زلزلۃ الساعۃیعنی عالمی ایٹمی جنگ (قسط دوم)
اس کے نتائج اور انجام کے بارے میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں
جب ان الہاما ت کے ظہور کا وقت آئے گا تو اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادتیٔ ایمان اور تسلّی اور یقین کاموجب ہوگی
’’ظاہر الفاظ …… اس وحی الٰہی کے جو مجھ پر ہوئی زلزلہ کی ہی خبر دیتے ہیں لیکن سنت اللہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ تاویلی احتمال بھی پیش نظر رہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک قوم کے لئے ایک جگہ فرماتاہے۔’’وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالاً شَدِیْداً ‘‘ یعنی ان پرسخت زلزلہ آیا حالانکہ ان پر کوئی زلزلہ نہیں آیاتھا۔ پس دوسری آفت کانام اس جگہ زلزلہ رکھا گیاہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 94مطبوعہ 1905ءروحانی خزائن جلد 21صفحہ 255)
٭…٭…٭
’’خدا تعالیٰ نے مجھے صرف یہی خبر نہیںدی کہ پنجاب میں زلزلے وغیرہ آفات آئیںگی کیونکہ میں صرف پنجاب کے لئے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جہاں تک دنیا کی آبادی ہے ان سب کی اصلاح کے لئے مامورہوں۔ پس مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ یہ آفتیں اور یہ زلزلے صرف پنجاب سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا ان آفات سے حصہ لے گی…… یہی گھڑی کسی دن یورپ کے لئے درپیش ہے اور پھر یہ ہولناک دن پنجاب اور ہندوستان اور ہرایک حصۂ ایشیا کے لئے مقدر ہے جو شخص زندہ رہے گاوہ دیکھ لے گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 193حاشیہ۔ مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 22صفحہ 200حاشیہ )
٭…٭…٭
’’یاد رہے کہ جس عذاب کے لئے یہ پیشگوئی ہے اس عذاب کو خدا تعالیٰ نے باربار زلزلہ کے لفظ سے بیان کیاہے اگرچہ بظاہر وہ زلزلہ ہے اور ظاہر الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا لیکن چونکہ عاد ت الٰہی میں استعارات بھی داخل ہیں اس لئے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالباً تو وہ زلزلہ ہوگا ورنہ کوئی اور جانکاہ اور جانگداز اور فوق العادت عذا ب ہے جو زلزلہ کارنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔‘‘
(درمکنون حصہ دوم۔ تاریخ اشاعت اپریل 1917ء)
٭…٭…٭
’’اس وحی الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار زلزلے کسی قدرہلکے اور خفیف ہونگے اور دنیا ان کو معمولی سمجھے گی اور پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگاکہ لوگوں کو سودائی اوردیوانہ کر دے گا یہاں تک کہ وہ تمنا کریں گے کہ وہ اس دن سے پہلے مرجاتے ‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 93حاشیہ مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 22صفحہ 96)
٭…٭…٭
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام کیا کہ
’’بھونچال آیا اور شدّت سے آیا۔ زمین تہ و بالا کر دی۔ یومَ تأتی السمآء بِدُخَانٍ مُبِیْنٍ ط وَ تَرَی الاَرضَ یَومَئِذٍ خَامِدَۃً مُصْفَرۃ ط اُکرِمُکَ بَعْدَ تَوھِیْنِک۔یُریدُونَ اَنْ لایَتِم اَمْرُکَ۔ واللّٰہ یابٰی الَّاان یتم امدک۔ اِنّی اَنَا الرحْمٰنُ۔ سَاَجْعَلُ لَکَ سُہُولَۃٌ فی کُلِّ اَمْرٍ۔ اُرِیْکَ بَرکَاتٍ مِنْ کُلِّ طَرَفٍ۔‘‘
ان الہامات کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’اس دن آسمان سے ایک کھلا کھلا دھواں نازل ہوگا اور اس دن زمین زرد پڑ جائے گی۔ یعنی سخت قحط کے آثار ظاہر ہونگے۔ میں بعد اس کے جو مخالف تیری توہین کریں تجھے عزت دو ں گا اور تیرا اکرام کروں گا۔ وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام ناتمام رہے اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑدے جب تک تیرے تمام کام پورے نہ کرے میں رحمٰن ہوں۔ ہر ایک امر میں تجھے سہولت دونگا ہر ایک طرف سے تجھے برکتیں دکھلائوں گا۔‘‘
( حقیقۃ الوحی صفحہ 94تا95مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 22صفحہ 98)
٭…٭…٭
’’اس زلزلہ کے لئے جو قیامت کا نمونہ ہوگا یہ علامتیں ہیں کہ کچھ دن پہلے اس سے قحط پڑے گا اور زمین خشک رہ جائے گی۔ نہ معلوم کہ معاً اس کے بعد یا کچھ دیر کے بعد زلزلہ آ ئے گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ94مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 22صفحہ 98حاشیہ )
٭…٭…٭
’’سنواے سننے والو ! تم سب یاد رکھو کہ اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں آئیں تو سمجھ لو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ لیکن اگر ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیا اور شدت گھبراہٹ سے دیوانہ سابنا دیا اور اکثر مقامات میں عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچا یا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ 4مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 20صفحہ 396)
٭…٭…٭
’’میں باربار کہتا ہوں کہ توبہ کرو کہ زمین پر اس قدر آفات آنے والی ہیں کہ جیساکہ ناگہانی طور پر ایک سیاہ آندھی آتی ہے …… خدا عناصر اربعہ میں سے ہر ایک عنصر میں نشان کے طور پر ایک طوفان پیدا کرے گا اور دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیںگے یہاں تک کہ وہ زلزلہ آ جائے گا جو قیامت کانمونہ ہے۔ تب ہر قوم میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنے وقت کو شناخت نہ کیا یہی معنی خدا کے اس الہام کے ہیں کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘
یہ پچیس برس کا الہام ہے جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور ان دنوں میں پورا ہوگا جس کے کان سننے کے ہیں وہ سنے۔‘‘
( حقیقۃ الوحی صفحہ 192مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 22صفحہ 199تا200)
٭…٭…٭
’’یاد رہے کہ مسیح موعودؑ کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی… یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعودؑ کے دم سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیح کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا……۔ معنیٰ حدیث کے یہ ہیں کہ اس کے نفحا ت طیّبات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین پر شائع ہوںگے تو چونکہ لوگ ان کا انکارکریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے اس لئے وہ انکار موجب عذاب ہو جائے گا ……اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا۔ اتمام حُجّت کے لئے نبی کو لاتاہے۔ اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پید ا کر تا ہے۔ اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتاہی نہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً……۔ اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیاہے۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ 7تا9مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد20صفحہ 399تا401)
٭…٭…٭
قیامت کی نمونہ تباہی میںتاخیر ڈال دی گئی
’’پہلے یہ وحی الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونۂ قیامت ہوگابہت جلد آنے والا ہے …… مگر بعد اس کے میںنے دعا کی کہ اس زلزلہ ٔنمونۂ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے اس دعا کا اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں خود ذکر فرمایا اور جواب بھی دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتاہے:رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذا۔ اَخّرَہُ اللّٰہ اِلیٰ وَقْتٍ مُسَمیً یعنی خدا نے دعا قبول کر کے اس زلزلہ کو کسی اور وقت پر ڈال دیا ہے۔‘‘
(حقیقۃالوحی صفحہ100حاشیہ مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 22مطبوعہ لندن صفحہ 103)
عالمگیر تباہیوں کا انجام اور ان کے نتائج
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’ان نشانوں کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی پیدا ہوگی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور غفلت کے پردے درمیان سے اٹھا دئے جائیں گے۔اور حقیقی اسلام کا شربت انہیں پلایاجائے گا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے ؎
چو دَورِ خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کردند
دَورِ خسروی سے مراد اس عاجز کا عہد دعوت ہے… معنی اس الہام کا یہ ہے کہ جب دور خسروی یعنی دور مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے …… شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اُس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلما ن تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ 4تا5مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 20صفحہ 396تا397)
٭…٭…٭
’’یادرہے کہ …… جس قدر خدا نے تباہی کاارادہ کیا ہے وہ پورا ہو چکے گا۔ تب خدا کارحم پھر جوش مارے گا اور پھر غیر معمولی اور دہشت ناک زلزلوں کاایک مدّت تک خاتمہ ہو جائے گا…… اور جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلق کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا…… یعنی پھر لوگوں کی دعائیں سنی جائیں گی اور وقت پر بارشیں ہوںگی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آ جائے گا اور غیرمعمولی آفتیں دور ہو جائیں گی تا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ خدا صرف قہار ہے رحیم نہیں ہے اور تا اس کے مسیح کو منحوس قرار نہ دیں۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ6تا7مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 20صفحہ 399)
٭…٭…٭
’’خدا تعالیٰ نے مجھے باربار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھا ئے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا…… میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنے سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔ اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اورپھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوںگی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔اورخدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ سو اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ، صفحہ 17تا18مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 20صفحہ 409)
٭…٭…٭
’’جو جاہل مسلمان کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے وہ نبیٔ معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر افتراء کرتے ہیں اور اسلام کی ہتک کرتے ہیں خوب یاد رکھو کہ اسلام ہمیشہ اپنی پاک تعلیم اور ہدایت اور اپنے ثمرا ت انوار و برکات اور معجزات سے پھیلا ہے۔ آنحضرتﷺ کے عظیم الشان نشانات آپؐ کے اخلاق کی پاک تاثیرات نے اسے پھیلایا ہے اور وہ نشانات اور تاثیرات ختم نہیں ہو گئی ہیں بلکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے جو میں کہتاہوں کہ ہمارے نبیﷺزندہ نبی ہیں اس لئے کہ آپ کی تعلیمات اور ہدایات ہمیشہ اپنے ثمرات دیتی رہتی ہیں اور آئندہ جب اسلام ترقی کرے گا تو اس کی یہی راہ ہوگی نہ کوئی اور۔‘‘
(لیکچر لدھیانہ صفحہ 25 تا 26 مطبوعہ 1905ء روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 273 تا 274)
٭…٭…٭
’’…صرف اسلام ہی ایک ایسامذہب ہے جو کامل اور زندہ مذہب ہے۔اور اب وقت آ گیاہے کہ پھر اسلام کی عظمت۔ شوکت ظاہر ہو۔اور اسی مقصد کو لے کر میں آیاہوں۔…
میں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایاہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے۔اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کر ے۔ وہ فَعّالٌ لِمَا یُریْدہے۔ مسلمانو! یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر دی ہے اور میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔ اب اس کو سننا، نہ سننا تمہارے اختیار میں ہے۔‘‘
(لیکچر لدھیانہ صفحہ 42مطبوعہ 1905ءروحانی خزائن جلد 20صفحہ 290)
’’اس کا مطلب یہ نہیں کہ بجز اسلام کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا کیونکہ ایسا ہونا تو قرآن کے منافی ہے۔ ان آیتوں میںغور کرو جہاں لکھا ہے کہ یہود اور نصاریٰ قیامت تک رہیں گے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب مردہ اورذلیل ہو جائیں گے اور اسلام کے مقابل پر مر جائیں گے مگر اسلام کہ وہ اپنی روشنی اور زندگی اور غلبہ ظاہر کرے گا۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 40حاشیہ مطبوعہ 1897ءروحانی خزائن جلد 12صفحہ 42حاشیہ)
٭…٭…٭
’’خدا تعالیٰ چاہتاہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جونیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے او ر اپنے بندوں کو دینِ واحد پرجمع کرے۔یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعائوں پر زور دینے سے۔‘‘
(رسالہ الوصیت صفحہ 6مطبوعہ 1905ءروحانی خزائن جلد 20صفحہ306تا307)
٭…٭…٭
’’اس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ اب کیا کریں۔ یقیناًسمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے۔… یہ پیشگوئی یادرکھو کہ ……اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپاہوگا۔حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں،کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگرانجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے ……۔اسلام نہ صرف فلسفہ ٔجدید ہ کے حملے سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علومِ مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا۔ اسلام …… کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 254تا255حاشیہ مطبوعہ 1893ءروحانی خزائن جلد 5صفحہ 254تا255حاشیہ)
٭…٭…٭
’’خدا نے جو اس مامور کو مبعوث فرمایا ہے۔یہ اس لئے فرمایا کہ تا اس کے ہاتھ سے دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ بخشے……۔
ابتداء میں ضرور ہے کہ اس مامور اور اس کی جماعت پر ظلم ہو۔ لیکن آخر میں فتح ہوگی اور یہ دین اِس مامور کے ذریعہ سے تمام ادیان پر غالب آ جائے گا۔ اور دوسری تمام ملّتیں بیّنہ کے ساتھ ہلاک ہو جائیںگی۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 40تا41مطبوعہ 1897ءروحانی خزائن جلد 12صفحہ 42تا43)
٭…٭…٭
’’اسلام کے لئے پھراس تازگی اورروشنی کا دن آئے گاجو پہلے وقتوں میں آ چکاہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیساکہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں۔اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتاہے۔ وہ کیاہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے……۔
ضرور تھا کہ وہ اس مہمّ ِعظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاحِ خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ 15تا18مطبوعہ دسمبر 1891ء روحانی خزائن جلد 3صفحہ 10تا11)
٭…٭…٭
’’یہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ مختلف فرقوں کوایک قوم بنا دے۔ اور ان مذہبی جھگڑوں کو ختم کر کے آخر ایک ہی مذہب میں سب کوجمع کر دے …… دنیا کے مذاہب کا بہت شور اٹھے گا ایک مذہب دوسرے مذہب پر ایسا پڑے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے اور ایک دوسرے کوہلاک کرنا چاہیں گے۔ تب آسمان وزمین کا خدا اس تلاطمِ امواج کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے بغیر دنیوی اسباب کے ایک نیا سلسلہ پیدا کرے گا اور اس میں ان سب کو جمع کرے گا جو استعداد اور مناسبت رکھتے ہیں۔تب وہ سمجھیں گے کہ مذہب کیا چیز ہے۔ اور ان میں زندگی اور حقیقی راستبازی کی روح پھونکی جائے گی اور خدا کی معرفت کا ان کو جام پلایا جائے گا…… اورضرور ہے کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ یہ پیشگوئی کہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قرآن شریف نے دنیا میں شائع کی ہے پوری نہ ہو جائے۔‘‘
( لیکچر لاہور صفحہ 36تا37مطبوعہ 1905ء روحانی خزائن جلد 20صفحہ 182تا183)
٭…٭…٭
’’نہ بُت رہیں گے نہ صلیب رہے گی اور سمجھدار دلوں پر سے اُن کی عظمت اٹھ جائے گی اور یہ سب باتیں باطل دکھائی دیں گی اور سچے خدا کا پھرچہرہ نمایاں ہو جائے گا۔…… خدا اپنے بزرگ نشانوں کے ساتھ اور اپنے نہایت پاک معارف کے ساتھ اور نہایت قوی دلائل کے ساتھ دلوںکو اسلام کی طرف پھیرے گا اور وہی منکر رہ جائیں گے جن کے دل مسخ شدہ ہیں۔خدا ایک ہوا چلائے گا جس طرح موسم بہار کی ہوا چلتی ہے اور ایک روحانیت آسمان سے نازل ہوگی اور مختلف بلاد اور ممالک میں بہت جلد پھیل جائے گی اور جس طرح بجلی مشرق اور مغرب میں اپنی چمک ظاہر کر دیتی ہے ایسا ہی اس روحانیت کے ظہور کے وقت ہوگا۔ تب جو نہیں دیکھتے تھے وہ دیکھیں گے اور جونہیں سمجھتے تھے وہ سمجھیں گے اور امن اور سلامتی کے ساتھ راستی پھیل جائے گی۔‘‘
( کتاب البریّہ صفحہ 270حاشیہ مطبوعہ 1898ءروحانی خزائن جلد 13صفحہ 311تا312حاشیہ)
٭…٭…٭
’’اے تمام لوگو ! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ و ہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور بُرہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا…… دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتاہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی۔اگراب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تواس ٹھٹھےسے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھَٹھا نہیں کیا گیا۔ پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھَٹھا کیا جاتا۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ64تا65مطبوعہ 1903ءروحانی خزائن جلد20صفحہ66)
٭…٭…٭
’’نادان مخالف خیال کرتاہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پا چکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے…… اور ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ کو چلاوے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلا وے۔ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگاوے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوا یا خدا۔پہلے اس سے ابوجہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے مگر اب وہ کہاں ہیں۔ وہ فرعون جو موسیٰؑ کو ہلاک کرنا چاہتاتھا اب اس کا کچھ پتہ ہے؟ پس یقینا ًسمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہو سکتا…… بدقسمت وہ جو اِس کو شناخت نہ کرے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 128 مطبوعہ 1905ءروحانی خزائن جلد 21صفحہ 295)
٭…٭…٭
’’باربار کے الہامات اورمکاشفات سے جو ہزارہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہرکیا کہ میں آخرکارتجھے فتح دوںگا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کردوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہے گی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا…… ہریک چیز کے لئے ایک موسم اور وقت ہے……۔جب ان الہاما ت کے ظہور کا وقت آئے گا تو اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادہ تر ایمان اور تسلّی اور یقین کاموجب ہوگی۔‘‘
( انوارالاسلام صفحہ 53مطبوعہ 1894ءروحانی خزائن جلد 9صفحہ 54)
٭…٭…٭
’’مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں۔ میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں۔ اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہوجائیں اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعائوں کولعنت کی شکل پر بنا کر ان کے منہ پر مارے گا۔
دیکھو! صدہا دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں۔ آسمان پرایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لارہے ہیں۔ اب اس آسمانی کارروائی کو کیاانسان روک سکتاہے؟ بھلا اگرکچھ طاقت ہے تو روکو۔ و ہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو۔ ناخنوں تک زور لگائو۔ اتنی بددعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جائو۔پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟‘‘
(اشتہار 29؍دسمبر 1900ءمجموعہ اشتہارات جلد 3صفحہ 392)
(جاری ہے)
٭…٭…٭