جماعت احمدیہ کینیڈا کی ملکیت ’’سیب کے باغات‘‘ سے پھل اترنے کا احوال
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ اپنے کچھ درباریوں کے ہمراہ سیر کو نکلا۔ راستے میں ایک بوڑھا نظر آیا جو اپنے کھیت کے کنارے کھجور کا پودا لگا رہا تھا۔ بادشاہ نے اسے دیکھا تو کہنے لگا کہ
بڑے میاں ! یہ کھجور کا پودا تو سالوں بعد جا کر پھل دیتا ہے جبکہ تمہاری عمر تو ایسی نہیں لگتی کہ اس کا پھل تمہارے نصیب میں ہوگا! بوڑھا کہنے لگا:
ہمارے بڑوں نے جو پودے لگائے تھے ان کا پھل انہوں نے نہیں کھایا بلکہ ہم نے کھایا۔ اسی طرح جو پودےآج میں لگارہا ہوں ان کا پھل ہماری آنے والی نسلیں کھائیں گی!
بادشاہ کے منہ سے بیساختہ نکلا ’’زہ‘‘!
اس نے اپنے وزیر کو حکم دے رکھا تھا کہ جب بھی میرے منہ سے ’’زہ‘‘ نکلے تو سامنے والے شخص کو اشرفیوں کی تھیلی پکڑا دی جائے۔ چنانچہ بوڑھے کو اشرفیوں بھری تھیلی پکڑا دی گئی۔
اس پر بوڑھا کسان کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! میں نے جو پودا لگایا اس نے تو فوراً کھڑے کھڑے ہی ’’پھل‘‘ دے دیا ہے…!
اس پر بادشاہ کے منہ سے بےساختہ پھر ’’زہ‘‘ نکلا۔ جس پر وزیر نے اسے پھر ایک تھیلی پکڑا دی۔ اس پر وہ بوڑھا فوراً بول اٹھا:
بادشاہ سلامت ! دوسروں کے لگائے کھجور کے درخت تو سال میں ایک دفعہ پھل دیتے ہیں مگر میرا لگایا پودا تو سال میں دو دو پھل دے رہا ہے۔…!!
اس پر بادشاہ کے منہ سے پھر ’’زہ‘‘ نکلا اور بوڑھے کو وزیر نے اشرفیوں بھری تیسری تھیلی بھی پکڑا دی۔ اس پر بادشاہ اپنے مصاحبوں کےساتھ فوراً وہاں سے یہ کہتے ہوئے چل دیا کہ یہ بوڑھا تو لگتا ہے ہمارا سارا خزانہ خالی کروائے گا۔…!!!
یہ تو خیر تفنن طبع کی بات تھی۔ اسلام میں بھی پھلدار درختوں کی افزائش اور حفاظت کی خصوصی تاکید آئی ہے کیونکہ درخت جہاں انسان کے لیے زندگی جیسی اہمیت رکھتے اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں، وہاں پھلدار درختوں کی صورت میں انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے شجرکاری کی مہم کو آج پوری دنیا میں چلایا جاتا ہے۔ اور ہر ملک ’’کلین اور گرین‘‘ کا نعرہ دے رہا ہے۔
اگر ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ شجرکاری کا درس ہمارے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل اپنی تعلیمات کے ذریعہ دیا تھا۔ جن پر عمل کر لیا جائے تو پوری دنیا کے ماحول کو صاف و شفاف بنایا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم میں انسٹھ بار الگ الگ طریقوں سے درختوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے درختوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اور زیتون اورکھجوراور انگور اور ہر قسم کے پھل (پیدا کئے) یقیناً اس میں ایسی قوم کے لئے جو غور کرتی ہے بہت بڑا نشان ہے۔ (سورہ النحل: 12)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کوئی پودا لگاتاہے اور اس میں سے جوکچھ کھا یاجاتاہےوہ اس کے لیے صدقہ ہو جائے گا۔
(صحیح مسلم )
ایک مقام پر ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودے کی قلم ہو اور وہ اس بات پر قادر ہوکہ قیامت ہونے سے پہلے وہ اسے لگادے تو ضرور لگائے۔ ( مسند احمد )
ایک اور حدیث مبارکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے پھلدار درخت لگایا اور اس کے پھل اور پتوں کو انسان اور جانوروں نے کھایا تو وہ درخت، لگانے والے کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
ان ارشادات و احکامات کو صرف مذہبی تناظر میں ہی نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ جان لینا چاہیے کہ جب تحفظ ماحولیات کا تصور آج کی طرح دنیا میں نہیں تھا، تو اس وقت بھی اسلام نے اس کو سماجی اور کائناتی مسئلہ سمجھا اور اس کے تحفظ کے لیے مناسب تدابیر بتائیں۔
حال ہی میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ناصرات الاحمدیہ یوکے سے ملاقات کے دوران ایک بچی کے ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق ایک سوال پر، احباب جماعت کو پودے لگانے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہر احمدی مسلمان کو یہ ٹارگٹ بنانا چاہیے کہ وہ ہر سال دو درخت لگائے۔ اس طرح آپ ماحولیاتی تبدیلی سے لڑ سکتے ہیں۔ اگر یہاں ممکن نہ ہوتو وہ جو دوسرے ممالک میں سفرکرتے ہیں تو وہ وہاں درخت لگاسکتے ہیں۔ اس طرح ہم ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 12؍اکتوبر 2021ء)
الحمدللہ کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کو مندرجہ بالا ارشادات پر عمل کرنے کی بھرپور انداز میں توفیق مل رہی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب کینیڈا کے دورہ پر تشریف لائے تو حضور انور کے ارشاد کی تعمیل کی روشنی میں جماعت احمدیہ کینیڈا کو ٹورانٹو شہر سے تقریباً آدھ پون گھنٹے کی مسافت پر 2008ء میں تین سو ایکڑ اراضی خریدنے کی توفیق ملی۔ حضور انور نے اس قطعہ اراضی کا نام ’’حدیقہ احمد‘‘ تجویز فرمایا۔ یہ علاقہ جماعت احمدیہ ’’بریڈ فورڈ‘‘ کی حدود میں واقع ہے۔ جہاں اب ایک ہزار کے قریب احمدی فیملیز نے بھی اپنے اپنے گھر خرید رکھے ہیں۔
اسی وسیع و عریض زمین کے ایک حصہ (دس ایکڑ) پر جماعت نے حضور انور کے خصوصی ارشاد کی تعمیل میں مختلف پھلدار درخت مثلاً سیب، ناشپاتی اور آلو بخارے کے پودے لگائے۔
اب گذشتہ تین سال سے 70کے قریب سیب کے درخت، اپنا پھل وافر مقدار میں دے رہے ہیں۔ جسے نہایت ارزاں نرخ پر احباب جماعت کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔
جماعت احمدیہ کینیڈا کے سیکرٹری زراعت مکرم محمد یوسف صاحب نے بتایا کہ ہر سال سیب اترنے کے مخصوص دنوں میں احباب کو باغ میں مدعو کیا جاتا ہے۔ جہاں جملہ احباب جماعت اپنی فیملیز کے ساتھ آتے ہیں۔ اور اپنے ہاتھ سے تازہ سیب اتارتے ہیں۔ اس طرح بازار سے نہایت ارزاں ہدیہ پر تر و تازہ سیب اتارنے اور کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہامی مصرعہ ہے۔؎
پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی!
ویسے تو اس مصرعہ میں وسیع و عریض معنی کا سمندر پنہاں ہے تاہم اس کا ایک ظاہری مفہوم، اس باغ کے بوٹے بوٹے اور پتے پتے پر بھی پورا اترتا نظر آتا ہے۔
(رپورٹ: ناصر احمد وینس۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)
٭…٭…٭