الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم چودھری محمد امین واہلہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جون 2013ء میں مکرم قدیر احمد طاہر صاحب کے قلم سے مکرم چودھری محمد امین واہلہ صاحب کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

مکرم چودھری محمد امین واہلہ صاحب ضلع سیالکوٹ کے گاؤں بسراؔ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور جب سرگودھا میں انگریز حکومت زمین آباد کرنے کی کوشش کررہی تھی تو آپ اپنے والدین کے ساتھ چک88شمالی منتقل ہوگئے اور زمینداری شروع کردی۔

آپ کے ایک تایا مکرم چودھری حاکم علی واہلہ صاحب احمدی تھے۔ 1934ء میں احرار کا فتنہ اُٹھا تو تایا کی تبلیغ سے آپ اپنی والدہ اور بھائی سمیت احمدی ہوگئے۔ آپ کے والد مکرم چودھری صدرالدین واہلہ صاحب نے آپ کو اس کی بخوشی اجازت دی تاہم انہوں نے 1950ء میں ربوہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر یہ شرف حاصل کیا۔

1960ء میں مکرم چودھری محمد امین صاحب سرگودھا سے ہجرت کرکے حضرت مصلح موعودؓ کی ذاتی زمین ناصرآباد (سندھ) آگئے۔ آپ باجماعت نماز کے عاشق اور باقاعدگی سے تہجد ادا کرنے والے تھے۔ بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا بہت ناپسند تھا۔ گھنٹوں تلاوت قرآن کریم میں صرف کرتے۔ آنحضورﷺ سے عشق تھا۔ باوضو ہوکر کثرت سے درود پڑھتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اور ’’حیاتِ قدسیؔ‘‘ کا کثرت سے مطالعہ کرتے۔ خلافت سے بےانتہا محبت تھی۔ ہر خطبہ بڑے غور سے سنتے اور فوری اطاعت کرتے۔ بعد میں الفضل میں خطبہ شائع ہوتا تو پھر بڑے غور سے پڑھتے۔

جوانی میں ہی نظام وصیت سے منسلک ہوگئے۔ ناصرآباد میں کچھ عرصہ سیکرٹری وصیت بھی رہے۔ پھر ’’نسیم آباد فارم‘‘ میں شفٹ ہوگئے تو وہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ پہلے یہاں کے احمدی ناصرآباد کی جماعت میں ہی شامل تھے۔ نسیم آباد میں بھی آپ جماعتی خدمات کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ بچوں کو قرآن پڑھاتے۔ غریب پرور اور مہمان نواز تھے۔

23؍نومبر2011ء کو ایک سو سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔ لواحقین میں آپ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے جن میں سے ایک بیٹے مکرم چودھری ناصر احمد واہلہ صاحب کو بطور امیرضلع عمرکوٹ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔

٭…٭…٭

مکرم سیّد حمیدالحسن شاہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍جون 2013ء میں مکرم سیّد حمیدالحسن شاہ صاحب کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے جو مکرم سیّد سعیدالحسن صاحب نائب امیر و مبلغ انچارج گیمبیا کے والد محترم تھے۔ آپ 12؍جون کو اپنے گھر واقع سمبڑیال ضلع سیالکوٹ میں بعمر 73 سال وفات پاگئے۔ بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ مرحوم ایک مخلص خادم سلسلہ، نڈر داعی الی اللہ تھے اور خوش الحان ہونے کی وجہ سے مختلف جماعتی تقریبات میں نظمیں پیش کرنے کی توفیق پاتے رہے۔ آپ شاعر بھی تھے۔

آپ کے والد مکرم مولانا عبدالوہاب حجازی صاحب مولوی فاضل نے ایک رؤیا کے نتیجے میں احمدیت قبول کی تھی۔ چند ماہ بعد آپ نے بھی تحقیق کرکے بیعت کرلی۔ آپ نے ملازمت کا آغاز واپڈا میں معمولی عہدے سے کیا لیکن احمدیت کی برکت سے ترقی کرتے کرتے سترھویں گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے۔ 1974ء میں گوجرانوالہ میں فسادیوں نے آپ کا گھر نذرآتش کردیا لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ثابت قدم رہے۔ 1988ء میں مخالفین نے آپ پر مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی اور آپ کے چار بیٹوں کو پولیس نےبغیر مقدمہ قائم کیے حوالات میں بند کردیا۔ ان اسیرانِ راہ مولیٰ میں شامل سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔

آپ ایک دعاگو بزرگ تھے اور قبولیتِ دعا کے نتیجے میں ایمان میں ترقی بھی ہوتی رہی۔ قرآن کریم سے عشق تھا اور تلاوت بہت خوش الحانی سے کیا کرتے تھے۔ ہزاروں لوگوں کو قرآن کریم پڑھایا۔ نماز باجماعت کے عادی تھے۔ مہمان نواز، خوش گفتار اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ جماعتی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ذیلی تنظیموں میں ضلعی اور علاقائی سطح پر کئی شعبہ جات میں خدمت بجالائے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ سات بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں۔

٭…٭…٭

نگرپارکر اور تھرپارکر

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 8؍جولائی 2013ء میں مکرم احمد ریاض ڈوگر صاحب جہلمی کے قلم سے تھرپارکر اور نگرپارکر کا مختصر تعارف شائع ہوا ہے۔

تھر ایک صحرائی علاقہ ہے جہاں پر تاحد نگاہ ریت کے ٹیلے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ علاقہ زیرزمین معدنیات (کوئلہ، فاسفورس، گرینائٹ، تانبا، سنگ مرمر اور سفید چائنا مٹی) سے بھرپور ہے اگرچہ ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ انہی معدنیات کی وجہ سے زیرزمین پانی بھی نمکین ہے جو ڈیڑھ سو فٹ گہرا کھودنے سے نکلنا شروع ہوتا ہے۔ لوگ انتہائی غریب اور تعلیم سے محروم ہیں۔ گو کہ اکثریت ہندوؤں کی ہے مگر ہر قومیت اور فرقے کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ مور یہاں کثرت سے پایا جاتا ہے اور گھروں میں مرغیوں کی طرح گھومتا ہے۔ مور چونکہ ہندوؤں کے نزدیک ایک مقدّس پرندہ ہے اس لیے اس کے شکار پر پابندی ہے۔ بارڈر ایریا کے ساتھ ساتھ نیل گائے، ہرن اور دیگر جانور بھی پائے جاتے ہیں۔

ضلع تھرپارکر کا ایک شہر نگرپارکرہے جو کہ پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں شہد کی چھوٹی مکھی تو پائی جاتی ہے لیکن بڑی مکھی نہیں ہوتی۔ یہاں سے دس کلومیٹر دُور ایک تاریخی شہر ویراواہ واقع ہے جس کے ساتھ میٹھے پانی کی ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ سردیوں میں یہاں کا درجہ حرارت قریباً 30 ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا ہے تو ٹھنڈے علاقوں خاص طور پر رشیا سے بہت سارے پرندے اس جھیل پر اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ایک دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں۔

تھرپارکر کے مرکزی شہر مِٹھی اور دیگر علاقوں میں ہندوؤں کے بہت سے پرانے مندر موجود ہیں جو سنگ مرمر سے بنے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر مورتیاں کھود کر بنائی گئی ہیں اور کشیدہ کاری بھی کی گئی ہے۔ مِٹھی سے نگرپارکر کے درمیان ایک علاقہ گوڑی مندر کہلاتا ہے۔ یہاں سے نگرپارکر کے پہاڑی سلسلے کارونجھر پہاڑ کے درمیان تک ایک سرنگ بنائی گئی ہے جس کی لمبائی اندازاً بیس کلومیٹر ہے۔

نگرپارکر سے پانچ کلومیٹر دُور محمدبن قاسمؒ کے دَور کی بنی ہوئی سنگ مرمر کی ایک مسجد بھی ہے جو آثارقدیمہ کی نشانی بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ عمرکوٹ کا قلعہ بہت مشہور اور قابلِ دید ہے۔ مِٹھی سے چھاچھرو کے راستے میں بھی ایک تاریخی مسجد اور درسگاہ ہے۔

تھرپارکرکے بعد بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول ہے جہاں رن کچھ واقع ہے۔ رن کچھ کڑوے پانی کا وہ ذخیرہ ہے جس میں کوئی جاندار چیز نہیں رہ سکتی ۔ اس پانی سے فصل بھی نہیں ہوسکتی۔ جھیل کے گرد نمک کشید کرنے والی فیکٹریاں لگائی گئی ہیں۔ یہ نمک اندرونِ ملک فروخت کیا جاتا ہے۔

تھر کے لوگ اپنی گزربسر کے لیے بارشوں پر انحصار کرتے ہیں جو جولائی سے ستمبر تک ہوتی ہیں۔ اس دوران ریت پر گوارا، باجرہ اور تربوز کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں بھیڑبکریاں اور گائیں پال رکھی ہیں جن کا دودھ بیچ کر اور جانوروں کی فروخت سے ضروریاتِ زندگی پوری ہوتی ہیں۔ پالتو جانوروں میں اونٹ اور گدھے بھی شامل ہیں۔

نگرپارکر میں تھر کی نسبت فصلوں کی کاشت قدرے بہتر ہے۔ یہاں لوگوں نے کنویں بنائے ہوئے ہیں جن کی گہرائی ساٹھ ستّر فٹ تک ہوتی ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور بارشوں کا میٹھا پانی یہاں زیرزمین محفوظ رہتا ہے۔ موسم بھی سارا سال قریباً ایک سا رہتا ہے۔ نگرپارکر کے گردونواح میں کئی چھوٹے ڈیم بھی دکھائی دیتے ہیں جو بارشوں کے موسم میں پہاڑوں سے آنے والے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ پھر اضافی پانی ویراواہ جھیل میں اکٹھا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ اپنی زمینوں کے اندر بند باندھ کر بھی پانی کو اپنی فصلوں کے لیے محفوظ کرتے ہیں۔

==================

نگرپارکر سے 22میل کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں پھول پورہ میں فری میڈیکل کیمپ کے انعقاد کی رپورٹ مکرمہ ڈاکٹر ن۔ شاہین صاحبہ کے قلم سے روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 31؍جولائی 2013ء میں شائع ہوئی ہے۔ اس کیمپ کا انعقاد لجنہ اماءاللہ پاکستان کی مالی قربانیوں سے وجود میں آنے والے طاہرہسپتال نگرپارکر نے کیا تھا۔ یہ گاؤں پاک انڈیا سرحد پر کچھ اس طرح سے واقع ہے کہ اس کا رقبہ دونوں ممالک میں تقسیم ہوگیا ہے۔ ذریعہ معاش کاشتکاری اور مویشی پالنا ہے۔

یہ وہ خوش نصیب گاؤں ہے جس نے اس علاقے میں سب سے پہلے احمدیت کی آواز پر لبّیک کہا اور 1960ءمیں یہاں احمدیت کا پودا لگا۔ اب تک قریباً ایک درجن واقفین زندگی یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بھی قبل از خلافت اسے برکت بخش چکے ہیں۔

میڈیکل کیمپ سے استفادہ کے لیے قریبی دیہات سے بھی کافی مریض گھوڑوں، اونٹوں اورگدھوں پر سوار آئے کیونکہ اُن دنوں فصل کی کٹائی کا موسم تھا اور اس مصروفیت میں اُن کو گھر میں ہی دوائی کا ملنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ بنیادی سہولتوں سے محروم اس علاقے کے غریب لوگ خوراک اور پانی کی کمی کے علاوہ علاج کی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ دورانِ معائنہ علم ہوا کہ اکثر لوگ خصوصاً خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں بیماریوں کا اضافہ ہورہا ہے۔

بارش نہ ہونے کی صورت میں اکثر لوگ سندھ کے نہری علاقوں کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔ بارش ہوجائے تو جمع شدہ پانی سے کچھ کاشتکاری ہوجاتی ہے اور گندے جوہڑ کی صورت اختیار کرجانے والے اسی پانی کو انسان اور جانور پینے پر مجبور ہیں۔ پانی کی قلّت کی وجہ سے صفائی کا معیار بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مریضوں کو دوا دینے کے بعد ہم نے مسجد میں احباب جماعت اور نومبائعین کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کی۔ پھر کھانا کھایا اور پھر واپس نگرپارکر آتے ہوئے دو احمدیہ سنٹرز ’گوٹھ‘ اور ’کوتاڑا‘ کو دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ راستے میں جگہ جگہ لوگ اپنی عورتوں اور بچوں کے ہمراہ بڑی محنت سے فصلیں کاٹ رہے تھے، کچھ چوپایوں کی مدد سے اناج نکال رہے تھے اور کچھ لوگ تیز ہوا کے چلنے کا انتظار کررہے تھے تاکہ اپنی فصل کو صاف کرسکیں۔ گندے مندے بچے، تن کے کپڑوں اور پاؤں میں جوتوں سے بے نیاز موسمی پھل تربوز، خربوزہ اور چبڑوں کے مزے لے رہے تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button