حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت کا مقصد اور ہماری ذمہ داریاں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ارشادات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت کا مقصد اور ہماری ذمہ داریاں
بجائے اس کے کہ ہر ایک دوسرے پر نظر رکھے کہ وہ کیا کر رہا ہے، اُس کا ایمان کیسا ہے، اُس کا عمل کیسا ہے اور اُس میں کیا کمزوری ہے، ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کس حد تک اپنے عہدِ بیعت کوپورا کر رہا ہے
اللہ تعالیٰ جب بھی کسی نبی کو دنیا میں مبعوث کرتا ہے تو وہ بے فائدہ اور بے سود نہیں ہوتابلکہ اس کے آنے کا کوئی نہ کوئی مقصود ہوتا ہے۔ اُسی مُرادو مدعا کو لے کروہ دنیا میں اپنے آنے کی منادی کرتا ہوا کامیاب و کامران ہوتا ہے۔
اس زمانے میں بھی ایک بابرکت وجود نے اپنے آنے کی منادی کروائی اور لوگوں کے سامنے اپنے مقصود و مطلوب کوبیان کیا۔اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو سمیٹتے ہوئے وہ مدعی بے خوف وخطر اپنے مشن اورفرائض منصبی کو احسن رنگ میں پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کے پاس جا پہنچا۔ وہ مبارک ہستی حضرت مسیح موعود و امام مہدی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے نام سےمشہور و مشہود ہوئی۔آپؑ نے اپنی بعثت کی غرض و غایت کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کیا۔عالم فانی سے گزر جانے کے بعد آپؑ کے جانشین و خلفائےکرام نے بھی عالم بشریت کوآپؑ کے آنے کے مقاصد واغراض بتائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزبھی دنیا کوآپؑ کےورودو نزول کے مقصدسے آگاہی کرواتے ہیں۔آپ اپنے خطبات و خطابات میں ان مقاصدواغراض کو اکثر بیان فرماتے ہیں تاکہ حضرت مسیح موعود ؑکے بیعت کنندگان کے ذہنوں میں یہ بات ہر وقت حاضرو موجود رہے۔اور عالم کا وہ حصّہ جو کہ آپؑ کی تیار کردہ کشتی میں ابھی تک سوار نہیں ہو سکا ،اس کو بھی اس حصار و قلعہ کی اہمیت وافادیت سے آگاہی ہوتی رہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے چند ارشادات کواس مضمون میں پیش کیا جائے گا۔
خدا تعالیٰ کی ہستی کو پہچاننا
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اگر ہم بیعت کر کے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کو اُس طرح نہیں پہچان سکے جو اس کے پہچاننے کا حق ہے تو ہماری بیعت بے فائدہ ہے۔ہمارا اپنے آپ کو احمدی کہلانا کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ اگر آج ہم اپنے دنیاوی مالکوں کو خوش کرنے کی فکر میں ہیں اور یہ فکر جو ہے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے سے زیادہ ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا نہیں کر رہے۔ ہم آپ سے کئے گئے عہدِ بیعت کو نہیں نبھا رہے…آپؑ فرماتے ہیں کہ زبانوں سے تو دعوے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین ہے اور ہم خدا تعالیٰ کو ہی سب سے بالا ہستی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہماری ہر محبت پر غالب ہے، لیکن عملاً دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ ہمیں اب ہمارے چاروں طرف نظر آتا ہے کہ کیا مسلمان اور کیا غیرمسلم ہر ایک دنیا کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ دنیا کی لغویات اور بے حیائیوں نے خداتعالیٰ کی یاد کو بہت پیچھے کر دیا‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اکتوبر 2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر2013ءصفحہ5)
خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا
’’آپؑ کے آنے کا مقصد آسمان کو زمین کے قریب کرنا ہے یعنی خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا ہے۔ یقیناًہمارے ایمان اور اعمال کی کمی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کی نفی نہیں ہوتی۔ ہاں ہم اُس فیض سے حصہ لینے والے نہیں ہیں جو آپ کی بعثت سے جاری ہوا ہے۔ ہمارے ایمان لانے کے دعوے بھی صرف زبانی دعوے ہیں۔پس بجائے اس کے کہ ہر ایک دوسرے پر نظر رکھے کہ وہ کیا کر رہا ہے، اُس کا ایمان کیسا ہے، اُس کا عمل کیسا ہے اور اُس میں کیا کمزوری ہے، ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کس حد تک اپنے عہدِ بیعت کوپورا کر رہا ہے۔ کس حد تک آپ علیہ السلام کے مقصد کو پورا کر رہا ہے۔ کس حد تک اعمالِ صالحہ بجا لانے کی کوشش کر رہا ہے۔کس حد تک اپنی اخلاقی حالت کو درست کر رہا ہے۔ کس حد تک اپنے اس عہد کو پورا کر رہا ہے کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اکتوبر 2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر2013ءصفحہ5)
اپنے خدا سے سچی وفا کا تعلق جوڑنا
’’ہمیں چاہئے کہ احمدی ہونے کے دعوے کے ساتھ ہم اپنے خدا سے سچی وفا کا تعلق جوڑیں اور جب ہمارا سچا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو گا تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یاد رکھیں کہ عبادتوں کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کے محبت اور صلح کے پیغام کو بھی دنیا تک پہنچانا ہمارا کام ہے۔ کیونکہ آج دنیا کو خدا کے قریب لانے اور دنیا میں اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرتے ہوئے محبت اور بھائی چارے کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم احمدیوں کے سپرد کی گئی ہے۔ پس جہاں یہ باتیں آپ خود یادرکھیں وہاں اپنی اولادوں کے دلوں میں بھی اس کو اچھی طرح گاڑ دیں اور راسخ کر دیں۔ کیونکہ جماعتوں کی زندگیاں تبھی بنتی ہیں جب نسلوں میں بھی یہ نیکیاں قائم ہوتی چلی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے آپ میں سے اکثر کے چہروں پر اخلاص و وفا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ اخلاص و وفا بڑھاتا چلا جائے۔ وہ وفا جو آپ کو حضرت مسیح موعودؑ اور خلافت احمدیہ سے ہے کبھی ختم نہ ہو بلکہ بڑھتی چلی جائے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍ اپریل 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍اپریل 2006ءصفحہ7)
اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا
’’آج عرب دنیا بھی اس بات کی گواہ ہے کہ عیسائیت کے ہاتھوں گزشتہ چند سالوں سے عرب مسلمان کس قدر زِچ ہو رہے تھے، کتنے تنگ تھے۔ اللہ کے اس پہلوان کے تربیت یافتوں نے ہی عرب دنیا میں عیسائیت کا ناطقہ بند کیا۔ کیونکہ آج اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے وہ دلائل قاطعہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی دئیے گئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کیا جا سکتا ہے اور دنیا کے غلط عقائد کا منہ بند کیا جا سکتا ہے۔ آج اتنی آسانی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برہان کی روشنی سے عقائد باطلہ کاجوردّکیا جارہا ہے، مختلف وسائل استعمال ہوتے ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس الہام کی صورت میں فرمایا تھا کہ‘‘مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا’’۔ یہ پیغام جو اتنی آسانی سے ہم دنیا کے کناروں تک پہنچا رہے ہیں یہ بھی اس بات کی دلیل اور تائید ہے…یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے۔ آج ہم اللہ تعالیٰ کے آپؑ سے کئے گئے وعدوں کو نئے سے نئے رنگ میں پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے اس الہام کو ایک اور شان کے ساتھ بھی پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ مارچ 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍اپریل 2007ء صفحہ 7)
بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو ہر احمدی کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ہماری اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہی ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوتا ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں دوسرے مسلمانوں سے بھی اور غیروں سے بھی ممتاز کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد کیا تھاجیسا کہ آپؑ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ مقصد بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا ہے۔ وہ راستے دکھانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے راستے ہیں۔ بندے کے تقویٰ کے معیار کو ان بلندیوں پر لے جانا ہے جس سے وہ خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو اور یہی باتیں ہیں جو ہمیں اس تاریک کنویں میں گرنے سے بچائے رکھیں گی جس سے ہم یا ہمارے باپ دادا نکلے تھے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍ اپریل 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍اپریل 2008ء صفحہ 5)
اللہ تعالیٰ کی پاک ہدایتوں پر قائم کرنا
’’پس یہ ہے وہ کام جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ہدایتوں پر قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان ہدایتوں کی طرف کھینچوں۔ یعنی جس گند میں ایک انسان ڈوبا ہوا ہے اس سے کوشش سے نکالوں۔ جس کنویں میں گرا ہوا ہے اس میں سے کھینچ کر نکالوں۔ کھینچنا ایک کوشش چاہتا ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر دوسرے کو انسان کھینچ کر اس تکلیف سے باہر نکالتا ہے جس میں دوسرا پڑا ہوتا ہے یا جس مشکل میں کوئی گرفتار ہوتا ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍ اپریل 2008ءمطبوعہ ا لفضل انٹرنیشنل 25؍اپریل 2008ء صفحہ 5)
اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنا
’’یہ چند حوالے جومَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش کئے ہیں جن میں آپؑ نے رفق اور حِلم کے خلق کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے تاکہ ہم اس کے معنوں کو وسیع کرکے دیکھیں۔ اس کے معنوں کو وسیع تر کرکے سمجھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ باتیں ایک احمدی کو اپنی اصلاح کے لئے جگالی کرتے رہنے کے لئے ضروری ہیں تاکہ یہ احساس اجاگر رہے کہ صرف احمدی ہونا اور بیعت کر لینا یا کسی صحابی کی اولاد ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ عہد بیعت کا حق تب ادا ہو گا جب ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍اپریل 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍اپریل 2008ء صفحہ 7)
ہر قسم کے شرک سے پاک کرنا
’’پس ایک احمدی کا فرض ہے کہ تمام قسم کی نفسانی اغراض سے اپنے دلوں کوپاک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام میں لگ جائے۔ آپؑ نے فرمایاکہ بیعت کرنے کے باوجود بعض لوگ ٹھو کر کھا جاتے ہیں صرف اس لئے کہ اس غرض کو نہیں سمجھتے جس کے لئے وہ بیعت میں شامل ہوئے ہیں اور وہ غرض یہی ہے کہ مکمل طور پر اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے سپرد کر دینا اور اپنے دل کو ہر قسم کے شرک سے پاک کرنا‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ مارچ 2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍مارچ 2009ء صفحہ 6)
آنحضرتﷺ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن … آنحضرتﷺ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا اور قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنا تھا۔ اس مقصد کےلئے آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن ہونے کے بعدایک پاک جماعت کے قیام کا اعلان فرمایا اور بیعت لی۔ آپؑ کا آنحضرت ﷺ سے عشق انتہا کو پہنچا ہوا تھااور آپؑ آنحضرتﷺ کے مقام کی حقیقی پہچان رکھتے تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اگر کسی کو پہچان تھی تو وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تھی‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ مارچ 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍پریل 2007ء صفحہ 6)
مسلمانوں کو آنحضرتﷺ کے مقام کی پہچان کروانا
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام مسلمانوں کو آنحضرتﷺ کے مقام کی پہچان کروانا اور دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچانا تھااور نہ صرف بچانا بلکہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانا بھی تھا، اُس ہدایت سے دنیا کو روشناس کروانا بھی تھا جو آخری شرعی نبی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاری تھی اور جس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں مسیح ومہدی نے آ کر یہ کام کرنا ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر اللہ تعالیٰ کی مدد سے غالب کرنا ہے…احمدی خوش قسمت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس موعود کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہم نے بھی اس پیغام کو جس کو لے کر آپؑ اٹھے تھے، دنیا میں پھیلانا ہے تا کہ خدا کی توحید دنیا میں قائم ہو اور آنحضرتﷺ کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرائے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ تو ہونا ہے۔ ہم نے تو اس کام میں ذرا سی کوشش کر کے ثواب کمانا ہے، ہمارا صرف نام لگنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توسعید فطرت لوگوں کو توحید پر قائم کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی امت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اس لئے اس نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیجا ہے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ مارچ 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍پریل 2007ء صفحہ 6)
قرآن کریم کی حفاظت کا کام
’’…یہاں اس ملک یوکے(UK) میں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ادراک جس طرح ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہوا ہے اسے پھیلائیں۔ اس خوبصورت تعلیم کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ سب باتیں قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ہمیں آپ نے بتائی ہیں اور آگے جماعت کے لٹریچر میں بھی بہت ساری جگہوں پہ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صحیح تشریح اور تفسیر کے پہنچانے، اس کے معنوں کی صحیح تشریح کرنے کے لئے اور قرآن کریم کی حفاظت کے لئے آپ علیہ السلام کو بھیجا جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ آپ نے اپنی کتب اور ملفوظات اور تقاریر میں اس کاخوب حق ادا کیا ہے۔پس اس زمانے میں قرآن کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے کام لیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کام لیا ہے۔ اور یہی کام ہر احمدی کا ہے کہ ہر طبقے اور ہر مزاج تک اس پیغام کو پہنچائیں اور ہر جگہ اس کام کو سرانجام دیتے ہوئے آپ علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کریں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ دسمبر 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری 2016ءصفحہ7)
قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا عہد کرنا
’’پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آنے والے مسیح موعود کو مان لیا اور بیعت کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا عہد کیا اور ان لوگوں میں شامل ہوئے ،جو شکر کے سجدات بجا لانے والے ہیں نہ کہ نظریں پھیر کر گزر جانے والے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل اور احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں پیدا کیا جب مسیح موعود کا ظہور ہوا اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز ہوا اور وہ اندھیرا زمانہ گزر گیا جس میں پہلے لوگ پڑے ہوئے تھے۔ وہ زمانہ جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا زمانہ تھا ہم اس میں پیدا ہوئے جس کے انتظار میں بیشمار سعید روحیں اس دنیا سے چلی گئیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍ مارچ 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍اپریل2016ءصفحہ8)
دنیا میں حقیقی امن قرآن کریم کے ذریعہ قائم کرنا
’’پس قرآن کریم کا جبر سے دین میں شامل نہ کرنے کا یہ اعلان معترضین کے اعتراض کے ردّ کے لئے کافی ہے اور جو عقلمند ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو غلط طریق پر بدنام کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں حتی کہ عیسائی پادری نے بھی یہ کہا کہ اسلام کی یہ پرامن تعلیم جو ہے اس کا بہت زیادہ پرچار کرو۔ اور جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کا پرچار کرو تو اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات پوری ہو رہی ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے۔ جب ان کو پتا لگتا ہے کہ اصل تعلیم کیا ہے…اپنے نیک نمونے قائم کرو تاکہ ہمیں دیکھ کے لوگ ہماری طرف آئیں۔ پس یہ ہر احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے کے لئے قرآن کریم کا علم حاصل کریں اور پھر اپنے نیک نمونے قائم کر کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں اور یہی علم اور عمل ہے جس سے اس زمانے میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آتے ہوئے قرآن کریم اور اسلام کی حفاظت کے کام میں حصہ دار بن سکتے ہیں اور دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اگر دنیا میں حقیقی امن قائم کرنا ہے تو قرآن کریم کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ دسمبر 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری 2016ءصفحہ7)
قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور تشریح کو پیش کرنا
’’ایک حقیقی مسلمان اور عبد رحمان کی تو پہچان ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (الفرقان: 64) اور جب جاہل لوگ ان سے لڑتے ہیں تو وہ بجائے لڑنے کے کہتے ہیں ہم تمہارے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ پس یہ قرآنی تعلیم ہے اور یہی تعلیم ہے جو ہر سطح پر امن اور سلامتی قائم کرنے اور اس کے لئے کوشش کرنے کا حکم دیتی ہے…پس اس تعلیم کا ادراک حاصل کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تعلیم پر عمل کریں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اپنے عملی نمونوں سے دنیا کو بتائیں کہ آج قرآن کریم کی حفاظت کے کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی ہے اور یہ اس کا فضل ہے۔ قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور تشریح ہی اس کی معنوی حفاظت بھی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور ہمیں آپ علیہ السلام کو ماننے کی توفیق دے کر اس کام کے لئے ہمیں بھی چن لیا، ہمیں بھی توفیق دی۔ پس یہ خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلانے کا کام سرانجام دینا ہر احمدی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ہر احمدی لڑکے لڑکی، مرد عورت کو کوشش کرنی چاہئے ‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ دسمبر 2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری 2016ءصفحہ8)
اسلام کی حقیقی تعلیم کی تصویر کو پیش کرنا
’’یہ دَور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دور ہے۔ یہ دور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حقیقی تعلیم کی تصویر ہمارے سامنے رکھی، یہ اصل میں اسی دور کی ایک کڑی ہے جو آنحضرتﷺ کا دور ہے۔ کیونکہ اصل زمانہ تو تاقیامت آنحضرتﷺ کا ہی زمانہ ہے اور یہ بیعت بھی جو ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کرتا ہے آنحضرت ؐ کے حکم سے ہی کرتا ہے۔ پس ایک مومن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ تجدید عہد کہ وقت کی دُوری نے جس عظیم تعلیم اور جس عظیم اُسوہ کو ہمارے ذہنوں سے بھلا دیا تھا اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم ان نیکیوں پر کار بند ہونے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کریں گے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍اپریل 2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍اپریل 2008ء صفحہ 5)
تمام مذاہب والوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ کچھ عرصے بعد (آپ کی وفات کے کچھ عرصے بعد) امت مسلمہ پراندھیرا زمانہ آئے گالیکن وہ مستقل اندھیرا زمانہ نہیں ہو گا بلکہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عاشق صادق کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھیجے گا جو مسیح و مہدی ہو گا۔ ایسا نبی ہو گا جو آپؐ کی پیروی میں آنے والا نبی ہو گا وہ آ کر پھر اس اندھیرے زمانے کو روشنیوں میں تبدیل کرے گا۔ وہ پھر مسلم اُمہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے روحانیت کے نور کی کرنیں بکھیرے گا۔ اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ کل اقوام عالم اور تمام مذاہب والوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے گا۔ وہ اس زمانے میں جب مادیت کا دَور دَورہ ہو گا بندے کو خدا سے ملا نے اور اس کے مقصد پیدائش کو پہچاننے کی طرف توجہ دلائے گا‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اپریل 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍اپریل صفحہ5تا6)
تقویٰ پیدا کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتانا
’’ پس یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد کے حصول میں معاون بنائیں اور اس فیض سے حصہ پائیں جو آپ کی بعثت کا مقصد ہے جو آپ کے ماننے سے ملنا ہے۔ ورنہ جیسا کہ آپ نے فرمایا آپ کو ہم میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ خود ہی فرشتوں کے ذریعہ آپ کی مدد فرما کر آپ کے سلسلے کو ترقی دے سکتا ہے اور دیتا ہے…پس یہ تقویٰ ہے جو ہم نے اپنے اندر پیدا کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتانی ہے۔ مسلمانوں کو بھی بتانا ہے کہ اسلام کا پھیلنا تقویٰ سے مشروط ہے۔ پس بجائے ظلم و تعدی میں بڑھنے کے تقویٰ پید اکرو۔ تقویٰ میں بڑھو۔ یہ اسلام کے نام پر جو حملے ہوتے ہیں یہ اسلام کی حمایت نہیں ہے بلکہ یہ بدنامی کا ذریعہ ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍ مارچ 2016ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 15؍اپریل2016ءصفحہ 6)
صادقوں کی جماعت تیار کرنا
’’جب انسان خداتعالیٰ کو دیکھ لیتا ہے تو اس کو خداتعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت بھی نصیب ہوجاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی معرفت ملتی ہے تو پھر اس کی کامل اطاعت کی طرف ہمیشہ نظر رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا حقیقی عرفان ملتا ہے۔ ہر قسم کے شرک سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ ہونے کا صحیح علم حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر و حوصلے سے ہر قسم کے ابتلاؤں اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل پیدا ہوتا ہے۔ تمام قسم کے اعلیٰ اخلاق بجا لانے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ غرض کہ صدق کے اعلیٰ نمونے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہر وقت، ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد سے راہنمائی کرتے ہیں۔ پس یہ خلاصتہً اس جماعت کی غرض اور مقصد ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خداتعالیٰ صادقوں کی جماعت تیار کر رہا ہے۔ اگر ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر اپنے جائزے لیں تو ایک خوف کی صورت نظر آ تی ہے۔ پس ایسی صورت میں پھر ہمیں خداتعالیٰ کی طرف لوٹتے ہوئے اس کے حضور جھکنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ ان راستوں پہ چلنا بھی اس کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شامل حال نہ ہو تو جتنی بھی ہم کوشش کر لیں کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ مارچ 2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍مارچ 2009ء صفحہ 7)
تقویٰ اختیار کرنا اور مادی چیزوں کے پیچھے نہ پڑنا
’’پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سچا مسلمان بننے کی کوشش کرے۔ یہ جو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں دنیا میں پیدا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ یہ سب اس زمانے کی ایجادیں یہ مسیح محمدی کی آمد کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ قرآن کریم بھی اس زمانے کی ایجادوں کی گواہی دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ یہ ہوں گی۔ اور حدیثوں میں بھی اس زمانے کی ایجادوں کی پیشگوئی کی گئی ہے لیکن ایک احمدی کو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ تقویٰ اختیار کرے اور صرف اور صرف دنیاوی مادی چیزوں کے پیچھے ہی نہ پڑا رہے۔ ورنہ اگر ایک احمدی، احمدی ہونے کے بعد تقویٰ اختیار نہیں کرتا توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ایسے احمدی ہونے کا کیا فائدہ کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لی اور غیروں کی دشمنی بھی مول لی‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍ اپریل 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍اپریل 2006ءصفحہ6)
بیعت کے بعد ایمان میں ترقی کرنا
’’ پھر یہ سب باتیں غلط ہیں کہ میں ایمان لایا، میری محبت ہے، میں کامل اطاعت کرنے والا ہوں، میں نے بیعت کی ہوئی ہے، مَیں اعتقادی طور پر یقین رکھتا ہوں، میں سچا مسلمان ہوں۔ فرمایا یہ سب دعوے ہیں۔ پس بیعت کے بعد ایمان میں بھی ترقی ہونی چاہئے، محبت میں بھی ترقی ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہو، یہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اُس کے سب سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو، مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت ہو، خلافت سے محبت ہو اور آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہو‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اکتوبر 2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر2013ءصفحہ6)
ایمانوں کو قوی ومضبوط کرنا
’’پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کر رہے ہیں۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ مَیں ایمانوں کو قوی کرنے آیا ہوں۔ اُن میں مضبوطی پیدا کرنے آیا ہوں۔ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے ایمان مضبوطی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ فرمایا کہ ایمان مضبوط ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثابت ہونے سے، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین سے۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل دنیا میں دنیا کے جاہ و مراتب پر بھروسہ خدا تعالیٰ پر بھروسے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف پڑنے کی بجائے دنیا کی طرف زیادہ نگاہ پڑتی ہے۔وہ یقین جو خداتعالیٰ پر ہونا چاہئے وہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور دنیا والے اور دنیا کی چیزیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ اگر ہم اپنے ارد گردنظر دوڑائیں تو یہی صورتحال ہمیں نظر آتی ہے، لیکن اپنے ارد گردنظر دوڑانا صرف یہ دیکھنے کے لئے نہیں ہونا چاہئے کہ آج دنیا خدا تعالیٰ کی نسبت دنیاوی چیزوں پر زیادہ یقین اور بھروسہ کرتی ہے۔ بلکہ یہ نظر دوڑانا اس لئے ہو کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم دنیاوی وسائل پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یا خدا تعالیٰ پر‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اکتوبر 2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر2013ءصفحہ5)
پاک نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرنا
’’جودکھاوے کی باتیں ہیں، فضول باتیں ہیں، بیہودہ باتیں ہیں، وہ انسان کو تباہ کر دیتی ہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور پھر ہمارے سامنے جو جائزے آئیں، جو اپنی حالت نظر آئے اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ہر ایک کا اپنا نفس اس کو اصلاح کی طرف مائل کرنے والا ہونا چاہئے۔ خود اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اصلاح کی کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب کسی قسم کی ضدنہ ہو۔ جب یہ احساس ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر میری زندگی کا ایک خاص مقصد ہے اور وہ اپنی زندگی کا پاک نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرنا اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کے احکامات پر عمل کرناہے۔ اور یہی بات اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ دوسروں کو احمدیت اور حقیقی اسلام سے متعارف کروانے اور ان کی راہنمائی کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے اور بنتی ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍مارچ 2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍مارچ 2009ء صفحہ 6تا7)
اپنے اندرنمایاں تبدیلیاں پیدا کرنا
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے دس شرائطِ بیعت رکھی ہیں کہ اگر تم حقیقی طور پر میری جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہو یا شامل ہونے والے کہلانا چاہتے ہو تو مجھ سے پختہ تعلق رکھنا ہو گا۔ اور یہ اُس وقت ہو گا جب ان شرائطِ بیعت پر پورا اترو گے۔ ان کی جگالی کرتے رہو تا کہ تمہارے ایمان بھی قوی ہوں اور تمہاری اخلاقی حالتیں بھی ترقی کرنے والی ہوں، ترقی کی طرف قدم بڑھانے والی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں مختلف مواقع پر بڑی شدت اور درد سے نصیحت فرمائی ہے کہ تم جو میری طرف منسوب ہوتے ہو، میری بیعت میں آنے کا اعلان کرتے ہو اگر احمدی کہلانے کے بعد تمہارے اندر نمایاں تبدیلیاں پیدا نہیں ہوتیں تو تم میں اور غیر میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اکتوبر 2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر2013ءصفحہ5)
اطاعت میں کامل ہونا
’’اطاعت یہ نہیں کہ خلیفۂ وقت کے یا نظامِ جماعت کے فیصلے جو اپنی مرضی کے ہوئے دلی خوشی سے قبول کر لئے اور جو اپنی مرضی کے نہ ہوئے اُس میں کئی قسم کی تاویلیں پیش کرنی شروع کر دیں، اُس میں اعتراض کرنے شروع کر دئیے۔ فرمایا کہ یہ بیعت کا دعویٰ اگر ہے تو پھر اطاعت بھی کامل ہونی چاہئے۔ پس یہ بیعت کا دعویٰ، اعتقاد کا دعویٰ، مریدی کا دعویٰ اور اس حقیقی اسلام پر عمل کرنے کا دعویٰ یا مسلمان ہونے کا دعویٰ تبھی حقیقی دعویٰ ہے جب یہ اعلان ہو کہ آج بیعت کرنے کے بعد میرا کچھ نہیں رہا بلکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے اور اُس کے دین کے لئے ہے۔ اور یہی بیعت کا مقصد ہے کہ اپنے آپ کو بیچ دینا‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اکتوبر2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر2013ءصفحہ6)
پاک تبدیلیاں پیدا کرنا اورعبادات سے غافل نہ ہونا
’’پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور خدا کے پہلوان کو پہچانا اور مانا اور اس مسیح ومہدی کی جماعت میں شامل ہوئے۔ لیکن ہمارا اس جماعت میں شامل ہونا، ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننا اس صورت میں فائدہ دے گا جب ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا جو بے حد مہربان اور رحمان و رحیم خدا ہے کے آگے جھکنے والے بنیں گے۔ اس کی عبادت سے غافل نہیں ہوں گے۔ دنیا کی مادی روشنی، یہ چکا چوند دنیا کی توجہ کھینچنے والی چیزیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی نہیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہوں گے‘‘۔(خطبہ جمعہ فر مودہ7؍اپریل 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍اپریل2006ءصفحہ6)
شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو شکست دینا
’’پس جہاں جہاں بھی احمدی ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ اس فوج میں داخل ہوئے ہیں جو اس زمانے کے امام نے بنائی۔ اس لئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم اور استقامت مانگتے ہوئے ہمیشہ اور ہر وقت صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکیں۔ آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہی ہے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ ان شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو شکست دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا ہے۔ لیکن ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بیرونی شیطان کو شکست دینے کے لئے جو اندرونی شیطان ہے اس کو بھی زیر کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہماری فتح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ظاہری اسباب سے نہیں ہونی بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والا بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نفس کا جہاد بھی بہت ضروری ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ مارچ 2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍مارچ 2009ء صفحہ 6)
ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچانا
’’پس ہر احمدی کو، ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو کیا اس ماننے اور بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی ہیں؟ اکثر میرے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ نمازوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ استغفار کی طرف تو بعضوں کی بالکل توجہ نہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ اگر یہ حالت ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم اعمال صالحہ بجا لانے والے ہیں۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرے نہ مان کر گناہگار ہو رہے ہیں۔ جنہوں نے نہیں مانا اور انکار کیا وہ گناہگار ہو رہے ہیں۔ اور ہم مان کر پھر اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کر کے، ایک عہد کر کے پھر اسے پورا نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہیں۔ پس بڑی فکر سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم صرف رسمی طور پر یوم مسیح موعود منانے والے نہ ہوں بلکہ مسیح موعود کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ مارچ 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل2018ءصفحہ9)
اب دین کے لئے جنگ و جدل حرام ہے
’’اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھل کر بتا دیا ہے کہ اب دین کے لئے جنگ و جدل حرام ہے، یہ حرکتیں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بن رہی ہیں۔ اور اس زمانے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں یہ پیغام پہنچا ہے۔ ہر ایک جانتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ پیغام بڑا واضح ہے کہ اب دین کے لئے یہ جنگیں حرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ دین کے نام پر ظلم کرنے والوں یا مسلمان ہوتے ہوئے ظلم کرنے والوں کو عقل دے چاہے وہ حکومتیں ہیں یا گروہ ہیں کہ وہ زمانے کے امام کی آواز کو سنیں اور ظلموں سے باز آئیں اور اس حقیقی ہتھیار کو استعمال کریں جو اس زمانے میں مسیح موعود کو عطا فرمایا ہے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍ مارچ 2016ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 15؍اپریل2016ءصفحہ6تا7)
بتا دینا کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں
’’جو گروہ یا لوگ تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، تلوار کے ذریعہ سے اسلام پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقت میں وہ اسلام مخالف طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں واضح طور پر بتا دیا کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں ہے اور تلوار کے جہاد کی اجازت بھی ان مشروط حالات کی وجہ سے ملی تھی جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں پیدا ہوئے تھے کہ دشمن اسلام کو تلوار کے زور سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ اسلام امن اور پیار کی تعلیم سے بھرا پڑا ہے۔ یعنی قرآن کریم اس تعلیم سے بھرا ہوا ہے۔ پس آج اس زمانے میں اس تعلیم کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے اور ہر احمدی کو اس تعلیم کو سمجھنے کی ضرورت ہے…جو لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ جاہل ہیں اور ہم نے ان کو ان کی جہالت کا حال دکھانا ہے۔ اسلام کی تعلیم تو امن اور سلامتی کی تعلیم ہے۔ قرآن کریم کی روشنی میں ہی ہم نے یہ تعلیم دنیا کو دکھانی ہے۔ ان لوگوں کو بتانا ہے کہ تم جو بغیر علم کے کہہ دیتے ہو کہ اسلام کی تعلیم میں شدت پسندی ہے اسی لئے مسلمان بھی شدت پسند بنتے ہیں یہ تمہاری لاعلمی اور جہالت ہے۔ مسلمانوں کو بھی بتانا ہو گا کہ آپس کے قتل و غارت اور فرقہ بندی سے تم اسلام کو بدنام کر رہے ہو۔ گو ہمارے پاس زیادہ وسائل تو نہیں ہیں لیکن جس حد تک ہم پریس میڈیا اور مختلف ذرائع سے یہ کام کر سکتے ہیں ہر ملک میں اور ہر شہر میں کرنے چاہئیں۔ اس وقت دنیا کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانا بہت ضروری ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ دسمبر 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری 2016ءصفحہ6)
دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا کی تعلیم دینا
’’پہلی بات یہ کہ اس خُلق کو پیدا کرنے کے لئے، رفق کے حسن کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ :84)۔ یہ بات ہے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ یہ ہے اسلام کے اعلیٰ خُلق کا معیار کہ لوگوں کو نیک باتیں کہو۔ پیار سے، ملاطفت سے پیش آؤ۔ لوگوں کو نیک باتیں کہنے کے لئے پہلے اپنے اندر بھی تو وہ نیکیاں پیدا کرنی ہوں گی، وہ خُلق پیدا کرنے ہوں گے تبھی تو اثر ہو گا۔ دوہرے معیار تو نیک نتیجے پیدا نہیں کرتے۔ پھر تعلیم دی دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ عین ممکن ہے کہ جس کو تم اپنے سے کم تر سمجھ رہے ہو وہ تمہارے سے بہتر ہوں۔ جب یہ احساس ہو گا تو پھر اپنے اندر بھی بہتر تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍ اپریل 2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍اپریل 2008ء صفحہ 6)
دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے متقی گروہ میں شامل ہونا
’’بیعت کے موافق کا مطلب یہ ہے کہ بیعت کی جو شرائط ہیں ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اُس متقی گروہ میں شامل ہو جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی اس حقیقت کو سمجھنے والا ہو جس کا آپؑ نے اظہار فرمایا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم کبھی اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور اناؤں کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات سے صرف نظر کرنے والے نہ ہوں۔ دوسروں کے لئے ایک نمونہ ہوں تاکہ ہماری نسلیں بھی ان راستوں پر چلتے ہوئے ہمارے لئے دعائیں کرنے والی ہوں…عروج تو جماعت کو حاصل ہونا ہے انشاء اللہ تعالیٰ لیکن اس عروج کی حالت میں پھر دنیا کو کہیں دین پر مقدم نہ کر لیں اور اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت سے متعلق جو خواہشات اور توقعات ہیں ان پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اس برائی سے بچا کر رکھے جس کے بارہ میں آپؑ نے فکر کا اظہار کیا ہے اور اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ آپؑ کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ مارچ 2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍مارچ 2009ء صفحہ 7)
٭…٭…٭