زلزلۃ الساعۃیعنی عالمی ایٹمی جنگ(قسط سوم۔آخری)
اس کے نتائج اور انجام کے بارے میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں
جب ان الہاما ت کے ظہور کا وقت آئے گا تو اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادتیٔ ایمان اور تسلّی اور یقین کاموجب ہوگی
بادشاہوں کا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا
’’مجھے ……کشف صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ملوک بھی اس سلسلہ میں داخل ہوں گے …… و ہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے یہاں تک برکت دوںگا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اللہ تعالیٰ ایک زمانہ کے بعدہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر ان کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی۔‘‘
( الحکم 31؍جولائی و 10؍اگست 1904ء)
٭…٭…٭
’’عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جؤا اٹھائیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ 17مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 20صفحہ 409حاشیہ)
’’یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے اور ان کے بیعت میں ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی…… اصل بات یہ ہے کہ خداکے کام تدریجی ہوتے ہیں۔ جب آنحضرتﷺ مکہ معظمہ کی گلیوں میں تکلیف اٹھاتے پھرتے تھے اس وقت کون خیال کر سکتا تھا کہ اس شخص کا مذہب دنیا میں پھیل جائے گا۔‘‘(الحکم 24؍اکتوبر 1902ء )
٭…٭…٭
’’بید انی رئیت فی مُبشِّرَۃٍ اُرِیْتُھَا جماعۃً من المومنینَ المخلصینَ والملوکَ العادلینَ الصالحینَ۔ بعضھم من ھذا المُلک و بعضھم من العرب و بعضھم من فارس و بعضھم من بلاد الشام و بعضھم من ارض الروم و بعضھم من بلاد لا اَعْرفھا ثم قِیل لی مِن حضرۃ الغیب ان ھؤلاء یصدّقونک و یؤمنون بک و یُصلّون علیک و یدعون لک و اُعطِی لک برکات حتی یَتبرّک الملوکُ بثیابک اُدْخِلُھُم فی المخلصین۔‘‘
ترجمہ :’’میں نے ایک رؤیا میں ایک مخلص مومنوں اور عادل اور نیک بادشاہوں کی جماعت دیکھی۔ جن میں بعض اس ملک کے تھے اور بعض عرب کے تھے اور بعض فارس کے تھے اور بعض شام کے علاقوں کے تھے۔ اور بعض روم کے ملک کے تھے۔ اور بعض ایسے علاقوں کے تھے جنہیں میں نہیں جانتا۔
پھر مجھے غیب جاننے والے خدا نے بتایاکہ یہ لوگ تیرے مصدق ہوں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود پڑھیں گے اور تیرے لئے دعا ئیں کریں گے اور میں تجھے اتنی برکتیں دوںگا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکتیں پائیں گے۔‘‘(لجّۃ النور صفحہ 3تا4روحانی خزائن جلد 16صفحہ 339تا340)
٭…٭…٭
’’ذلک قدر اللّٰہ و لا رآدّ لقدرہ وما قلت ھذاالقول من الھویٰ۔ ان ھو الا وحی من رب السمٰوٰت العلی۔ و اوحی الی ربی و وعدنی انہ سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض و مغاربھا۔تتموج بحورالحق حتی یعجب الناس حباب غواربھا۔‘‘
ترجمہ:’’ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور اس کی تقدیر کوئی ردّ نہیں کر سکتا…… اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کی اور مجھ سے وعدہ فرمایا کہ وہ میری مدد فرمائے گا یہاں تک کہ میرا امر زمین کے مشرقوں اور مغربوں تک پہنچ جائے گا اور سچائی کے سمندر موجیں ماریں گے یہاں تک کہ ان کی بلند موجوں کے بلبلے لوگوں کوحیران کر دیں گے۔‘‘(لجّۃ النور صفحہ 66تا67روحانی خزائن جلد 16صفحہ 408)
٭…٭…٭
’’حکم اللّٰہ الرحمن الخلیفۃ اللّٰہ السلطان۔ یوتی لہ الملک العظیم۔ وتفتح علی یدہ الخزائن۔ ذٰلک فضل اللّٰہ و فی اعینکم عجیب‘‘
عربی الہام کا ترجمہ :’’خدائے رحمٰن کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی آسمانی بادشاہت ہے۔ اس کو ملک عظیم دیاجائے گا اور خزینے اس کے لئے کھولے جائیں گے۔ یہ خدا کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ 92روحانی خزائن جلد 22صفحہ 94)
حاشیہ: ’’کسی آئندہ زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میںکشفی رنگ میں کنجیاں دی گئی تھیں مگران کنجیوں کا ظہور حضرت عمر فاروقؓ کے ذریعہ سے ہوا۔
خدا جب اپنے ہاتھ سے ایک قوم بناتاہے تو پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ ان کو لوگ پائوں کے نیچے کچلتے رہیں۔آخر بعض بادشا ہ ان کی جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں اوراس طرح پر وہ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاتے ہیں جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ہوا۔‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ 92حاشیہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 94حاشیہ)
اہل مکہ اور عرب اقوام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائیں گی
’’و انی اٰریٰ ان اھل مکۃ یدخلون افواجا فی حزب اللّٰہ القادر المختار۔ وھذا من رب السمآء و عجیب فی اعین اھل الارضین۔‘‘
ترجمہ: ’’اور میں دیکھتا ہوں کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھوں میں عجیب۔‘‘
(نورالحق حصہ دوم صفحہ 10روحانی خزائن جلد 8صفحہ 197)
’’و ان ربی قد بشّرنی فی العرب واَلْھَمَنِی ان اَمُونھم و اُرِیھم طریقھم و اُصْلِحَ لھم شُئونَھم۔‘‘(حمامۃ البشریٰ صفحہ 7روحانی خزائن جلد 7صفحہ 182)
ترجمہ: ’’اور میرے رب نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہا م کیا کہ میں ان کی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتائوں اور ان کاحا ل درست کروں۔‘‘
’’ان ارض دمشق تنیر و تشرق بدعوات المسیح الموعود بعد ما اظلمت بانواع البدعات۔‘‘
ترجمہ: ’’دمشق کی سرزمین منورہوگی اورروشن ہوگی مسیح موعود کی تبلیغ سے بعد اس کے کہ وہ مختلف بدعات کی وجہ سے اندھیری ہوگئی تھی۔‘‘(حمامۃ البشریٰ صفحہ 37مطبوعہ 1894ءروحانی خزائن جلد 7صفحہ 225)
فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ عارضی ہوگا
اخبار الحکم 27؍اکتوبر 1902ء میں لکھا ہے کہ
’’اس تذکرہ پر کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں پھر اس امر کی تحریک ہو رہی ہے کہ ارض مقدس کو ترکوں سے خرید لیاجاوے۔ فرمایا: اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ۔اس آیت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ الْاَرْض سے مراد شام کی سرزمین ہے۔ یہ صالحین کاورثہ ہے اور جو اَب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے۔ خداتعالیٰ نے یَرِثُھا فرمایا، یَمْلِکُھَا نہیں فرمایا۔ اس سے صاف پایا جاتاہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر کسی اَور کے قبضہ میں کسی وقت چلی جائے تو وہ قبضہ اس قسم کا ہے جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مُرتہن کودے دیتاہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے۔ ارض شام چونکہ انبیاء کی سرزمین ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (الحکم 27؍اکتوبر 1902ء)
مغربی ممالک اسلام کے نور سے منور کیے جائیں گے
’’طلوع شمس کاجو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اس پر …… ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جوایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتاہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا۔‘‘(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 515 مطبوعہ 1891ءروحانی خزائن جلد 3صفحہ 376تا377)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا
’’میں دیکھتاہوں کہ ایک بڑا بحر ذخّار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل پیچ کھاتا مغرب سے مشرق کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا۔‘‘(اخبار الحکم 17؍اپریل 1903ء )
’’جب ممالک مغربی کے لوگ فوج درفوج دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے تب ایک انقلابِ عظیم ادیان میں پیدا ہوگا اورجب یہ آفتاب پورے طور پر ممالک مغربی میں طلوع کرے گا تووہی لوگ اسلام سے محروم رہ جائیں گے جن پر دروازہ تو بہ کا بند ہے۔ یعنی جن کی فطرتیں بالکل مناسبِ حال اسلام کے واقعہ نہیں ……اُن کے دل سخت ہوجائیں گے اور ان کو توبہ کی توفیق نہیں دی جاوے گی۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 517روحانی خزائن جلد 3صفحہ 377تا378)
روس اور اس کے متعلقہ علاقوں کے بارہ میں بشارت
رؤیا: سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں نے دیکھا کہ زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آگیا ہے۔ وہ بڑا لمبااور خوبصورت ہے۔ پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بندوق ہے بلکہ اس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گویا بظاہر سونٹامعلوم ہوتاہے اور وہ بندوق بھی ہے۔ اور پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بُوعلی سینا کے وقت میں تھا اس کی تیر کمان میرے ہاتھ میں ہے۔ بو علی سینا بھی پاس ہی کھڑا ہے اور اس تیر کمان سے میں نے ایک شیر کو بھی شکار کیا۔‘‘(الحکم 31؍جنوری 1903ء صفحہ 15)
روایت شیخ عبدالکریم صاحب ولد شیخ غلام محمد صاحب جلد ساز کراچی، صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام
’’1904ء میں ایک روز سیرکے موقعہ پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’میں اپنی جماعت کو رشیاکے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتاہوں۔‘‘(رجسٹرروایات صحابہ جلد 13صفحہ 114)
مشرقی ممالک اورایشیائی اقوام کے بارہ میں پیشگوئیاں
’’مجھے یہ ……صاف لفظوں میں فرمایا گیاہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا۔ابھی وہ بچے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ ایک ہستی قادر مطلق موجودہے۔ مگر وہ وقت آتاہے کہ ان کی آنکھیں کھلیں گی اور زندہ خدا کو اس کے عجائب کاموں کے ساتھ بجزاسلام کے اور کسی جگہ نہ پائیں گے۔‘‘(اشتہار 12؍مارچ 1897ءمجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 341)
٭…٭…٭
’’سناتن دھرم والے صرف گزشتہ اوتاروں سے محبت نہیں رکھتے بلکہ اس کلجگ کے زمانہ میں وہ ایک آخری اوتار کے بھی منتظر ہیں جوزمین کو گناہ سے پاک کردے گا۔ پس کیا تعجب ہے کسی وقت خدا کے نشانوں کو دیکھ کر سعاد ت مند اُن کے خدا کے اس آسمانی سلسلہ کو قبول کر لیں کیونکہ ان میں ضد اور ہٹ دھرمی بہت ہی کم ہے۔‘‘(سناتن دھرم صفحہ 8مطبوعہ 1903ء روحانی خزائن جلد 19صفحہ 475حاشیہ)
٭…٭…٭
’’آریہ ورت کے محقق پنڈت بھی کرشن اوتار کازمانہ یہی قرار دیتے ہیں اوراس زمانہ میں اس کے آنے کے منتظر ہیں…… وہ لوگ ابھی مجھ کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ زمانہ آتاہے …… کہ مجھے شناخت کر لیں گے کیونکہ خدا کا ہاتھ انہیں دکھائے گا کہ آنے والا یہی ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 85تا86مطبوعہ 1906ءروحانی خزائن جلد 22صفحہ 522تا523)
٭…٭…٭
ہندو راجپوتوں اورڈوگروں کے احمدی ہونے کی پیشگوئی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 4؍نومبر1904ء کو ایک رؤیا دیکھی:
’’۲۵؍شعبان ۱۳۲۳ھ بروز جمعہ مقام سرائے بٹالہ بوقت واپسی از سیالکوٹ خواب میں مَیں نے دیکھاکہ راجہ گلاب سنگھ مہاراجہ کشمیر میرے پیر دبا رہاہے۔ پھر دیکھا کہ بہت سے زیورات سونے کے جمع ہو رہے ہیں اور مولوی نورالدین صاحب نے پوچھا ہے کہ یہ کیسے زیورات ہیں۔ میں نے کہا کہ گوالیار کے راجہ نے خیرات کے لئے بھیجے ہیں۔‘‘(تذکرہ ایڈیشن سوم، اکتوبر 1969ء صفحہ 521)
٭…٭…٭
’’جیساکہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود کرکے بھیجا ہے ایسا ہی میں ہندوئوں کے لئے بطوراوتار کے ہوں…… جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایساہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جوہندومذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کے رُو سے میں وہی ہوں…… وہ خدا جو زمین و آسمان کاخدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تُو ہندوئوں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے……۔
راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھاجس کی نظیر ہندوئوں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے روح القدس اترتا تھا۔ …… جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیاگیا……۔
خدا کا وعدہ تھاکہ آخری زمانہ میں اس کا بروز یعنی اوتار پیدا کرے سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا……۔ میں کرشن سے محبت کرتاہوں کیونکہ میں اس کا مظہر ہوں۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ صفحہ 33تا34مطبوعہ 1905ءروحانی خزائن جلد 20صفحہ 228تا229)
٭…٭…٭
’’ دو دفعہ ہم نے رؤیا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں اور ایک دفعہ الہام ہوا:
’’ہے کرشن رودّر گوپال تیری مہما ہوتیری اَسْتَتِی گیتا میں موجودہے۔ لفظ رودّر کے معنی نذیر اور گوپال کے معنی بشیر کے ہیں۔‘‘(اخبار الحکم 24؍اپریل 1902ء)
٭…٭…٭
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رؤیا
’’ایک بڑا تخت مربع شکل کا ہندوئوں کے درمیان بچھا ہوا ہے جس پر میں بیٹھا ہوں۔ ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کر کے کہتاہے کہ کرشن جی کہاں ہیں؟ جس سے سوال کیا گیا وہ میری طرف اشارہ کر کے کہتاہے کہ یہ ہے۔ پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذر کے طور پر دینے لگے اتنے میں ہجوم میں سے ایک ہندو بولا ہے کرشن جی رودّر گوپال۔یہ عرصہ دراز کی رؤیا ہے۔‘‘(اخبار البدر 29؍اکتوبر و 8؍نومبر 1903ء)
٭…٭…٭
’’ لوگ بزرگوں کی تعلیم کو بوجہ امتداد زمانہ بھول جاتے ہیں اور ان کی سچی تعلیموں میں بہت کچھ بے جا تصرف کر لیا کرتے ہیں اور مرور زمانہ سے ان کی اصلی تعلیم پر سینکڑوں پردے پڑ جاتے ہیں اور حقیقت حال دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہو جاتی ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ ان کامذہب موجودہ مذہب اہلِ ہنود سے بالکل مختلف اور توحید کی سچی تعلیم پر مبنی تھا…… ایک بارہم نے کرشن جی کو دیکھا کہ وہ کالے رنگ کے تھے اور پتلی ناک، کشادہ پیشانی والے ہیں۔ کرشن جی نے اٹھ کر اپنی ناک ہماری ناک سے اور اپنی پیشانی ہماری پیشانی سے ملا کر چسپاں کر دی۔‘‘
(اخبارالحکم 6؍مارچ 1908ء)
٭…٭…٭