح ہدایات اور نصائح کے باوجود بعض ٹیڑھی طبیعتوں کے لوگ اپنی حرکات اور اپنے مکروہ خیالات پھیلانے سے باز نہ آئے، دوسری طرف عشاق خلافت کی ثبات قدمی میں بھی لغزش نہ آئی۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں: ’’1910ء کے اوائل میں خلیفہ اور انجمن کے تعلقات پر ایک بحث جماعت میں پیدا ہو گئی۔ اس موقعہ پر صدر انجمن کے بعض عہدیدار اور ان کی اتباع سے دوسرے لوگ خلیفۃ المسیح کی پوزیشن ایک میر مجلس سے زیادہ نہ سمجھتے تھے۔ اور ایک جماعت خلیفۃ المسیح کو خلافت راشدہ کا مظہر اور قدرت ثانی کا مظہر اوّل یقین کرتی تھی۔ یہ خصوصیت سے صاحبزادہ صاحب کے امتحان کا وقت تھا۔ مگر صاحبزادہ صاحب نے نہایت اخلاص اور وفاداری کے ساتھ اپنے مقام کو نہ چھوڑا، اور اپنے طرز عمل سے دکھادیا کہ قوم کے شیرازہ کا دھاگا صرف خلیفہ ہی ہے۔ اور یہی ایک پاک وجود ہے جو ہمیشہ اسلام کی شیرازہ بندی کاموجب رہا ہے‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 83)

خلافت کی پیشکش اور آپؓ کا مومنانہ جواب

18؍نومبر 1910ء میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو امام الصلوٰ ة مقرر فرمادیا۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی بیماری نازک صورت پکڑگئی تو انجمن والوں نے آپ کو خلافت کی پیش کش کی۔ مگر آپؓ نے انتہائی جرأت اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اسے فوراً ردّ کردیا۔

چنانچہ فرماتے ہیں: ’’1910ء کے آخری مہینوں میں حضرت خلیفۃ المسیح گھوڑے سے گر گئے اور کچھ دن آپ کی حالت بہت نازک ہوگئی۔ حتی کہ آپ نے مرزا یعقوب بیگ صاحب سے جو اس وقت آپ کے معالج تھے دریافت کیا کہ میں موت سے نہیں گھبراتا آپ بے دھڑک طبی طور پر بتادیں کہ اگر میری حالت نازک ہے تو میں کچھ ہدایات وغیرہ لکھوادوں۔ مگر چونکہ یہ لوگ حضرت مولوی صاحب کا ہدایات لکھوانا اپنے لئے مضر سمجھتے تھے آپ کو کہا گیا کہ حالت خراب نہیں ہے اور اگر ایسا وقت ہؤا تو وہ خود بتادیں گے مگر وہاں سے نکلتے ہی ایک مشورہ کیا گیا اور دوپہر کے وقت ڈاکٹرمرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے کہ ایک مشورہ کرنا ہے آپ ذرا مولوی محمد علی صاحب کے مکان پر تشریف لے چلیں۔ میرے ناناجناب میرناصر نواب صاحب کو بھی وہاں بلوایا گیا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو مولوی محمد علی صاحب، خواجہ صاحب، مولوی صدرالدین صاحب اور ایک یا دو آدمی وہاں پہلے سے موجود تھے۔ خواجہ صاحب نے ذکر شروع کیا کہ آپ کو اس لئے بلوایا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کی طبیعت بہت بیمار اور کمزورہے ہم لوگ یہاں ٹھہر تو سکتے نہیں لاہور واپس جانا ہمارے لئے ضروری ہے۔ پس اس وقت دوپہر کو جو آپ کو تکلیف دی ہے تو اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ کوئی ایسی بات طے ہوجائے کہ فتنہ نہ ہو۔ اور ہم لوگ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو خلافت کی خواہش نہیں ہے۔ کم سے کم میں اپنی ذات کی نسبت تو کہہ سکتا ہوں کہ مجھے خلافت کی خواہش نہیں ہے۔ اور مولوی محمد علی صاحب بھی آپ کو یہی یقین دلاتے ہیں۔ اس پر مولوی محمد علی صاحب بولے کہ مجھے بھی ہرگز خواہش نہیں۔ اس کے بعد خواجہ صاحب نے کہا کہ ہم بھی آپ کے سوا خلافت کے قابل کسی کو نہیں دیکھتے اور ہم نے اس امر کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن آپ ایک بات کریں کہ خلافت کا فیصلہ اس وقت تک نہ ہونے دیں جب تک کہ ہم لاہور سے نہ آجاویں ایسا نہ ہوکہ کوئی شخص جلد بازی کرے اور پیچھے فساد ہو۔ہمارا نتظار ضرور کر لیاجائے۔میر صاحب نے تو ان کو یہ جواب دیا کہ ہاں جماعت میں فسادمٹانے کے لئے کوئی تجویز ضرور کرنی چاہئے۔ مگر میں نے اس وقت کی ذمہ داری کو محسوس کرلیا۔ اور صحابہؓ کا طریق میری نظروں کےسامنے آگیاکہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے متعلق تجویز خواہ وہ اس کی وفات کے بعد کے لئے ہی کیوں نہ ہو ناجائز ہے۔ پس میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں اس کے جانشین کے متعلق تعیین کر دینی اور فیصلہ کردینا کہ اس کے بعد فلاں شخص خلیفہ ہو گناہ ہے۔ میں تو اس امر میں کلام کرنے کو ہی گناہ سمجھتا ہوں۔ ‘‘(آئینہ صداقت از حضرت مرزابشیر الدین محمود احمدؓ، صفحہ 124تا125)

تقریر جلسہ سالانہ 1910ء

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحبؓ جہاں ایک طرف نظام خلافت کے استحکام کے لیے کوشاں تھے وہیں آپ افراد جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی مقام و مرتبے کو قائم ودائم رکھنے کی طرف بھی پوری شدت کے ساتھ توجہ دلاتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اسی ذات کے طفیل ہی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا احیا ہوا۔

چنانچہ اس سلسلے میں 26؍دسمبر 1910ء کو مسجد نور قادیان میں جلسہ سالانہ پر آپؓ نے اپنی تقریر میں بیان فرمایا: ’’دو سوداگروں کے درمیان بھی میں دیکھتا ہوں کہ اگرچہ ایک جنس ہی ہے، تو بھی وہ کہتا ہے نہیں جی ہمارا غلّہ خاص قسم کا ہے اور تم تودونوں فریقوں مین بیّن فرق دیکھتے ہو اور پھر تم میں سے بعض ہیں جو کہہ دیتے ہیں کچھ فرق نہیں۔ کیا یہ فرق نہیں کہ تم ایک نبی کے متبع ہو۔ اور دوسری قوم ایک نبی کی مکذّب ہے…یہ بھی یاد رکھو کہ مرزا صاحب نبی ہیں اور بحیثیت رسول اللہ کے خاتم النبیین ہونے کے آپ کی اتباع سے آپ کو نبوت کا درجہ ملا ہے۔اور ہم نہیں جانتے کہ اور کتنے لوگ یہی درجہ پاویں گے۔ ہم انہیں کیوں نبی نہ کہیں جب خدا نے انہیں نبی کہا ہے …پس تم اپنے امتیازی نشان کو کیوں چھوڑتے ہو۔ تم ایک برگزیدہ کو نبی مانتے ہو اور تمہارے مخالف اس کا انکار کرتے ہیں۔ حضرت صاحب کے زمانے میں ایک تجویز ہوئی کہ احمدی غیر احمدی مل کر تبلیغ کریں۔ مگر حضرت صاحب نے فرمایا تم کونسا اسلام پیش کرو گے۔ کیاجو خدا نے تمہیں نشان دئے۔ جو انعام خدا نے تم پر کیا وہ چھپاؤ گے۔ یاد رکھو کہ کوئی کسی قبر میں نہیں پڑتا، ہر ایک اپنا بوجھ خود اٹھاے گا…وہ سچی تعلیم جو خدا نے ہمیں دی ہے ہمیں چاہئے کہ بلا دھڑک، بلا چھپائے، بلا کسی عذر کے تمام دنیا میں پہنچا دیں۔ ‘‘(اخبار بدر قادیان19؍جنوری 1911ءصفحہ 5تا 7۔ جلد 10شمارہ 14)

انجمن انصار اللہ کا قیام

استحکام خلافت کے لیے ایک بڑا کارنامہ ’’انجمن انصار اللہ‘‘کا قیام ہے۔ اس انجمن کے قیام کی وجہ بیان کرتے ہوئےآپؓ نےفرمایا کہ فروری 1911ء میں عالم رؤیا میں دکھایا گیا کہ ایک بڑے محل کا ایک حصہ گرایا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ایک میدان میں ہزاروں پتھیرے بڑی تیزی سے اینٹیں پاتھ رہے ہیں، میں نے پوچھا کہ یہ محل کیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ یہ محل جماعت احمدیہ ہے۔ پتھیرے فرشتے ہیں اور محل کا ایک حصہ اس لئے گرایا جارہا ہے تا بعض پرانی اینٹیں خارج کرکے بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں اور نئی اینٹوں سے محل کی توسیع کی جائے۔ نیز معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے اور فرشتے ہی اللہ تعالیٰ سے اذن پاکر یہ کام کررہے ہیں۔

اس خواب کی بنا پر حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے ایک انجمن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ اس کے ذریعہ احمدیوں کے دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے۔ اور فریضہ تبلیغ کو باحسن وجوہ ادا کیا جائے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے نہ صرف خود استخارہ کیا بلکہ کئی اور بزرگوں سے استخارہ کروایا۔ کئی ایک دوستوں کو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارات ہوئیں تب آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اجازت سے ایک انجمن انصاراللہ کی بنیاد ڈالی اور اخبار بدر میں اس کا مفصّل اعلان شائع کروایا۔

اس کی شرائط میں یہ شرط شامل تھی کہ ہر ممبر سلسلہ کے افراد میں صلح و اتحاد کی کوشش میں مصروف رہے، اور جھگڑے کی صورت میں یا خود فیصلہ کریں۔ ورنہ حضرت خلیفۃ المسیح سے رہنمائی حاصل کریں۔ …حضرت خلیفۃ المسیح کی فرمانبرداری کا خاص خیال رکھیں۔ (ماخوذ ازاخبار بدر قادیان، 23؍فروری 1911ءصفحہ 2، جلد 10شمارہ 17)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نےآپ کی اس کاوش کو بہت سراہا، اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ اپنے مضمون میں تحریر فرماتے ہیں: ’’آخر میں مَیں اپنے دوستوں کو اس انجمن کی نسبت حضرت خلیفۃ المسیح کی رائے سے اطلاع دیتا ہوں کہ آپ نے اسے کس قدر پسند فرمایا ہے۔ جب میرا مضمون بدر میں چھپا تو آپ نے باوجود بیماری کے شروع سے لے کر آخر تک اُسے پڑھا اور آخر میں پھر سے فرمایاکہ ’’میں بھی آپ کے انصاراللہ میں شامل ہوں ‘‘۔ میرے خیال میں ایک پیر اپنے مریدین کے کسی کام پر ان سے زیادہ پر زور الفاظ میں پسندیدگی کا اظہار نہیں کرسکتا۔ ورنہ خادم مخدوم کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔ میں نے یہ الفاظ اس لئے درج کئے ہیں تا میرے احباب اس بات کا یقین رکھیں کہ ہم خدا کے فضل سے کسی فضول کام کے درپے نہیں ہیں۔ ‘‘(اخبار بدر قادیان9؍مارچ 1911ءصفحہ 8کالم 2، 3 جلد 10شمارہ 19)

میاں محمود میرا فرمانبردار

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے محترم شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے 1912ء کے وسط میں لاہور کا سفر اختیار فرمایا۔ ام المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ اور تینوں صاحبزادے آپ کے ہمراہ تھے۔ اس سفر کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے 16؍جون 1912ء کو احمدیہ بلڈنگز لاہور میں نہایت جلال کے ساتھ پرشوکت الفاظ میں مسئلہ خلافت پر روشنی ڈالی۔ اور پوری شان اور تمکنت کے ساتھ اعلان فرمایا: ’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا ہی نے خلیفہ بنایا ہے…اگر کوئی کہےکہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔ اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں۔ تم ان سے بچو۔ پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا۔ اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے۔ پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں۔ اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے۔ اب سوال ہوتا ہےکہ خلافت حق کسی کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے۔ پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی خاںکو کہہ دیں۔ پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے۔ یا ام المومنین کا حق ہے جوحضرت صاحب کی بیوی ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حقدار ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا وہ اتنانہیں سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے فرمانبردار اور وفادار ہیں۔ اور انہوں نے اپنا دعویٰ ان کے سامنے پیش نہیں کیا…مرزاصاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود، بشیر، شریف، نواب ناصر، نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا۔ میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں ایک امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے۔ بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں…میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لوکہ وہ سچا فرمانبردار ہے۔ ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں۔ مگر نہیں۔ میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے ایک بھی نہیں۔‘‘(اخبار بدر قادیان،4؍جولائی1912ءصفحہ6تا7،جلد12شمارہ1)

سفرہند

حضرت مرزابشیر الدین محمود احمد صاحبؓ اپنے عظیم المرتبت والد کی موجودگی میں بھی بھر پور طریق سے دینی اور جماعتی کاموں میں مصروف رہے، اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد آپ کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہوکر جو تاریخی عہد باندھا، پل پل اس کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے۔ اس ضمن میں ایک تاریخی واقعہ مدرسہ احمدیہ کی بہبود کے لیے ہندوستان اور بلاد عرب کی مشہور اسلامی درسگاہوں کے طریق تعلیم و انتظام کے معائنہ کے لیے ذاتی خرچ پر مختلف شہروں کا سفر ہے۔ اس سفر کے پیچھے غرض یہی تھی کہ مسیح محمدی کے ہاتھ سے لگایا ہوا یہ پودا ایسے پھل دے جو دینی علوم کے ماہر ہوں، اور خلافت کے دست و بازو بن کر اطراف عالم میں پھیلیں، اور غلبہ اسلام کے لیے جہد مسلسل میں مصروف رہیں۔

پہلا سفر آپؓ نے اندرون ملک بعض مشہور مدارس اسلامیہ کے معائنہ اور وہاں کے علمی ماحول کے مطالعہ کی غرض سے اختیار کیا۔ اس سفر میں حضرت مولاناسیّد سرور شاہ صاحبؓ، حضرت قاضی امیر حسین صاحبؓ، حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، حضرت سیّد عبدالحی عرب صاحبؓ اورحضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ آپ کے ساتھ تھے۔ روانگی سے قبل یہ وفد حصولِ دُعا کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں حاضرہوا تو آپؓ نے فرمایا: ’’میں میاں صاحب کو تم پر امیر مقرر کرتا ہوں …میاں صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ تقویٰ اللہ سےاور چشم پوشی سے عموماً کام لیں۔ بہت دُعائیں کریں۔ جنابِ الٰہی میں گرجانے سے بڑے بڑے برکات اترتے ہیں۔ اور آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے امیر کی پُوری اطاعت و فرمانبرداری کریں۔ کوئی کام ان کی اجازت کے بدوں نہ کریں۔ علم کا گھمنڈ کوئی نہ کرے۔ مَیں نے بھی علوم پڑھے ہیں بعض وقت کوئی لفظ بُھول بھی جاتا ہوں ۔مگر خدا کے فضل سے خُوب سمجھتا ہوں۔ بہت پڑھایا ہے اور پڑھاتا بھی ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ محض علوم کچھ چیز نہیں …ان کا گھمنڈبھی نہ کرنا۔ دعاؤں سے بہت کام لینا‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد3صفحہ 392)

سفر ملتان

نومبر1913ء میں جماعت احمدیہ ملتان کے انتہائی اصرار پر حضرت صاحبزاہ مرزا محمود احمد صاحبؓ نے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، حضرت مولوی سرور شاہ صاحبؓ اور میاں معراج دین صاحب ایڈیٹر بدر کے ہمراہ جماعتی دورے کا پروگرام ترتیب دیا، اور اپنے خطبات اور تقاریر میں خلافت کے مقام اور استحکام کے حوالے سے بیش قیمت نصائح فرمائیں۔ اس دورے کی مکمل روئیداداخبار بدر، 18؍دسمبر 1913ء میں شائع شدہ ہے۔

اس سفرکے لیے آپ نے باقاعدہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سے اجازت لی، اور حضورؓ نے آپ کو اس قافلے کا امیر مقرر فرمایا۔ خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 27؍نومبر کی شام اس قافلےکو خود قادیان سے رخصت فرمایا، اور اس موقع پر ارشاد فرمایا: ’’میں نے بہت دعا کی ہے۔ ملتان میں شیعہ بہت ہیں۔ پر تم چار یار وہاں جاتے ہو۔ نرمی سے وعظ کرو۔ سخت کلامی نہ کرو۔ دعاؤں سے بہت کام لو۔ امیر بنابنایا تمہارے ساتھ ہے۔ ‘‘

اس سفر کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے 28؍ نومبر کو مسجد احمدیہ لاہور میں نماز جمعہ پڑھائی۔ اور مقام خلافت اور استحکام خلافت کے لیے انتہائی یادگار خطبہ دیا۔ جس میں خلافت کی برکات اور رحمت کا بیان کیا، اور قرآن وحدیث اور تعامل صحابہ سے اس کی مخالفت کا خلاف ہونا ثابت کیا۔ آپؓ نے جماعت کو تاکید فرمائی کہ اختلاف میں نہ پڑیں۔ کوئی امرِ شران کے علم میں آوے تو اپنی مجلسوں میں ان پر مباحثات نہ کریں، بلکہ ایسے معاملات حضرت خلیفۃ المسیح تک پہنچا دیں۔ اور پھر وہاں سے جو حکم آوےاس پر عمل درآمد کریں۔ اور جو لوگ خلافت کے خلاف کوئی بکواس کریں ان کی مجلسوں میں بیٹھنا اور ان سے تعلق رکھنا غیرت کے خلاف سمجھیں۔ (اخبار بدر قادیان دارالامان، 18؍دسمبر 1913ء صفحہ 3کالم1۔ جلد 23، شمارہ نمبر14)

اظہار حق

اگر ہم جماعت احمدیہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو خلافت اولیٰ کا دَور اس لحاظ سے ہنگامہ خیر دَور تھا کہ گروہِ عشاق اور مخلصین جماعت خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے احیاء پر خوشی و انبساط سے لبریز تھے۔ نور الدین اعظمؓ جیسا خدا رسیدہ شخص امیر کاروان تھا، جو دعاؤں کا خزانہ بھی تھا، اور صاحب جمال و جلال بھی، محمد عربیﷺ کا عاشق صادق، اور اس کے روحانی فرزند کا شیدائی۔ بلند نگاہ اور دلنواز سخن کے ساتھ کلام کرنے والا، اور اس کی پاکیزہ قیادت میں کارواں احمدیت دن رات شاہراہ ترقی پر رواں دواں تھا۔ دوسری طرف ایک گروہ دن رات ریشہ دوانیوں اور فتنہ پردازیوں میں مصروف تھا۔ تحریر اور تقریر سے نظام خلافت کی بیخ کنی کی ناپاک کوششوں میں سرگرم، بغض و حسد کی آگ میں جلتے اس گروہ کی کاوشوں کا خلاصہ یہ تھا کہ انجمن جماعت کی حاکم ہو، اس کا فیصلہ ناطق ہو۔ مگر ہر بار اس صاحب جلال بزرگ کی للکار کے سامنے ان کی آوازیں حلق میں دب جاتیں، مگر پھر کچھ عرصہ بعد باسی کڑھی میں ابال آجاتا۔ ان حالات میں جو وجود خلیفہ وقت کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سرگرم عمل تھاوہ نام نامی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کا ہے۔ اس لیے آپ مرکز نگاہ تھے، اور حاسدین کی ایذارسانیوں کا مرکزی وجود۔

اس فتنہ پرداز گروہ قلیل کی طرف سےنومبر1913ء میں لاہور سے ’’اظہار حق ‘‘کے نام سے کچھ ٹریکٹ شائع ہوئے، پھر اسی گروہ کے ایک فرد نے ’’مرزامحمود احمد امیدوار خلافت ‘‘کے عنوان سے ایک کھلا خط شائع کیا۔ لیکن ’’مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین‘‘کے مصنف اکبر شاہ خان نجیب آبادی کے قلم سے حق یوں آشکار ہوا: ’’میں قریباً آٹھ سال سے یہاں مقیم ہوں اور یہاں کی بابرکت صحبتوں سے فیض حاصل کرنے کا بھی بہت شائق ہوں لیکن خداتعالیٰ کے عظمت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کم سے کم میں تو ہرگز نہیں جانتا کہ ہمارے موجودہ خلیفۃ المسیح کے بعد کون شخص خلیفہ ہوگا۔ ہاں یہ میرا اعتقاد ہے کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہے گا اس کے سامنے سب کی گردنیں جھکادے گا۔ میرے نزدیک کسی احمدی کو امیدوار خلافت کہنا ایک گالی ہے کیونکہ اس کو ایک قابل شرم نادانی سے متہم کرنا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اپنے فقرہ مذکورہ بالا کی نقل پڑھ کر آپ کو خود بھی ندامت ہوئی ہوگی کیونکہ آپ کے پاس سوائے ظن کے اور دلیل اور کوئی علم اس بات کے کہنے کے لئے نہیں ہے۔

آپ نے امیدوار خلافت کا نہایت ذلیل ترین خطاب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو دیا۔ مہربانم اگر براہ راست جناب میاں صاحب سے آپ نے خلافت کی خواہش نہیںمعلوم کی۔ یعنی ان کی کوئی تحریر ایسی نہیں دیکھی اور کوئی تقریر ایسی نہیں سنی کہ جس میں انہوں نے خلیفہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہو۔ تو ذرا خد اکا خوف کر کے بتائیں کہ ایک مسلمان کے لئے یہ کہاں جائز ہے کہ وہ ان کو امید وار خلافت کہے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ 476تا477)

حرف آخر

خلافت اولیٰ کے دَور میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ دن رات اپنے آقا، استاد اور روحانی پیشوا حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ کی اطاعت اور خدمت میں پیش پیش رہے۔ خلیفہ وقت کے مقام، مرتبے اور حیثیت کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ اور خلیفہ کے ہر حکم کی بارضاو رغبت دل وجان سے اطاعت کی۔ تاریخ کے اوراق میں یہ صداقت ان الفاظ میں محفوظ ہے: ’’خلافت اولیٰ سے قبل حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ سے بے تکلف تھے اور گھنٹوں گفتگو کرتے رہتے تھے۔ مگر قیام خلافت کے بعد آپ نہایت ادب سے حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں بیٹھتے اور ہمیشہ نیچی نگاہ رکھتے اور آہستہ آواز سے کلام کرتے تھے۔ اور آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔ بلکہ کوئی اہم قدم آپ کی اجازت کے بغیر اٹھانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اور جماعتی حالات سے آپ کو ہمیشہ باخبر رکھتے تھے۔ ‘‘

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا بیان ہےکہ’’خلافت اولیٰ کے زمانہ میں مَیں نے دیکھا کہ جو ادب اور احترام اور جو اطاعت اور فرمانبرداری آپ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی کرتے تھے اس کا نمونہ کسی اور شخص میں نہیں پایا جاتا تھا۔ آپ کے ادب کا یہ حال تھا۔ کہ جب آپ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی خدمت میں جاتے تو آپ دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے اور جتنا وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے اسی طرح دو زانو ہی بیٹھے رہتے۔ میں نے یہ بات کسی اور صاحب میں نہیں دیکھی۔ اسی طرح آپ ہر امر میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی پوری پوری فرمانبرداری کرتے۔ کسی امر کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کا ارشاد ہوتا تو آپ اس کی پوری پوری تعمیل کرتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے اپنی تقریر میں جو آپ نے 1912ء میں احمدیہ بلڈنگز لاہور میں فرمائی، فرمایا’’میاں محمود بالغ ہے…وہ میرا سچا فرمانبردار ہے۔ اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے ایک بھی نہیں۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ605)

خلافت سے غیر متزلزل وابستگی کے حوالے سے آپ کا یہ بیان ہمیشہ آپ کی سوچ اور عمل کا گواہ رہے گا: ’’حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھ سالہ عہد خلافت میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب انجمن پر قابض تھے۔ یہ بسا اوقات حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف باتیں کرتے، اور جب وہ آپ کے لئے اورسلسلہ کے لئے نقصان دہ ہوتیں تو میں آپ کو بتا دیتا۔ اس پر چہ میگوئیاں بھی ہوتیں، میرے خلاف منصوبے بھی ہوتے۔ پھر میں اکیلا تھا اور ان کاایک جتھہ تھا۔ مگر اس چھ سال کے عرصہ میں کبھی ایک منٹ کے لئے بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ میں ان باتوں کو چھپاؤں، پھر میںاگر وہ باتیں بتاتا تھا تو اس لئے نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر احسان جتاؤں، بلکہ اس لئے کہ میں اخلاق اور روحانیت کے قیام کے لئے ان باتوں کی انسداد کی ضرورت سمجھتا تھا۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 78)

اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ

ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button