عائلی زندگی میں مسائل کے اسباب
مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے
ناجائز مطالبے
جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء کے موقع پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےخواتین سے خطاب فرماتے ہوئے سورت النساء کی آیت20کی تلاوت فرمائی اور ترجمہ بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہو ان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کرو، ان کے حقوق ادا کرو اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو۔ الزام تراشیاں نہ کرو۔ اس کوشش میں نہ لگے رہو کہ کس طرح عورت کی دولت سے، اگر اس کے پاس دولت ہے، فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب اس فائدہ اٹھانے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ ایک تو ظاہری دولت ہے جونظر آرہی ہے۔ بعض مرد عورتوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کئی دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ ان کو کوئی ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ جس سے انہیں کوئی ہوش ہی نہیں رہتا اور پھران عورتوں کی دولت سے مرد فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ میاں بیوی کی نہیں بنتی تو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عورت خلع لے لے تاکہ مرد کو طلاق نہ دینی پڑے اور حق مہر نہ دینا پڑے۔ تو یہ بھی مالی فائدہ اٹھانے کی ایک قسم ہے۔ پھر بیچاری عورتوں کو ایک لمبا عرصہ تنگ کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حق مہر عورت کا حق ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حرکت کسی طور پر جائز نہیں۔ پھر بعض دفعہ زبردستی یا دھوکے سے عورت کی جائیداد لے لیتے ہیں مثلاً عورت کی رقم سے مکان خریدا اور کسی طرح بیوی کو قائل کر لیا کہ میرے نام کر دو یا کچھ حصہ میرے نام کر دو۔ آدھے حصے کے مالک بن گئے اور اس کے بعد جب ملکیت مل جاتی ہے تو پھر ظلم کرنے لگ جاتےہیں اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ علیحدہ ہو کے مکان کا حصہ لے لیتے ہیں یا بعض لوگ جو ہیں گھر بیٹھے رہتے ہیں اور عورت کی کمائی پر گزارا کر رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ تمام جو اس قسم کے مرد ہیں ناجائز کام کرنے والے لوگ ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خاوند فوت ہو جائے تو اس کے رشتے دار یا سسرال والے جا ئیداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بیچاری عورت کو کچھ بھی نہیں ملتا اور اس کو دھکے دے کر ماں باپ کے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ تو یہ سب ظالمانہ فعل ہیں، ناجائز ہیں۔ تو یہ اسلام ہے جو ہمیں بتا رہا ہے کہ عورت سے اس قسم کا سلوک نہ کرو۔ اب یہ بتائیں کہ اور کس مذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اس گہرائی میں جا کرعورت کے حقوق کا اتناخیال رکھا ہو۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو یہ حقوق دلوائے ہیں۔ ‘‘(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
اسی حوالہ سے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ہر شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کا نگران ہے، اس کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے، مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت میں بھی بعض مرد ایسے ہیں جو گھر کے اخراجات مہیا کرنے تو ایک طرف، الٹا بیویوں سے اپنے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے خرچ پورے کرو، حالانکہ بیوی کی کمائی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر بیوی بعض اخراجات پورے کر دیتی ہے تو یہ اس کا مردوں پر احسان ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍مارچ 2004ء)
عورت کے مال اور جائیداد پر نظر
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض مردوں کےلالچ میں مبتلا ہونےکے بارہ میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فکر کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ یا پھر اس لئے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں کہ بعض پاکستان سے آنے والے لڑکے، باہر آنے کے لئے رشتے طے کر لیتے ہیں اور یہاں پہنچ کر پھر رشتے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ بھی ایسے لوگوں کو خوف نہیں ہے۔ ان لڑکوں کو کچھ تو خد اکا خوف کرنا چاہئے۔ ان لوگوں نے، جن کے ساتھ آپ کے رشتے طے ہوئے، آپ پر احسان کیا ہے کہ باہر آنے کاموقع دیا۔ تعلیمی قابلیت تمہاری کچھ نہیں تھی۔ ایجنٹ کے ذریعے سے آتے تو20-15لاکھ روپیہ خرچ ہوتا۔ مفت میں یہاں آ گئے۔ کیونکہ اکثر یہاں آنے والے لڑکے ٹکٹ کا خرچہ بھی لڑکی والوں سے لے لیتے ہیں۔ تو یہاں آ کر پھر یہ چالاکیاں دکھاتے ہیں۔ یہاں آ کر رشتے توڑ کر کوئی اپنی مرضی کا رشتہ تلاش کر لیتا ہے یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بعض رشتے ہو جاتے ہیں اور بعض دوسری بیہودگی میں پڑ جاتے ہیں اور پھر ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، چاہے وہ یہاں رہنے والے ہیں یا پاکستان میں رہنے والے ماں باپ ہیں۔ ‘‘
مزید فرمایا: ’’پھربعض لڑکے، لڑکیوں کی جائیدادوں کے چکر میں ہوتے ہیں۔ بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی بجائے اس کے کہ بچوں کی خاطر قربانی دیں قانون سے فائدہ اٹھا کر علیحدگی لے کر جائیداد ہڑپ کرتے ہیں اور اگر بیوی نے بیوقوفی میں مشترکہ جائیداد کر دی تو جائیداد سے فائدہ اٹھایااور پھربچوں اور بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ24؍جون2005ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر۔ ٹورانٹو۔ کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08؍جولائی2005ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 107تا111)
٭…٭…٭