قرآن کریم کے 30پارے ہونے میں خدائی حکمت
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کے 30 پارے ہونے میں کیا خدائی حکمت ہو سکتی ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍جنوری 2021ء میں اس سوال کادرج ذیل جواب ارشاد فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آیات اور سورتوں کی شکل میں نازل فرمایا اور آنحضورﷺ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطاہونے والی راہنمائی سے اس کی موجودہ ترتیب کو قائم فرمایا۔ جہاں تک قرآن کریم کو منازل، پاروں اور رکوعات میں تقسیم کرنے کا معاملہ ہے تو یہ بعد میں لوگوں نے قرآن کریم کو پڑھنے کی سہولت کے پیش نظر مختلف وقتوں میں ایسا کیا۔ اسی لیے قرآن کریم کے قدیم نسخہ جات میں ایسی کوئی تقسیم موجود نہیں ہے۔
احادیث میں آتا ہے کہ بعض ایسے صحابہ جو اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے صرف نفلی عبادات میں ہی مشغول رہتے تھے، ان کے بارے میں اطلاع ملنے پر حضورﷺ نے انہیں جو نصائح فرمائیں ان میں سارے قرآن کریم کی تلاوت کےلیے بھی حضورﷺ نے دنوں کی حد بندی فرمائی تھی۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے بارے میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے انہیں فرمایا کہ پورے مہینہ میں قرآن مجید ختم کیا کرو۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! مَیں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپؐ نے فرمایا: بیس دنوں میں پڑھ لیا کرو۔ انہوں عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپؐ نے فرمایا کہ دس دنوں میں ختم کر لیا کرو۔ انہوں نے عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپؐ نے فرمایا: پھر سات دنوں میں مکمل کر لیا کرو اور اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشقت میں مت ڈالو کیونکہ تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام)
بعض کا خیال ہے کہ حضورﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں بعد میں لوگوں نے اپنی سہولت کےلیے قرآن کریم کو تیس پاروں اور سات منازل میں تقسیم کیا تا کہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ میں اور کم سے کم سات دنوں میں قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرنے والے کےلیے آسانی پیدا ہو سکے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کےلیے طلباء اور اساتذہ کی سہولت کےلیے قرون وسطیٰ میں قرٓان کریم کو منازل اور پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ اور یہ تقسیم کسی مضمون کے اعتبار سے نہیں بلکہ قرآن کریم کے حجم کے لحاظ سے کی گئی ہے۔
قرآن کریم کی رکوعات میں تقسیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کام حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہوا اور بعض روایات کے مطابق یہ تقسیم حضرت عثمانؓ نے فرمائی تھی۔ نیز یہ کہ نمازوں کی رکعات میں ایک خاص حصۂ قرآن کی تلاوت کی سہولت پیدا کرنے کےلیے رکوعات کی یہ تقسیم کی گئی۔
بہرحال جو بھی ہو، یہ امر متحقق ہے کہ قرآن کریم کی یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ہی حضورﷺ کی بیان فرمودہ ہے، بلکہ بعد کے زمانوں کی تقسیم ہے۔ اسی لیے عرب اور غیر عرب دنیا کے مختلف علاقوں میں شائع ہونے والے قرآن کریم کے نسخہ جات میں بعض پاروں کی تقسیم میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔ البتہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس تقسیم سے نہ تو قرآن کریم کے مطالب سمجھنے میں کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت پر کوئی حرف آتا ہے۔