مقامِ مسیح موعود علیہ السلام احادیث مبارکہ اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں (قسط اوّل)
جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی، وہ مَیں ہی ہو ں
مَیں وہ پانی ہو ں کہ آیا آسماں سے وقت پر
مَیں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار
( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 145)
امت محمدؐ یہ کی اصلاح کے لیے آخری زمانے میں ظاہر ہو نے والے وجود جنہیں رسول اللہﷺ نے عیسیٰ ابن مریمؑ کا نام اور امام مہدی کا لقب عطا فرمایا تھا، ان کا مقام و مرتبہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ نبی کریمﷺ نے آنے والے مسیح موعود کو حکم و عدل، الامام المہدی، خلیفۃ اللہ، نبی اللہ و رسول اللہ اور خلیفۃ الرسول کے القابات سے یاد فرمایا تھا۔ عیسٰی مسیح ہونے کے لحاظ سے آنے والے مصلح کا یہ کام تھا کہ وہ مسیحیت و عیسائیت کے غلبہ کے وقت ظاہر ہو کر صلیبی عقائد کے زور کو توڑے اوردین اسلام کو پھر اس کے دور اول کی طرح دنیا میں غالب کرے اور اس شوکت کو از سر نو بحال کر دے۔ اور مہدی ہو نے کے لحاظ سے امت محمدیہ کے آخری دَور میں امت کے بگاڑ کے وقت اسلام اورملت اسلامیہ کی تجدید اور اصلاح مقدر تھی کہ جب آخری زمانے میں مسلمانوں میں تنزل اور بگاڑ کے آثار پیدا ہو ں گے اس وقت امام مہدی ظاہر ہو کر مسلمانو ں کے ایمان و اخلاص اور عقائد و اعمال کی اصلاح فرمائیں گے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام انہی پیش خبریو ں کے مطابق اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مسیح موعود اور مثیل عیسٰی علیہ السلام کے طور پر مبعوث ہو ئے اور آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر یہ دعویٰ فرمایا تھا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہو ں جس کے ہاتھ پر بالآخر عیسائیت کے باطل عقائد کو شکست ہو گی اور اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ نصیب ہو گا۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنی جماعت یعنی جماعت احمدیہ میں مسیح موعود کے نام سے اور ا سی منصب و مقام کے ساتھ پکارے اور یاد کیے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں آپؑ کی تحریرات کی روشنی میں آپؑ کے مقام و مرتبہ اور شان کا تذکرہ کیا جائے گا۔
مقامِ مثیل و بروز عیسیٰ مسیح علیہ السلام
’’ظل‘‘اور ’’بروز‘‘صوفیاء کی اصطلاحات ہیں بروز سے مراد یہ ہے کہ ایک روح کسی دوسری کامل رو ح سے فیض حاصل کرتی ہے۔ یعنی روحانی مشابہت اور مماثلت کو ظل اور بروز کہا جا تا ہے۔ اور بعض اوقات صفاتی طور پر کسی وجود کے ساتھ مشابہت کو رو حانی اصطلاح میں مثیل سے بھی تعبیر کیا جا تا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ وَ ِفیْ رِوَایَۃٍ فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ۔(صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسٰی بن مریم و صحیح مسلم کتاب الایمان) یعنی اے مسلمانو! تمہارا کیا حال ہو گا جب ابن مریم تمہارے اندر نازل ہو ں گے۔ اور وہ تم میں سے تمہارے امام ہو ں گے۔
اس حدیث میں رسول اللہﷺ کے یہ الفاظ قابل غور ہیں اَنْتُمْ، فِیْکُمْ، اِمَامُکُمْ اور مِنْکُمْ۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب اپنی امت میں ظاہر ہو نے والے مسیح عیسٰی ابن مریمؑ کا ذکر فرمارہے تھے تو صحابہؓ کو یہی بتا رہے تھے کہ آنے والا وجود تمہی میں سے ہو گا تمہی میں ظاہر ہو گا اور تمہارا ہی امام ہو گا۔ بنی اسرائیل کے لیے مبعوث ہو نے والے نبی عیسٰیؑ مراد نہیں تھے بلکہ ان کی خو بو پر اور ان کی صفات سے متصف ہو کر ظاہر ہونے والا آئے گا۔ حضرت عیسٰیؑ خود اصالتاً تشریف نہیں لائیں گے بلکہ ان کا کو ئی مثیل آئے گا۔
اس تعلق میں حضرت علامہ شیخ محی الدین ابن عربیؒ نے یہ لکھا ہے کہ’’ وَجَبَ نُزُوْلہٗ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِہٖ بِبَدَنٍ آخَرَ‘‘( تفسیر القرآن الکریم زیر آیت: وَاِنْ مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ ؛سورۃ النساء صفحہ 160 از شیخ الاکبر علامہ محی الدین ابن عربیؒ متوفی 638 ہجری، مطبوعہ دارالاندلس، بیروت)یعنی حضرت عیسٰیؑ کے رفع سے مراد ان کی روح کا عا لم بالا میں بلند مقام حاصل کرنا ہے اور آخری زمانہ میں ان کے نزول سے مراد ایک دوسرے جسم کے ساتھ تشریف لانا ہے۔
آٹھویں صدی کے بزرگ علامہ سراج الدین ابو حفص عمر ابن الوردی متوفی 749 ہجری، اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں: ’’ قَالَتْ فِرْقَۃٌ مِّنْ نُزُوْلِ عِیْسٰی خُرُوْجُ رَجُلٍ یُشْبِہُ عِیْسٰی فِی الْفَضْلِ وَ الشَّرْفِ کَمَا یُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ مَلَکٌ وَ لِلشَّرِیْرِ شَیْطَانٌ، تَشْبِیْھًا بِھِمَا وَلَا یُرَادُ الْاَعْیَانُ‘‘(خریدۃ العجائب و فریدۃ الغرائب صفحہ 263طبع ثانیہ مصطفی البابی الحلبی، مصر)کہ ایک گرو ہ کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰؑ کے نزول سے مراد دراصل ایک ایسے شخص کا ظہو ر ہے جو عیسٰیؑ سے فضل وشرف میں مشابہ ہو گا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ محض تشبیہ کی وجہ سے ہو تا ہے حقیقی شخصیات اس سے مراد نہیں ہو تیں۔
مشہور مؤرخ اسلام علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں: ’’بعض صوفیاء نے لَاالْمَہْدِیُّ الَّا عِیْسَی کی حدیث کو اس پر محمول کیا ہے کہ سوائے اس مہدی کے کوئی مہدی نہیں جس کی نسبت شریعت محمدیہ کی پیروی اور اسے منسوخ نہ کرنے کے لحاظ سے ویسی ہی ہو گی جیسے عیسٰیؑ کی نسبت شریعت موسویہ سے تھی۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد اول، صفحہ 581تا582 دارالکتب لبنانی بیروت، طبع ثانیہ1979ء)
اسی طرح علامہ شیخ محمد اکرم صابری لکھتے ہیں کہ’’بعض لوگو ں کا مسلک یہ ہے کہ عیسیٰؑ کی روح مہدی میں بروز کرے گی جس کی تا ئید اس حدیث سے بھی ہو تی ہے کہ عیسیٰؑ کے سوا کوئی مہدی نہیں۔‘‘(اقتباس الانوار، صفحہ50تا51مطبع اسلام مولوی کرم بخش)
ایک مشہور شیعہ مفسر علامہ طبرسی نے بھی یہ لکھا ہے کہ’’روح عیسٰیؑ مہدی میں بروز کرے گی۔ جو حدیث لَاالْمَہْدِیُّ اِلَّا عِیْسَی کے مطابق ہے۔‘‘(نجم الثاقب، صفحہ 119کتاب فروشی جعفری مشہدی بازار سرائی محمدیہ)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تعلق میں فرماتے ہیں کہ’’خدا تعا لیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبو ں کا مجھے وارث بنا دیا۔ اور یہ دو نو ں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے۔ سو میں ان معنو ں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہو ں اور محمد مہدی بھی۔ اور یہ وہ طریق ظہو ر ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں۔ سو مجھے دو بروز عطا ہو ئے ہیں۔ بروز عیسیٰ اور بروز محمدؐ۔‘‘(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17صفحہ28)
حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف اپنے نصوص قطعیہ سے اس بات کو واجب کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر جو موسوی خلیفو ں کے خاتم الانبیاء ہیں اس امت میں سے بھی ایک آخری خلیفہ پیدا ہو گا تا کہ وہ اسی طرح محمدی سلسلہ خلافت کا خاتم الاولیاء ہو۔ اور مجددانہ حیثیت اور لوازم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مانند ہواور اِسی پر سلسلہ خلافت محمدیہ ختم ہو جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر سلسلہ خلافت موسویہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘(تحفہ گو لڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 182)
’’جبکہ مماثلت کی ضرورت کی وجہ سے واجب تھا کہ اس امت کے خلیفو ں کا سلسلہ ایک ایسے خلیفہ پر ختم ہو جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کا مثیل ہو‘‘(تحفہ گو لڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 201)
’’چو نکہ اللہ تعا لیٰ جا نتا تھا کہ حسب وعدہ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ آخری خلیفہ اس امت کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ میں آئے گا۔‘‘(تحفہ گو لڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ202)
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا دعویٰ مثیل عیسیٰ مسیح ابن مریم
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعویٰ کی بنیاد اللہ تعا لیٰ کی طرف سے ہونے والی وحی اور الہامات پر رکھی تھی۔ 1890ء کے اواخر میں اللہ تعا لیٰ نے آپ پر اس امر کا انکشاف فرمایا کہ آنحضرتﷺ نے اپنی امت میں جس مسیح عیسٰی ابن مریمؑ کے آنے کی خبر دی تھی وہ تو ہی ہے پہلا مسیح آسمان پر خاکی جسم کے ساتھ ہر گز زندہ نہیں بلکہ وہ دیگر انبیاءؑ کی طرح فوت ہو چکے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اپنے دعویٰ کے اعلان کے لیے ایک مختصر رسالہ ’’فتح اسلام ‘‘کے نام سے شائع فرمایا۔ اور پھر اللہ تعا لیٰ نے 1891ء میں آپؑ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’ اَنْتَ اَشَدُّ مُنَا سَبَۃً بِعِیْسٰی ابْنِ مَرْیَمَ وَاَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ خُلْقًا وَخَلْقًاوَ زَمَا نًا تُو کیا بلحاظ اخلاق کیا بلحاظ صورت و خلقت اور کیا بلحاظ زمانہ عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ سب لو گو ں سے بڑھ کر منا سبت اور مشابہت رکھتا ہے۔ (تذکرہ، صفحہ 178، ایڈیشن چہارم، 1977ء)
اسی سال اس تعلق میں دوسرا الہام ان الفاظ میں ہوا: ’’مسیح ابن مریمؑ رسول اللہ فوت ہو چکا ہے۔ اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔‘‘(تذکرہ، صفحہ 183، ایڈیشن چہارم، 1977ء)
رسالہ ’’فتح اسلام ‘‘میں حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ’’مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چا ہو تو قبول کرو۔‘‘(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ10)
حضرت مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہو تا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ تو ڑنا اور ان کے حملوں کودفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے دلائل قویہ کے ساتھ تو ڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پو ری کرنا ہے۔ کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لیے جو بغیر تائیدالٰہی دور نہیں ہو سکتی عیسائیو ں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں جن کے دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خداتعا لیٰ کی طرف سے کو ئی آوے۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 341)
حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف توضیح مرام میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’مسلمانو ں اور عیسائیوں کا کسی قدر اختلاف کے ساتھ یہ خیال ہے کہ ’’حضرت مسیح ابن مریم اسی عنصری وجو د سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر وہ کسی زمانہ میں آسمان سے اتریں گے‘‘میں اس خیال کا غلط ہو نا اپنے اسی رسالہ میں لکھ چکا ہو ں اور نیز یہ بھی بیان کر چکا ہو ں کہ اس نزول سے مراد درحقیقت مسیح بن مریم کا نزول نہیں بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے جس کا مصداق حسبِ اعلام و الہام الٰہی یہی عاجز ہے۔‘‘(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ51)
حضرت مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیں: ’’مجھے مسیح ابن مریم ہو نے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہو ں۔ بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہو نے کا دعویٰ ہے۔ جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے ایسا ہی میری رو حانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حا لت سے اشد درجہ کی مشا بہت رکھتی ہے۔ غرض میں ایک مسلمان ہو ں اَیُّھَا الْمُسْلِمُوْنَ اَنَا مِنْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ بِاَ مْرِ اللّٰہِ تَعَالیٰ خلاصہ کلام یہ کہ میں محدثُ اللہ ہوں اور مامور من اللہ ہو ں اور با یں ہمہ مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں جو صدی چہار دہم کے لیے مسیح ابن مریم کی خصلت اور رنگ میں مجددِ دین ہو کر ربُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَ رْضِ کی طرف سے آیا ہوں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ231)
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک مجلس میں فرمایا: ’’جو کچھ مسیح موعود کے لیے مقدر تھا وہ ہو گیا۔ اب کو ئی مانے نہ مانے مسیح موعود آگیا اور وہ میں ہو ں۔‘‘(ملفو ظات جلد2صفحہ 285ایڈیشن1984ء)
حضرت مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اگرچہ خدا تعالیٰ نے برا ہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسولؐ نے دی تھی۔ مگر چو نکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰؑ آسمان پر سے نازل ہو ں گے، اس لیے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چا ہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جوعام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو برا ہین احمدیہ میں شائع کیا۔ لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہو ئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے۔ اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے۔ اور زمین و آسمان دو نو ں میری تصدیق کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اور خدا کے چمکتے ہو ئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ153)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’خدا نے جو ہر ایک کام نرمی سے کرتا ہے اس زمانہ کے لیے سب سے پہلے میرا نام عیسیٰ ابن مریم رکھا کیونکہ ضرور تھا کہ میں اپنے ابتدا ئی زمانہ میں ابن مریم کی طرح قوم کے ہاتھ سے دکھ اٹھا ؤں اور کافر اور ملعون اور دجال کہلاؤں اور عدا لتو ں میں کھینچا جا ؤں۔ سو میرے لیے ابن مریم ہو نا پہلا زینہ تھا۔ …مگرخدا نے یہی پسند کیا کہ سب سے پہلے ابن مریم کے صفات مجھ میں ظاہر کرے۔ سو میں نے اپنی قوم سے وہ سب دکھ اٹھائے جو ابن مریمؑ نے یہو د سے اٹھائے بلکہ تمام قوموں سے اٹھائے۔ یہ سب کچھ ہوا مگر پھر خدا نے کسر صلیب کے لیے میرا نام مسیح قائم رکھا تا جس صلیب نے مسیحؑ کو تو ڑا تھا اور اس کو زخمی کیا تھا دوسرے وقت میں مسیح اس کو تو ڑے۔ مگر آسمانی نشا نو ں کے ساتھ نہ انسانی ہا تھوں کے ساتھ۔ کیونکہ خدا کے نبی مغلوب نہیں رہ سکتے۔ سو سن عیسوی کی بیسویں صدی میں پھر خدا نے ارادہ فرمایا کہ صلیب کو مسیح کے ہاتھ سے مغلوب کرے۔‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ521)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک اردو شعر میں فرماتے ہیں:
ابن مریم ہو ں مگر اترا نہیں میں چرخ سے
نیز مہدی ہو ں مگر بے تیغ اور بے کارزار
(از نظم بعنوان’’مناجات اور تبلیغ حق‘‘، در ثمین اردو صفحہ140، براہین احمدیہ حصہ پنجم)
مقامِ حکم و عدل
حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ اِبْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا۔ ( صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم)یعنی قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم لازما ًایک عادل حاکم بن کر نازل ہو ں گے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وَاللّٰہِ لَیَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَادِلًا(مسلم کتاب الایمان، باب نزول عیسٰی ابن مریم)یعنی ابن مریم لازماً ایک عادل حاکم بن کر نازل ہو ں گے۔
اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ امت ِمسلمہ میں ظہور کے بعد عدل و انصاف کے ساتھ امت کے مذہبی اختلافات کا آخری فیصلہ فرمائیں گے وہ صحیح فیصلہ کرنے والے اور عدل سے کام لینے والے ہو ں گے۔
شیعہ روایات میں بھی یہ روایت ملتی ہے کہ ابو بصیر حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے امام مہدی کے تذکرہ میں فرمایا: ’’یَقُوْمُ بِاَمْرٍ جَدِیْدٍ وَ کِتَابٍ جَدِیْدٍ وَ سُنَّۃٍ جَدِیْدَۃٍ وَ قَضَائُ عَلَی الْعَرَبِ شَدِیْدٌ۔‘‘(علامات ظہور مہدی، از علامہ طالب جو ہری، صفحہ 188تا189، مقام اشاعت امام بارگاہ باب العلم لاہور)یعنی امام قائم (المہدی ) ایک نئے امر کے ساتھ، کتاب جدید کے ساتھ اور سنت جدیدہ کے ساتھ قیام کرے گا اور اس کا فیصلہ عربو ں پر سخت گرا ں گزرے گا۔
یہ مذکورہ روایت طویل تھی اس لیے صرف ترجمہ اور متعلقہ حصہ کو ہی یہاں درج کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ روایت حضرت امام باقر کی ہے جن کی پرورش اہل بیت نبویﷺ میں ہو ئی تھی اور و ہ جو بات بھی بیان فرماتے ہیں وہ قول رسولﷺ پر ہی مبنی ہوتی ہے کہ اہل بیت کا یہی طرز روایت ہے۔
سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’یہ بات تمام تا ریخ جاننے والو ں کو معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسے ہی وقت میں آئے تھے کہ جب اسرائیلی قوموں میں بڑا تفرقہ پیدا ہو گیا تھا اور ایک دوسرے کے مکفر اور مکذب ہو گئے تھے۔ اسی طرح یہ عا جز بھی ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب اندرو نی اختلافات انتہا تک پہنچ گئے۔ اور ایک فرقہ دوسرے کو کافر بنانے لگا۔ اس تفرقہ کے وقت میں امت محمدیہ کو ایک حکم کی ضرورت تھی۔ سو خدا نے مجھے حکم کر کے بھیجا ہے۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ257، حاشیہ)
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک مجلس میں فرمایا: ’’میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔ مجھے ایک سماوی آدمی مانو، پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانو ں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں۔ جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے، جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوںگے۔ اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح حدیث ہو گی۔‘‘(ملفوظات جلد 2صفحہ-140۔141)
الامام المہدی
امام مہدی کے بارے میں سنی و شیعہ کتب احادیث میں بے شمار روایات موجود ہیں جن میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امام مہدی سے متعلق اسلامی ذخیرہ احادیث (بشمول شیعہ و سنی) میں کل روایات کی تعداد 2870ہے۔ وہ روایات جن میں ظہو ر مہدی کی بشارت ہے ان کی تعداد657ہے، وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ مہدی دنیا کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے ان کی تعداد 123 ہے۔ وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ دین اسلام مہدی کے ذریعہ دنیا پر غالب آئے گا ان کی تعداد47ہے۔ (علامات ظہور مہدی، از علامہ طالب جو ہری، صفحہ13تا14، مقام اشاعت امام بارگاہ باب العلم لاہور)
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ امام مہدیؑ کے ظہو ر سے متعلق روایات میں بہت اختلاف موجود ہے یہی وجہ ہے کہ امام مالکؒ نے اپنی موطا میں، امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں اور امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں مہدی کے بارے میں کوئی روایت درج نہیں کی ہے۔ البتہ جو احادیث ان ائمہ کے مجموعہ احادیث میں ملتی ہیں ان سے یہی ثابت ہو تا ہے کہ مہدی ہی عیسیٰ ابن مریم ہیں یا یہ کہ مسیح ابن مریم ہی امام مہدی بن کر ظاہر ہو ں گے۔ ان تینوں محدثین کے علاوہ جن محدثین نے امام مہدی کی روایات لی ہیں ان میں (1)امام محمد بن عیسٰی ترمذیؒ (المتوفیٰ279 ہجری) نے اپنی سنن ترمذی میں ابواب الفتن میں باب ما جاء فی المہدی کا باب قائم کیا ہے، (2) امام ابو داؤد سلیمان بن اشعثؒ (المتوفیٰ 275 ہجری) نے بھی اپنی سنن ابی داؤد میں کتاب الفتن میں امام مہدی کی احادیث میں باب شامل کیا ہے، (3)ابو عبداللہ محمد بن یزید امام ابن ماجہؒ ( المتو فیٰ273 ہجری) نے بھی اپنی سنن ابن ماجہ میں کتاب الفتن میں امام مہدی کی روایات کو شامل کیا ہے۔ (4)امام عبد الرزاق بن ہمامؒ نے اپنی تصنیف ’ مصنف عبد الرزاق ‘ میں ظہور مہدی کا باب قائم کیا ہے۔ (5)امام حافظ ابو عبد اللہ الحاکم النیسا بو ریؒ نے بھی اپنی کتاب ’ اَلْمُسْتَدْرَکْ عَلَی ا لصَّحِیْحَیْنِ لِلْحَاکِمْ ‘میں ظہور مہدی سے متعلق روایت کو شامل کیا ہے۔ (6) نویں صدی ہجری کے مجدد امام جلال الدین السیو طیؒ نے بھی اپنی تصا نیف ’جمع الجوامع‘ اور ’الجامع الصغیر‘ میں امام مہدی کی روایات درج کی ہیں۔ (7) امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں خروج امام مہدی کی روایات لی ہیں۔ ( 8) حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی ( المتو فیٰ 807 ہجری) نے اپنی کتاب مجمع ا لزوائد میں مہدی کی احادیث درج کی ہیں۔ (9)محمد بن محمد بن سلیمان الفاسی المغربی (المتوفیٰ 1029 ہجری) نے اپنی تصنیف ’’جمع الفوائد‘‘میں کِتَابُ الْمَلَاحِمِ وَ اَشْرَاطِ السَّاعَۃِ میں امام مہدی سے متعلق روایات شامل کی ہیں۔
ساتویں صدی ہجری کے مجددشیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ (المتو فیٰ 728 ہجری) نے ایک کتاب چار جلدوں پر مشتمل ’’مِنْہَاجُ الْاِعْتِدَالِ فِیْ نَقضِ کَلَامِ اَہْلِ الرَّفْضِ وَالْاِعْتِزَالِ‘‘کے نام سے تصنیف فرمائی جو ’’مِنْہَاجُ السُّنَّۃِ‘‘کے نام سے مشہور ہو ئی۔ یہ کتاب ضخیم تھی تو اس کتاب کی تلخیص امام تیمیہؒ کے شاگرد مشہور و معروف محدث امام ابو عبداللہ محمد بن عثمان الذہبیؒ نے ’’المنتقیٰ من منہاج السنۃ ‘‘کے نام سے شائع کی۔ امام ابن تیمیہؒ اپنی اس تصنیف ’’منہاج السنۃ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’اِنَّ الْاَحَا دِیْثَ الَّتِیْ یَحْتَجُّ بِھَا عَلَی خُرُوْجِ الْمَہْدِیِّ اَحَادِیثٌ صَحِیْحَۃٌ رَوَاھَا اَبُو دَاؤدُ وَ التِّرْمَذِیُّ وَ اَحْمَدُ وَ غَیْرَھُمْ۔‘‘(منہاج السنۃ، جلد 4صفحہ 211، المنتقیٰ من منہاج السنہ النبویہ اردو، صفحہ764تا765شائع کردہ عقیدہ لائبریری2010ء)یعنی وہ احادیث کہ جن سے ظہور مام مہدی کے لیے استدلال کیا جا تا ہے وہ احادیث صحیح ہیں۔ جن کو امام ابو داؤدؒ، امام ترمذیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح عقا ئد کی کتاب ’’شرح عقیدۃ السفارینی‘‘ میں امام مہدی کے ظہور سے متعلق یہ لکھا ہے کہ’’قَدْ کَثُرَتِ الرِّوَایَاتُ بِخُرُوْجِ الْمَہْدِیِّ حَتّٰی بَلَغَتْ حَدَ التَّوَاتُرِ الْمَعْنَوِیِّ وَ شَاعَ بَیْنَ ذَالِکَ عُلَمَاء السُنَّۃِ حَتَّی عُدَّ مِنْ مُعْتَقِدَاتِھِمْ فَالْاِیْمَانُ بِخُرُوْجِ الْمَہْدِیِّ وَاجِبٌ کَمَا ھُوَ مُقَرَّرٌ عِنْدَ اَھْلِ الْعِلْمِ وَ مُدَوَّنٌ فِی عَقَائِدِ اَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ‘‘(شرح عقیدۃ السفارینی جلد 2صفحہ80)یعنی خروج امام مہدی پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں حتی کہ وہ روایتیں تواتر کی حد کو پہنچ چکی ہیں اورعلمائے سنت میں مشہور ہو کر ان کے عقائد کا حصہ بن چکی ہیں۔ لہٰذا خروج امام مہدی پر ایمان واجب ہے جیسا کہ اہل علم کے نزدیک ثابت ہے اور عقائد کی کتا بو ں میں لکھا گیا ہے۔
امام مہدی کے تعلق میں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ مہدی کے معنی ہدایت یافتہ کے ہو تے ہیں یعنی جسے اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ اللہ کے تمام انبیاء اور رسول مہدی ہی ہوتے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعا لیٰ نے سورۃ الانبیاء میں مختلف انبیاء و رسل کے ذکر کے بعد فرمایا ہے کہ وَجَعَلْنٰہُمْ اَ ئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا (الانبیاء: 74)اور ہم نے انہیں ایسے امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے۔
اسی آیت کے مطابق احادیث میں مذکور عیسیٰ ابن مریمؑ کو امام مہدی قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ وَ ِفیْ رِوَایَۃٍ فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسٰی بن مریم و صحیح مسلم کتاب الایمان)یعنی اے مسلمانو! تمہارا کیا حال ہو گا جب ابن مریم تمہارے اندر نازل ہو ں گے۔ اور وہ تم میں سے تمہارے امام ہو ں گے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یُو شِکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ اَنْ یَّلْقٰی عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اِمَامًا مَہْدِیًّا وَ حَکَمًا عَدْلًا۔ (مسند احمد بن حنبلؒ، متوفیٰ 241 ہجری، حدیث 9068)یعنی قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ ہو وہ عیسٰی ابن مریمؑ سے ان کے امام مہدی اور حکم و عدل ہو نے کی حالت میں ملاقات کرے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اِمَامًا ھَادِیًّا وَ مُقْسِطًا عَدْلًا۔ (مصنف عبد الرزاقؒ متو فی211 ہجری، جلد 11صفحہ 400، بیروت لبنان)یعنی عیسیٰ ابن مریمؑ امام ھادی اور منصف و عادل ہونے کی حالت میں نازل ہو ں گے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْمَہْدِیُّ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ۔ (مصنف ابن ابی شیبہؒ، متوفیٰ 235 ہجری، کتاب الفتن حدیث 19492)کہ مہدی عیسیٰ ابن مریمؑ ہی ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ کی روایت میں رسول اللہﷺ کے یہ الفاظ ہیں کہ آپﷺنے فرمایا: وَلَاالْمَہْدِیُّ الَّا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن باب شدۃ الزمان)کہ مہدی کو ئی نہیں سوائے عیسیٰ ابن مریمؑ کے۔
حضرت عبداللہ ابن مغفلؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺنےفرمایا:یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمُحَمَّدٍﷺوَ عَلٰی مِلَّتِہٖ اِمَامًا مَھْدِیًّا وَ حَکَمًا عَدْلًا۔ (اَلْمُعْجَمُ الکبیر و الْا َوْسَط، لِاِمَام طَبَرَانِیْ، متوفیٰ360ہجری،جلد 5صفحہ 293، ریاض، سعودی عرب)یعنی عیسیٰ ابن مریم رسول اللہﷺ کے مصدق بن کر نازل ہو ں گے، اور آ پؐ کی شریعت پر عمل کرنے والے امام مہدی اور حکم و عدل ہو ں گے۔
امام مہدی سے متعلق روایات میں سے حضرت علیؓ کی ایک روایت ( حارث و حراث والی )میں رسول اللہﷺ کا یہ فرمان بھی ملتا ہے کہ وَجَبَ عَلٰی کُلِّ مُؤْمِنٍ نَصْرُہٗ اَوْقَالَ اِجَابَتُہٗ یعنی ہر مومن پر اس کی مد د و نصرت اور اس کو قبول کرنا فرض ہے۔ (سنن ابو داؤد، کتاب المہدی )
یہ حدیث مشکوٰ ۃ المصا بیح میں موجود ہے اور اس کی اردو شرح میں بھی لکھا ہے کہ ’’اس سے خصوصی طور پر حضرت امام مہدی کی ذات مراد ہے۔ نیز اس حدیث کے سیاق سے اور اس سلسلہ میں منقول دوسری احادیث کے اسباق سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ حضورﷺ نے جس شخص کے ظاہر ہونے کی پیش گوئی فرمائی ہے وہ اپنی امامت و خلافت کے دعوے کے ساتھ ظاہر ہو گا۔ یعنی اس کا ظہو رسربراہ حکومت کی صورت میں ہو گا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری مسلمانوں پر واجب ہو گی۔‘‘(مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰ ۃ المصا بیح، جلد 5صفحہ43 شائع کردہ دارالاشاعت کراچی پاکستان)
اس حدیث کی شرح میں اہل سنت کے مشہور امام، عظیم الشان محدّث اور شارح مشکوٰۃ المصابیح علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاریؒ المعروف ملا علی قاریؒ (متوفی1014 ہجری، 1606ء) نے ایک نہایت اہم نکتہ یہ پیش فرمایا ہے کہ’’حدیث میں جو یہ ذکر ہے کہ ہر مومن پر اس کی مدد اور قبولیت واجب ہو گی اس سے کو ئی عام شخص مراد نہیں لیا جا سکتا بلکہ یہ قرینہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد امام مہدی ہیں۔‘‘(مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح [اردو ترجمہ] از علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاریؒ، متوفی 1014 ہجری، جلد 5صفحہ 185شائع کردہ مکتبہ رحمانیہ)
حضرت علیؓ سے مروی ایک مرفوع روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْمَہْدِیُّ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ وَاحِدَۃٍ۔ (مسند احمد، و ابن ماجہ، نعیم بن حماد فی الفتن، مصنف ابن ابی شیبہ)کہ مہدی ہم میں سے اور ہمارے اہل بیت سے ہیں اللہ تعا لیٰ انہیں ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا۔
اس حدیث کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ’’ وَمَعْنَی یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ وَاحِدَۃٍ؛ اَیْ یَتُوْبُ اِلَیْہِ وَ یُوَفِّقْہُ وَ یُلْہِمُہُ رُشْدَہٗ بَعْدَ اِنْ لَمْ یَکُنْ کَذَالِکَ وَ یَعُدُّہٗ لِلْخِلَافَۃِ وَ لِلْقِیَادَۃِ۔ (اَلْمَسِیْحُ الْمُنْتَظَرُ وَ نِہَا یَۃُ الْعَالَمِ، از عبد الوہاب عبد السلام طویلۃ، صفحہ 61,59 دار السلام القاہرۃ مصر، 2002ء)کہ حدیث میں یہ جو آیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ امام مہدی کو ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا، اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعا لیٰ ان پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرمائے گا اور ان کوتو فیق عطا فرماکر اپنی طرف سے علم وہدایت الہام کرے گا اور انہیں خلافت کے لیے اور مسلمانوں کی قیادت کے لیے تیار کرے گا۔
اس حدیث کی شرح میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین لکھتے ہیں: ’’یعنی اپنی تو فیق و ہدایت سے ایک ہی رات میں نسبت ِنبوت کا نور عطا فرما کر ولایت کے اس مقام پر پہنچا دے گا جہاں وہ اس سے پہلے نہ تھے۔‘‘(ظہور مہدی تک از ابو عبد اللہ آصف نقشبندی، صفحہ 52جدید ایڈیشن 2012ء مکتبہ الحسن اردو بازار لا ہور)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مقام مہدی کی وضاحت کرتے ہو ئے تحریر فرماتے ہیں: ’’مہدی کے کامل مرتبہ پر وہی پہنچتا ہے جو اول عیسیٰ بن جائے یعنی جب انسان تبتّل الی اللہ میں ایسا کمال حاصل کرے جو فقط روح رہ جائے تب وہ خدا تعا لیٰ کے نزدیک رو ح اللہ ہو جاتا ہے اور آسمان میں اس کا نام عیسیٰ رکھا جاتا ہے اور خدا تعا لیٰ کے ہاتھ سے ایک روحانی پیدائش اس کو ملتی ہے۔‘‘( نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 392)
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا دعویٰ امام مہدی معہود
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعویٰ کی بنیاد اللہ تعا لیٰ کی طرف سے عطا ہو نے والی وحی اور الہام پر رکھی تھی۔ اللہ تعا لیٰ نے 1894ء میں آپؑ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’ اِنَّ الْمَسِیْحَ الْمَوْعُوْدَ الَّذِیْ یَرْقُبُوْنَہٗ وَالْمَہْدِیَّ الْمَسْعُوْدَ الَّذِیْ یَنْتَظِرُوْنَہٗ ھُوَ اَنْت‘‘وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا انتظار کرتے ہیں وہ تو ہے۔ (تذکرہ، صفحہ257، ایڈیشن چہارم، 1977ء)
حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں کہ’’بذریعہ وحی الٰہی میرے پر بتصریح کھو لا گیا کہ وہ مسیح جو امت کے لئے ابتدا سے موعود تھا۔ اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمرا ہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدا یت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانو ں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا۔جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔وہ میں ہی ہو ں۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ3تا4)
حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف ’ضرورۃ الامام ‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جس کی پیروی تمام عام مسلمانو ں اور زاہدو ں اور خواب بینو ں اور ملہمو ں کو کرنی خدا تعا لیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے۔ سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان میں ہو ں اور مجھ میں خدا تعا لیٰ نے وہ تمام علامتیں اور شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے۔‘‘(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 495)
نبی اللہ و رسول اللہ
احادیثِ مبارکہ میں امت مسلمہ میں ظاہر ہو نے والے مسیح ابن مریم کے لیے نبی کریمﷺ نے خاص طور پر عیسیٰ نبی اللّٰہ کے الفاظ بھی ان کا مرتبہ و مقام ظاہر کرنے کے لیے استعمال فرمائے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ اس امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود اللہ کے نبی اور رسول ہو ں گے۔ ان روایات میں پہلی حدیث حضرت نواس بن سمعانؓ سے مروی ہے جس میں رسول اللہﷺ کے یہ مبارک کلمات ملتے ہیں: ’’یُحْصَرُ نَبِیُ اللّٰہِ عیسیٰ‘‘، ’’یَھْبِطُ نَبِیُ اللّٰہِ عیسٰی‘‘اور ’’فَیَرْغَبُ نَبِیُ اللّٰہِ عیسٰی ‘‘(صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال، مسند احمد بن حنبل، سنن ابو داؤد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، المستدرک للحاکم )
دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے جس میں نبی کریمﷺ کے یہ الفاظ موجود ہیں: لَیْسَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہٗ نَبِیٌّ۔ ( سنن ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال، سنن ابن ماجہ)یعنی میرے اور عیسٰی ابن مریم علیہم السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں۔
تیسری حدیث بھی حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے جس میں نبی کریمﷺ کے یہ کلمات موجود ہیں: ’’لَمْ یَکُنْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہٗ نَبِیٌّ‘‘(مسند احمد، المستدرک للحاکم)
چوتھی حد یث حضرت عمرو بن عوف المزنیؓ سے مروی ہے جس میں رسول ا للہﷺ کے یہ مبارک کلمات محفوظ ہیں لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَمُرُّ بِھَا عِیْسٰی عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُولُہٗ (الطبرانی)حضرت علیؓ سے مروی ایک مرفوع روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْمَہْدِیُّ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ وَاحِدَۃٍ۔ (مسند احمد، و ابن ماجہ، نعیم بن حماد فی الفتن، مصنف ابن ابی شیبہ)کہ مہدی ہم میں سے اور ہمارے اہل بیت سے ہیں اللہ تعا لیٰ انہیں ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا۔
اس حدیث کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ ’’ وَمَعْنَی یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ وَاحِدَۃٍ؛ اَیْ یَتُوْبُ اِلَیْہِ وَ یُوَفَّقْہُ وَ یُلْہِمُہُ رُشْدَہٗ بَعْدَ اِنْ لَمْ یَکُنْ کَذَالِکَ وَ یَعُدُّہٗ لِلْخِلاَفَۃِ وَ لِلْقِیَادَۃِ۔ (اَلْمَسِیْحُ الْمُنْتَظَرُ وَ نِہَا یَۃُ الْعَالَمِ، از عبد الوہاب عبد السلام طویلۃ، صفحہ 61,59 دار السلام القاہرۃ مصر، 2002ء)کہ حدیث میں یہ جو آیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ امام مہدی کو ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا، اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعا لیٰ ان پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرمائے گا اور ان کوتو فیق عطا فرماکر اپنی طرف سے علم وہدایت الہام کرے گا اور انہیں خلافت کے لیے اور مسلمانوں کی قیادت کے لیے تیار کرے گا۔
اس حدیث کی شرح میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین لکھتے ہیں: ’’یعنی(اللہ تعا لیٰ امام مہدی کو ) اپنی تو فیق و ہدایت سے ایک ہی رات میں نسبت ِنبوت کا نور عطا فرما کر ولایت کے اس مقام پر پہنچا دے گا جہاں وہ اس سے پہلے نہ تھے۔‘‘(ظہور مہدی تک از ابو عبد اللہ آصف نقشبندی، صفحہ 52جدید ایڈیشن 2012ء مکتبہ الحسن اردو بازار لاہور)
ساتویں صدی ہجری کے مجدد امام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب اَلتَّوَسُّلْ وَالْوَسِیْلَۃُ میں حضرت امام مالکؒ کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ لَا یُصْلَحُ آخِرَ ھٰذِ ہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا مَا اَصْلَحَ اَوَّلَہَا(کتاب الوسیلہ، اردو، صفحہ 378 شائع کردہ اسلامی اکیڈیمی)یعنی اس امت کے آخری حصہ کی وہی چیز اصلاح کرے گی جس نے اس کے پہلے حصہ کی اصلاح کی تھی۔
اور دوسری روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں: لَا یُصْلِحُ آخِرَ ھٰذِ ہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلہَایعنی اس امت کے آخری حصہ کی اصلاح اسی سے ہو سکتی ہے جس سے امت کے اول حصہ کی اصلاح ہو ئی تھی۔
حضرت امام مالکؒ کے قول کا یہی مطلب ہے کہ امت محمدؐیہ کا آغاز رسول اللہﷺ کی رسالت و نبوت سے ہوا تھا اور آپؐ کی امت کے آخرین کے لیے بھی اللہ تعا لیٰ ایک ایسے وجود کو کھڑا کرے گا جو فنا فی الرسولؐ ہو کر مقام نبوت پر فائز ہو کر امت محمدؐ یہ کی اصلاح کا فریضہ سرنجام دے گا۔ کیونکہ اس کے دَور میں امت کا فساد حد سے زیادہ بڑھ جائے گا اور سب سے بڑھ کر بگڑے ہو ئے عیسائیوں یعنی دجال اور یاجوج ماجوج کا فتنہ ہوگا۔ اور ان جملہ فسادات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وجود مقام نبوت پا کر اور مسیح و مہدی کے ربانی القابات سے متصف ہو کر دنیا میں ظاہر ہو گاتا دنیا میں موجود اس فساد عظیم کی اصلاح کرسکے اور لو گو ں کے عقائد، اعمال و افعال اور اخلاص کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دے سکے۔
(جاری ہے)