احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
مرزاگل محمدصاحب کی وفات پرسلسلہ احمدیہ کی ایک بزرگ شخصیت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے فرمایا: ’’یہ وہ شریف ترین انسان تھا جس نے کبھی کسی کی دل آزاری نہ کی۔‘‘
دیگرجدّی رشتہ دار
(حصہ چہارم۔ آخری)
مرزا نظام الدین صاحب
مرزاغلام محی الدین صاحب کے بیٹے اور حضرت اقدسؑ کے چچا زادتھے۔ مرزاغلام قادرصاحب کی وفات کے بعد صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سرکاری کاغذات میں قادیان کے نمبردارتھے البتہ نمبرداری کاکام بجائے ان کے مرزا نظام الدین صاحب ہی کرتے تھے۔ (بحوالہ کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب جلد دوم صفحہ 68، 69، سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر134)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے رشتہ داروں میں سے شدیدترین معاندین میں سے ان کا بھی شمارہوتاتھا۔ ان مخالفین کا ایک پوراگروہ تھا جن کی سربراہی مرزاامام الدین صاحب اور مرزانظام الدین صاحب کرتے تھے۔ مخالفت کرنے کا کون سا موقع ہوگا جوانہوں نے نہیں چھوڑاہوگا اور آفرین ہے اس رحمۃ للعالمینﷺ کےکامل پیرو اور عاشق صادق پر کہ کون سا موقع ہوگا ان سے حسنِ سلوک کا کہ جوآپؑ نے ان سے نہیں کیاہوگا۔ کہیں سفارش کی ضرورت ہے تو سفارشی خط لکھے جارہے ہیں، مدد کی ضرورت ہے تو وہ بھی ہورہی ہے اور سخت بیماری نے آلیا ہے تو دواداروبھی حضرت اقدسؑ فرمارہے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی مخالفت کے تفصیلی ذکر کا موقع نہیں ہے کہ کس کس طور سے یہ حضرت اقدسؑ اورآپؑ کے ساتھیوں کو تکلیفیں دیا کرتے تھے۔ احمدیوں سے گالی گلوچ اور مارپیٹ تو عام کرلیتے تھے۔ لیکن احمدیوں کی طرف سے صبرکے انتہائی اعلیٰ نمونے کا مظاہرہ کیاجاتا۔ اور حضرت اقدس علیہ السلام کا اپنا یہ عالم تھا کہ جب بھی کوئی ضرورت ان لوگوں کو آن پڑتی یا تکلیف کے وقت وہ مددکے طالب ہوتے تو آپؑ لمحہ بھر کا توقف نہ فرماتے۔ صرف ایک واقعہ بیان کرناچاہوں گا۔ حضرت امّ المومنینؓ کی روایت ہے کہ’’ ایک دفعہ مرزا نظام الدین صاحب کو سخت بخار ہوا۔ جس کا دماغ پر بھی اثر تھا۔ اس وقت کوئی اور طبیب یہاں نہیں تھا۔ مرزا نظام الدین صاحب کے عزیزوں نے حضرت صاحب کو اطلاع دی آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور مناسب علاج کیا۔ علاج یہ تھا کہ آپ نے مُرغا ذبح کراکے سر پر باندھا۔ جس سے فائدہ ہو گیا۔ اس وقت باہمی سخت مخالفت تھی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر511)
کیاہماری مصیبت کا کوئی علاج نہیں؟
مخالفت کا یہ دَور بیس تیس سال تک جاری رہا۔ مرزا امام الدین صاحب کے مرنے کے بعد ان لوگوں کی آنکھیں کھلیں کہ اس ’’آہِ میرزا‘‘ کے سبب سے کون کون سی ان پر بلاؤں پر بلائیں نازل ہوچکی ہیں اور ان کے گھروں میں ویرانیوں کے منحوس سائے ڈیرہ ڈال چکے اور ان کے گھر بیواؤں سے بھرگئے ہیں اور ان کی ساری طاقتیں خاک میں مل گئیں۔ ان مخالفین کے گھروں میں اترنے والے نحوست کے سائے اب ان کے دل ودماغ کو مختل کررہے تھے۔ تب انہیں خیال آیالیکن اب وقت ہاتھ سے نکل چکاتھا۔ اب ان لوگوں کویقین ہوا لیکن وہ سب لوگ تو اس دنیاسے بے خانماں اور بے نیل ومرام رخصت ہوچکے تھے۔ اس ڈراؤنے اور منحوس گھرانے میں سے صرف مرزا نظام الدین صاحب ہی قابل ذکرتھے اور اب ان کو یقین ہوچکاتھا کہ کس کی خاطر سے یہ سب وبال اور عذاب ان کے گھروں پر ٹوٹے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اب وہ ہستی ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں تھی کہ اس کے دَرپر کھڑے ہوکر معافی مانگتے کہ خدا ان کے گھروں کی ویرانیوں کو آبادیوں میں اور ان کی بلاؤں کو رحمتوں میں بدل دیتا۔ ’’وہ میرزا‘‘ اب اس دنیا میں نہیں رہا تھاکہ جس کی ’’آہ‘‘ ان کے جگرگوشوں کوکھائے جارہی تھی۔ وہ جس کے الفاظ تقدیروں کا روپ دھار لیاکرتے تھے۔ وہ جس کے غضب کی ایک سانس زندگیوں کوبھسم کردینے کے لیے کافی تھی۔ وہ اپنے رب کے حضور اعلیٰ و ارفع مقام پر حاضر ہوچکاتھا۔ آخر کار گھبراکر چاروناچاریہی مرزا نظام الدین اس میرزا کے غلام اور جانشین، حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے دروازے کی چوکھٹ پر سر رکھ کر زارزاررونے لگا۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے رونے کا سبب پوچھا تو روتے روتے کہنے لگا: مولوی صاحب! کیاہماری اس مصیبت کا کوئی علاج نہیں؟ مَیں نے تو اب کوئی مخالفت نہیں کی۔ مولوی صاحب کچھ دیرخاموش رہے اور پھر فرمایا مرزا نظام الدین صاحب ! میں خدائی تقدیر کو کس طرح بدل سکتاہوں۔
(مذکورہ بالا واقعہ 1910ء کے لگ بھگ کا ہے اور سیرت المہدی کی روایت نمبر 720سے ماخوذ ہے)
مرزاگل محمدصاحب
وہ شریف ترین انسان تھا جس نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی
بہرحال یہ ساراخاندان جو مخالف تھا وہ سارے کا سارا تباہ وبرباد ہوگیا۔ البتہ کچھ ایسے نصیبے والے ثابت ہوئے کہ احمدیت کی آغوش ِ رحمت میں آگئے۔ مرزا نظام الدین صاحب کی شاید آخری وقت کی یہ ندامت اور پچھتاوا تھا کہ ان کے بیٹےمرزا گل محمدصاحب نے احمدیت قبول کرلی اور خداکا بدلہ اور جزا کا بھی عجب نظام ہے کہ یہی گل محمدصاحب 1923ء کی مجلس مشاورت میں خلیفة المسیح کے پہرے داروں کے نگران مقررہوئے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ’’رپورٹ مجلس مشاورت‘‘ میں لکھا ہے کہ (مجلس مشاورت کے موقع پر) ہال کے باہر اور دروازوں پر پہرہ لگایا گیا تھاجو جناب مرزا گل محمدصاحب سیکنڈ لیفٹیننٹ کی زیرنگرانی تھا۔مرزاصاحب مرزانظام دین صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ (ماخوذ ازرپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 31؍مارچ و یکم اپریل1923ء دیباچہ)
مرزاگل محمدصاحب نے27؍مئی 1917ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پربیعت کرکے احمدیت قبول کی۔ 1922ء میں گورنمنٹ نے احمدیہ ٹریٹوریل فورس قائم کی جس کے کپتان حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحبؓ تھے۔ اس میں مرزاگل محمدصاحب سیکنڈلیفٹیننٹ بھرتی ہوئے۔ قادیان کی میونسپل کمیٹی کے وائس چیئر مین بھی رہے۔
جب جلسہ مصلح موعودؓ دہلی کے موقع پرشریروں نے جلسہ گاہ پرحملہ کیاتومرزاگل محمدصاحب بھی زخمی ہوئے۔ مرہم پٹی کرارہےتھےتوقاضی ظہورالدین اکمل صاحب نے پوچھا مرزایہ کیا؟ کہنے لگے یہ سب دہلی میں ہوا۔ میں نے محض بہ نیت ثواب وکفارہ گناہ خاموشی سے مارکھالی اوریہ دوتین زخم آئے۔ ورنہ میں اورمیرےساتھی بہت کچھ کرسکتے تھے۔
اسی موقع پرجب حضرت خلیفۃ المسیح کی حفاظت کے لیے پہرہ دارجمع ہوئے توان میں مختصرسی تقریرکی اورکہا کہ میں توایک ناچیزوگناہگارہستی ہوں مگروہ نہایت پاک وجودہے جس کے لیے ہماری جان تک بھی قربان ہوجائے توسمجھیں گے کہ فلاح دارین پائی اوریہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ (ماخوذ از الفضل 4؍اکتوبر1945ء صفحہ6، ماخوذ از مضامین شاکر صفحہ 34)
مرزانظام الدین صاحب کی پہلی بیوی فضل النساء سے کوئی اولادنہیں ہوئی تھی ۔ان کی دوسری بیوی وزیربیگم سے مرزادل محمد، مرزاگل محمدصاحب اور حمیدہ بیگم پیداہوئیں۔ مرزاگل محمدصاحب کی پہلی شادی حضرت مصلح موعودؓ کی ہمشیرہ نسبتی محترمہ عزیزہ بیگم دختر صاحبہ سے ہوئی۔ ان سے کوئی اولادنہ ہوئی۔ ان کی دوسری شادی مرزااکرم بیگ صاحب پٹی کی بیٹی محترمہ فیروزہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ اوران کے بطن سے مرزانفیس احمد صاحب، مرزالطیف احمد صاحب، شاہدہ بیگم صاحبہ اور مرزا رفیق احمدصاحب پیداہوئے۔ جب ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو مرزاگل محمدصاحب نے بڑی خوشی منائی۔ کہاکرتے تھے کہ ہمارے خاندان پرتوBan لگاہواتھا۔ اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی قبول فرمالی ہے اور Banتوڑدیاہے۔
وفات سے دوسال قبل انہیں تحریک کی گئی کہ مسجد مبارک قادیان کی دوسری توسیع کے لیے اگروہ اپنے دیوان خانہ کاگیٹ اورچنددکانیں دے دیں تو بہت بہترہوگا۔ فوراًرضامندہوگئے۔ جب بڑاگیٹ مسمارکیاجانے لگا تو طبیعت غمناک ہوگئی اور بڑی حسرت سے کہنے لگے کہ آہ دروازہ میرے آباء کی نشانی تھا اب گرادیاجائےگا۔ لیکن خداکاشکرہے کہ میں نے بخوشی یہ کام کرلیا۔ شاید میرا مولا اسی طرح میری عاقبت بالخیرکردے اور پھرآبدیدہ ہوکرایک طرف کوچلے گئے۔ (ماخوذ از مضامین شاکر صفحہ35)
قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ قادیان میں حضرت اقدسؑ کے آباءواجداد کے مکانات بہت عالی شان تھے۔ اوربعدمیں جب بھائیوں میں یہ جائیدادتقسیم ہوئی تومرزانظام الدین صاحبان کے حصہ میں زیادہ عالی شان مکانات آئے۔ اس کاذکرکرتے ہوئے ایک موقع پرحضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا: ’’گوریاست کے وارث ہمارے داداقرارپائے تھے اوران کوریاست کے وارث ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ نے زائدحصہ دیاتھا لیکن مکانات کے لحاظ سے وہ مکانات بہت شاندارتھے جومرزانظام الدین صاحب کے حصہ میں آئے جوہمارے داداکے چھوٹے بھائی کی اولادتھے۔ ان کے مکان میں بڑے بڑے ہال تھے جیسے کہ دلی کے شاہی زمانہ کےمکانات ہوتے ہیں۔‘‘(رؤیاوکشوف سیدنامحمود(1898ء تا 1960ء) صفحہ 553، رؤیانمبر591۔ (12/13؍ستمبر1954ء))
مکانات کے اسی حصہ کے دیوان خانہ کے ساتھ ایک عالی شان گیٹ تھا۔ جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
مرزاگل محمدصاحب نے 24؍ستمبر1945ء کو پچاس سال کی عمرمیں وفات پائی اور قادیان کے عام قبرستان میں دفن ہوئے۔
مرزاگل محمدصاحب کی وفات پرسلسلہ احمدیہ کی ایک بزرگ شخصیت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے فرمایا: ’’یہ وہ شریف ترین انسان تھا جس نے کبھی کسی کی دل آزاری نہ کی۔‘‘(الفضل 25؍ستمبر1945ء صفحہ 1 جلد 33نمبر 224)
فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار
سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار
عزت و ذلّت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں
تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار
میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کر دیا
کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار
(باقی آئندہ)