اسلام کی مخالفت پر فوت ہونے والےشخص کے متعلق نامناسب رویہ کا اظہاردرست نہیں
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں خط لکھا کہ بعض دوستوں کی طرف سے اس کے کزن کی وفات پر نامناسب رویہ کا اظہار کیا گیا ہے، جس پر اسے شدید دکھ ہے۔ نیز اس دوست نے حضور انور سے دریافت کیا کہ کیا اسلام کی مخالفت پر فوت ہونے والے کسی عزیز کےلیے دعا کرنے سے قرآن کریم ہمیں منع فرماتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13؍دسمبر 2020ء میں اس بارے میں درج ذیل راہ نمائی فرمائی:
جواب: آپ کے کزن کی وفات پر اگر کسی احمدی نے کسی نامناسب رویہ کا اظہار کیا ہے تو یقیناً اس احمدی نے غلط کیا ہے۔ ہر انسان کی وفات کے بعد اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو جاتا ہے، وہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے کسی دوسرے شخص کو اس بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہر ایک شخص کا خدا تعالیٰ سے الگ الگ حسا ب ہے۔ سوہر ایک کو اپنے اعمال کی اصلا ح اور جانچ پڑتال کر نی چاہیے۔ دوسروں کی مو ت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا با عث ہو نی چاہیے نہ کہ تم ہنسی ٹھٹھے میں بسر کر کے اور بھی خدا تعالیٰ سے غافل ہوجاؤ۔ ‘‘(ملفوظات جلدسوم صفحہ 217)
باقی جیسا کہ آپ نے عابد خان صاحب کی ڈائری کے حوالے سے اپنے خط میں لکھا ہے، میرا جواب تو آپ نے پڑھ ہی لیا ہے کہ ہم اسے کسی قسم کاکوئی خدائی نشان قرار نہیں دے سکتے کیونکہ آپ کے کزن کا نہ تو جماعت احمدیہ کے ساتھ کوئی مقابلہ چل رہا تھا اور نہ ہی اس نے جماعت کو کوئی ایسا چیلنج دیا تھا جس سے مقابلہ سمجھا جائے۔
اسلام کسی انسان سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ اس کے فعل سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام اپنے مخالفین کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں۔ (سورۃ الشعراء: 169)اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ہدایت فرمائی کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے استہزاء ہوتا سنو تو ان ہنسی کرنے والوں کے ساتھ اس وقت نہ بیٹھو۔ (سورۃ النساء: 141)گویا انسانوں سے نفرت نہیں بلکہ ان کے عمل سے بیزاری کے اظہار کی تعلیم دی گئی ہے۔
پس اسلام کی تعلیم ہر معاملے میں مکمل اور نہایت خوبصورت ہے۔ اسلام تو سخت ترین معاند کی موت پر بھی خوش ہونے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس کی موت پر بھی ایک سچے مومن کو اس لیے دکھ ہوتا ہے کہ کاش یہ شخص ہدایت پاجاتا۔ احمدیت کے سخت ترین دشمن اور ہمارے آقا و مطاع سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی ذات اطہر کے بارے میں بد زبانی کرنے والے معاند اسلام پنڈت لیکھرام کی الٰہی پیشگوئیوں کے مطابق جب ہلاکت ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی ہلاکت پر بھی اس کی قوم کے لوگوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں۔ کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کےلئے۔ کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے۔ ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کےلئے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجاتا۔ ‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 28)
باقی جہاں تک اسلام کی مخالفت پر مرنے والے کسی شخص کےلیے دعا کرنے کی بات ہے تو اسلام نے صرف مشرک جو خدا تعالیٰ سے کھلی کھلی دشمنی کا اظہار کرے، اس کےلیے دعائے مغفرت کرنے سے منع فرمایا ہے باقی کسی کےلیے دعا کرنے سے نہیں روکا۔ (سورۃ التوبہ: 114)