’’خلافت تسکینِ جاں‘‘ (قسط اول)
(محترم منیر احمد جاویدصاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی تقریر سے ماخوذ ایک ایمان افروز تحریر)
محترم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 4؍دسمبر 2021ء کو منعقد ہونے والے ریفریشر کورس مبلغین جماعت احمدیہ کینیڈا سے بعنوان ’’خلافت تسکینِ جاں ’’ چند ایمان افروز واقعات پر مشتمل آن لائن خطاب کیا۔ اس خطاب سے ماخوذ ایک تحریر قارئین الفضل انٹرنیشنل کے ازدیادِ ایمان کے لیے پیش ہے۔
محترم منیر احمد جاوید صاحب فرماتے ہیں:
مجھے آج آپ دوستوں کے سامنے ’’خلافت تسکینِ جاں ’’ کے موضوع پہ کچھ باتیں کرنی ہیں۔ سب سے پہلے تو میں خلفائے راشدین کے ارفع مقام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید جن کی ذاتِ گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی کی پاک نسل اور خاندان سادات کے چشم و چراغ تھے، انہوں نے خلافت کے متعلق اپنی ایک کتاب میں یہ ذکرکیا تھا کہ ’’امامت تامہ کو خلافتِ راشدہ، خلافت علیٰ منہاج النبوۃ اور خلافتِ رحمت بھی کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ جب امامت کا چراغ شیشۂ خلافت میں جلوہ گر ہوا تو نعمت ربانی بنی نوع انسان کی پرورش کے لیے کمال تک پہنچی اور کمالِ روحانی اسی رحمت رحمانی کے کمال کے ساتھ نورٌ علٰی نور آفتاب کے مانند چمکا۔ ’’(منصبِ امامت از حضرت شاہ اسماعیل شہید۔ مترجم حکیم محمد حسین علوی صفحہ 112۔ حاجی شریف اینڈ سنز لاہور 2008ء)’’پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سربلند ہوتی ہے۔ …ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تخت خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے۔ اور وہی امام اس زمانے کا خلیفہ راشد ہے۔ ’’(ایضاً صفحہ 117)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمانے میں ہمارے پاس خلیفۂ راشد حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود باجود موجود ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی کتاب ’’منصبِ امامت’’ میں ذکر کیا ہے، اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے وہ یہ بات بیان کرتے ہیں کہ ’’خلیفۂ راشد سایۂ رب العالمین، ہمسایۂ انبیاء و مرسلین، سرمایۂ ترقیٔ دین اور ہم پایۂ ملائکہ مقربین ہے… اس کا دل تجلیٔ رحمان کا عرش اور اس کا سینہ رحمت وافرہ اور اقبال جلالت یزداں کا پرتو ہے۔ اس کی مقبولیت جمال ربانی کا عکس ہے اور اس کا قہر تیغِ قضا۔ اور مہر عطیات کا منبع ہے۔ اس سے اعراض اعراضِ تقدیر اور اس کی مخالفتِ مخالفت رب قدیر ہے۔ جو کمال اس کی خدمت گزاری میں صرف نہ ہو، خیال ہے پرخلل اور جو علم اس کی تعظیم و تکریم میں مستعمل نہ ہو، سراسر وہم باطل و محال ہے۔ جو صاحبِ کمال اس کے ساتھ اپنے کمال کا موازنہ کرے وہ مشارکت حق تعالیٰ پر مبنی ہے۔ اہل کمال کی علامت یہی ہے کہ اس کی خدمت میں مشغول’’ (یعنی اس خلیفہ راشد کی خدمت میں مشغول) ’’اور اس کی اطاعت میں مبذول رہیں۔ اس کی ہمسری کے دعویٰ سے دستبردار رہیں اور اسے وارثِ رسولؐ شمار کریں۔ ’’(ایضاً صفحہ 121-122)
اس اقتباس کو پیش کرنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ جتنی باتیں شاہ صاحب نے اپنے اس اقتباس میں درج کی ہیں آج کے دَور میں ان سب کا اظہار، ان سب کا پرتو، ان سب کا جلوہ خلافتِ احمدیہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی شان کے ساتھ ہم ہر لمحہ اور ہر آن دیکھتے ہیں اور
خلافتِ رابعہ کے زمانہ سے لے کے اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے خدا تعالیٰ نے جو یہ توفیق عطا فرمائی تو میں اس بات کا گواہ ہوں، شاہد ہوں کہ جتنی صفات شاہ صاحب نے اپنے اس اقتباس میں خلیفۂ راشد کی بیان کی ہیں ان سب صفات اور ان سب مقامات اور مناصب کے ساتھ ہمارے خلیفۃ المسیح اور ان کا وجودمزین ہیں۔
اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحبتِ صالحین کے متعلق مختلف مواقع پر بہت ارشادات فرمائے ہیں۔ ایک چھوٹا سا اقتباس اس وقت میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ(التوبہ: 119) راست بازوں کی صحبت میں ’’ رہو تاکہ ان کی صحبت میں ’’رہ کر کے تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہارا خدا قادر ہے۔ بینا ہے۔’’ دیکھنے والا ہے، ’’ سننے والا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے بندوں کو صدہانعمتیں دیتا ہے۔ ’’(ملفوظات جلد 6 صفحہ 62)
جماعتِ احمدیہ اس بات کی شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ صحبتِ صالحین عملی، بالمشافہ بھی ہوتی ہے، ملاقاتوں کے ذریعہ اور خطوط کے ذریعہ، پیغامات کے ذریعہ اور آج کل آن لائن میٹنگز کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے جماعت کو مواقع مہیا کیے ہیں کہ وہ صحبتِ صالحین سے فیضیاب ہو رہی ہے اور اس کے نیک اثرات سب روحوں پر جو نیکی اور سعادت کی فطرت اپنے اندر رکھتی ہیں یکساں طور پر اثر انداز ہوتے ہیں خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے یا علاقے میں رہ رہی ہوں۔ اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
کبابیر سے ہمارے ایک ڈاکٹر دوست اور ان کی اہلیہ بیان کرتے ہیں کہ دس سال پہلے آج کے دن یعنی 11/11/16 کو ہم دونوں میاں بیوی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ اس تاریخ میں دو دفعہ گیارہ کا ہندسہ آتا ہے جو ہمیں حضور کا الہام ’’بعد گیارہ’’ یاد کراتا ہے۔ یہ بات بیان کرنے کے بعد وہ حضور کی خدمت میں تحریر کرتے ہیں: سیدی! احمدیت سے پہلے نہ ہمیں خلیفہ کے مقام کا ادراک تھا، نہ اس کے معانی کا پتہ تھا، نہ خلیفہ وقت کی ذمہ داریوں کا کچھ اندازہ تھا۔ بس یہ ایمان تھا کہ ہمارا کسی دن کوئی خلیفہ ہو گا۔ بس صرف یہ ایمان تھا لیکن
جب ہم نے آپ کے دستِ مبارک سے خیر و برکت کے فیوض پھوٹتے مشاہدہ کیے تو ہمیں خلیفہ کا معنی سمجھ آیا اور خلافت کے لیے اپنی محبت کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔
اس لیے ہم ہر روز خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں خلیفہ وقت کی محبت میں بڑھائے۔ اس جماعت کی بکثرت برکات ہیں۔ جماعتی کتب خاص طور پر حضور علیہ السلام کی کتب ہمیں مقناطیس کی طرح کھینچتی ہیں۔ ہم جب بھی حضور کی کوئی بات پڑھتے ہیںفوراً خود پر نافذ کرتے ہیںاور اہتمام سے اپنے اقوال و افعال کی طرف توجہ کرتےہیں۔ آج کے دن ہمیں تجدید بیعت کر کے خوشی ہو رہی ہے۔ مولیٰ کریم آپ کی تائیدو نصرت فرمائے اور کامیاب و کامران فرمائے۔
پھر مصر سے ایک دوست ہیں ان کے جذبات بھی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ حضور کی خدمت میں لکھتے ہیں کہ سیدی! اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ خلافت کے زیر سایہ کام کریں اور ہمیں نورِ خلافت نصیب رہے۔ میں نے آپ کی دعا کی برکت جیسی کوئی برکت دنیا میں نہیں دیکھی۔
میرا ایمان ہے کہ واقعی خلافت دنیا میں کامیابی اور خدا کے حضور قبول ہونے کا راز ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ خود بھی بھٹکے اور ظاہری عبادت کے باوجود شیطان نے انہیں بہکایا۔ میرا خیال ہے وہ خلافت کا احترام نہیں کرتے تھے اور انہیں خلافت کی کما حقہ قدر نہ تھی۔ دوسری طرف میں نے بالکل سادہ سے لوگ دیکھے ہیں لیکن ان کا ایمان پہاڑوں جیسا راسخ ہے۔ یہ ان کی خلافت اور خلیفہ وقت سے محبت کی وجہ سے ہے۔ خلافت ہی خدا تعالیٰ تک پہنچانے والی ہے۔ خلافت نبوت کی طرح خدا کے حضور قبولیت کا راز ہے۔ مولیٰ کریم ہمیں ہمیشہ حضور کی خدمت کرنے اور ان کے لیے دعائیں کرنے کی توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ حضور کو صحت و عافیت سے رکھے اور غلبہ عطا فرمائے۔
یہ دو اقتباس میں نے اس ضمن میں پیش کیے ہیں کہ شاہ صاحب نے جو باتیں اپنے اقتباس میں بیان کی تھیں اس کا اظہار آج بھی احمدی محسوس کرتے اور دیکھتے اور بیان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واقعی خلافت خدا تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت ہے اوراس کے ساتھ جتنا انسان اپنا تعلق مضبوط کرتا ہے اتنا ہی اس کو روحانی رفعتیں اور علم اور بلندیاں اور فیوض عطا ہوتے ہیں۔
ایک اور عربی دوست جو گھانا سے بیان کرتے ہیں کہ میں سوچ رہا تھا اور پریشان تھا کہ کیا کورونا کے بعد ہم حضور سے مل سکیں گے اور مصافحہ اور معانقہ ہو سکے گا۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی لیکن جب یہ خط لکھنے بیٹھا تو یہ سب خیالات غائب ہو گئے۔ ہمیں حضور کی سلامتی اور صحت مقدم ہے۔ بہرحال یہ خط اپنے جذبات محبت کے اظہار کے لیے لکھا ہے۔ اگرچہ گذشتہ خط میں آپ نے جو دعائیں دیں وہ ساری عمر کے لیے کافی ہیں لیکن پھر بھی مزید دعاؤں کا لالچ ہے۔ اپنے لیے اور اپنے اہل اور تمام متلاشیان حق کے لیے دعا کی درخواست ہے کہ جلد انہیں حضور ایدہ اللہ کے قافلہ میں شمولیت کی توفیق ملے۔
پھر ایک دوست تیونس سے ہیں وہ حضور کی خدمت میں لکھتے ہیں: آپ کی ملاقات اور معانقہ کی بڑی تمنا ہے لیکن کوئی چارہ نہیں۔ انتظار لمبا ہو گیا ہے اور نفس اس محرومی پر آنسو بہاتا ہے۔ قبل ازیں خواب میں آپ کے دیدار سے صبر آ جاتا ہے لیکن اب میرے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی مجھے محروم کر دیا ہے۔ اے خدا! اگر یہ شامت اعمال ہے تو اسے اٹھا لے اور اگر تُو نے مجھے خلیفہ وقت سے رو برو ملنے سے محروم رکھنا ہے تو میری یہ عمر اور یہ زندگی لے لے۔ اگر خلیفہ وقت اور خدا کے شیر کی ملاقات سے محروم رہنا ہے تو یہ زندگی کس کام کی۔
جو باتیں انہوں نے لکھی ہیں بالکل ایسے ہی ہے اور ان مومنین کی جو حضور سے ملاقاتوں کے لیے تڑپتے ہیں اور ملاقات کے مواقع میسر نہیں آتے اور فیوض و برکات سے بظاہر اپنے آپ کو محروم سمجھ رہے ہوتے ہیں یہی کیفیت ہوتی ہے لیکن ایسا اس رنگ میں نہیں ہے کہ
خلافت ایک ایسا زندہ شجر ہے کہ جو اس سے پیوستہ رہتا ہے خواہ وہ خطوط کے ذریعہ ہو خواہ وہ حضور کے لیے دعائیں کر کے اپنے آپ کو حضور کی مجلس میں رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو فیوض و برکات سے محروم نہیں کرتا۔
سینیگال سے ایک افریقن دوست لکھتے ہیں: آپ کا خطبہ جب بھی سنتا ہوں دل میں ایک عجیب لذت کا احساس ہوتا ہے۔ دعا کریں کہ یہ احساس ہمیشہ رہے۔ خطبہ سن کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ مجھے آپ سے محبت ہے۔ دعا کریں کہ خدا رسول اور مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کی محبت مجھے دنیا و مافیہا کی محبت سے بڑھ کر عطا کرے۔ آپ کی دعا سے میری تجارت میں بھی اب بہت بہتری آ گئی ہے۔ مزید دعاؤں کی درخواست ہے۔
اب ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ حضرت صاحب جب سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے تو حضور کی خواہش تھی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب 1955ء میں یورپ کے سفر کے دوران کچھ دنوں کے لیے سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں قیام فرمایا تو وہاں آپؓ جس مکان میں ٹھہرے وہ مکان دیکھیں۔ لیکن پہلے تو اس مکان کا پتہ نہیں چلتا تھا اور پھر جب پتہ چلا تو اس کا جو مالک مکان تھا وہ کوئی بہت متعصّب قسم کا انسان تھا اور وہ اس بات پہ راضی نہیں تھا کہ اس مکان کو وہ کسی کو دیکھنے دے۔ بہرحال جماعت نے حضور کی خواہش کی تعمیل میں ایڈریس وغیرہ ڈھونڈا، پتہ کیا اور اس مکان کو traceکر لیا اور پھر اس آدمی سے خطوں کے ذریعہ، ٹیلیفون کے ذریعہ گفتگو شروع ہوئی لیکن وہ مسلسل ٹالتا چلا گیا اور کسی صورت میں بھی وہ راضی نہیں ہو رہا تھا کہ مکان دکھائے۔ بہرحال جماعت نے حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ حضور اس طرح مکان تو ہم نے traceکر لیا ہے لیکن وہ آدمی جو اس میں رہ رہا ہے، مالک ہے وہ دیکھنے نہیں دے رہا اور اجازت نہیں دے رہا۔ تو حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے کہ یہ کام آسان ہو اور ہم حضور کی خواہش کی تکمیل کر سکیں۔ چنانچہ جب حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی گئی تو اس شخص کا دل خدا نے ایسا بدلا اور وہ ایسا نرم پڑ گیا کہ وہ پہلی سٹیج پہ اس شرط پہ مکان دکھانے کے لیے راضی ہو گیا کہ صرف پانچ لوگ آئیں گے اور وہ بھی جوتیاں گھر کے باہر اتار کے پھر ہی اندر داخل ہو سکتے ہیں اس کے بغیر داخل نہیں ہو سکیں گے۔ بہرحال جماعت نے کہا کہ ٹھیک ہے چلو پانچ ہی سہی، جوتیاں بھی اتار دیں گے کوئی بات نہیں مکان تو دکھا دیں۔
چنانچہ جب حضور 2010ء میں سوئٹزر لینڈ دوبارہ تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کی برکت سے اس مکان کے دیکھنے کا انتظام کر دیا اور جب قافلہ باہر آیا، گاڑیاں پارک ہو رہی تھیں تو وہ اوپر سے دیکھ رہا تھا اور
اس کی نظر جب حضور کے پُرنور چہرے پر پڑی تو اسی وقت وہ بھاگتے ہوئے نیچے اترا اور مکان کے بیرونی دروازے کے سامنے حضور کے استقبال کے لیے بڑے مؤدبانہ طریقے سے، احترام کے ساتھ کھڑا ہو گیا
اور اس کے رویے میں جو پہلے اتنی سردمہری پائی جاتی تھی وہ ختم ہو کے گرم جوشی میں تبدیل ہو چکی تھی اور نہایت ادب کے ساتھ حضور کو ملا اور پھر اپنا گھر دکھانے کے لیے لے گیا اور وہ جو پانچ آدمیوں کی شرط لگا رہا تھا اس کو گنتی کی ہوش ہی نہیں تھی کہ کتنے لوگ اندر آ رہے ہیں اور کون کون آ رہا ہے اور کہاں ان کی جوتیاں ہیں اور کہاں سب کچھ۔ تو خدا تعالیٰ اس رنگ میں بھی دعائیں پوری کرتا ہے اور خدا کے خلیفہ کی جو خواہش ہے تو اللہ تعالیٰ بڑی شان سے اس کی قبولیت کے سامان پیدا کرتا ہے۔
ابھی پیچھے آپ کے ہاں کینیڈا میں خدام الاحمدیہ کی حضور کے ساتھ آن لائن میٹنگز ہوتی رہی ہیں، ابھی آئندہ اَور بھی ہونی ہیں تو جب میٹنگز کے لیے صدر خدام الاحمدیہ نے حضور کی خدمت میں خط لکھا اور حضور کی طرف سے ان کی ملاقاتوں کی منظوری کا خط گیا تو وہ کہتے ہیں مجھے بڑی خوشی ہوئی لیکن ساتھ ہی ڈر بھی پیدا ہوا کہ ہم اس کو بخوبی سر انجام دے بھی سکیں گے کہ نہیں لیکن بہرحال اللہ نے فضل کیا، حضور کی دعاؤں کے صدقے ہی سارے کام مکمل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ملاقاتوں کی جو درخواست کی تھی اس میں ہم نے اپنی طرف سے نیشنل عاملہ کی میٹنگ کو سب سے بعد میں رکھا تھا اور شروع میں دوسری مجالس اور دوسری میٹنگز رکھی تھیں لیکن حضور کی طرف سے جب منظوری آئی تو اس میں مجلس عاملہ کی میٹنگ کو سب سے پہلے رکھا گیا اور باقی مجالس بعد میں۔ تو کہتے ہیں کہ اس سے مجھے یہ پریشانی پیدا ہوئی کہ کیونکہ سب سے پہلی ہماری ملاقات ہے وہیں اسی میں کوئی ایسا مسئلہ یا ایسی کوئی مشکل پیش نہ آ جائے کہ جس کی وجہ سے ہم باقی ملاقاتوں سے محروم رہ جائیں۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ میں درود شریف اور استغفار اور توبہ کرتے ہوئے مجلس میں حضور کے انتظار میں بیٹھا تھا تو جیسے ہی حضور تشریف لائے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ صدر صاحب! کیا بات ہے آپ کے بال اور داڑھی سفید ہو گئی ہے لگتا ہے زیادہ بوجھ اٹھا لیا ہے۔ تو صدر صاحب کہتے ہیں
حضور کے ان کلمات نے ایسا میرے دل کو اطمینان بخشا کہ وہ خوف، ڈر سب کچھ جاتا رہا اور ساری مجلس بہت کامیابی سے اور بہت ہی احسن رنگ میں پایہ تکمیل کو پہنچی
اور پھر ان ملاقاتوں کا جو حال خدام، اطفال اوران کے والدین نے بیان کیا وہ یہ تھا کہ ہمارے دل میں اس سے ایک نیا جذبہ ایمان پیدا ہوا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے احسان مند ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے آقا سے اس قدر مشکل وقت میں بھی ملاقات کا موقع عطا فرمایا۔ بعض والدین کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں بچوں میں خلافت سے محبت کا پہلے اتنا اندازہ نہیں تھا لیکن اس بات سے اندازہ ہوا کہ ملاقات سے ایک رات پہلے بچوں نے سونے سے پہلے اپنے کپڑے تیار کیے۔ الارم لگائے، صبح اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کی۔ صدقہ دیا اپنے پاس سے پیسے ڈال کے اور ہم سے بھی لے کے صدقے دیے اور صبح ہمیں جگایا کہ اٹھیں اٹھیں ہمیں کلاس میں لے کے چلیں ورنہ ہم کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔
تو یہ اللہ تعالیٰ نے خلافت اور جماعت کے درمیان جو محبت اور پیار کا رشتہ استوار فرمایا ہوا ہے اس کے اظہار ہیں جو ان مجالس کے ذریعہ سے آجکل بڑی کثرت سے ہو رہے ہیں۔ اور یہ جو پیار کے یہ اظہار ہیں میرے بھائیو یہ خلافت ہی ہے جو دور اور نزدیک بسنے والے اپنے پیاروں کی احوال پرسی کے لیے کبھی نمائندے بھجوا کر اور کبھی خود ان کی مجلسوں میں آ کے اور کبھی محبت اور دعاؤں سے معمور تحفے بھجوا کر ان کی تسکینِ جاں کے سامان کرتی ہے۔ احبابِ جماعت کے حالات جاننے اور انہیں یہ مضمون سمجھانے کے لیے کہ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ الْجَمَاعَۃِ کہ خدا کا ہاتھ جماعت کے اوپر ہے صرف حضور کینیڈا میں ہی نہیں بلکہ پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اپنے نمائندگان بھجواتے رہتے ہیں اور انہیں ہدایت یہ ہوتی ہے کہ گھر گھر پہنچ کر میرا سلام اور میری طرف سے تحفہ پیش کرنا ہے اور اس سے لوگوں کو اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے جو تسکین ملتی ہے کہ حضور کا نمائندہ آیا ہے اور وہ آ کے بچوں سے، بڑوں سے سب سے سلام دعا پہنچانے کے بعد تحائف پیش کر رہا ہے تو یہ چیز جو ہے یہ ایک اور انداز ہے جس سے احبابِ جماعت کو تسکین نصیب ہوتی ہے اور ان کو یہ اندازہ اور یہ علم ہوتا ہے کہ ہم اللہ کے فضل سے عافیت کے ایک حصار میں بیٹھے ہیں اور ہمارا ایک والی ہے جو بظاہر ہم سے دور ہے لیکن وہ ہمارے لیے دعائیں کرتا ہے اور ہمارے لیے درد رکھتا ہے اور ہماری فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
یہ تمہید میں نے اس لیے بیان کی ہے ابھی پچھلے دنوں میں ہی حضور نے اپنا ایک نمائندہ آپ کے ملک کینیڈا میں عربوں کا حال پوچھنے کے لیے بھیجا تھا کہ وہاں عربوں کے کیا حال احوال ہیں۔ وہ گئے، وہاں عربوں سے ملے، معلومات لیں، حضور کا سلام اور دعا کا پیغام پہنچایا تو اس وقت ایک بہن ہیں اس نے حضور کی خدمت میں خط لکھ کے اس بات کا اظہار کیا کہ آپ نے اپنا نمائندہ بھجوایا میں اس کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ کئی ایک پریشانیوں کی وجہ سے مجھے ایسی ملاقات کی ضرورت تھی پھر چونکہ انہیں آپ نے ہمارا حال پوچھنے کے لیے بھجوایا اس لیے ان سے مل کر بڑا سکون ملا۔ جب میں بول رہی تھی تو وہ میری باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں اپنی پریشانیاں آپ کو بتا رہی ہوں۔ میں اپنے آنسو روک نہیں سکی۔ پھر اجتماعی دعا کے وقت میں نے خدا کو اپنے قریب محسوس کیا جبکہ میں اس سے دور تھی۔ اس لیے حضور میں آپ کا خاص شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔
(جاری ہے)