خاتم النبیین کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے سیّد ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء ہیں اور ہم فرشتوں اورمعجزات اور تمام عقائد اہلِ سنت کے قائل ہیں۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 215تا216، حاشیہ)
اس قدر واضح اظہار کے باوجود یہ بات کی جاتی ہے کہ احمدی رسول کریمﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے اس لیے وہ کافر ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں کہ ’’اگر دل سخت نہیں ہو گئے تو اس قدر کیوں دلیری ہے کہ خواہ نخواہ ایسے شخص کو کافر بنایا جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو حقیقی معنوں کی رُو سے خاتم الانبیاء سمجھتا ہے-اور قرآن کو خاتم الکتب تسلیم کرتا ہے۔تمام نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اہلِ قبلہ ہے اور شریعت کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہے۔‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 6)
خاتم الانبیاء کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ اس کے لیے امام راغب اصفہانی کی اعلیٰ ترین لغت قرآن’’المفردات ‘‘دیکھتے ہیں لکھا ہے :
’’اَلْخَتْمُ وَالطَّبْعُ یُقَالُ عَلیٰ وَجْھَیْنِ مَصْدَر خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ، وَھُوَ تَاثِیْرُ الشَّیٔ کَنَقْشِ الْخَاتَمِ وَالطَّابِعِ، وَالثّانِیْ اَلْاَثَرُ الْحَاصِلُ مِنَ النّقْشِ، وَیتَجَوَّزُ بِذَالِکَ تَارَۃً فِی الْاِسْتِیْثَاقِ مِنَ الشّیٔ وَالْمَنْعُ مِنْہ اعْتِبَارًا بِمَا یَحْصُلُ مِنَ الْمَنْع بِالختم عَلی الْکُتُبِ وَالْاَبْوَابِ نَحْو خَتَمَ اللّٰہُ عَلی قُلُوْبِھِمْ، وَخَتَمَ عَلیٰ سَمْعِہ وَقَلْبِہ، وَتَارَۃً فِی تَحْصِیْلِ اَثَرٍ عَنْ شَیٔ اعْتِبَارًا بِالنّقْشِ الْحَاصِلِ وَتَارۃً یعتبرمِنْہُ بُلُوْغ الاٰخِر، مِنْہُ قِیْلَ خَتَمْتُ الْقُرْاٰنَ اَیْ اِنْتَھَیْتُ اِلیٰ اٰخِرِہ‘‘(زیر لفظ ختم)
ترجمہ: ۔ ’’اَلْخَتْمُ وَالطَّبْعُ کے لفظ دو طرح سےاستعمال ہوتے ہیں کبھی تو خَتَمْتُ اور طَبَعْتُ (فعل)کے مصدر ہوتے ہیں۔ اور اس کے معنی کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگانا کے ہیں اورکبھی اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جاتا ہے۔ مجازاً کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وثوق حاصل کر لینا اور اس کا محفوظ کرنا مراد ہوتا ہے جیسا کہ کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کر دیا جاتا ہے کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو۔ قرآن میں ہے خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ (خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے) ۔ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہ وَقَلْبِہ (اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی ہے) او ر کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کر لینے سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر سے نقش ہوجاتا ہے اور اسی سے خَتَمْتُ القرآنکا محاورہ ہے۔ یعنی قرآن ختم کر لیا۔‘‘(مفردات القرآن (اردو)از امام راغب اصفہانی، ترجمہ وحواشی مولانا محمد عبدہ فیروز پوری جلد اول، صفحہ 286تا287، ناشر شیخ شمس الحق مطبع زاہد بشیر پرنٹرز، 1987ء )
اس حوالے میں امام راغب نے لفظ ختم کو اثر پیدا کرنے اور پیدا شدہ اثر کے معنے میں اصل اور بالذات قرار دیا ہے اور بند کرنے، روکنے، آخر تک پہنچنے اور تحصیل اثر کے معنوں کو مجازی، اعتباری اور قیاسی قرار دیا ہے۔
پس مصدری یعنی لغوی معنی کے لحاظ سے خاتم الانبیاء حقیقی طور پر وہ ہوگا جو اپنے کمالات نبوت میں مؤثر ہو یعنی اپنے ذریعہ نبوت کا اثر چھوڑے اور اس کے فیض سے لوگوں میں کمالات نبوت پیدا ہوں۔ مطلق آخری نبی’’خاتم الانبیاء‘‘کے مجازی معنی توہو سکتے ہیں مگر حقیقی معنی نہیں۔ ویسے بھی محض آخری ہونا بالذات کسی فضیلت کو نہیں چاہتا۔
چنانچہ نامور صوفی حضرت ابو عبداللہ محمد بن علی حسین الحکیم الترمذی (متوفی308ھ)کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی محض آخری کرنے سے آنحضرتﷺ کی کوئی شان ظاہر نہیں ہوتی آپ لکھتے ہیں:
’’یُظَنُّ اَنَّ خَاَتَمَ النَّبِیّٖنَ تَاْوِیْلُہٗ اَنَّہٗ اٰخِرُھُمْ مَبْعَثًا فَاَیُّ مَنْقَبَةٍ فیِْ ھٰذَاوَاَیُّ عِلْمٍ فِیْ ھٰذَا؟ ھٰذَاتَأوِیْلُ الْبُلْہِ الْجَہَلَةِ ‘‘(کتاب ختم الاولیاء صفحہ341مطبع الکاثولیکیۃ بیروت)
ترجمہ: یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ کی کیا فضیلت وشان ہے؟ اور اس میں کونسی علمی بات ہے؟ یہ تاویل تو کم علم اور کم فہم لوگوں کی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اللہ جل شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحبِ خاتم بنایا یعنی آپؐ کو افاضۂ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اورنبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپؐ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا۔ یعنی آپؐ کی پَیروی کمالاتِ نبوت بخشتی ہے اور آپؐ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوتِ قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 100حاشیہ)
پھر فرمایا کہ’’یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوّت، یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے۔ اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے۔ مگر اس کی حقیقت سے بیخبر ہیں۔ اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ۔بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 342۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
(مرسلہ ابن قدسی)
٭…٭…٭