متفرق مضامین

خلافتِ ثانیہ میں برپاہونے والے بعض فتنے اور ان کا انجام (قسط دوم۔ آخری)

((’ابو اسد‘))

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثرلوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑتے دیکھو گے‘‘

فتنہ عبدالرحمٰن مصری صاحب

مخالف احمدیت تحریکیں، جو احراری شورش کے زمانے میں بری طرح ناکام و نامراد اور پسپا ہوچکی تھیں 1937ء میں دوبارہ پوری قوت و طاقت کے ساتھ جمع ہوگئیں اور انہوں نے قادیان میں پیداہونے والے ایک اندرونی فتنےکو اپنی پوری مدد اور طاقت فراہم کرکے براہ راست نظام خلافت پر حملہ آورہونےکی ایک ناکام کوشش کی۔ جس کا مختصراحوال در ج ذیل ہے۔

فتنہ کا بانی اور اس کے ابتدائی حالات

اس اندرونی فتنہ کی بنیاد شیخ عبدالرحمٰن صاحب (سابق لالہ شنکرداس) کے ذریعہ سے رکھی گئی۔ یہ صاحب 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرکے داخل احمدیت ہوئے اور جیسا کہ انہوں نے 24؍اگست 1935ء کو حلفیہ شہادت دی، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کے متفقہ عقیدہ کے مطابق حضرت اقدسؑ کو دوسرے تمام نبیوں کی طرح نبی یقین کرتے تھے۔

26؍جولائی 1913ء کو شیخ صاحب حضرت سیدنا محمودؓ کی ذاتی جدوجہد اور آپ کی تحریک (انصار اللہ) کے خرچ پر حصول تعلیم کے لیے مصر بھیجے گئے۔ مصر میں قیام کے عرصے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے شیخ صاحب کو ایک مکتوب میں یہ تحریر فرمایا کہ’’تمہیں وہاں سے کسی شخص سے قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ جب تم واپس قادیان آؤ گے تو ہمارا علم قرآن پہلے سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ بڑھا ہوا ہوگا۔ اور اگر ہم نہ ہوئے تو میاں محمود سے قرآن پڑھ لینا۔ ‘‘(الفضل یکم اپریل 1914ء صفحہ 21کالم 1)

علاوہ ازیں خود شیخ صاحب بھی اس یقین پر قائم تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے بعد پوری جماعت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی کی مقدس شخصیت ہر اعتبار سے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے قیام مصر کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں ایک مکتوب میں لکھا کہ’’جس طرف حضرت خلیفۃ المسیح یا آپ مجھے لگائیں گے میں تو وہی کام کروں گا…کیونکہ میں کامل یقین پر پہنچا ہوا ہوں۔ جس کام پر آپ لگائیں گے وہ دینی خدمت ہے۔ دین کا جوش اور غم جو آپ کو ہے اور کسی کو نہیں اور نہ ہی میں آپ کے سوا کسی کو اس کا اہل پاتا ہوں۔ اس لئے میں نے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اور جہاں تک میری مقدرت میں ہے انشاء اللہ تعالیٰ آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا۔ ‘‘

حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ پر آسمانی انکشاف

1915ء میں جب شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصرسےپڑھ کر واپس آئے تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو بذریعہ رؤیا خبردی گئی کہ شیخ صاحب کا خیال رکھنا یہ مرتد ہو جائیں گے۔ چنانچہ اسی بنا پر حضورؓ نے صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے۔

اس خواب کے گواہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ، ماسٹر چراغ الدین صاحب مدرس فارسی گورنمنٹ ہائی سکول قلعہ شیخوپورہ، اڑیسہ کے ایک احمدی نیز ان کے علاوہ بعض اور افراد بھی تھے جنہوں نے 1915ء میں خود حضورؓ سے یہ خواب سنی۔ ( الفضل 20؍نومبر 1937ء صفحہ5، 6 کالم 1 نیز الفضل یکم دسمبر 1937ء صفحہ 3کالم 3)

مگر اس آسمانی انکشاف کے باوجود حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ شیخ صاحب کو سلسلے سے وابستہ رکھنے کے لیے مختلف خدمات کے مواقع بہم پہنچاتے رہےاور1924ء کےسفرِ یورپ میں بھی اپنےہمراہ لےکرگئے۔ اسی طرح دوسرے فرائض کے علاوہ ایک لمبے عرصہ تک مدرسہ احمدیہ کی ہیڈ ماسٹری بھی ان کے سپرد رہی۔

مصری صاحب کے بنیادی عقیدے میں تبدیلی

مندرجہ بالابیان سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک ایسے شخص کی نسبت جو 1914ء سے 1935ء تک حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے منجانب اللہ خلعت خلافت عطا کیے جانے اور قادیان کے پاکیزہ اور خدانما ماحول کا چرچا کرتا آرہاہو، اس کےبارے میںکسی کے واہمہ میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ خلیفہٴ وقت اور مرکز سلسلہ سے برگشتہ ہو سکتا ہے۔ مگر خدائی نوشتے پورے ہوکر رہتے ہیں۔ آخر وہی ہوا جس کی خبر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو 1915ء میں دی گئی تھی۔ ہوایوں کہ عبدالرحمٰن مصری صاحب کوبالخصوص ایک ذاتی معاملے میں جوخواہش اور تمناتھی وہ پوری نہ ہوسکی۔ اس محرومی نےاُن کےاندرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ذات سےایک سخت قسم کی دوری پیداکردی جس کےنتیجے میں 1937ء میں شیخ عبدالرحمٰن مصری صاحب نےیہ کہنا شروع کیاکہ انبیاء اور مشائخ کی وفات کے بعدصرف پہلا خلیفہ ہی خدائی انتخاب ہوتا ہے۔ باقی منتخب شدہ خلفاء آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آتے اور متنازعہ فیہ خلافت پہلی خلافت نہیں ہے بلکہ دوسری خلافت ہے اور اس لیے یہ آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آسکتی اور جب یہ خلافت آیت استخلاف کے ماتحت نہیں ہوتی تو اس کا انتخاب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ (پمفلٹ ’’کیا تمام خلیفے خدا بناتا ہے‘‘صفحہ 2 از شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری بحوالہ تاریخ احمدیت جلد8صفحہ 364)

اس کے بعد مصری صاحب نے حضور کو 10، 14 اور23؍جون 1937ء کوسب و شتم سے بھرےہوئے تین خطوط تحریر کیے جن میں علاوہ دیگر ناشائستہ باتوں کے یہ بھی لکھا کہ میں آپ سے علیحدہ ہوسکتا ہوں لیکن جماعت سے علیحدہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ آپ نعوذباللہ خلیفہ برحق نہیں ہیں لیکن جماعت چونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ اور آپ کے عقائد اور تعلیم پر قائم ہے اس لیے اس سے علیحدہ ہونا موجب ہلاکت ہے اس لیے میں آپ کو خلافت سے معزول کرکے نئے خلیفہ کا انتخاب کراؤں گا۔ (تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 364)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ایمان افروز جواب

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 24؍جون 1937ء کومصری صاحب کی چٹھیوں کا مندرجہ ذیل جواب ارسال فرمایا: ’’آپ کے تین خط ملے۔ پہلے خط کا مضمون اس قدر گندہ اور گالیوں سے پرتھا کہ اس کے بعد آپ کی نسبت یہ خیال کرنا کہ آپ بیعت میں شامل ہیں اور جماعت احمدیہ میں داخل ہیں بالکل خلاف عقل تھا۔ پس میں اس فکر میں تھا کہ آپ کو توجہ دلاؤں کہ آپ خداتعالیٰ سے استخارہ کریں کہ اس عرصہ میں آپ کا دوسرا خط ملا …(پھر) آپ کا تیسرا خط ملا کہ اگر چوبیس گھنٹہ تک آپ کی تسلی نہ کی گئی تو آپ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ سو میں اس کا جواب بعد استخارہ لکھ رہا ہوں کہ آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنیٰ ہے جب سے آپ کے دل میں وہ گند پیدا ہوا ہے جو آپ نے اپنے خطوں میں لکھا ہے۔ آپ خداتعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں۔ خداتعالیٰ اب بھی آپ کو توبہ کی توفیق دے۔ پھر جب سے آپ نے میرے خط میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اسی وقت سے آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں۔ لیکن اگر آپ کو میری تحریر کی ہی ضرورت ہے۔ تومیں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ خداتعالیٰ کے نزدیک تو ان خیالات کے پیدا ہونے کے دن سے ہی جماعت احمدیہ سے خارج ہیں اور ان خطوط کے بعد جو حال میں آپ نے مجھے لکھے ہیں۔ میں بھی آپ کو جماعت سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں۔ آپ نے مجھے بہت سی دھمکیاں دی ہیں۔ میں ان کا جواب کچھ نہیں دیتا۔ میرا معاملہ خدا کے سپرد ہے اگر میں اس کا بنایاہوا خلیفہ ہوں۔ اگر وہ الہامات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میرے بارہ میں ہوئے ہیں اور وہ بیسیوں خوابیں جو اس بارہ میں مجھے آئی ہیں اور وہ سینکڑوں خوابیں جو دوسروں کو آئی ہیں درست ہیں تو خداتعالیٰ باوجود آپ کے ادّعا ءرسوخ و اثر کے آپ کو ناکام کرے گا۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد7صفحہ 365تا366)

اس کے بعد مصری صاحب نے 27جولائی 1937ء کو اپنی جعلی خود ساختہ اور نام نہاد امارت کا ڈھونگ رچا کر فری میسنوں کی طرح ایک خفیہ تنظیم جماعت کے خلاف قائم کرلی۔ مصری صاحب نے خفیہ تنظیم کی تشکیل کے بعد مخالف اشتہاروں اور پوسٹروں کی وسیع پیمانہ پر اشاعت شروع کردی۔ اس موقع سے دشمنان احمدیت نے خوب فائدہ اٹھایا اور ہررنگ میں اس فتنہ کی پشت پناہی کی۔ خصوصاً غیر مبائع اصحاب نے مصری صاحب کے عائد کردہ فحش اور ناپاک الزامات کی تشہیر میں خاص طور پر حصہ لیا بلکہ ا ن کااخبار پیغام صلح مصری صاحب کے فتنے کو ہوا دینے کے لیے تو وقف ہی ہوگیاتھااور اپنی پوری طاقت کےساتھ جماعت مخالف دیگرقوتیں بالخصوص احراری بھی خم ٹھونک کران کی مددکوآپہنچیں۔

مصری صاحب کی طرف سے مقدمات

مصری صاحب نے اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کے کسی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا حتٰی کہ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خلاف اعانت قتل تک کے مقدمات اور استغاثےدائرکردیے۔ (مقدمات کی روداد کے سلسلے میں ملاحظہ ہو اخبار الفضل نومبر 1937ء تا فروری 1938ء)

اُنہوں نےپہلے ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جو خارج کردیا گیا۔ پھر اس کی اپیل سیشن عدالت میں کی۔ جسے عدالت سیشن نے بھی خارج کردیا اور لکھا کہ مستغیث کو چونکہ مرزا صاحب سے دشمنی ہے اتنے عرصے میں وہ جھوٹے گواہ تیارکرسکتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے استغاثہ مجسٹریٹ علاقے کی عدالت میں دائر کیا، وہ بھی خارج کردیا گیا۔ (الفضل 18؍مارچ 1938ء صفحہ 5 کالم 1)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے پُرشوکت حلفیہ بیان

اگرچہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مصری نے خداتعالیٰ سے بالکل بے خوف ہوکر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خلاف عداوت اور دشمنی کی حد کردی تھی مگر حضورؓ نے ان کی تسلی کےلیے ایسی قسموں کا اعلان کرکےجو اسلامی تعلیمات کےمطابق تھیں، ان پر ہر رنگ میں حجت تمام کردی۔ چنانچہ حضورؓ نے 12؍نومبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: ’’وہ مجھے کہتے ہیں کہ اگر وہ الزامات جو وہ مجھ پر لگاتے ہیں جھوٹے ہیں تو میں مؤکد بعذ اب قسم کھاؤں حالانکہ مستریوں کے مقابلہ میں بھی میں نے کہا تھا اور اب بھی میں کہتا ہوں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کے لئے جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق بتائے گئے ہیں قسموں وغیرہ کا مطالبہ جائز نہیں۔ بلکہ ایسے مطالبہ پر قسم کھانا بھی اس حکمت کو باطل کردیتا ہے جس کے لئےاللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے ہاں جس پر الزام لگایا گیا ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اختیار ہے کہ جب وہ مناسب سمجھے الزام لگانے والے کو مباہلہ کا چیلنج دے۔ لیکن چونکہ وساوس و شبہات میں مبتلا رہنے والا انسان خیال کرسکتا ہے کہ شاید میں نے قسم سے بچنے کے لئے اس قسم کا عقیدہ تراش لیا ہے اس لئے کم سے کم اس شخص کی تسلی کے لئے جو جانتا ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ میں کہتا ہوں کہ میں اس خدائے قادرو توانا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھاکر شدید لعنتوں کا انسان مورد بن جاتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ قرآن کریم کی اس بارہ میں وہی تعلیم ہے جو میں نے بیان کی اور اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو…۔

اسی قادر وتوانا خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہےکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خداتعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے۔ اور میں اسی کی قسم کھا کرکہتاہوں کہ اس نے آج سے 22۔ 23 سال پہلے مجھے رؤیا کے ذریعہ یہ بتادیا تھا کہ تیرے سامنے ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ بعض دفعہ تیرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ بوجھ (یعنی خلافت کا بوجھ) علیحدہ ہوسکتا ہو تو اسے علیحدہ کردیا جائے۔ مگر تو اس بوجھ کو ہٹا نہیں سکے گا۔ اور یہ کام تجھے بہرحال نباہنا پڑے گا۔ اگر میں اس بیان میں جھوٹاہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو…۔

میں ابھی خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ چکا ہوں کہ میں اس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں۔ وہ بھی ایسی ہی قسم لکھ کر شائع کردیں۔ پھر خودبخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر۔ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کرچکا ہوں اور اب پھر اللہ تعالیٰ کے وعید لعنۃ اللہ علی الکاذبین کے ماتحت کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے میں اس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں اور میرے لئے عزل ہرگز جائز نہیں۔ …اگر وہ ساری کی ساری جماعت کو بھی مجھ سے برگشتہ کرلیں۔ تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے موت نہیں دے گا جب تک وہ پھر ایک زبردست جماعت میرے ساتھ پیدا نہ کردے۔ دنیا میں فریب کاریاں بھی ہوتی ہیں دنیا میں دھوکے بھی ہوتے ہیں۔ دنیا میں وسوسہ اندازیاں بھی ہوتی ہیں۔ دنیا میں ابتلاء بھی آتے ہیں۔ اور ان تمام چیزوں کے ذریعہ لوگ ٹھوکریں کھاتے اور حق سے منحرف ہوتے ہیں۔ مگر مجھے بندوں پر یقین نہیں۔ مجھے اپنے خدا پر یقین ہے۔ اس خدا نے اس وقت جبکہ مجھے خلافت کا خیال تک بھی نہ تھا مجھے خبر دی تھی کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِکہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے منکرین پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ پس یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص میری بیعت کا اقرار کرے گا وہ قیامت تک میرے منکروں پر غالب رہے گا۔ یہ خدا کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی اور پوری ہوتی رہے گی۔ اگر اس الہام کے سنانے میں مَیں جھوٹ بولتا ہوں تو خدا کی مجھ پر لعنت۔ میری خلافت کے بارہ میں ایک بار نہیں۔ دو بار نہیں۔ اتنی بار خداتعالیٰ نے مجھے خبردی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اب بھی جب یہ فتنہ اٹھا تو میں نے جلدی نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں۔ اور خدا نے مجھے خبر دی کہ میں تیری مشکلات کو دور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کردوں گا۔ ‘‘

پھراس خطبہ کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ’’میں آخرمیں پھر شیخ صاحب سے اخلاص اور خیرخواہی سے کہتا ہوں کہ جس جس رنگ میں خداتعالیٰ کی قسم کھانا میرے لئے ممکن تھا میں نے قسمیں کھالی ہیں اور ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ میں نے ان کی باتوں کو سنا اور صبر کیااوراس حدتک صبرکیا کہ دوسرے لوگ اس حد تک صبر نہیں کرسکتے۔ مگر وہ یقین رکھیں اور اگر وہ یقین نہیں کریں گے تو زمانہ ان کو یقین دلا دے گا۔ اور اگر اس دنیا میں انہیں یقین نہ آیا تو مرنے کے بعد انہیں اس بات کا یقین آجائے گا کہ انہوں نے مجھ پر وہ بدترین ظلم کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ انسان دنیا میں کسی پرکرسکتا ہے۔ انہوں نے ان حربوں کو استعمال کیا ہے جن حربوں کے استعمال کی اسلام اور قرآن اجازت نہیں دیتا۔ میں نے آج تک خداتعالیٰ کے فضل سے کبھی دیدہ دانستہ دوسرے پر ظلم نہیں کیا…اور میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے ہمیشہ انصاف کی توفیق دی ہے۔ میں نے شدید سے شدید دشمنوں کی بھی کبھی بدخواہی نہیں کی۔

اگر اس قدر یقین دلانے کے باوجود بھی وہ اپنی باتوں پر قائم رہتے ہیں تو میرے پاس ان کے اعتراضات کا کوئی جواب نہیں اور میں خداتعالیٰ سے ہی اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا! اگر تو نے مجھے عہدہ خلافت پر قائم کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھوں اور میری زبان کو بند کیا ہوا ہے تو پھر تو آپ ان مظالم کا جواب دینے کے لئے آسمان سے اتر۔ نہ میرے لئے بلکہ اپنی ذات کےلئے۔ نہ میرے لئے بلکہ اپنے سلسلہ کے لئے۔‘‘ (الفضل 20؍نومبر1937ء صفحہ 7تا 12)

مصری صاحب کی ناکامی اور خلافت احمدیہ کی عظیم الشان کامیابی کے متعلق پیشگوئی فرماتے ہوئے حضورؓ نے 25؍جون 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’جو ایمان خداتعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے اور جو خبریں خداتعالیٰ نے مجھے دیں اور اپنے وقت پر پوری ہوئیں ان کو دیکھتے ہوئے میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ کسی میدان میں خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے شکست نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

’’پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثرلوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑتے دیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کی مدد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر قائم ہو جائے گا۔‘‘

( الفضل 09؍جولائی 1937ء صفحہ 8کالم 2)

شیخ عبدالرحمٰن مصری صاحب کا انجام

مصری صاحب کی پہلی نظریاتی شکست تو یہ ہوئی کہ جماعت سےاخراج کےبعدقادیان سےنکل کرغیرمبائعین میں شامل ہوگئےاوریہ اعلان کردیا کہ اب تک وہ غلطی خوردہ تھے جو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو نبی سمجھتے تھے آپ محدث ہیں نہ کہ نبی۔ پس جب مصری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے ہی قائل نہ رہے تو ان کے دعویٰ عزلِ خلافت کی کیا حیثیت رہ گئی۔ خلیفہ کو تو وہ تب معزول کرسکتے تھے جب حضرت اقدسؑ کو نبی سمجھ کر آپ کی خلافت کے قائل ہوتے کیوں کہ خلافت تو ہوتی ہی نبوت کے بعد ہے۔

دوسرا یہ ہواکہ جس خلافت کو وہ خلافتِ حقہ تسلیم کرکے سالہا سال اُس کی غلامی میں رہے، اُسی خلافت حقہ سے روگردان ہوکر منکرینِ خلافت سےجاملےپھراُن کی اولادمیں سےبعض آخرپراحمدیت سےہی ارتداداختیار کرگئے۔

تیسرا یہ ہواکہ شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری نے جوجوالزامات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر لگائے بعدازاں وہ سب الزامات اُن کی اپنی ذات یا اولاد پربھی لگے۔ اوراُن میں سے بہت سے الزامات ان لوگوں پرپوری طرح ثابت بھی ہوگئے جن کی تفصیل بیان کرنا مناسب نہ ہوگا۔

فتنہ منافقین

اس فتنہ کا تعلق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اولاد، منافقین ومخرجین، غیر مبائعین اور بعض صورتوں میں مجلسِ احرار کے کچھ کارندوں کے ساتھ تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اولادکاایک حصہ تو اس فتنہ سے محفوظ رہا لیکن میاں عبدالوہاب عمر صاحب(1908ءتا1979ء)اور مولوی عبدالمنان عمر صاحب(1910ءتا2006ء)اس فتنہ کے اصل روح ورواں تھے۔ بعدازاں ان دونوں بھائیوں یا ان کی اولاد کا جماعت احمدیہ مبائعین سے کوئی تعلق نہیں رہا، جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے بڑے بیٹے میاں عبدالسلام عمر صاحب (1905ءتا1956ء)اس فتنہ سے نسبتاً محفوظ رہے۔ ان کی اولاد کا ایک حصہ بھی جماعت احمدیہ مبائعین میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے سب سے بڑے بیٹے میاں عبدالحئی صاحب (1899ءتا1915ء)تھے جو عین عالم جوانی میں وفات پا گئےوہ ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رہے۔

یہ فتنہ بظاہر تو1956ء میں ظہور پذیر ہوکرجلدہی اپنے منطقی انجام کو پہنچا لیکن درحقیقت اس کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا کیونکہ منکرین خلافت نے1914ء سے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے گھر کو حضرت مصلح موعودؓ کی مخالفت کا مرکز بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چنانچہ غیر مبائعین میں سے چند لوگ خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں میاں عبدالحئی صاحب پسرحضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سے ملے اور کہنے لگے کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی بیعت کر لیتے۔ اس پر میاں عبدالحئی صاحب نے نہایت بصیرت افروزجواب دیا کہ’’یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکہ دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتاتب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے۔ اطاعت کرنا آسان کام نہیں۔ میں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہر گز نہ مانو۔ ‘‘اس پر ان میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں۔ پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں۔ میاں عبدالحئی صاحب نے کہا کہ’’ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفۃ المسیح کی بیعت کر لو۔ ‘‘یہ بات سن کر وہ لوگ …کہنے لگے یہ تو نہیں ہوسکتا۔ (الفضل4؍اگست1937ءصفحہ4)

غیر مبائعین اگرچہ میاں عبدالحئی صاحب کی زندگی میں بری طرح ناکام رہے مگر ان کی وفات کے بعد انہوں نے اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرمیاں تیز تر کر دیں۔ حتیٰ کہ چند سال کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت اماں جی (حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ )کے گھر میں ایک دعوت طعام کے ذریعہ زہر دینے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی صاحبزادی حضرت امۃ الحئی صاحبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عقد میں تھیں۔ ان کی وفات 12؍دسمبر1924ء کے بعد غیر مبائعین کے روابط زیادہ بڑھ گئے اور وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اولاد سےمسلسل رابطہ رکھ کر ان کے دل ودماغ کو زہر آلود کرنےکی کوشش میں لگے رہے۔ اور پھر ان میں سے کئی افراد کو ذہنی اور فکری طور پر اپنی گرفت میں لے کر آخر ایک وقت میں حضرت مصلح موعودؓ کے مکمل خلاف کر دیا۔ چنانچہ دسمبر 1929ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے بیٹوں نے اپنے ایک غیر احمدی احراری بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کے ساتھ مل کر’’عزلِ خلافت‘‘(یعنی خلیفہ کو معزول کرنے ) کا ایک خفیہ منصوبہ باندھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کو اس کی بروقت اطلاع مل گئی۔ اس پرحضورؓ نے مزید تحقیق کے لیےحضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ (مدیر الحکم)اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ کو مقرر فرمایا۔ ان اصحاب نے مکمل تحقیق کر کے اس منصوبہ کی مکمل تفصیلات کاپتہ چلا لیااور اس طرح یہ سازش ناکام ہو گئی۔ اگرکوئی اور ہوتا تو اس ناپاک اور ظالمانہ سازش کی تشہیر کر کےشامل افرادکی رسوائی اور بے آبروئی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتا لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی پردہ پوشی کی اور معاف فرما دیالیکن افسوس کہ ان لوگوں نے اس پردہ پوشی اور معافی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اوررفتہ رفتہ غیر مبائعین کے علاوہ اپنے غیر احمدی عزیزوں کے ذریعہ سلسلہ کی دشمن مجلسِ احرارسے بھی تعلقات قائم کر لیے۔

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کابیان

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا بیان ہے کہ میں نے ا ن کی اس طرح کی ظالمانہ کارروائیاں دیکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے عرض کیا کہ ان کا کچھ کرنا چاہیے۔ تو حضورؓ نے نہایت دلسوز جواب دیا کہ ’’جب تک مجھ میں طاقت ہے صبر ہی کرتا جاؤں گا۔ یہاں تک کہ حالات مجھے مجبور نہ کر دیں کوئی قدم ان کے خلاف نہ اٹھاؤں گا۔ ‘‘(رسالہ خالد دسمبر 1964ء صفحہ 128 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 19صفحہ6)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس خاندان پرپیہم نوازشات کرتے رہے اور ہمیشہ ان کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھتےرہے، یہاں تک کہ1944ء میں حضورؓ نے میاں عبدالمنان عمر صاحب کو پانچ ہزار روپے کا چیک دیا اور ارشاد فرمایا کہ اس سے کوئی کام کریں۔ خود بھی فائدہ اٹھائیں اور والدہ کی بھی مدد کریں۔ چنانچہ اس رقم سے انہوں نے قادیان میں پریس لگالیا۔

لیکن اس سب کے باوجودمولوی عبدالمنان عمر صاحب اور عبدالوہاب عمر صاحب کو جہاں بھی کوئی موقع ملتا، وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خلاف ہمیشہ سخت غیظ وغضب کا اظہار کرتےاور نظام سلسلہ پر بھی اعتراض کرتے رہتے۔ (تفصیل کےلیے ملاحظہ ہوتاریخ احمدیت جلد نمبر19)

پاکستان بننے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ان صاحبزادوں نے اپنے اسی بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کے ساتھ مل کر ازسر نو خلافت ثانیہ کے خلاف محاذ قائم کر لیا اور اپنے باغیانہ خیالات پھیلانے کے لیےکئی آوارہ قسم کے نوجوانوں کو بھی اپنا آلۂ کار بنا لیا۔ بالخصوص حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر قاتلانہ حملہ کے بعد کی علالت اور پھر سفر یورپ 1955ء کے دوران ان لوگوں نے کھل کر اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلیفہ وقت بوڑھا ہو چکا ہےاب کسی اور کو خلیفہ منتخب کر لینا چاہیے۔ ایک دفعہ اسی گروہ کے ایک فرد نے یہ بیان بھی دیا کہ ’’جماعت احمدیہ کی خلافت کا حق مولوی نورالدین صاحب کے بعدان کی اولاد کا تھا۔ لیکن میاں محمود احمد صاحب نے (نعوذباللہ)ظلم سے ان کا حق غصب کرکے خلافت پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب ہم لوگ (یعنی خاندان حضرت خلیفہ اوّل اور ان کے غیر احمدی رشتہ دار)اس کوشش میں ہیں کہ خلافت کی گدی مولوی صاحب کی اولاد کو ملے۔ اور اب ’’حق بحق دار رسید‘‘کے مطابق جلد ہی یہ معاملہ طے ہوکر رہے گا۔ ‘‘(الفضل 4؍اکتوبر1956ء صفحہ4)

ایک طرف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے یہ بیٹے اور ان کے ہمنوا خلافتِ ثانیہ کےخلاف درپردہ پروپیگنڈا کررہے تھے اور دوسری طرف حسب ِسابق لطف وکرم کا ایک دریا موجزن تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ ان لوگوں کو ہمیشہ کی طرح مسلسل اپنی عنایات سے نواز رہے تھے۔ علاوہ ازیں ان کو مسلسل نظام سلسلہ کے انتظامی کاموں سے منسلک رکھنے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے میاں عبدالمنان عمرصاحب کو افسر جلسہ سالانہ مقرر فرمایا اور وہ دو سال 1952ء،1953ء اس اہم ذمہ داری پر مقرر رہے۔ (بحوالہ ریکارڈ دفتر جلسہ سالانہ)اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو نائب وکیل التصنیف تحریک جدید کے عہدہ پر فائز فرمادیاجو ایک بڑا اعزاز تھا۔

علاوہ ازیں قیام پاکستان کے بعدمیاں عبدالوہاب عمر صاحب اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے نمائندہ کے طور پر قادیان بھجوایا گیا لیکن افسوس کہ کچھ ہی عرصے میں عبدالوہاب عمر صاحب نے وہاں پرکئی قسم کے مسائل پیدا کر دیے۔ اسی دوران انہوں نے گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کے ایک احمدی اللہ رکھا نامی کو قادیان بلوا کر اپنے پاس رکھ لیا۔ اس شخص نے قادیان میں بہت بڑا فتنہ برپاکر دیا اور وہاں سلسلہ کے مخالفین سے سازباز کر کے کئی ایک خطرناک مسائل پیدا کر دیے۔ اس پر 1949ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کو نظامِ جماعت سے خارج کر دیا۔ اس کے بعد یہ شخص غیر مبائعین میں شامل ہو کر ان کے ایک مرکزاحمدیہ بلڈنگ میں قیام پذیر ہو گیا۔ ایسے ہی مسائل کی وجہ سےعبدالوہاب عمر صاحب کوبھی قادیان سے واپس بلوالیا گیا۔

خلافتِ ثانیہ کےخلاف باقاعدہ محاذ

عبدالوہاب عمرصاحب نے لاہورپہنچ کر دوبارہ نظامِ خلافت کے خلاف باقاعدہ محاذ کھول لیا، اور ایسے نوجوانوں سے تعلقات بڑھانے شروع کر دیے جو نظام سلسلہ سے شاکی تھے ان میں سے بعض کو اخراج کی سزا ہو چکی تھی اور بعض وقف زندگی کا عہد توڑ کر الگ ہو چکے تھےیا الگ ہونا چاہتے تھے۔ یہ تمام گروہ نظامِ سلسلہ کی مخالفت اور تضحیک میں مصروف رہتا۔ ان لوگوں نےلاہور میں ایک گھر کو اپنا مرکز بھی بنا رکھا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے بیٹے جو خلافت کے خواب دیکھ رہے تھے اب اپنی اسکیم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ان نام نہاد احمدیوں کے ذریعہ سے افراد جماعت میں باغیانہ خیالات پیدا کرنے اور آئندہ خلافت کے لیے مولوی عبدالمنان عمر صاحب کو پیش کرنے لگ گئے۔ اس امر میں ان کے غیر احمدی بھانجے مولوی محمد اسماعیل غزنوی صاحب بمعہ مجلسِ احرار کے خصوصی معاون و مددگار تھے۔ اللہ رکھا جو غیر مبائع ہو کر اُن کے مرکز میں قیام پذیر تھا، وہ عبدالوہاب عمر صاحب کا دستِ راست تھا۔ یہ شخص ایک سوچی سمجھی سکیم اورسازش کے تحت تقریباً پانچ ماہ تک پاکستان بھر کی مختلف احمدی جماعتوں میں پھرتاپھراتا رہااورجہاں بھی جاتا اشارۃً، کنایۃً اور صراحتاً آئندہ خلافت کے لیے میاں عبد المنان عمرصاحب کو پیش کرتا۔ تاریخ احمدیت کی جلد نمبر19 میں اس کے بارے میں کئی شہادات درج ہیں۔ ایک موقع پر اس نے کہا کہ’’اب تو لاہوریوں کی نظر خلیفہ اول کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے اور وہ میاں عبد المنان صاحب کی بہت تعریف کر رہے تھے اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل ہیں۔ ‘‘(الفضل 29،28؍جولائی 1956ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کےاہم ارشادات

آخرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس گروہ کی حد سے بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں کو دیکھتے ہوئے ایک پیغام تحریر فرمایا جو الفضل 25؍جولائی 1956ء میں شائع ہوا۔ اپنے اس پیغام میں حضورؓ نے نہ صرف اللہ رکھا وغیرہ کی حقیقت کھول کر جماعت کے سامنے رکھ دی بلکہ منافقین کی کارروائیاں بیان کرکےساری جماعت کوان افراد سےبرأت ظاہرکرنےکا حکم فرمایا۔ خدا کے برحق اور موعود خلیفہ کے اس پیغام نے پوری جماعت کو تڑپا کے رکھ دیااور اس کے نتیجے میں عشاقِ خلافت کی طرف سے دو زبردست ردعمل رونما ہوئے۔

پہلا ردعمل یہ ہوا کہ جماعت کے ہر فرد میں نظام جماعت سے محبت و الفت اور منافقین سے بیزاری کے شدید جذبات ابھر آئے اور پوری دنیائے احمدیت میں حضرت مصلح موعودؓ سے عقیدت و فدائیت، وفاداری اور وابستگی کے روح پرور نظارے دیکھنے میں آئے۔ حتی کہ اللہ رکھا کے حقیقی بھائیوں نے بھی حضورؓ کی خدمت میں خلافت سے تجدید وفا کا عہد کیا اور اس کے پیغامیوں سے تعلقات کا اعتراف کرتے ہوئےاپنےبھائی سے لا تعلقی اور بیزاری کا اعلان بھی کیا۔

دوسرا ردعمل اس پیغام کا یہ ہوا کہ بہت سے مخلصین نے اس فتنے سے متعلق بعض ضروری شہادتیں اور معلومات حضورؓ کی خدمت اقدس میں بھجوائیں، جن سےاس فتنے کےاہم رازاور بہت سے پر اسرار اور پوشیدہ پہلو نمایاں ہو کر سامنے آگئے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےاس فتنے کےمختلف پہلوؤں سےمتعلق نہایت بصیرت افروز تبصرےفرماکراحبابِ جماعت کےسامنےاس فتنے کی مکمل قلعی کھولتےہوئے ان کے پوشیدہ منصوبوں اور خطرناک خفیہ ارادوں کو آشکار کردیا۔

احباب جماعت کے آمدہ خطوط سےیہ بھی معلوم ہوا کہ منافقین نہ صرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خلافت کے درپے اور مولوی عبد المنان عمر صاحب کو خلیفہ بنانے کے منصوبے بنا رہے تھےبلکہ حضرت مصلح موعودؓ کے قتل کے ناپاک منصوبے بھی سوچےجارہے تھے۔ چنانچہ ان کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئےحضورؓ نے فرمایا کہ ’’موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہےمگر یہ فقرہ بتاتا ہے کہ یہ (منافقین کی ) جماعت ایک دو سال میں مجھے قتل کرنےکا ارادہ رکھتی ہے تبھی اسے یقین ہے کہ ایک دوسال میں تیسری خلافت کا سوال پیدا ہو جائے گا اور ہم لوگ خلافت کے مٹانے کو کھڑے ہو جائیں گے۔ اور جماعت کو خلافت قائم کرنے سے روک دیں گے۔ خلافت نہ خلیفہ اول کی تھی نہ پیغامیوں کی۔ نہ وہ پہلی دفعہ خلافت کے مٹانے میں کامیاب ہو سکے نہ اب کامیاب ہو ں گے۔ ‘‘

پھر حضورؓ نے مزید فرمایا: ’’خلیفہ خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہے اگر ساری دنیا مل کر خلافت کو توڑنا چاہے اور کسی ایسے شخص کو خلیفہ بنانا چاہے جس پر خدا راضی نہیں تو وہ ہزار خلیفہ اول کی اولاد ہو اس سے نوحؑ کے بیٹوں کا سا سلوک ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کو اور اس کے سارے خاندان کو اس طرح پیس ڈالے گا جس طرح چکی میں دانے پیس ڈالے جاتے ہیں۔ ‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ 28؍جولائی 1956ء صفحہ5تا6)

اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی کہ منافقین کی طرف سےیہ بھی کہاگیاہےکہ اگرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات ہوگئی اور(حضرت) مرزا ناصر احمدصاحبؒ خلیفہ ہوگئے توہم اُن کی بیعت نہیں کریں گے۔ چنانچہ حضورؓ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ناصر احمد کے خلیفہ ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ خلیفے خدا بنایا کرتا ہے…ایک خلیفہ کی زندگی میں کسی دوسرے خلیفہ کا خواہ وہ پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ نام لینا خلاف اسلام یا بے شرمی ہے۔ ‘‘(الفضل30؍جولائی1956ء صفحہ3)

حضرت مصلح موعودؓ کے اس فتنے کے متعلق باطل شکن پیغام آنے کے بعد عبدالوہاب عمر صاحب اور ان کے ساتھیوں میں کھلبلی مچ گئی۔ عبدالوہاب عمر صاحب نے اپنی کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیےحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں اپنی بریت کا ایک خط لکھا۔ جس کے جواب میں حضورؓ نے خلافت ثانیہ کے خلاف کی جانے والی ان کی کارروائیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’ آپ جو کام کر رہے ہیں اگر خلیفہ اول زندہ ہوتے تو اس سے بھی بڑھ کر آپ سے سلوک کرتے جو میں کر رہا ہوں۔ ان کی تو یہ کہتے ہوئے وہ زبان خشک ہوتی تھی کہ میاں میں تمہارا عاشق ہوں اور میں مرزا صاحب کا ادنیٰ خادم ہوں۔ جب وہ آپ لوگوں کی یہ کارروائیاں دیکھتےتو…آپ پرابدی لعنت ڈالتے۔ ‘‘

پھر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئےتحریر فرمایا: ’’اس الہام کا مضمون یہ تھا کہ جب تک حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اور ان کی بیوی زندہ رہیں گے ان کی اولاد سے نیک سلوک کیا جاتا رہے گا۔ لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسا پکڑے گا کہ ان سے پہلے کسی کو نہیں پکڑا ہوگا…کیایہ تعجب کی بات نہیں کہ پچھلے42سال میں ہزاروں موقعےآپ کو مخالفت کےملےلیکن حضرت اماں جی کی وفات (اگست1955ء ) تک کبھی بھی ننگے ہوکرآپ کو مقابلہ کرنےکاموقع نہیں ملا۔ لیکن جونہی وہ فوت ہوئیں خدائی الہام پورا ہونے لگ گیااور اگر خدا کی مشیئت ہوئی تواور بھی پورا ہوگا۔‘‘ (الفضل 30؍ جولائی 1956ء صفحہ 2تا3)

عجیب بات ہے کہ اس فتنہ کے ظہور سے چندسال قبل حضرت مصلح موعو دؓ کو اس کی بذریعہ رؤیا خبر بھی دے دی گئی تھی۔ چنانچہ 27؍جون 1950ء کو حضورؓ نے اسے بعض تفصیلات کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’بعض واقعات سے قریباً سال بھر سے میرے اندر یہ احساس تھا کہ جوں جوں میری عمر زیادہ ہوتی جارہی ہے جماعت کا منافق طبقہ یہ سمجھنے لگاہے کہ اب تو ان کی زندگی کے تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں۔ آئندہ کے لئے ابھی سے اپنے قدم جمانے کی کوشش کرو۔ گویا وہی پیغامیوں والا فتنہ جو 1914ء میں پیدا ہوا۔ اسی کو ایک اور رنگ میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘(الفضل22؍جولائی1950ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے3؍ اگست 1956ءکےخطبہ جمعہ میں اس فتنہ کامزیدذکرکرتے ہوئے فرمایا: ’’آج کل ہماری جماعت میں منافقین کا فتنہ شروع ہے چونکہ قرآن کریم میں بھی فتنوں کا ذکرآتا ہے اور ان کی ساری چالیں بیان ہوئی ہیں۔ اس لئے جماعت کے دوست علاوہ صحابہؓ کے حالات کے، اگر قرآن کریم کی ان آیات کو بھی غور سے پڑھیں تو انہیں ان کی ساری باتوں کا پتہ لگ جائے گا۔ ‘‘(الفضل 8؍اگست 1956ء صفحہ 2تا3)

منافقین اور مخالفین کاگٹھ جوڑ

اس فتنے میں منافقین نظام خلافت کو تہ و بالا کرنے کے لیے اخلاق و انسانیت کے منافی نہایت گھٹیا ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ ملک میں جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانا ان کا عام معمول اور دو رُخی پالیسی اختیارکرنا ان کا شیوہ تھا۔ ایک طرف وہ حضرت مصلح موعودؓ کو خطوط کے ذریعہ وفاداری کا یقین دلاتے تو دوسری طرف خلافت کے بدترین دشمنوں سے مل کر منصوبے باندھتے تھے۔

خلافتِ احمدیہ کےازلی دشمنوں یعنی پیغامیوں (غیر مبائعین)کی طرف سےیہ اعلان کیاجارہا تھا: ’’ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم خفیہ طورپرنہیں بلکہ کھلاکھلا خلافتِ محمودیہ کاخاتمہ چاہتے ہیں۔ اس کی استبدادی زنجیروں سےقادیانی حضرات کوآزادکراناچاہتے ہیں۔ ‘‘

پھر مزید لکھاکہ’’ہم ربوہ کےآزادی پسندعناصر کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اس تحریک آزادی میں جوعلماء مبلغین حصہ لے رہے ہیں …ہمارے ہاں اُن کے لئے عزت کی جگہ ہے۔ تبلیغ کےلئے مواقع ہیں۔ تقریرکےلئے اسٹیج ہے۔ تبلیغ کےلئے تنظیم ہے۔ ‘‘(اخبار پیغامِ صلح 31؍اکتوبر1956ء صفحہ 8)

اس فتنے کو مزیدہوا دینے کے لیےجماعت احمدیہ کی دشمن طاقتیں بالخصوص احراری بھی دیکھتے دیکھتے متحرک ہو گئے اور اخبار پیغام صلح کے علاوہ دیگر پاکستانی اخبارات مثلاً’’آفاق‘‘، ’’تسنیم‘‘، ’’سفینہ‘‘، ’’کوہستان‘‘، ’’احسان‘‘، ’’نوائے وقت‘‘، ’’امروز‘‘، ’’چٹان‘‘، ’’دی ٹائمز آف کراچی‘‘اور’’پاکستان ٹائمز‘‘نے منافقین کی مددکرتے ہوئےاس فتنےکوپھیلانےاور کامیاب بنانے کےلیےاُن کےبیانات اور خبروں کو خوب شہرت دی۔

فتنے کا انجام

حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی سفارش پر مولوی عبدالمنان عمر صاحب کو ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ میں لیکچر کے لیے بلوایا گیا تھا۔ چنانچہ مولوی صاحب جون 1956ء میں امریکہ چلے گئےپھر طے شدہ منصوبہ کے مطابق یہ سارا فتنہ ان کے سفرامریکہ کے دوران اٹھایا گیا۔ جب مبلغ انچارج صاحب امریکہ کو اس فتنےکی تفصیلات کا بذریعہ الفضل علم ہوا تو عبدالمنان عمر صاحب کو الفضل کے متعلقہ پرچےپڑھنے کےلیے دیے گئے جس پر انہوں نے اپنے بھائی عبدالوہاب عمر صاحب کی طرفداری کی اور پیغامیوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہاربھی کیا۔ آغازستمبر1956ء میں عبدالمنان عمر صاحب امریکہ سے ربوہ واپس آگئے اور14؍ستمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ میں اس فتنہ کی تفصیلات بیان فرمائیں اور فتنہ پردازوں کو توبہ کی تلقین کی۔ نیزفتنے میں ملوث افراد سے واضح طور پر اس گروہ سے علیحدگی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خلافت پر اپنے ایمان وایقان کااعلان کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن مولوی عبدالمنان عمر صاحب واپس آکر منافقین اور غیر مبائعین سےاظہارِ لاتعلقی اور بیزاری کااعلان کرنے کی بجائے تین ہفتہ تک بالکل خاموش رہے پھر نظام سلسلہ کے اصرارپرعبدالمنان عمر صاحب نے غیر مبائعین کے اخبار پیغام صلح میں ایک مبہم سا مضمون چھپوا دیا۔ اس مضمون میں خلافت ثانیہ کے ساتھ کہیں بھی عقیدت اور وابستگی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ان الزامات کا جواب دیا گیا تھاجو اخبارات میں ان کے حوالے سےآچکے تھے۔ پھر12؍نومبر1956ء کوان کا ایک خط سلسلہ احمدیہ کے شدید مخالف اخبار کوہستان لاہورمیں ’’قادیانی خلافت سے دستبرداری‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا لیکن نہ یہ خط انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بھیجا اور نہ ہی نظام سلسلہ کو پیش کیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے اور نظارت امور عامہ نیز کئی معتبر احمدی احباب کے بار بار سمجھانے کے باوجود عبدالمنان عمرصاحب کا طرز عمل برقرار رہا، کہ نہ تو انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے بریت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ نہ منافقین اور غیرمبائعین سےلاتعلقی کااعلان کیا اور نہ ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خلافت پر اپنے غیر مشروط ایمان کا اقرار کیا۔ اس پر بالآخر صدر انجمن احمدیہ کی تجاویز کو قبول فرماتے ہوئے حضورؓ نے27؍نومبر 1956ء کو مولوی عبدالوہاب عمر صاحب اور مولوی عبدالمنان عمر صاحب کا نظامِ جماعت سے اخراج کر دیا۔ اور یہ دونوں بھائی بجائے توبہ اور معافی مانگنے کے ہمیشہ کے لیے نظام خلافت سے جدا ہو کر غیر مبائعین کے گروہ سے جا ملے۔ اسی گروہ سے جو ان کے والد گرامی اور جماعت کے خلیفہ اوّل حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ کی ذات والا صفات پر ناشائستہ حملےکرتے اور ان کی خلافت کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button