خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 28؍ جنوری 2022ء
غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ بنت حضرت ابوبکرؓ پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی۔ یہ واقعہ تاریخ میں واقعۂ افک کے نام سے معروف ہے
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کا ذکرہو رہا تھا اور یہی آج بھی چلےگا۔
سوال نمبر3: غزوہ حمراءالاسد میں صفوان بن امیہ نے کفار کے لشکرکو کیا رائےدی؟
جواب: فرمایا: حضرت عبداللہ بن عَمرو بن عَوف مُزَنِیؓ …نے آپﷺ کو خبر دی کہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف سے آ رہے تھے۔ جب وہ مَلَلْ میں تھے تو قریش نے وہاں پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ اور انہوں نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم لوگوں نے تو کچھ نہیں کیا…کفار نے کہا کہ ان مسلمانوں میں کئی ایسے بڑے بڑے لوگ باقی ہیں جو تمہارے مقابلے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔ پس واپس چلو تا کہ ہم ان لوگوں کو جڑ سے اکھیڑ دیں جو اُن میں باقی رہ گئے ہیں۔ صَفْوَان بن اُمَیہ اس بات سے انہیں روکنے لگا یعنی کافروں میں وہ بیٹھا تھا وہ انہیں روکنے لگا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم! ایسا نہ کرنا کیونکہ وہ لوگ جنگ لڑ چکے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ جو لوگ جنگ میں آنے سے رہ گئے تھے اب وہ بھی تمہارے مقابلہ میں ان کے ساتھ جمع ہو جائیں گے۔ تم واپس چلو کیونکہ فتح تو تمہاری ہی ہے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر تم واپس گئے تو تم شکست کھا جاؤ گے۔
سوال نمبر4: رسول اللہﷺ نے غزوہ حمراءالاسد میں شامل ہونےوالوں کےلیے کیا شرط مقررفرمائی؟
جواب: فرمایا: جب رسول اللہﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو بلوایا اور آپﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ وہ یہ اعلان کریں کہ رسول اللہ تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ دشمن کے لیے نکلو اور ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روز لڑائی میں شامل تھا یعنی احد کی لڑائی میں شامل تھا۔
سوال نمبر5: غزوہ بنونضیرکب ہوا؟
جواب: غزوۂ بنو نضیر 4؍ ہجری میں ہوا۔
سوال نمبر6: غزوہ بنونضیر میں یہودکی آپﷺ کےخلاف سازش کی بابت حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ صحابہ کی ایک مختصر جماعت کے ساتھ بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق آپﷺ اُن کے پاس بنو عامر کے دو مقتولوں کی دیت وصول کرنے کے لیے گئے تھے۔ آپﷺ کے ساتھ دس کے قریب صحابہ تھے جن میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ بھی تھے۔ آنحضرتﷺ نے وہاں پہنچ کر ان سے رقم کی بات کی تو یہودیوں نے کہا کہ ہاں اے ابوالقاسم !آپ پہلے کھانا کھا لیجیے پھر آپ کے کام کی طرف آتے ہیں۔ اس وقت آنحضرتﷺ ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہودیوں نے آپس میں سازش کی اور کہنے لگے کہ اس شخص یعنی آنحضرتﷺ کو ختم کرنے کے لیے تمہیں اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے بتاؤ کون ہے جو اس مکان پر چڑھ کر ایک بڑا پتھر ان کے اوپر گرا دے تاکہ ہمیں ان سے نجات مل جائے۔ اس پر یہودیوں کے ایک سردار عمرو بن جَحَّاشْ نے اس کی حامی بھری اور کہا کہ میں اس کام کے لیے تیار ہوں مگر اسی وقت سَلَّام بن مِشْکَمْ نامی ایک دوسرے یہودی سردار نے اس ارادے کی مخالفت کی اور کہا یہ حرکت ہرگز مت کرنا۔ خدا کی قسم! تم جو کچھ سوچ رہے ہو اس کی انہیں ضرور خبر مل جائے گی۔ یہ بات بدعہدی کی ہے جبکہ ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ موجود ہے۔ پھر وہ شخص جب اوپر پہنچ گیا یعنی پتھر گرانے والا، تا کہ آنحضرتﷺ پر پتھر گرا دے توآنحضرتﷺ کے پاس آسمان سے اس سازش کی خبر آئی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو خبر دار کر دیا کہ یہودی کیا کرنے والے ہیں۔ آپؐ فوراً اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر اس طرح روانہ ہو گئے جیسے آپؐ کو کوئی کام ہے۔ آپؐ تیزی کے ساتھ واپس مدینہ تشریف لے گئے۔
سوال نمبر7: بنونضیر کی سازش کے بعدآنحضورﷺ نے کیاحکم صادرفرمایااور کس شرط پر یہود کو جلاوطن ہونے کی اجازت دی؟
جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ نےحضرت محمد بن مَسْلَمہؓ کو بَنُو نَضِیر کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میرے شہر یعنی مدینہ سے نکل جاؤ۔ تم لوگ اب میرے شہر میں نہیں رہ سکتے اور تم نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ غداری تھی۔ آنحضرتﷺ نے یہود کو دس دن کی مہلت دی لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم اپنا وطن ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس پیغام پر مسلمان جنگ کی تیاری میں لگ گئے…آنحضرتﷺ نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا اور ان کی مدد کے لیے کوئی بھی نہ آیا…آنحضرتﷺ ان کا سختی کے ساتھ محاصرہ کیے رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا کر دیا اور آخر کار انہوں نے رسول اللہﷺ سے درخواست کی کہ ان کو اس شرط پر جلا وطن ہونے کی اجازت دے دی جائے اور جان بخشی کر دی جائے کہ سوائے ہتھیاروں کے انہیں ایسا تمام سامان لے جانے دیا جائے جو اونٹوں پر لادا جا سکتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے ان کی یہ شرط اور درخواست منظور فرما لی۔
سوال نمبر8: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدرالموعدکی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ لکھتے ہیں کہ غزوۂ احد کے بعد ’’میدان سے لوٹتے ہوئے ابوسفیان نے مسلمانوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پرہماری تمہاری جنگ ہو گی اور آنحضرتﷺ نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔ اس لئے دوسرے سال یعنی چار ہجری میں جب شوال کے مہینہ کا آخر آیا تو آنحضرتﷺ ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کرمدینہ سے نکلے اورآپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کوامیر مقرر فرمایا۔ دوسری طرف ابوسفیان بن حرب بھی دوہزار قریش کے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلا مگر باوجود احد کی فتح اوراتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اس کا دل خائف تھا اوراسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کاانتظام نہ ہوجاوے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو۔ چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے ایک شخص نُعَیم نامی کوجوایک غیر جانبدار قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا مدینہ کی طرف روانہ کر دیا اور اسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کوڈرا دھمکا کر اور جھوٹ سچ باتیں بنا کر جنگ سے نکلنے کے لئے باز رکھے۔ چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اور قریش کی تیاری اور طاقت اور ان کے جوش وخروش کے جھوٹے قصے سنا سنا کر اس نے مدینہ میں ایک بے چینی کی حالت پیدا کر دی۔ حتی کہ بعض کمزور طبیعت لوگ اس غزوہ میں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے لیکن جب آنحضرتﷺ نے نکلنے کی تحریک فرمائی اور آپؐ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کر کے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لئے ہم اس سے تخلّف نہیں کرسکتے اورخواہ مجھے اکیلا جانا پڑے میں جاؤں گا اور دشمن کے مقابل پر اکیلا سینہ سپر ہوں گاتولوگوں کاخوف جاتا رہا اور وہ بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ آپؐ کے ساتھ نکلنے کوتیار ہو گئے۔ بہرحال آنحضرتﷺ ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دوہزار سپاہیوں کے ہمراہ مکہ سے نکلا لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان توبدر میں اپنے وعدہ پرپہنچ گئے مگر قریش کالشکر تھوڑی دور آ کر پھر مکہ کو واپس لوٹ گیا اور اس کا قصہ یوں ہوا کہ جب ابوسفیان کونُعَیم کی ناکامی کاعلم ہوا تو وہ دل میں خائف ہوا اور اپنے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستہ سے لوٹا کر واپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت ہے اور لوگوں کوتنگی ہے اس لئے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب کشائش ہوگی تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کریں گے۔ اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اورچونکہ وہاں ماہ ذوقعدہ کے شروع میں ہرسال میلہ لگا کرتا تھا۔‘‘ (جس کا پہلے ذکرہو چکا ہے) تو’’ان ایام میں بہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کرکے کافی نفع کمایا۔ حتی کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے راس المال کو دوگنا کر لیا۔ جب میلے کا اختتام ہو گیا اورلشکر قریش نہ آیا تو آنحضرتﷺ بدر سے کوچ کر کے مدینہ میں واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکہ میں واپس پہنچ کر مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ یہ غزوہ غزوۂ بَدْرُالْمَوعِدکہلاتا ہے۔‘‘
سوال نمبر9: واقعہ افک کیا ہے؟
جواب: فرمایا: غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ بنت حضرت ابوبکرؓ پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی۔ یہ واقعہ تاریخ میں واقعۂ افک کے نام سے معروف ہے۔
سوال نمبر10: واقعہ افک کا بانی کون شخص تھا؟
جواب: فرمایا: اس افک کا بانی عبداللہ بن ابی بن سَلول تھا۔
سوال نمبر11: حضرت علیؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ نے حضرت عائشہؓ کی بابت آپﷺ کو کیا رائے دی؟
جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ نے حضرت علی بن ابوطالبؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بلایا۔ جب وحی میں تاخیر ہوئی تو آپﷺ ان دونوں سے اپنی بیوی کو چھوڑنے کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتے تھے۔ جہاں تک حضرت اسامہ کا تعلق تھا تو انہوں نے مشورہ دیا اس کے مطابق جو وہ جانتے تھے کہ آنحضورﷺ کا حضرت عائشہؓ سے تعلق کیا ہے اور حضرت عائشہؓ کی حالت کو بھی جانتے ہوں گے کہ نیک پارسا عورت ہیں۔ بہرحال حضرت اسامہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپؐ کی بیوی ہیں اوراللہ کی قسم! ہم سوائے بھلائی کے اَور کچھ نہیں جانتے۔ اور جہاں تک حضرت علی بن ابوطالبؓ کا تعلق ہے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! اللہ نے آپؐ پر کچھ تنگی نہیں رکھی اور اس کے سوا اور عورتیں بھی بہت ہیں اور اس خادمہ سے پوچھیے وہ آپؐ سے سچ کہہ دے گی۔
سوال نمبر12: رسول اللہﷺ کی خادمہ بریرہ نے حضرت عائشہؓ کے متعلق کیا رائے دی؟
جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ نے بریرہ کو بلایا اور آپؐ نے فرمایا اے بریرہ! کیا تم نے اس میں کوئی بات دیکھی جو تمہیں شک میں ڈالے؟ بریرہ نے عرض کیا نہیں۔ اس کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے ان میں اس سے زیادہ کوئی اور بات نہیں دیکھی جس کو میں عیب سمجھوں کہ وہ کم عمر لڑکی ہے، گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے۔ بکری آتی ہے اور وہ اسے کھا جاتی ہے۔
سوال نمبر13: حضرت ابوبکرؓ کے مسطح کو خرچ نہ دینے کی قسم کھانے پر کونساقرآنی حکم نازل ہوا؟
جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں مسطح کو کبھی خرچ نہیں دوں گا بعد اس کے جو اس نے حضرت عائشہؓ کے بارے میں کہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا وَلَا یاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَالسَّعَةِ اَنۡ یؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَالۡمَسٰکِیۡنَ وَالۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۪ۖ وَلۡیعۡفُوۡا وَلۡیصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔ (النور:23)حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اللہ کی قسم! میں ضرور پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے تو انہوں نے مسطح کو دوبارہ دینا شروع کر دیا۔
سوال نمبر14: حضرت زینبؓ نے آپﷺ کے دریافت کرنے پرحضرت عائشہؓ کی بابت کیا رائے دی؟
جواب: فرمایا: حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے معاملے میں یعنی حضرت عائشہؓ کے بارے میں حضرت زینبؓ سے پوچھا کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا زینب کو کہ اے زینب !تم کیا جانتی ہو یعنی حضرت عائشہؓ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! مَیں اپنی شنوائی اور بینائی محفوظ رکھتی ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں نے ان میں خیر ہی دیکھی ہے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اب یہی زینب وہ تھیں جو میرا مقابلہ کیا کرتی تھیں اور اللہ نے انہیں پرہیز گاری کی وجہ سے بچا لیا۔
سوال نمبر15: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے وعید کی پیشگوئی کے ٹلنے کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے۔ ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی وَلۡیعۡفُوۡا وَلۡیصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ تب حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگا دی۔‘‘ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’اسی بنا پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسنِ اخلاق میں داخل ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق اللہ ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں۔ ترکِ وعدہ پر بازپرس ہو گی مگر ترکِ وعید پر نہیں۔‘‘
سوال نمبر16: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےغزوہ احزاب کی کیا وجہ تسمیہ بیان کی اور یہ کب ہوئی؟
جواب: فرمایا: یہ غزوہ شوال 5؍ہجری میں ہوا۔ چونکہ قریش، یہودِخیبر اور بہت سے گروہ اس میں جتھہ بندی کر کے مدینہ منورہ پر چڑھ آئے تھے اس لیے قرآن کریم میں مذکور نام احزاب سے بھی یہ معرکہ منسوب ہے یعنی غزوۂ احزاب۔
سوال نمبر17: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ احزاب میں رسول اللہﷺ کے صحابہ سے مشورہ کرنے کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ کو ان لوگوں کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر پہنچی تو آپؐ نے صحابہ کرام کو بلوایا اور انہیں، صحابہ کو، دشمن کی خبر دی اور اس معاملہ میں ان سے مشورہ کیا۔ اس پر حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کی رائے دی جو مسلمانوں کو پسند آئی۔ عہد نبویؐ میں مدینہ کی شمالی سمت کھلی تھی۔ باقی تین اطراف میں مکانات اور نخلستان تھے جن میں سے دشمن گذر نہ سکتا تھا۔ چنانچہ کھلی سمت میں خندق کھود کر شہر کے دفاع کا فیصلہ ہوا۔ رسول اللہﷺ نے تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ مل کر خندق کھودنی شروع کی۔ آنحضرتﷺ دیگر مسلمانوں کے ہمراہ خندق کھودنے کا کام کر رہے تھے تا کہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھے۔ کل چھ ایام میں یہ خندق کھودی گئی۔ اس خندق کی لمبائی تقریباً چھ ہزار گز یا کوئی ساڑھے تین میل تھی۔
سوال نمبر18: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے آخرپرکن مرحومین کا ذکرخیر فرمایا؟
جواب: 1۔ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ(اہلیہ مختار احمد گوندل صاحب)2۔ مکرم میرعبدالوحیدصاحب 3۔ مکرم سیدوقاراحمدصاحب(امریکہ)۔