سیلاب زدہ علاقوں میں جماعت احمدیہ جرمنی کی خدمات
یہ14 اور 15جولائی 2021ء کی درمیانی شب تھی جب جرمنی کے دو صوبوں (نورڈ رائن ویسٹ فالن اور رائن لانڈ فالس) کو شدید سیلابی ریلے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سیلاب کی تباہ کاریاں جرمنی کے لوگ ایک عرصہ تک بھلا نہ پائیں گے۔ تقریباً 190افراد اس سیلاب میں لقمہ اجل بنے۔ بعض علاقوں میں تو سڑکوں اور پُلوں کا نام ونشان مٹ گیا، گھر ملیا میٹ ہوگئے اور زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔
ہمارے تین انتہائی مخلص بھائی مکرم ظہیر احمد صاحب صدر جماعت نوئیس، مکرم رانا مسعود ارشد خان صاحب سیکرٹری تبلیغ کولون اور ریجنل مربی سلسلہ مکرم محمود احمد ملہی صاحب نے ان علاقوں کے بے بس اور اجڑے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے قدم اٹھایا۔ مرکز سے نیشنل سیکرٹری صاحب تبلیغ اِن کی راہنمائی کرتےرہے، نیز مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ جرمنی نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان خدمات کو منظم طور پرسرانجام دینے کے لیے ’’النصرت‘‘ ہیومینٹی فرسٹ، مجلس انصار اللہ، مجلس خدام الاحمدیہ اور ریجنل امراء کو ہدایات دیں اوراُن کو اس خدمت کی بجا آوری کے لیے اس ٹیم کی مدد کے لیے مقرر کیا۔
امدادی کارروائیوں، وقار عمل اور خدمت انسانیت کے لیے کی جانے والی مساعی کی رپورٹ کے لیے خاکسار نے مکرم ظہیر احمد صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ دن موسم گرما کی تعطیلات کا پہلا دن تھا۔ جرمنی میں عموماً چھٹیوں میں جرمن لوگ صحت افزا مقامات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ اسی طرح خاکسار بھی اپنے بچوں کےساتھ انہی علاقوں میں جانے کے لیے تیار تھا کہ خبروں میں سیلاب کے خطرناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ سیر کی بجائے اپنے سفر کا رخ انسانیت کی خدمت کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں خلافت کی نعمت میسر ہے۔ مقامی شہرKaarstکی انتظامیہ سے جماعت کے اچھے اور پرانے تعلقات ہیں۔ خاکسار نے اپنی عاملہ سے مشورہ کیا اور اپنے شہر کی میئر سے فوری ملاقات کی اورانہیں جماعت کے رفاہی کاموں اور تنظیموں کا تعارف کروایا۔ نیز درخواست کی کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ہمیں فوری طور پر جگہ چاہیے جہاں ہم امدادی سامان اکٹھا کرسکیں، درخواست تو ہم نے جگہ کے لیے کی تھی لیکن میئر صاحبہ نے جگہ کے ساتھ ساتھ اپنی طرف سے بھرپور مدد کی پیشکش کی اوراز خود شہر کے لوگوں سے اپیل کی کہ اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے عطیات جماعت احمدیہ کو جمع کروائیں۔ اس طرح احمدی احباب و خواتین کے علاوہ ہمارے شہر میں آباد مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد کو جماعت کا تعارف بھی ہوگیا اور انہوں نے دل کھول کر مددبھی کرنا شروع کر دی الحمدللہ۔ ایک جرمن دوست نے اپنی Rolexگھڑی نیلام کی اور پیسے ’’النصرت‘‘ کو بھجوائے۔ چنددنوں میں تقریباً 20کنٹینر سامان اکٹھا ہوگیا۔ اب احباب جماعت کی ایک ٹیم عطیات اکٹھا کرنے میں مصروف تھی اور دوسری ٹیم مورخہ17؍جولائی کووقار عمل کے لیےشٹول برگ Stolberg پہنچی۔ سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچنے کا یہ ہمارا پہلا دن تھا۔ وہاں حالات دیکھ کر تباہی کا اندازہ ہوا جو خارج از بیان ہے۔ خدام کی بہت ہی جذباتی کیفیت تھی۔ ہماری ٹیم ایک گھر کی صفائی میں مصروف تھی تو ایک بڑی عمر کے جرمن ہمسائے نے آکر کہا کہ کیا آپ لوگ میری مدد کرسکتے ہیں؟ خاکسار نے کہا کہ ضرور ہم اسی مقصد کے لیے آئے ہیں بس ادھر سے فارغ ہوکر آپ کے ہاں آتے ہیں۔ ہم نے وعدہ تو کر لیا لیکن جو کام ہم نے شروع کر رکھا تھا اُسے مکمل کرنےمیں ہمیں چھ سات گھنٹے لگ گئے۔ جب ہم اُن کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ اُس کی بیوی معذور ہے اور گھر تباہ ہوچکا ہے۔ ہمیں دیکھ کر انہوں نے کہا کہ اب بہت دیر ہوگئی ہےآپ صبح سے کام کررہے ہیں تھک گئے ہوںگے لہٰذا آپ کل آجائیں۔ لیکن ہماری ٹیم اُن کی بے چارگی دیکھ کر جذباتی ہوگئی تھی اور ہم نے اسی جوش میں وقار عمل کے ذریعہ آدھ گھنٹے میں ان کے گھر کی نچلی منزل کو مکمل صاف کرکے رات بسر کرنے کے قابل بنا دیا، نیزاُن سے کہا کہ باقی کام انشاء اللہ کل مکمل کردیں گے۔ اس پر دونوں میاں بیوی کا ردعمل دیدنی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آج تک مختلف گاڑیوں پر آپ کا موٹو ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ دیکھتے آئے ہیں لیکن آج آپ لوگوں کو دیکھ کر یقین ہوگیا کہ آپ بلا امتیاز بے لوث خدمت کرنے والے اور انسانیت سے پیار کرنے والےلوگ ہیں۔
مکرم ظہیر صاحب نے مزید بیان کیا کہ جب ہم وقار عمل کےلیے بلیزم وادی Blessem میں گئے تو اس وقت ہماری مختصر سی ٹیم تھی۔ ایک ٹیمNeuss جماعت سے اور دوسری Düren جماعت سے۔ ہم نے گاؤں کو دوحصوں میں تقسیم کرکے دونوں اطراف سے کام شروع کیا۔ لوکل شہریوں کو اندیشہ تھاکہ غیر ملکی ہیں کہیں ہمیں نقصان نہ پہنچائیں۔ جب احمدی احباب نے جوش کے ساتھ مسلسل مدد کرنی شروع کی تو کچھ گھنٹوں کے بعد لوگوں کا رویہ بدلنا شروع ہوگیا۔ Blessem گاؤں کے ایک چرچ کے سامنے جب ہم اپنا امدادی کیمپ لگا رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ چرچ کے سامنے بوڑھے افراد کی ایک لمبی قطار موجود ہے جو کھانے پینے کی چیزیں لینے کے لیے چرچ کے سامنے منتظر کھڑے تھے۔ چرچ والوں کے پاس کھانے کا انتظام نہیں تھا ۔Düren کی جوٹیم وقار عمل کرنے آئی تھی وہ اپنے ساتھ تمام وقار عمل کرنے والوں کے لیے کھانا لائی تھی۔ ہم نے تقریباً 35 افراد کا کھانا چرچ والوں سے اجازت لےکر ان لوگوں میں تقسیم کردیا۔ اُس دن اس بات کا احساس ہوا کہ ان لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت کھانے کی ہے کیونکہ کھانے کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا اور ان لوگوں کےتو گھر بھی اب اس قابل نہیں کہ اُن میں کچھ پکایا جاسکے۔
اس کے بعد نیشنل شعبہ ضیافت کی مدد سے جماعتی انتظام کے تحت کھانا تیار کرنا شروع کیا گیا۔ تین ماہ کے عرصہ میں ہر روز وقار عمل کے لیے دو سو سے اڑھائی سو احباب ان علاقوں میں آتے رہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان احباب جماعت کو تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار کی تعداد میں گرم کھانا تقسیم کرنے کی توفیق ملی الحمدللہ۔
70دنوں میں کل 10500 احباب جماعت نے وقار عمل میں حصہ لیا۔ روزانہ 150کے قریب احباب جماعت نے 100سے زائد دیہات میں خدمت کی توفیق پائی۔ روزانہ تقریباً 23گاڑیاں اس کام کے لیے استعمال ہوئیں۔
اسی طرح سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو53دن مسلسل ایک وقت کا کھانا مہیا کرنے کے لیے 1800احباب جماعت نے حصہ لیا اور ایک لاکھ 75ہزارسے زائد پیکٹ100دیہات میں تقسیم کرنے کی توفیق پائی۔ روزانہ تقریباً 2200 پیکٹ تقسیم کیے جاتے رہےاور اس کام کے لیے روزانہ 20گاڑیاں ڈیوٹی دیتی رہیں۔ کھانا بنانے اور پیکنگ کرنے والی ٹیمیں اس کے علاوہ تھیں جو روزانہ کسی نہ کسی جماعت یا تنظیم کی طرف سے آتیں اور ان کی نگرانی بھی اسی طرح کبھی خدام الاحمدیہ، کبھی ہیومینٹی فرسٹ یعنی مل بانٹ کے باہمی صلاح مشورے سے کام ہوتا رہا۔ کھانا بنانے کے لیے سیلاب زدہ علاقے میں ایک احمدی دوست کا بڑا گھر تھا جو سیلاب کی زد میں آیا لیکن پانی اترنے کے بعد اُس گھر کو صاف کرکے اسے بطور کچن استعمال کیا گیا۔ کچھ دن کولون مسجد سے بھی کھانا تیار کرکے لایا جاتا رہا۔
خاکسار (راقم الحروف)بھی کچھ دن مرکزی شعبہ تبلیغ کی ٹیم لےکر ان علاقوں میں کھانا تقسیم کرنے کےلیےگیا تھا۔ لوگوں کے چہروں سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کی خدمات سے کس قدر خوش اور مطمئن ہیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا ہم انہیں اور وہ ہمیں برسوں سے جانتے ہیں۔ ہماری طرف سے بھی بڑی محبت سے گھر گھر جاکر کھانا پیش کیا جاتا رہا۔
مکرم ظہیر صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ Blessem گاؤں میں ہی ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے جماعت کے تعارف کا ایک نیا راستہ کھولا۔ شروع کے دنوں میں چرچ نے ہمیں سٹال کے لیے جگہ دی لیکن دو یا تین دن بعد لوگوں کے رویے اور تبصروں کو سنتے ہوئے کہ جگہ تو چرچ کی ہے لیکن ہماری خدمت اور مدد تو غیر ملکی مسلمان کررہے ہیں۔ اس پر چرچ والوں نے ہمیں فوری جگہ خالی کرنے کو کہا۔ یہ سن کر کچھ لمحوں کے لیے فکر پیدا ہوئی لیکن معاً دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور خیال آیا کہ ہم تو صرف دکھی انسانیت کی مدد کر رہے ہیں اور سب بھائیوں نے مل کر دعا بھی کی کہ یا اللہ کوئی رستہ دکھا۔ اللہ تعالیٰ نے فوری رستہ دکھایا کہ شہری انتظامیہ سے بات کرنی چاہیے۔ انتظامیہ کو اطلاع کی گئی کہ ہمارے پاس ابھی کافی امدادی سامان موجود ہے اور چرچ نے ہمیں اپناہال خالی کرنے کو کہا ہے۔ کیا کوئی متبادل انتظام ہوسکتا ہے؟ قبل اس کے کہ شہر کا نمائندہ کچھ بولتا پاس کھڑے ہوئے ایک شہری نے پیشکش کردی کہ میرا گھر چرچ کے سامنے ہے آپ لوگوں کے لیے میں اپنا گھر پیش کرتاہوں۔ بہر حال انتظامیہ کی طرف سے ہمیں نئی جگہ مل گئی اور ہم نے اپنالنگر ادھر منتقل کردیا۔ لوگوں کے اسلام کے بارے میں اچھے تاثرات اور ہماری خدمات کو دیکھتے ہوئے چرچ کو محسوس ہوا کہ یہ لوگ تو صرف خدمت کر رہے ہیں، تبلیغ نہیں۔ اس پر کچھ دنوں بعد چرچ کا نمائندہ ہمارے پاس آیا اور کہا کہ ہمیں آپ لوگوں کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے آپ بخوشی امدادی کاموں کے لیے چرچ کا ہال استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اُن سے معذرت کرلی کہ اب شفٹ ہونا مشکل ہے۔ وہ اپنی غلطی پر شدید نادم تھے اور بار بار اصرار کرتے رہے۔ اس پر ہم نے اپنا ایک کیمپ چرچ میں بھی قائم کردیا۔
دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری بے لوث مدد کے نتیجہ میں اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اُس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس ہادیٔ کامل اور محسن انسانیتؐ کے اسوہ پر عمل کرنے کے نتیجے میں اسلام احمدیت کو عزت وتوقیر سے نوازا۔
ہر روز انتہائی جذباتی تھا۔ ایک طرف تو یہ جذبہ موجزن تھا کہ ہم ان دکھی انسانوں کی ہر ممکن خدمت کرسکیں اور دوسری طرف غیرمسلم شہریوں کی حیرت دیدنی تھی کہ یہ کس طرح کا اسلام ہے۔ ہم نے تو کچھ اور ہی سن رکھا تھا۔ واقعات اور یادوں کا ایک دریا ہے جس میں سے کچھ پیش خدمت ہے۔
ایک دن ایک جرمن خاتون آئی اور کہا کہ میں آپ سب مسلمانوں سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ جب وجہ پوچھی تو کہنے لگی کہ میں پیشے کے لحاظ سے ایک ٹیچر ہوں اور میرے دل و دماغ میں اسلام کے بارے جونفرت انگیز جذبات اور غلط فہمیاں تھیں آپ لوگوں کی اس خدمت نے اُنہیں دورکر دیا ہے۔ میں آپ سےاپنی سوچ کی وجہ سے شرمندہ ہوں اور معافی مانگتی ہوں۔
اس طرح کی صورتحال میں اور اس طرح ہماری ادنیٰ خدمات کے نتیجہ میں جرمن لوگوں کی سوچوں کا اسلام کے بارے مثبت رنگ میں تبدیل ہونا ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ یہ ساری برکتیں اور اسلام کی خوبصورت عملی تصویر پیش کرنے کی توفیق ہمیں محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے خلیفہ کی راہنمائی وتربیت کی وجہ سے ملی۔
جو امدادی سامان اکٹھا کیا گیا تھا اس کی سوشل میڈیا کے ذریعہ کافی تشہیر ہوئی جس کی وجہ سے حضورِ انور کی راہنمائی سے قائم کردہ جرمنی جماعت کے رفاہی ادارے ’’النصرت‘‘ کا تعارف لوگوں میں وسیع پیمانے پر ہوا۔ سیلاب زدہ علاقوں سے مختلف تنظیمیں ’’النصرت‘‘ کے ذریعہ رابطہ کرکے جماعتی وقارعمل کی ٹیموں کو اپنے اپنے علاقوں میں مدد کے لیے بلواتی رہیں۔ وقار عمل کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء، جانوروں کی خوراک، بچوں کے استعمال کی ضروری چیزیں، کپڑے، جوتے، جراثیم کش ادویات، گھرکا سامان، بستر و لحاف وغیرہ مطلوبہ تعداد میں انہیں جماعت کی طرف سے مہیا کیے جاتے رہے۔
سوشل میڈیا پرہماری خدمات کو دیکھتے ہوئے پورے جرمنی سے لوگوں نے رابطہ کیا اور بغیر کسی تحریک کے ہمیں عطیات بھجوائے۔ ان میں قابل ذکر ہمبرگ شہر کی پولیس ہے جنہوں نے ہمارے ساتھ رابطہ کیا اور 2ٹرک اشیائے ضروریہ کے بھجوائے۔
ایک دن لجنہ اماء اللہ Düren نے وقار عمل کرنے والے بھائیوں کے لیے اپنی طرف سے پکوڑے اور سموسے بناکر بھجوائے۔ وقار عمل کرنے والوں نے انہیں بھی جرمن لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ اگلے دن مزید جرمن لوگ اکٹھےہوکر ہمارے پاس آئے اور کہا کہ کل جو سموسے اور پکوڑے آپ نے دیے تھے وہ ہمیں بہت پسند آئے ہیں کیا آپ لوگ ہمارے لیے بناسکتے ہیں؟ اس پر ضیافت ٹیم نے فیصلہ کیا کہ ہم سموسے، پکوڑے بنادیاکریں گے کیونکہ یہ لوگ ہمارے کیمپ میں آکر کھاتے ہیں، گھروں میں تو یہ تقسیم نہیں کیے جاتے۔ اس طرح ان لوگوں سے بات چیت بھی ہوجایا کرے گی اور کچھ وقت کے لیے اپنا غم بھول جایا کریں گے۔ تو اس طرح آخری دن تک پکوڑوں اور سموسوں کا سلسلہ چلتا رہااور جرمن لوگ ہمارے کیمپ میں آتے رہے۔ اس کے لیے لجنہ اماء اللہ کا بہت تعاون شامل حال رہا جو روزانہ تقریباً سات سو سے آٹھ سو سموسے بناکر بھجواتی تھیں جن کی تلائی یہاں کی جاتی تھی۔
جماعتی انتظام کے تحت وقار عمل کے لیے پورے جرمنی سے مختلف دنوں میں مختلف ٹیمیں پلان کے مطابق آتی رہیں سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی ٹیموں کے نگران مکرم محمود احمد ملہی صاحب مربی سلسلہ تھے جو مسلسل دن رات انہی علاقوں میں مقیم رہے اللہ تعالیٰ انہیں احسن رنگ میں جزا عطافرمائے۔ آمین۔
اس جگہ طلباء جامعہ احمدیہ جرمنی، مجلس اطفال الاحمدیہ جرمنی، مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی، مجلس انصار اللہ جرمنی، نیشنل شعبہ ضیافت اور شعبہ تبلیغ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے بھر پور انداز میں مدد کی۔ شعبہ تبلیغ نے ٹی شرٹس، سٹال اور دیگر ضروری امداد باہم پہنچائی۔ اسی طرح ہیومینٹی فرسٹ اور ’’النصرت‘‘ کا خاص تعاون حاصل رہا۔ فجزاہم اللہ احسن لجزاء
اتفاق کی بات ہےBlessemگاؤں کی طرح Ahrtal اور Mayschos دیہات میں بھی امدادی کیمپ لگانے کے لیے شہر کے میئر نے ہمیں چرچ کے سامنے والی جگہ دی جہاں سے پوری وادی کے مختلف علاقوں میں کھانا بھجوایا جاتا تھا۔ Ahrtal میں بھی ہمیں دو سے اڑھائی مہینے خدمت کی توفیق ملی۔ اس شہر میں مختلف قصبے شامل ہیں۔ اسی شہر میں جب ایک جرمن کو گرما گرم سموسہ کھانے کے لیے پیش کیا گیا تو اُس نے دونوں ہاتھ چرچ کی جانب بلند کیے اور کہا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ آج تین ہفتوں بعد کوئی گرم چیز میں نے کھائی ہے۔ ہمیں اس کی اس حالت پر بہت ترس آیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اُس نے ہمیں خدمت انسانیت کی توفیق دی۔ یہ تو ایک شخص ہے جس نے اظہار کردیا سینکڑوں ایسے افراد تھے جنہوں نے کئی کئی دن تازہ اور گرم کھانا نہیں کھایا تھا۔ یہ لوگ گرم کھانا لیتے اور ہمیں دعائیں دیتے تھے۔
اسی شہر کی ایک جرمن خاتون نے بذریعہ فیس بک رابطہ کیا کہ ہمیں تین ہفتوں سے کھانا نہیں ملا بہت سی تنظیموں سے آپ کے بارے میںسنا ہے کہ آپ کھانا مہیا کرتے ہیں نیز اُس نے لکھا کہ میرے گھر تک پہنچنے کے لیے آپ کو دریا کے اندر سے پیدل گزرنا پڑے گا کیونکہ کوئی پل سلامت نہیں رہا۔ اس خاتون کو جواب دیا کہ انشاء اللہ ہم آپ کے گھر حاضر ہوں گے اور دعا کی کہ خدایا ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری پیاری مخلوق کی مدد کرسکیں۔ مکرم مربی صاحب سے پروگرام بنایا کہ کل ہم پیدل ان کو کھانا دینے جائیں گے۔مربی صاحب اور مکرم عظمت علی صاحب کھانا لےکر روانہ ہوئے۔ عمومی طور پر وہ گھر وہاں سے کچھ منٹ کی مسافت پر تھا لیکن راستہ نہ ہونے اور پیدل جانے کی وجہ سے ہمارے دونوں احباب کافی گھنٹوں بعد واپس پہنچے اور بتایا کہ اہل خانہ ہم سے مل کر بہت روئے کہ ہمیں اُمید نہیں تھی کہ آپ لوگ آئیں گے اس کے بعد ہر دن ان کو کھانا پہنچایا جاتا رہا الحمدللہ۔
Ahrtalگاؤں کے ایک جرمن رہائشی نے ہمیں بائبل کی کچھ آیات کے حوالوں سے لکھا کہ بائبل میں لکھا ہے کہ ’’ایسے فرشتے مدد کو آئیں گے جو سفید فام نہ ہوںگے اور اُن کے پر نہیں ہوںگے وہ کیچڑ صاف کریں گے اور کھانا تقسیم کریں گے‘‘۔ اور اس نے لکھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس پیشگوئی کےحقیقی مصداق آپ لوگ ہی ہیں۔
مکرم ظہیر صاحب نے بتایا کہ احباب جماعت کا تعاون اور جذبۂ خدمت خلق ناقابل بیان ہے۔ان کی سرشت اور خمیر میں انسانیت کی خدمت پوری طرح رچی ہوئی ہے۔ ہماری جماعت سے مکرم عثمان احمد طاہر صاحب نے اس طرح خدمت میں حصہ لیا کہ اپنی ٹرانسپورٹ والی گاڑی کی چابی مجھے دی اور کہا کہ جب تک آپ کو چاہیے اسے استعمال کریں، نیز ایک ایسی شرط لگائی جس نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ میرا کریڈٹ کارڈ بھی آپ کو ساتھ لینا ہوگا تاکہ اس خدمت میں استعمال ہونے والا ڈیزل اسی کارڈ سے ڈلوایا جائے خواہ جتنا بھی استعمال ہو۔ یہ احباب جماعت کی مالی قربانیوں کی زندہ مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اموال ونفوس میں برکت ڈالے۔ آمین
ریجنل امیر مکرم طارق محمود صاحب ہر وقت خدمت کے لیے ساتھ ساتھ رہے۔مکرم نیشنل امیر صاحب جرمنی اور نیشنل سیکرٹری صاحب تبلیغ نے بھی دورےکیے اور کاموں کا جائزہ لیا۔
اس قدرتی آفت کے متاثرین کی ہماری اس خدمت کو سراہنے والوں میں پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور جرمنی کے مختلف ٹی وی چینلزWDR، RTL، ZDFاور رشین ٹی وی کے علاوہ کچھ یوٹیوب چینلز بھی شامل ہیں۔ جن کے ذریعہ سے جماعتی تعارف اور اسلامی تعلیمات پیش کرنے کا موقع ملا۔ اخبارات میں خبریں اور محمود ملہی صاحب مربی سلسلہ اور ظہیر صاحب کے انٹرویوز شائع ہوئے۔
اس وقار عمل میں احباب جماعت کی ایک بڑی تعداد نے خدمت کی توفیق پائی۔ ہر ایک کا نام لکھنا تو ممکن نہیں لیکن بلاناغہ خدمت کرنے والوں میںمحترم محمود احمد ملہی صاحب مربی سلسلہ، مکرم فرحان خان صاحب، مکرم مظفر حمید صاحب، مکرم رانا مسعود ارشد خان صاحب، مکرم عمران عظمت صاحب اور اُن کی ٹیم کا بغرض دعا خصوصی ذکرکرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین
(رپورٹ: صفوان احمد ملک۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)