متفرق مضامین

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 14؍جنوری 2022ء

سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشادفرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: کہ گذشتہ سے پہلے خطبہ میں حضرت ابوبکرؓ کا ذکرہورہاتھا۔ اس میں سراقہ کا یہ ذکر ہواتھا کہ وہ بھی انعام کے لالچ میں آنحضرتﷺ کو پکڑنے کی نیت سےنکلا تھالیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے اس کے آگے روکیں کھڑی کردیں تو اس نے اس وقت آنحضرتﷺ سےدرخواست کی کہ جب آپؐ کی حکومت ہو تو مجھے امان دیجیے اورایک تحریرلکھوائی۔ اس ضمن میں بعض روایات ہیں۔

سوال نمبر3: سراقہ کے واپس لوٹتے ہوئے رسول اللہﷺ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کیا پیشگوئی کی اور وہ کب پوری ہوئی؟

جواب: فرمایا: ایک روایت کے مطابق اس کے واپس لوٹتے ہوئے نبی اکرمﷺ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: سراقہ!تیرا کیا حال ہو گا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے۔ سراقہ حیرت زدہ ہو کر پلٹا اور کہا کہ کسریٰ بن ہُرمُز؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہی کسریٰ بن ہُرمز۔ چنانچہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں کسریٰ کے کنگن اور اس کا تاج اور اس کا کمر بندلایا گیا تو حضرت عمرؓ نے سراقہ کو بلایا اور فرمایا: اپنے ہاتھ بلند کرواور انہیں کنگن پہنائے اور فرمایا کہ کہو تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے کسریٰ بن ہُرمُز سے یہ دونوں چھین کر عطا کیں۔

سوال نمبر4: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سراقہ کےرسول اللہﷺ کا پیچھا کرنے کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ’’ابھی آپ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑائے ان کے پیچھے آرہا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر کہا۔ یارسول اللہؐ !کوئی شخص ہمارے تعاقب میں آرہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ کوئی فکر نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ تعاقب کرنے والا سراقہ بن مالک تھا جو اپنے تعاقب کا قصہ خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے کہ جب آنحضرتﷺ مکہ سے نکل گئے تو کفارِ قریش نے یہ اعلان کیا کہ جو کوئی بھی محمد (ﷺ ) یا ابو بکرؓ کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے اس اس قدر انعام دیا جائے گا اور اس اعلان کی انہوں نے اپنے پیغام رسانوں کے ذریعہ سے ہمیں بھی اطلاع دی۔ ’’یہ سراقہ کہتا ہے۔ ’’اس کے بعد ایک دن میں اپنی قوم بَنُومُدْلِجْ کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ قریش کے ان آدمیوں میں سے ایک شخص ہمارے پاس آیا اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا کہ مَیں نے ابھی ابھی ساحلِ سمندر کی سمت میں دور سے کچھ شکلیں دیکھی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھی ہوں گے۔ سراقہ کہتا ہے کہ مَیں فوراً سمجھ گیا کہ ضرور وہی ہوں گے۔ ’’پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے وہی تفصیل بیان کی ہے جو سراقہ کے تعاقب کے وقت اور فال اس کے خلاف نکلنے اور اس کے گھوڑے کے دھنسنے کے بارے میں بیان ہو چکی ہے۔ بہرحال سراقہ کہتا ہے’’…اس سرگذشت کی وجہ سے جو میرے ساتھ گذری تھی میں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور یہ کہ بالآخر آنحضرتﷺ غالب رہیں گے۔ چنانچہ میں نے صلح کے رنگ میں ان سے کہا کہ آپؐ کی قوم نے آپؐ کو قتل کرنے یا پکڑ لانے کے لیے اس اس قدر انعام مقرر کر رکھا ہے اور لوگ آپؐ کے متعلق یہ یہ ارادہ رکھتے ہیں اور میں بھی اسی ارادے سے آیا تھا مگر اب میں واپس جاتا ہوں۔ ’’

سوال نمبر5: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سراقہ کےرسول اللہﷺ کا پیچھا کرنے کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ’’انہوں نے’’یعنی مکہ والوں نے ’’اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد(رسول اللہﷺ ) یا ابوبکرؓ کو زندہ یا مردہ واپس لے آئے گا اس کو سواونٹنی انعام دی جائے گی اوراس اعلان کی خبر مکہ کے اِردگرد کے قبائل کو بھجوا دی گئی۔ چنانچہ’’اس وقت ’’سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپؐ کے پیچھے روانہ ہوا۔ تلاش کرتے کرتے اس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا۔ جب اس نے دو اونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھی ہیں تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے دوڑا دیا۔ ’’پھر آپؓ نے وہ سارا واقعہ بیان کیا ہے جو سراقہ کے گھوڑے کا ٹھوکر کھا کر گرنے کا اور فال نکالنے کا تھا۔ پھر آپ کہتے ہیں۔ سراقہ کہتا ہے کہ’’…رسول کریمﷺ وقار کے ساتھ اپنی اونٹنی پر سوار چلے جا رہے تھے۔ انہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا لیکن ابوبکرؓ (اِس ڈر سے کہ رسول کریمﷺ کو کوئی گزند نہ پہنچے) بار بار منہ پھیر کر مجھے دیکھتے تھے’’۔

سوال نمبر6: سراقہ کی نسبت آپﷺ کی پیشگوئی کے پورا ہونے کی بابت حضرت مصلح موعودؓ نے کیا بیان فرمایاہے؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ’’جب سراقہ لوٹنے لگا تو معاً اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالات آپؐ پر غیب سے ظاہر فرمادئیے اور ان کے مطابق آپؐ نے اسے فرمایا۔ سراقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا کسریٰ بن ہُرمز شہنشاہِ ایران کے کنگن؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ! آپؐ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی۔ سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آگیا۔ رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے۔ اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دئیے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلہ میں کچلے گئے۔ کسریٰ کا دارالامارة اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ جو مال اس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضہ میں آیا اس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسریٰ ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا۔ سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اِس واقعہ کو جو رسول کریمﷺ کی ہجرت کے وقت اسے پیش آیا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اِس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہﷺ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ سراقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ حضرت عمرؓ کے سامنے جب اموالِ غنیمت لا کر رکھے گئے اور ان میں انہوں نے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خد اکے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا۔ وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپؐ کے پیچھے اِس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچا دیں تو وہ سو اونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اس وقت آپؐ کا سراقہ سے کہنا۔ سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ کتنی بڑی پیشگوئی تھی۔ کتنا مصفٰی غیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے سامنے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ انہوں نے کہا سراقہ کو بلاؤ۔ سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں۔ سراقہ نے کہا اے خدا کے رسول کے خلیفہ! سونا پہننا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺکو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا۔ سراقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ’’

سوال نمبر7: سراقہ نےآپﷺ کی تلاش میں آنے والے قریش کے قافلے کے ساتھ کیا برتاؤکیا؟

جواب: فرمایا: واپسی پر ایک قافلے نے جو قریش نے ہی آپ کی تلاش میں بھیجا تھا سراقہ سے آپؐ کے قافلے کے متعلق پوچھا لیکن سراقہ نے نہ صرف یہ کہ آپﷺ کے قافلے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا بلکہ اس طرح کی گفتگو کی کہ تعاقب کرنے والے واپس لَوٹ گئے۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دوران ہجرت اُمّ مَعْبَدکی بکری کی نسبت کس خارق عادت امرکاذکرفرمایا؟

جواب: فرمایا: اُمّ مَعْبَد ایک بہادر اور مضبوط خاتون تھیں۔ وہ اپنے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور وہاں سے گزرنے والوں کو کھلاتی پلاتیں۔ آپؐ اور آپ کے ساتھیوں نے اس سے گوشت اور کھجوروں کے متعلق پوچھا تا کہ یہ اس سے خرید سکیں لیکن اس کے پاس ان میں سے کوئی چیز نہ تھی۔ اس وقت اُمّ مَعْبَدکی قوم محتاج اور قحط زدہ تھی۔ اُمّ مَعْبَدنے کہا اگر ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم تم لوگوں سے اسے دور نہ رکھتے۔ رسول اللہﷺ کو خیمے کے ایک کونے میں بکری نظر آئی تو آپؐ نے پوچھا اے اُمّ مَعْبَد! یہ بکری کیسی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ یہ ایک ایسی بکری ہے کہ جسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے رکھا ہوا ہے۔ یعنی اس میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ ریوڑ کے ساتھ باہر چرنے جا سکے۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا اس میں دودھ ہے؟ اس نے کہا: یہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ اس میں دودھ ہو۔ آپﷺ نے پوچھا کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہ لوں؟ اس نے کہا کہ اگر آپ کو اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوہ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے وہ بکری منگوائی اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور اللہ عزّوجلّ کا نام لیا اور اُمّ مَعْبَدکے لیے اس کی بکری میں برکت کی دعاکی۔ بکری آپ کے سامنے آرام سے کھڑی ہو گئی اور اس نے خوب دودھ اتارا اور جگالی شروع کر دی۔ پھر آپؐ نے ان سے ایک برتن منگوایا جو ایک جماعت کو سیر کر سکتا تھا۔ اس میں اتنا دودھ دوہا کہ جھاگ اس کے اوپر تک آگئی۔ پھر اُمّ مَعْبَدکو پلایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئیں۔ پھر آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ وہ بھی سیر ہو گئے۔ ان سب کے آخر میں آپؐ نے خود نوش کیا اور فرمایا: قوم کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے۔ پھر کچھ وقفہ کے بعد آپ نے اس برتن میں دوبارہ دودھ دوہا یہاں تک کہ وہ بھر گیا اور اسے اُمّ مَعْبَد کے پاس چھوڑ دیا۔ پھر آپؐ نے وہ بکری خریدی اور سفر کے لیے نکل پڑے۔

سوال نمبر9: آنحضرتﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کی دوران ہجرت کس صحابیؓ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے کیا نذرانہ پیش کیا؟

جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ ابھی راستے میں تھے کہ انہیں حضرت زبیرؓ ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلے کے ساتھ شام سے تجارت کر کے واپس آرہے تھے۔ حضرت زبیرؓ نے رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کو سفید کپڑے پہنائے۔ اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ’’راستہ میں زبیر بن العوامؓ سے ملاقات ہو گئی جو شام سے تجارت کر کے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ مکہ کو واپس جارہے تھے۔ زبیر نے ایک جوڑا سفید کپڑوں کا آنحضرتﷺ کو اور ایک حضرت ابوبکرؓ کی نذر کیا اور کہا مَیں بھی مکہ سے ہو کر بہت جلد آپؐ سے مدینہ میں آملوں گا’’۔

سوال نمبر10: ہجرت مدینہ کے دوران جب کوئی قافلہ والا حضرت ابوبکرؓ سے آنحضرتﷺ کی بابت دریافت کرتا توآپؓ کیا جواب دیتے؟

جواب: فرمایا: کبھی ایسا بھی ہوتا کہ راہ گزرتے ہوئے کئی دوسرے قافلے والے جو کہ حضرت ابوبکرؓ کو ان کے اکثر تجارتی سفروں کی وجہ سے انہی جگہوں پر دیکھ چکے تھے پوچھتے کہ آپؓ کے ساتھ یہ کون ہے؟ تو آپؓ کہہ دیتے کہ یہ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں۔ ھٰذَا الرَّجُلُ یَھْدِیْنِی السَّبِیْلَ۔ یہ شخص مجھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔ لوگ سمجھتے یہ گائیڈ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی مراد راہ ہدایت سے ہوتی۔ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’چونکہ حضرت ابوبکرؓ بوجہ تجارت پیشہ ہونے کے اس راستہ سے بارہا آتے جاتے رہتے تھے اس لئے اکثر لوگ ان کو پہچانتے تھے مگر آنحضرتﷺ کو نہیں پہچانتے تھے۔ لہٰذا وہ ابو بکرؓ سے پوچھتے تھے کہ یہ تمہارے آگے آگے کون ہے۔ حضرت ابو بکرؓ فرماتے۔ ھٰذَا یَھْدِیْنِی السَّبِیْلَ۔ یہ میرا ہادی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ کوئی دلیل یعنی گائیڈ ہے جو راستہ دکھانے کے لئے حضرت ابوبکرؓ نے ساتھ لے لیا ہے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ کا مطلب کچھ اَور ہوتا تھا۔ ’’

سوال نمبر11: ہجرت مدینہ کا سفر کتنے دنوں میں طےہوا؟

جواب: فرمایا: لکھا ہے کہ آٹھ دن سفر کرتے ہوئے خدائی نصرتوں کے ساتھ آخر کار پیر کے دن آپؐ مدینہ کے راستے قُبا پہنچ گئے۔

سوال نمبر12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےرسول اللہﷺ کی قباآمدکی بابت حضرت مصلح موعودؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ رسول کریمﷺ کی قُبامیں آمد کا ذکرکرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ’’سراقہ کو رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسول کریمﷺ مدینہ پہنچ گئے۔ مدینہ کے لوگ بے صبری سے آپ کا انتظار کر رہے تھے اور اِس سے زیادہ ان کی خوش قسمتی اَور کیا ہو سکتی تھی کہ وہ سورج جو مکہ کے لئے نکلا تھا مدینہ کے لوگوں پر جا طلوع ہوا۔ جب انہیں یہ خبرپہنچی کہ رسول اللہﷺ مکہ سے غائب ہیں۔ ’’یعنی مدینہ والوں کو’’تو وہ اسی دن سے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے وفد روزانہ مدینہ سے باہر کئی میل تک آپ کی تلاش کے لئے نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہوکر واپس آجاتے تھے۔ جب آپ مدینہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ پہلے آپؐ قُبا میں جو مدینہ کے پاس ایک گاؤں تھا ٹھہریں۔ ایک یہودی نے آپ کی اونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمد رسول اللہﷺ کا ہے۔ وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور اس نے آواز دی۔ اے قَیْلَہکی اولاد!تم جس کے انتظار میں تھے آگیا ہے۔ اِس آواز کے پہنچتے ہی مدینہ کا ہر شخص قُبا کی طرف دوڑ پڑا۔ قُبا کے باشندے اِس خیال سے کہ خد اکا نبی ان میں ٹھہرنے کے لئے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔’’

سوال نمبر13: قُبامیں حضرت ابوبکرؓ نے نبی کریمﷺ کی پہچان کے لیے کیا لطیف طریق اپنایا؟

جواب: فرمایا: مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہیں تھے۔ جب قُبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہﷺ بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے نا واقف لوگ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر ان کی داڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح ان کا لباس رسول اللہﷺ سے کچھ بہتر تھا، یہی سمجھتے تھے کہ ابوبکرؓ رسول اللہﷺ ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طر ف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے۔ وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہؐ ! آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے میں آپ پر سایہ کرتا ہوں اور اِس لطیف طریق سے انہوں نے لوگوں پر ان کی غلطی کو ظاہر کر دیا۔

سوال نمبر14: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مسجد قُبا کی بنیاد رکھنے کی بابت کیا روایت بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: مسجد قُبا کی تعمیر کے بارے میں آتاہے کہ رسول کریمﷺ نے قُبا میں قیام کے دوران ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی جسے مسجد قُبا کہا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہﷺ بنو عَمرو بن عوف کے محلے میں دس سے زائد راتیں ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول اللہﷺ نے نماز پڑھی۔ روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہﷺ نے بنو عمرو بن عوف کے لیے مسجد کی بنیاد رکھی۔ جب آپﷺ نے اس کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے آپؐ نے قبلے کی سمت ایک پتھر رکھا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے ایک پتھر لا کر رکھا۔ پھر حضرت عمرؓ ایک پتھر لے کر آئے اور حضرت ابوبکرؓ کے پتھر کے ساتھ رکھ دیا۔ پھر تمام لوگ تعمیر میں مصروف ہو گئے۔ جب مسجد قُبا کی تعمیر ہو رہی تھی تو نبی کریمﷺ ایک پتھر لاتے جسے آپؐ نے اپنے پیٹ کے ساتھ لگایا ہوا ہوتا۔ بڑا بھاری پتھر ہوتا۔ پھر آپؐ اس پتھر کو رکھتے۔ کوئی شخص آتا اور چاہتا کہ اس پتھر کو اٹھائے مگر وہ اٹھا نہ سکتا۔ اس پر آپؐ اسے حکم دیتے کہ اسے چھوڑ دو اور کوئی اَورپتھر لے آؤ۔

سوال نمبر15: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےقُبا سے مدینہ میں داخل ہونے کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کا کیا مؤقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزابشیراحمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ قبُامیں زائد از دس دن قیام کے بعد جمعہ کے روز آنحضرتﷺ مدینہ کے اندرونی حصہ کی طرف روانہ ہوئے۔ انصار و مہاجرین کی ایک بڑی جماعت آپؐ کے ساتھ تھی۔ آپؐ ایک اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے پیچھے تھے۔ یہ قافلہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ راستہ میں ہی نماز جمعہ کا وقت آگیا اور آنحضرتﷺ نے بنو سَالِم بن عَوف کے محلہ میں ٹھہر کر صحابہ کے سامنے خطبہ دیااور جمعہ کی نماز ادا کی۔ مورخین لکھتے ہیں کہ گو اس سے پہلے جمعہ کا آغاز ہوچکا تھا مگریہ پہلا جمعہ تھا جو آپؐ نے خود ادا کیا۔ اوراس کے بعد سے جمعہ کی نماز کا طریق باقاعدہ جاری ہو گیا۔ جمعہ سے فارغ ہوکر آپؐ کاقافلہ پھر آہستہ آہستہ آگے روانہ ہوا۔ راستہ میں آپؐ مسلمانوں کے گھروں کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ جوش محبت میں بڑھ بڑھ کر عرض کرتے تھے یارسول اللہؐ ! یہ ہمارا گھر، یہ ہمارا مال وجان حاضر ہے اورہمارے پاس حفاظت کاسامان بھی ہے۔ آپؐ ہمارے پاس تشریف فرما ہوں۔ آپؐ ان کے لئے دعائے خیر فرماتے اورآہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھتے جاتے تھے۔

سوال نمبر16: رسول اللہﷺ نے اپنے اہل وعیال کو مدینہ لانے کے لیے کس شخص کو مکہ بھیجا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’کچھ عرصہ کے بعد آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام’’ یعنی مدینہ آنے کے کچھ عرصہ بعد ’’زیدؓ کو مکہ میں بھجوایا کہ وہ آپؐ کے اہل وعیال کو لے آئے۔ چونکہ مکہ والے اِس اچانک ہجرت کی وجہ سے کچھ گھبراگئے تھے اِس لئے کچھ عرصہ تک مظالم کا سلسلہ بند رہا اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رسول کریمﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے خاندان کے مکہ چھوڑنے میں مزاحم نہیں ہوئے اور یہ لوگ خیریت سے مدینہ پہنچ گئے’’۔

سوال نمبر17: مدینہ آمد کے بعد حضرت ابوبکرؓ کس صحابیؓ کے ہاں ٹھہرے؟

جواب: فرمایا: مدینہ ہجرت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق سُنْح میں حضرت خُبَیب بن اِسَاف کے ہاں ٹھہرے۔ ایک قول کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی رہائش حضرت خَارِجَہ بن زَید کے ہاں تھی۔ بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ نے سُنْح میں ہی اپنا مکان اور کپڑا بنانے کا کارخانہ بنا لیا تھا۔

سوال نمبر18: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کن مرحومین کا ذکرخیر بیان فرمایا اور نمازجنازہ غائب پڑھائی؟

جواب: 1۔ چودھری اصغرعلی کلارصاحب شہید (بہاولپور)

2۔ مرزا ممتازاحمدصاحب(کارکن وکالت علیا)

3۔کرنل ریٹائرڈڈاکٹرعبدالخالق صاحب(سابق ایڈمنسٹریٹر فضل عمر ہسپتال ربوہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button