قرض لینے اور دینے والے کے متعلق اسلامی تعلیمات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ اگست 2004ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہماری تمدنی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم حصہ آپس کا لین دین کا معاملہ ہے۔ انسان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ لیکن یہی لین دین جب قرض کی صورت میں ہو تو بے انتہاء معاشرتی مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ بھائیوں بھائیوں کی رنجشیں ہو جاتی ہیں، دوستوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں اور جب بڑے پیمانے پر کاروباری اداروں اور بنکوں سے قرض لئے جاتے ہیں تو بعض دفعہ سب کچھ لٹنے اور ذلت و رسوائی تک نوبت آ جاتی ہے۔
تو ایک مومن کو، ایسے شخص کو جو خداتعالیٰ کا عبد کہلانے کا دعویٰ رکھتا ہے، معاشرے کی اس برائی سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ اور پھر طریق بھی فرما دیا کہ کس طرح لڑائی جھگڑوں اور ذلت و رسوائی کی باتوں سے بچا جا سکتا ہے، اسلام نے قرض دینے والوں کوبھی بتا دیا کہ کس طرح قرض دینے کے بعد واپس لینے کا تقاضا کرنا ہے اور لینے والوں کو بھی بتا دیا کہ تم نے کس طرح حسن ادائیگی کی طرف توجہ دیتے ہوئے معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنا ہے یا اپنا مقام بلند کرنا ہے۔ قرآن کریم نے اتنی گہرائی میں جا کر انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے لین دین جو قرض کی صورت میں ہو اس کا حساب رکھنے کا طریق سکھایا ہے کہ اگر نیت نیک ہو تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ فریقین کو کسی بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معین مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اب یہ دیکھیں کتنا خوبصورت حکم ہے، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں بڑا اعتبار ہے، کیا ضرورت ہے لکھنے کی، ہم تو بھائی بھائی کی طرح ہیں۔ لکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ بے اعتباری ہے اس طرح سے تو ہمارے اندر دُوری پیدا ہو گی اور ہمارے اندر رنجشیں بڑھیں گی۔ اور ہمار ے آپس کے تعلقات خراب ہوں گے۔ تو یاد رکھیں کہ اگر تعلقات خراب ہوتے ہیں اور اگر تعلقات خراب ہوں گے تو تب ہوں گے جب قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے نہ کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے۔ بعض دفعہ یہ لکھتے ہیں یا کہتے ہیں کہ چھوٹی رقم کا لین دین ہے اس کو کیا لکھنا ہمیں تو شرم آتی ہے کہ اتنی چھوٹی سی رقم کے بارے میں لکھیں کہ اتنا قریبی تعلق ہے اور اتنی چھوٹی سی رقم کے لئے تحریر لی جائے۔ یا پھر کوئی چیز استعمال کے لئے لی ہے اس کے بارے میں تحریر لی جائے مثلاً بعض دفعہ بیاہ شادیوں وغیرہ پر بھی ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کے لئے لی جاتی ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ وہ بھی لکھ لینی چاہئیں کیونکہ ان میں بھی بعض دفعہ بدظنیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعد کی بدظنیوں سے بچنے کے لئے بہترین طریق ہے کہ چھوٹی سی تحریر بنا لی جائے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم تو ہے کہ لین دین چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ان جھگڑوں سے بچنا ہے تو لکھا کرو۔ جیسا کہ فرمایا کہ وَ لَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖ کہ لین دین خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد پر یعنی جب تک کا معاہدہ ہے وہ بھی لکھو اور معاہدے کی تفصیل بھی لکھو، اور اس سے اکتانا نہیں چاہئے۔ یا اس کو معمولی چیز نہیں سمجھنی چاہئے۔ کیونکہ اکتانے کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کسی وقت بھی تمہارے اندر بدظنیاں پیدا کر دے گا اور بظاہر جو تم بلند حوصلگی کا مظاہرہ کر رہے ہو یا جو تم نے کیا ہے یہ تمہیں ایک وقت میں ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دے گا کہ بلند حوصلگی تو ایک طرف رہی تم ادنیٰ اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کر رہے ہو گے۔ اور اس طرح عموماً ہوتا ہے، عموماً یہ باتیں ہوتی ہیں۔ یعنی تصور میں باتیں نہیں میں کر رہا ایسے معاملات آتے ہیں اور کئی جگہ ایسے لین دین میں، ایسے معاملوں میں کئی لوگوں کے قضا میں، امور عامہ میں، جماعت میں یا ملکی عدالتوں میں کیس چلتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ وہی جو ایک وقت میں ہم پیالہ ہم نوالہ ہوتے تھے۔ اکٹھے بیٹھتے تھے، اکٹھے کھاتے تھے، پیتے تھے، بڑی پکی دوستیاں ہوتی تھیں، ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں بھی تلاش کرنی پڑیں تو تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جس کو اپنی مخلوق کا علم ہے کہ کس قسم کے ذہن ہیں ایسے لین دین کی تحریر لکھنے کا طریق بھی بتا دیا کہ کس طرح لکھی جائے اور کون لکھوائے۔ تو تحریر لکھوانے کی ذمہ داری قرض لینے والے پر ڈال دی ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَلَا یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْئًا۔ یعنی وہ لکھوائے جس کے ذمے دوسرے کا حق ہے۔ اور لکھوانے والا اللہ، اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ یعنی جس نے قرض لیا ہے وہ لکھوائے۔ اس کی وجہ مثلاً ایک تو یہ ہے کہ جس کے ذمے قرض ہے وہ خود ہی وضاحت کرے کہ اتنا قرض میں نے لیا ہے اور اس قرض کی جو رسید بنے اس میں واپسی کی شرائط بھی اس طرح ہی لکھی جائیں جس طرح قرض لینے والے نے کہی ہیں مثلاً اگر قسطیں ہیں تو لکھا جائے کہ اتنی قسطیں ہیں۔ عرصہ معین ہے تو لکھا جائے کہ اتنا عرصہ ہے وغیرہ۔ تاکہ قرض لینے والا یہ نہ کہے کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے۔ اور زبردستی یا دھوکے سے بعض الفاظ گھما پھرا کر معاہدے میں ایسے لکھ دئیے گئے ہیں جو مجھ پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ تو اس سے بچنے کے لئے کہا کہ قرض لینے والا خود ہی الفاظ بنا لے اور یہ بات بھی صرف آپ کو اسلامی معاشرے میں ہی نظر آئے گی، اسلام کی تعلیم میں ہی نظر آئے گی پھر قرض دینے والے کو ثواب کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ کہ اگر وہ قرض دیتے وقت سہولت والی شرطیں منظور کر لے تو اس کو ثواب ملے گا۔ آجکل دنیا میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ قرض دینے والا، اپنی شرطیں ڈکٹیٹ کرا رہا ہوتا ہے۔ اسلام کی تعلیم میں قرض لینے والا اپنی شرائط پہ قرض لے رہاہے۔ اور قرض دینے والے کو یہ حکم ہے کہ تم شرائط مان لو تم کو اس کا بڑا اجر ملے گا۔ (آگے اس بارے میں کچھ حدیثوں کا ذکر کروں گا)۔
پھر یہ کہ قرض لینے والا جب اپنی شرائط پر قرض لے لے گا تو پھر پابند بھی ہو گا کہ ان کوپورا کرے۔ اس کوپھر یہ شکوہ نہیں ہو گا اور نہ ہونا چاہئے کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے۔ پھر قرض خواہ کے خلاف کسی قسم کی شکایت نہیں ہو گی۔ تو یہ اسلامی معاشرے کی خوبصورتی ہے کہ ضرورت مند کے لئے ضرورت مہیا کرنے کے ضرورت باہم پہنچانے کے سامان پیدا کئے گئے ہیں۔ پھر یہ کہ اگر دونوں کو لکھنا نہ آتا ہو تو اپنے واقفوں میں سے اپنے قریبیوں میں سے اپنے عزیزوں میں سے کسی کو تلاش کر لو جو لکھنا جانتا ہو تو اس سے تحریر لکھواؤ۔ اور اس بات کو اتنی اہمیت دی ہے کہ لکھنے والے کو بھی کہہ دیا کہ ایک تو انصاف سے لکھو انصاف سے تحریر بناؤ، کسی کی قرابت داری یا عزیزداری تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تحریر میں کسی فریق کی ناجائز حمایت کر دو اور پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو علم دیا ہے یعنی لکھنا سکھایا ہے تو وہ تمہیں اس بات کا بھی حکم دیتا ہے کہ جب بھی کسی تحریر لکھوانے کا معاملہ تمہارے پاس آئے تو تم نے انکار نہیں کرنا۔ سارے معاشرے کو اکٹھا جوڑ دیا ہے۔ پھر یہ بھی کہ جس نے قرض لیا ہے اس بات کی طاقت نہیں رکھتا اتنا پڑھا لکھا نہیں یا ذہنی طور پر کم ہے تو اس کی کم علمی یا بیوقوفی سے فائدہ اٹھا کر کوئی قرض دینے والا اس کو نقصان نہ پہنچا دے۔ اس لئے فرمایا کہ اس کا کوئی قریبی عزیز یا ولی اس کی طرف سے تحریر لکھوائے۔ یا بعض دفعہ بعض نابالغ ایسے ہوتے ہیں جن کی جائیداد ہوتی ہے ان سے بھی بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں۔ اس طرح بھی بعض دفعہ ہوتا ہے کہ کسی کو قرض کی تھوڑی سی رقم دے کر، بے وقوف بناکر، اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس سے کئی گنا سود منافع کا نام دے کر لے لیتے ہیں اس سے بھی بچانا فرض ہے۔ پھر اتنی احتیاط کی گئی ہے کہ کوئی وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب کسی قسم کی بدظنیاں پید اہو جائیں ہر کوئی اپنے مطلب کی بات کرنے لگ جائے اور جھگڑے اور رنجشیں پیدا ہونی شروع ہو جائیں تو اس سے بچنے کے لئے فرمایا کہ جب یہ تحریر مکمل ہو جائے تو اس پر گواہوں سے گواہی بھی ڈلوالو جیسا کہ فرماتا ہے وَاسْتَشْھِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ یعنی اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہراؤ۔ اور پھر آگے فرمایا اگر دو مرد نہ ہوں تو دو عورتیں، ایک مرد کی جگہ دو عورتیں گواہی ڈال سکتی ہیں۔ دو کی شرط اس لئے رکھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسرا اس کو یاد کروا دے۔ تو یہاں ایک اور بھی مسئلہ حل ہو گیا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ تو دیکھیں کتنی تاکید کی گئی ہے اس طرح پورا طریق کا ر بتا دیا گیا ہے۔ اور پھر اسی آیت میں دو دفعہ فرمایا کہ اگر تم اس طریق کار پر عمل کرنے والے نہیں تو پھر تم تقویٰ سے بھی دور جانے والے ہو گے۔ اور یہ تقویٰ کی تلقین فریقین کو بھی کی، لکھنے والے کو بھی کی اور گواہوں کو بھی کی۔ اور آخر پر یہ بھی فرما دیا کہ شاید کسی طرح ایک دوسرے کو دھوکا دے سکو یا حقوق دبا لو یا احسن طریق پر ادا نہ کرو، کسی طرح گواہوں پر پریشر ڈال کر دباؤ ڈال کر جس طرح آجکل اکثر ہوتا ہے اپنے مطلب کی بات کہلوا لو تو یاد رکھو کہ لوگوں کو تو شاید دھوکا دے لو لیکن اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اسے علم ہے اصل لین دین کن شرائط پر ہوا تھا اس کے علم میں ہے اصل تحریر کیا تھی، اگر تحریر میں کوئی ردو بدل کرو گے تو وہ تمہیں ضرور پکڑے گا۔ یا گواہوں پر دباؤ ڈالو گے تو تمہیں اس کی بھی سزا ملے گی کیونکہ یہ بھی گناہ ہے۔