اگر کسی جگہ پرمرد اور عورتیں دونوں ہوں تو نماز کا امام مرد ہی ہوگا
سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اگر گھر میں مردوں کے ہوتے ہوئے صرف عورت اس قابل ہو کہ نماز پڑھا سکے تو کیا وہ نماز پڑھا سکتی ہے۔ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 16؍جنوری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: اسلامی تعلیم کی یہ خوبی ہے کہ اس میں مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض ان کے طبائع کے مطابق الگ الگ مقرر کیے گئے ہیں۔ چنانچہ نماز باجماعت بھی صرف مردوں پر فرض کی گئی اور عورتوں کو اس سے رخصت دی گئی اور عورتوں کا باجماعت نماز ادا کرنا محض نفلی حیثیت قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے مردوں کی موجودگی میں کوئی عورت نماز باجماعت میں ان کی امام نہیں بن سکتی۔
آنحضورﷺ اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے کبھی کسی عورت کو مردوں کی امامت کا منصب تفویض نہیں فرمایا۔
اس زمانے کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جب بعض اوقات کسی علالت کی وجہ سے گھر پر نماز ادا فرماتے تو نماز کی امامت خود کراتے اورحضور علیہ السلام کو چونکہ کھڑے ہونے سےچکر آ جایا کرتا تھا اس لیے حضرت اماں جانؓ کو پیچھے کھڑا کرنے کی بجائے مجبوراً اپنے ساتھ کھڑا کر لیتےتھے۔
پس اگر کسی جگہ پرمرد اور عورتیں دونوں ہوں تو نماز کا امام مرد ہی ہوگا کیونکہ جو مرد نماز پڑھنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کی اپنی نماز صحیح ہو جا تی ہے تو اس کی امامت میں دوسروں کی نماز بھی صحیح ہو گی۔