متفرق

اپنی بچیوں کی اعلیٰ تربیت۔ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا خوبصورت انداز تربیت

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی صاحبزادی سیّدہ محمودہ بیگم، اہلیہ مکرم صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب فرماتی ہیں:

’’جب سے ہوش سنبھالا اس ماں کے وجود کو اپنے لئے سپر کی طرح محسوس کیا۔ بچپن میں ذرا کوئی تکلیف ہوئی کان میں درد ہوا۔ اچھی طرح یاد ہے باوجود علیحدہ کمرے میں سونے کے، پھر وہاں اپنے پلنگ پرآرام نہ ملتا تھا۔ جب تک امی جان اپنے پاس نہیں سلاتی تھیں۔ ابا میاں، دوا دیتے تھے۔ امی جان آہستہ آہستہ تھپکتی جاتی تھیں، تب مجھے چین ملتا تھا۔ اس وقت جو لذت اور سرور ملتاتھا وہ مجھے اب بھی یاد ہے۔ اس وقت دل چاہتا تھا ہر روز بیمار ہی رہوں، اور رات کو امی جان کا قرب ملے۔ لیکن یہ ہمارے ہاں رواج نہیں تھا کہ دو ڈھائی سال کی عمر کے بعد بچہ ماں باپ کے کمرے میں سوئے۔ بس دل تڑپ کر رہ جاتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سے غافل رہتی تھیں۔ رات کو سونے سے پہلےاپنے پاس بلاتیں۔ کچھ اچھی اچھی دینی باتیں یاد کرواتیں( اس میں ہمارےوالد صاحب جن کو ہم ابا میاں کہتے تھے، ان کا بھی بڑا حصہ ہے)اگر ہم بیمار ہوتے تو دوا خود دیتیں۔ مالش اپنے سامنے کرواتیں۔ پھر پیار کر کے رخصت کرنا اچھی طرح یاد ہے۔ صبح صبح پھراپنے پاس بلانا اپنے ساتھ لحاف میں بٹھا لینا۔ آتے ہی السلام علیکم کہنے کا دونوں طرف سے حکم تھا۔ پھر رات کی بتائی ہوئی باتیں دہراتیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام نبیوں کے حالات بتاتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی ہماری سمجھ کے مطابق باتیں بتاتیں۔ یہ معمول تھا دن میں بھی اکثر کچھ نہ کچھ نصیحت کرتے رہنا، اٹھتے بیٹھتے اور کھانے تک کے انداز دیکھنا اور غلطی پر ٹوکنا۔اگر بار بار وہی غلطی ہوجائے تو پیارآمیز سرزنش بھی کرنی۔ جب نماز فرض ہوئی، تو باقاعدہ نماز کی تاکید، اور صبح تلاوت قرآن کریم پر نظر رکھنی لیکن مارا کبھی نہیں۔ صرف ڈراوا دیتی تھیں۔ بات کا ہی اتنا رعب تھا اور مار کھانے کی شرم کہ خود بخود بری عادت دور ہوجاتی۔ کھیلنے کودنے کی آزادی تھی۔ گھر میں بہت سی پروردہ لڑکیاں تھیں شریف خاندانوں کی بھی اور ملازموں کی بھی، کبھی منع نہیں کیا کہ ان کے ساتھ نہ کھیلوصرف یہ اجازت نہیں تھی کہ دروازے بند کر کے کھیلیں ۔گڑیا ں کھیلی جاتیں۔ گھربنائے جاتے۔ لیکن اپنی نظر میں رکھتیں۔ کمرہ بند کر کے لڑکیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں تھی اس وقت کم عمری کی وجہ سے حیرت ہوتی تھی مگر جوں جوں عمر بڑی ہوتی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ تو بہت اچھا تربیت کا انداز تھا کیونکہ بعض لڑکیاں گھروں میں پکی پکی اور گندی باتیں سیکھ کر آتی ہیں جو نا پختہ ذہنوں کے لیے زہر کا کام دیتی ہیں۔ حکم تھا جو کوئی ایسی ویسی بات بتائے تو فورا ًمجھے بتاؤ۔ شکایت تو کبھی کسی کی نہیں کی، لیکن بات کرنے والی کو ہمیشہ ٹوک دیا کہ مجھ سے بری بات نہ کرو نہیں تو امی جان کو بتا دوں گی۔ ویسے لڑکیاں سب بہت شریف تھیں۔ سنبھل جاتی تھیں۔ ( ان سب لڑکیوں سے ہمیشہ اچھا سلوک کیا اور ان کی تربیت بھی ہمیشہ اسی انداز سے کرنے کی کوشش کی جس طرح اپنے بچوں کی) جب ہم ذرا لکھنے پڑھنے کے قابل ہوئے اپنے رشتہ کی بہنوں سے بچگانہ قسم کی خط و کتابت شروع ہوئی۔ امی جان کا طریقہ یہ تھا کہ جب تک میری عمر سولہ سترہ سال کی نہیں ہوگئی خط ضرور پڑھا کرتی تھیں۔ فرمایا کرتی تھیں کچی عمر میں اس بات کا احساس نہیں ہوتا۔ بعض وقت غلط قسم کی بات بچہ لکھ دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم پر اعتماد نہیں۔ لیکن ماں باپ کو نظر رکھنا پڑتی ہے۔ ہم نے کبھی برا نہ مانا۔ اس کے بعد جب دیکھ لیا کہ سمجھ کی عمر آگئی ہے۔ پورا اعتبار کیا۔ بھائیوں کے ساتھ بھی ابا میاں اور امی جان کا یہی طریقہ تھا۔ دس بارہ سال کی عمر کے بعد ان کو مردان میں بھیج دیا جاتا۔ جس کا زنانے مکان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ صبح ناشتے اور دونوں وقت کے کھانے پر یا دن میں کسی وقت اندر آتے۔ ان سے دسترخوان پر خوب باتیں ہوتیں۔ کچھ دیر بہنوں کے پاس اور بڑوں کے پاس بیٹھتےپھر باہر چلے جاتے۔ ان کے لئے ہمیشہ قادیان سے بزرگ استاد بلاکر بطوراتالیق رکھتے جو تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت پر بھی کڑی نظر رکھتے۔ کھیل کود ورزش کرواتے ہم لڑکیوں کو ہمیشہ اچھی کتابیں اور رسالے پڑھنے کو دیتیں۔ اجازت کے بغیر کوئی اور رسالہ یا ناول نہیں پڑھ سکتے تھے۔ میں کافی بڑی ہوگئی تو خود ہی خیال آیا کہ یہ تو ابھی تک بچگانہ کتابیں ہی پڑھ رہی ہے، کہنے لگیں اتنے اچھے رسالے اور کتابیں گھر میں آتی ہیں تم اب تک بچوں والے پڑھے جارہی ہو۔ میں نے کہا آپ نے کہا ہی نہیں۔ اس پر ہنس پڑیں اور کہا ہماری سب چیزیں اچھی ہی آتی ہیں۔ یہ پڑھا کرو۔ صرف مجھ سے پوچھ لیا کرو۔ اگر کوئی کتاب ایسی ہوگی تو میں خود ہی منع کر دوں گی۔ غرض عجیب رنگ تربیت کا تھا۔ اعتماد بھی کڑی نظر بھی۔ باتوں باتوں میں نصیحت کے طور پر کہتیں اور بار بار کہتیں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے بلکہ بہت چھوٹی عمر میں مجھے اپنے پاس بٹھا کر فرمایا تھا کہ لڑکی اور عورت کی عزت موتی کی طرح ہوتی ہے اگر ایک بار اس کی آب مٹ جائے تو کبھی واپس نہیں آتی، یہ بھی جب کوئی ایسی ویسی بات باہر سے کان میں پڑ جائےیا کسی واقعہ کا ذکر اخبار وغیرہ میں ہو۔ تب ہمیں سنا کر یہ باتیں کرتیں تاکہ دل پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔ کہا کرتی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ میں بہت چھوٹی تھی اور کسی بات کے سمجھنے کی عمر نہیں تھی، ایک بار مجھے پاس بٹھا کر عورتوں کو نصیحت فرمائی تھی کیونکہ بعض عورتوں نے کسی کے متعلق کوئی بات اڑا دی تھی اسی خیال سے ہمارے کان میں بھی یہ بات ڈالتی رہتی تھیں اور ہمیشہ ہمارے والد صاحب نے بھی، اور امی جان نے بھی، یہی بات دل میں ڈالی اور یہ خیال پختہ کیا کہ تم میری عزت نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت ہو۔ ہمیشہ نصیحت کی کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ ساتھ یہ بھی کہنا، یہ تو مجھے یقین ہے تم جھوٹ نہیں بولتیں پھر بھی انسان سے غلطی ہو جاتی ہے اس سے ہمیشہ بچو۔ ادھر کی بات ادھر کرنے سے نفرت تھی اور یہی نصیحت حضرت اماں جان ؓ کی بھی تھی۔(سیرت وسوانح حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ  مطبوعہ لجنہ اماء اللہ بھارت صفحہ 237-240)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button