احمد ہندیؑ سے وفا
وَ کَمْ مِنْ عِبَادٍ آثَرُوْنِیْ بِصِدْقِھِمْ
عَلَی النَّفْسِ حَتَّی خُوِّفُوْا ثُمَّ دُمِّرُوْا
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ329)
بہت سے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جان پر مجھ کو اختیار کر لیا یہاں تک کہ ڈرائے گئے پھر قتل کیے گئے۔
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے جہاں اپنی اُمت کو آنے والے مسیح موعود و مہدی معہود کی بشارت عطا فرمائی ہے وہاں اُس کو سلام پہنچانے، اُس کی بیعت کرنے اور اُس کی قائم کردہ جماعت کے ساتھ وابستگی کی بھی تاکیدی ہدایت فرمائی ہے۔ صدیوں سے مسلمانانِ عالم اِس موعود کے انتظار میں تھے بالآخر چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اس خلعت سے نوازا اور متلاشیانِ حق دوردراز سے بیعت کرتے ہوئے آپؑ کے ساتھ وابستہ ہوئےاور پھر ساری زندگی اس عہدِ بیعت کو ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ نبھایا۔اس عہدِ بیعت کی حفاظت کے لیے بعض نے جانوں کی قربانی دی، بعض نے جسمانی اذیتیں برداشت کیں، بعض نے جائیداد و اموال کھودیے، بعض گھروں سے بے دخل کیے گئے، بعض رشتوں سے نکالے گئے، بعض ملازمتوں سے علیحدہ کر دیے گئے، بعض سخت ذہنی اذیتوں کی بھینٹ چڑھائے گئے، بعض پڑوسیوں اور محلہ داروں کے مقاطعے کا شکار بنائے گئے۔ غرضیکہ ہر ممکن ہتھکنڈا استعمال کیا گیا کہ مسیحِ وقت کے اِن جاں نثاروں کو بیعت سے الگ کیا جاوے لیکن احمدؑ ہندی کے اِن وفا شعاروں نے دشمن کا ہر ظلم برداشت کیا مگر مسیح الزماں کے ہاتھ پر کی جانے والی بیعت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے ان مخلص صحابہ کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’مَیں دیکھتا ہوں کہ صدہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے۔ مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے۔ ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لا انتہاء اخلاص اور ارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو اُن سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہتی ہے یا جس کے آثار اُن کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ایمان کے ایسے پکے اور یقین کے ایسے سچے اور صدق و ثبات کے ایسے مخلص اور با وفا ہوتے ہیں کہ اگر ان مال و دولت کے بندوں، ان دنیوی لذّات کے دلدادوں کو اس لذّت کا علم ہوجائے تو اس کے بدلے میں یہ سب کچھ دینے کو تیار ہوجاویں۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 584ایڈیشن1988ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مخلصانہ عہد و پیمان نبھانے والوں میں اگر بھیرہ سے حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے آئے کہ ’’مَیں نے انہیں اپنے سارے اموال اور اپنی ساری جائیداد پر ترجیح دی بلکہ اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور والدین اور اپنے سب عزیز و اقارب پر انہیں مقدم جانا …‘‘(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 151۔ ترجمہ از عربی) تو مالیر کوٹلہ سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ اخلاص و وفا کا نہایت عمدہ نمونہ پیش کرتے ہوئے یہ منادی کرتے رہے کہ ’’…اس چشمہ سے جو محمدؐ کے بڑے چشمہ سے نکلا ہے، عجیب معرفت کا پانی نکلتا ہے۔ پس ایسے وقت میں وہ شخص بڑا ہی محروم ہے جو تحقیقات مذہبی کر کے اس امام سے فائدہ نہ اٹھائے اور اس سے تعلقات پیدا نہ کرے۔‘‘ اور ہمیشہ اپنے نفس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو ترجیح دی، آپ بیان کرتے ہیں: ’’ایک امریکہ کی کمپنی کا ایجنٹ میرے پاس آیا اُس نے کہا تھا کہ تم اپنی تصویر اور اپنے حالات خاندان لکھو، ہم دو دو روپیہ میں چار کتابیں دیں گے۔ میں نے سوچا ہے کہ بجائے میرے حضورؑ کی تصویر ہو، اس طرح امراء اور انگریزوں میں تبلیغ کا ذریعہ ہے۔‘‘ (اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 544۔ خلافت جوبلی ایڈیشن 2008ء) پھر سر زمین افغانستان سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدرضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر عالِم ربّانی حضرت اقدسؑ پر ایمان کی خاطر زندگی اور موت کے اختیار دیے جانے پر یہ کہہ کر جان دے دی کہ ’’میں نے دنیا بھر میں اس کی مانند کوئی شخص نہیں دیکھا، مجھے اس سے الگ ہونے سے اس کی راہ میں جان دے دینا بہتر ہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 584تا585 ایڈیشن 1988ء)
اصحاب احمدؑ کی سیرت میں اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے قول و فعل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کو ترجیح دی، حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ اصحاب احمد کی اسی عاشقانہ کیفیت کو اس شعر میں بیان کیا کرتے تھے
ہم سے پوچھو اُس نگاہِ ناز کی خوں ریزیاں
ہم نے دیکھا ہے تماشہ قتل کا ہوتے ہوئے
اصحاب احمدؑ کی وفا اور وارفتگی کے چند نمونے ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں۔
تیرے در کی کنّاسی تخت شاہی سے بہت بہتر ہے
حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی رضی اللہ عنہ (وفات: 23؍فروری 1928ء) نہایت مخلص اور مطیع وجود تھے، ایک مرتبہ آپ کے ایک عزیز نے آپ کے متعلق یہ مشہور کر دیا کہ آپؓ نے احمدیت سے توبہ کر لی ہے تو آپ نے فوراً اس کی تردید کرتے ہوئے ایک اخلاص نامہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بھجوایا جس میں لکھا:’’…آنحضرت کی محبت اور عظمت اور ادب اور اطاعت اور کثرت یاد میری روح اور جان کا جزو ہوگیا ہے، میں اپنی جان سے کس طرح علیحدہ ہو سکتا ہوں …ہم غفلت میں پڑے سوتے تھے تُو نے ہی آن جگایا، ہم اِسمی اور رَسمی مسلمان تھے تُو نے ہی ہم کو حقیقی اسلام سے آگاہی بخشی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ دعا کیا چیز ہے اور تقویٰ کس شَے کا نام ہے تُو نے ہی تو اُن کا نشان ہم پر ظاہر فرمایا…بھلا تجھ کو چھوڑ کر خدا کی لعنت کماویں۔ رسول خداﷺ کے انوار کا، اطوار کا، اخلاق کا، عادات کا، ریاضات کا، مجاہدات کا، محاربات کا، کامل نمونہ آپ کی ذات میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ قسم بخدائے لا یزال کہ تیرے در کی کنّاسی تخت شاہی سے بہت بہتر ہے۔‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 376 تا 378)
واہ برہانیہ!ایہہ نعمتاں کتھوں
حضرت مولانا برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ (وفات: 3؍دسمبر 1905ء) جہلم کی ایک ذی علم اور عالم باعمل شخصیت تھے اور حضرت اقدسؑ کے دعویٰ سے قبل عقیدت رکھنے والوں میں سے تھے۔ قبول احمدیت کے بعد جہلم اور اس کے گرد و نواح میں احمدیت کا نور پھیلاتے رہے۔ آپ کی وفا اور وابستگی کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍ستمبر 1945ء میں فرماتے ہیں:’’جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سیالکوٹ سے واپس آ رہے تھے تو لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے …جب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو چھوڑ کر واپس آرہے تھے تو انہیں لوگوں نے طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کیں اور دق کیا۔ مولوی برہان الدین صاحب انہی میں سے ایک تھے۔ جب وہ واپس جا رہے تھے تو کچھ غنڈے ان کے پیچھے ہوگئے اور اُن پر گند وغیرہ پھینکا، آخر بازار میں اُن کو گرا لیا اور ان کے منہ میں گوبر ڈالا۔ دیکھنے والوں نے بعد میں بتایا کہ جب مولوی برہان الدین صاحب کو جبراً پکڑ کر ان کے منہ میں زبردستی گوبر اور گند ڈالنے لگے تو انہوں نے کہا الحمد للہ! ایہہ نعمتاں کتھوں، مسیح موعودؑروز روز آناں وے؟ یعنی الحمد للہ یہ نعمتیں انسان کو خوش قسمتی سے ہی ملتی ہیں، کیا مسیح موعودؑ جیسا انسان روز روز آ سکتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ ایسا موقعہ ملے۔‘‘(الفضل 10؍اکتوبر 1945ء صفحہ 2)
ہم تو مریں گے یار کی دیوار کے تلے
حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان گوڑیانوی رضی اللہ عنہ یکے از 313کبار صحابہ (وفات: 9؍جون 1921ء) بھی نہایت مخلص اور با وفا مریدین میں سے تھے، خود حضور علیہ السلام بھی آپ سے نہایت شفقت اور پیار کا سلوک رکھتے تھے، وہ بیان کرتے ہیں:’’… میرے گاؤں میں لوگ کہتے ہیں کہ قادیانی ہو تو گئے ہو، میاں کبھی مرو گے تو (نعوذ باللہ) کتے لاش گھسیٹیں گے یہاں تو کوئی جنازہ بھی نہ پڑھائے گا تو میں ان کو یہ شعر سنا دیتا ہوں کہ
مجنوں تھا قیس جو کہ بیاباں میں رہ گیا!
ہم تو مریں گے یار کی دیوار کے تلے!‘‘
اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس ایمانی حالت اور ثبات کے بدلے اُن کی وفات سے محض تین روز پہلے قادیان پہنچا دیا اور تیسرے روز سچ مچ اُسی یار کی دیوار تلے جان اپنے مولیٰ کو سونپ دی ۔(اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 624)
اے مبارک سر زمین قادیان! تیری خاک پاک مشک و عنبر سے زیادہ بہتر ہے
حیدرآباد دکن سے بیعت کرنے والے سب سے پہلے احمدی حضرت میر مردان علی صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت: 23؍ستمبر 1891ء) تھے اور قادیان سے اتنی مسافت کے باوجود بھی اپنے دل کو ہمیشہ قادیان کے قریب رکھتے تھے۔ آپ کی اہلیہ بھی ایمان و ایقان میں کسی سے کم نہ تھیں،حضرت میر صاحبؓ سے اپنے حق مہر (پانچ سو روپیہ) کے متعلق کہا کہ آپ مجھے دینے کی بجائے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بھجوا دیں۔ بہر کیف حضرت میر صاحبؓ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’… آج تک کبھی کسی مسئلہ میں میرے دل پر شک و شبہ کا کوئی اثر نہ ہوا، جو کچھ ارشاد عالی ہوتا ہے کامل یقین و اطمینان کے ساتھ دل و جان اُس کو تسلیم کرتے ہیں…اس میں کسی طرح کا شک نہیں ہے کہ اگر ہماری جانیں بھی حضور کے قدموں پر نثار ہوجائیں تو ہم حق خدمت سے سبکدوش نہیں ہو سکتے ۔ خود حضور اقدس فی نفسہٖ اللہ جل شانہ کی وہ عظیم الشان رحمت و نعمت ہیں کہ جناب عالی رسول اللہﷺ کے سوا ایسی رحمت نہ کسی زمانہ کے شامل حال ہوئی نہ آئندہ ہو سکتی ہے۔ اے مبارک سر زمین قادیان! تیری خاک پاک مشک و عنبر سے زیادہ بہتر و قابل قدر ہے کہ اللہ جل شانہٗ کا محبوب تجھ پر رونق افروز ہے۔ حضور کے قدموں پر چلنے پھرنے میں جو گَرد پڑتی ہے اگر اُس کو جمع کر کے بذریعہ ویلیو پے ایبل ہمارے احباب ہم کو بھیج دیا کریں تو ہم بَسر و چشم اُس کے خریدار ہیں۔‘‘(الحکم 21؍جنوری 1903ء صفحہ 4)
وہ اُدھار پر مرے ہوئے اور ہم نقد پر فدا
بھارتی صوبہ اتر پردیش کے ضلع سہارنپور سے تعلق رکھنے والے حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ (وفات: 3؍جنوری 1935ء) ایک بڑی گدی کے پِیر تھے اور ہزاروں میں آپ کے مرید تھے جو آپ کو نہایت عزت و تکریم کے ساتھ دیکھتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کے بعد آپ نے اپنی ساری عزت و تکریم حضور علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کے سامنے قربان کردی۔ جب حضرت اقدسؑ نے بیعت کا اعلان فرمایا تو آپ لدھیانہ کو روانگی کا احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’لوگوں نے دریافت کیا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا لودھیانہ حضرت عیسیٰ موعودعلیہ السلام کی زیارت کو جاتا ہوں …جو میرے منہ سے یہ بات سنتا تو حیرت سے میرا منہ تکنے لگتا اور کہتا کہ لودھیانہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام؟ کیونکہ لوگوں کی نظروں میں تو دمشق یا مکہ معظمہ بسا ہوا تھا اور اس کے سوا مرزا غلام احمد علیہ السلام کا نام سن کر متعجب ہوتے …وہ اُدھار پر مرے ہوئے اور ہم نقد پر فدا،وہ مردہ پرستی میں غرق اور ہم زندہ کے خواستگار، وہ سنی سنائی باتوں کے دلدادہ اور ہم حقیقت اور آنکھوں دیکھی کے آشنا۔‘‘(تذکرۃ المہدی صفحہ 63 از حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ)
بوجہ احمدیت ملازمت سے فارغ کیا جانا
حضرت میر قاسم علی صاحب دہلوی رضی اللہ عنہ (وفات: 21؍اپریل 1942ء) دہلی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک فدائی وجود تھے۔ پُر جوش اور نڈر داعی الی اللہ تھے خصوصاً جہاد بالقلم کے صف اول کے شہسوار تھے۔ دہلی میں یتیم خانہ انجمن مؤید الاسلام کےسپرٹنڈنٹ تھے لیکن قبول احمدیت کی وجہ سے ممبرانِ انجمن نے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا،آپ نے بھی ملازمت تو چھوڑ دی مگر بیعت نہ چھوڑی۔ آپ نے اپنا استعفیٰ نامہ بھجواتے ہوئے لکھا:’’بخدمت جناب مہتمم صاحبان یتیم خانہ انجمن مؤید الاسلام دہلی
چونکہ میرے بر خلاف چند عوام و خواص اہل اسلام کی جانب سے اراکین انجمن مؤید الاسلام کے پاس شکایت ہوئی ہے کہ ’’منتظم یتیم خانہ عالی جناب جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے تعلق بیعت رکھتا ہے اس لیے یتیم خانہ میں رکھنے کے قابل نہیں ہے۔‘‘یہ بالکل درست ہے کہ میں حضرت تقدس مآب مرزا صاحب ممدوح کا نہایت ہی ادنیٰ خادم ہوں جو فی نفسہٖ کوئی جرم نہیں مگر اس کی بناء پر مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں خود اپنا استعفاء داخل کردوں لہٰذا باکراہ تعمیل حکم کے لیے استعفاء پیش کرتا ہوں …
الحمد للہ کہ اس غلام مسیح الزمان نے راضی بقضاء الٰہی ہوکر ملازمت کو خیر باد کہہ کر محض خدا کے واسطے یہ قربانی گزار دی، خدا تعالیٰ رحیم و کریم اپنے فضل عمیم سے اس قربانی کو قبول فرماوے، آمین ثم آمین۔‘‘(بدر 8؍دسمبر 1905ء صفحہ 6)
جمادے چند دادم جاں خریدم
حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی رضی اللہ عنہ (وفات: 28؍جون 1944ء) نے 1897ء میں بیعت کا شرف پایا اور بعد ازاں پنجابی زبان میں وعظ گوئی کی اپنی خاص لیاقت کے ذریعے ساری زندگی تبلیغ احمدیت میں مصروف رہے۔ شہید احمدیت حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبلغ ماریشس کے والد ماجد تھے۔ قبول احمدیت کی پاداش میں مخالفین کی ایذا رسانیوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:’’مجھ پر احمدیت کی وجہ سے مخالفوں نے مقدمات کر دیے اور میرا مکان مجھ سے چھین لیا۔ میں نے حضورؑ سے شکوہ کیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ حافظ صاحب! لوگ ختنوں اور شادیوں پر مکانات فروخت کر دیتے ہیں، آپ کا مکان اگر خدا کے لیے جاتا ہے تو جانے دو۔ اس بات کا مجھ پر وہ اثر ہوا جیسے زلیخا نے ایک شعر میں حضرت یوسف کی خریداری پر کیا
جمادے چند دادم جاں خریدم
بحمد للہ عجب ارزاں خریدم
[ترجمہ: چند پتھروں کے عوض جاں سے بھی زیادہ عزیز شے حاصل کر لی ہے، شکر ہے کہ یہ سستا سودا کیا ہے۔ ]
اس دن سے میرے دل میں سے مکانوں وغیرہ کی محبت جاتی رہی اور ان کی قدر و قیمت ایک ٹوٹی جوتی کے برابر بھی نہ رہی ہاں خدا نے پھر اپنے فضل سے مجھے سب کچھ دے دیا جو اَب میں انعام کے رنگ میں سمجھتا ہوں۔‘‘(الحکم 26؍مئی 1935ء صفحہ 25 روایت نمبر 33)
موت زیادہ اچھی ہے اس سے کہ ہم مسیح موعودؑ کے ذکر کو اپنے سے دور کر دیں
حضرت خان ذوالفقار علی خان گوہر رضی اللہ عنہ (وفات: 26؍فروری 1954ء) ریاست رامپور کے مشہور علی برادران مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے بھائی تھے ، آپ کی سعادت آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن میں لے آئی اور آپ واقعی میں ایک گوہر بن گئے اور نہایت اخلاص و وفا سے خدمت سلسلہ میں زندگی گزاری۔ جب ایڈیٹر اخبار وطؔن کی تجویز پر جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی کثرت اشاعت کے لیے حضرت اقدسؑ کے ذکر کو الگ رکھنے کی حامی بھر لی تو جہاں دیگر احمدیوں نے غیرت مندانہ مراسلے لکھے وہاں آپ نے بھی بڑا درد مندانہ خط لکھا کہ ’’…صابون مصالح لگا کر کسی تالاب میں کپڑے کو ڈال دو، چھ مہینے تک پڑا رہ کر گل تو جائے گا مگر صاف نہ ہوگا، صاف کرنے کے لیے غسال کی ضرورت ہے۔ جب مزکّی کے ذکر کو آپ اس حصہ سے علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں جو بلاد غیر میں جاوے گا تو پھر کیا فائدہ اسلام کو پہنچا؟ …میں امید کرتا ہوں کہ میرے بھائی خواجہ کمال الدین صاحب اس پر غور کریں گے اور پبلک احمدی کی تسکین کے لیے کچھ مزید تجویز سوچیں ورنہ یہ ظلم ہے کہ ہم سے توقع کی جائے کہ ہم اپنے آقا سے دور رہ کر خوش رہ سکیں …میں سچ کہتا ہوں کہ موت زیادہ اچھی ہے اس سے کہ ہم مسیح موعودؑ کے ذکر کو اپنے سے دور کر دیں…‘‘(بدر16؍مارچ1906ء صفحہ7تا8)
مجھے تو اُس وقت کچھ بھی یاد نہیں رہتا
مونگ ضلع منڈی بہاء الدین سے تعلق رکھنے والے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (وفات: 22؍جنوری 1919ء) ایک غریب اور سادہ انسان تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت کرنے پر دوستوں عزیزوں سے بہت دکھ اٹھایا اور کاروبار میں روکیں ڈالی گئیں، آپ نے یہ صورتحال حضور علیہ السلام کی خدمت میں لکھی تو حضورؑ نے جواباً تحریر فرمایا :’’…صبر استقامت سے کام لینا چاہیے اور اپنے دشمنوں کے حق میں ہدایت کی بھی دعا کرتے رہیں کیونکہ ہمیں خدا نے آنکھیں عطا کی ہیں اور وہ لوگ اندھے اور دیوانہ ہیں، ممکن ہے کہ آنکھ کھلے تب حقیقت کو پہچان لیں …‘‘ (الحکم 17؍فروری 1906ء صفحہ 12) بالآخر حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہجرت کر کے قادیان آگئے اور یہاں دودھ کی دکان کھول لی، حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحبؓ بیان کرتے ہیں:’’… جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام آٹھ نو بجے کے قریب سیر کو تشریف لاتے تو عبداللہ اپنے دودھ کی کڑاہی بازار میں ویسے کی ویسی چھوڑ کر بھاگ پڑتا اور حضور کے ساتھ سیر میں شامل ہوجاتا۔ ایک دن دیہاتی سے دودھ لے رہا تھا جو اسے معلوم ہوا کہ حضور باہر تشریف لائے۔ گڑوی جو اَبھی آدھی پُر ہوئی تھی ہاتھ سے رکھ دی اور دوڑ کر حضور کے رفقاء میں جا ملا۔ میں نے ایک بار کہا کہ دودھ وغیرہ سنبھال کر جایا کرو۔ کہنے لگا مجھے تو اُس وقت کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔‘‘(الحکم 28؍جنوری 1919ء صفحہ 7)
والدہ صاحبہ کو خود اپنی بچیوں کے ہمراہ آدھی رات کو پانی بھرنا پڑتا
حضرت سید عزیز الرحمان صاحب رضی اللہ عنہ آف بریلی (وفات: 17؍جولائی 1936ء) اور آپ کی اہلیہ حضرت محمدی بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا نے بھی قبول احمدیت کی خاطر بہت اذیتیں برداشت کیں لیکن حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان اور آپؑ سے وابستگی میں کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ آپ کی بیٹی حضرت سیدہ نصرت بانو صاحبہ اہلیہ حضرت ڈاکٹر عطر دین صاحب درویش رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں:’’حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے پر تمام لوگ والدین کی مخالفت پر آمادہ ہوگئے حتیٰ کہ والدین کے اعزّہ و اقارب بھی۔ گیارہ مولویوں کا فتویٰ ہمارے دروازہ پر لگا دیا گیا کہ یہ لوگ بے دین ہوگئے ہیں اس لئے ان کا مقاطعہ کیا جاتا ہے …غرضیکہ سقّے، بھنگی اور آٹا پیسنے والی نے کام ترک کر دیا اور دھوبی معذرت کر کے چلا گیا۔ والد صاحب ان دنوں ریاست کپورتھلہ میں بطور منشی ملازم تھے …والدہ صاحبہ بچوں کے ہمراہ تنہا تھیں سو سب سے زیادہ دقت پانی کی ہوئی اس لیے ہندو عورتیں آب رسانی کے لیے مقرر کی گئیں جن کو لوہے اور تانبے کے گاگر خرید کر دیے گئے کیونکہ مٹی کے گھڑے اول تو وہ چھوتی نہ تھیں نیز اُن کے ٹوٹ جانے کا خطرہ تھامگر یہ انتظام بھی بیکار کر دیا گیا کیونکہ غیر احمدی مسلمانوں نے گائے کے گوشت کے ٹکڑے کنویں پر رکھنے شروع کر دیے، اس لیے والدہ صاحبہ کو خود اپنی بچیوں کے ہمراہ آدھی رات کو پانی بھرنا پڑتا …والدہ صاحبہ بہت باہمت خاتون تھیں، آپ نے تنہا بچوں سمیت قادیان ہجرت کر لی…‘‘(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 5تا6)
احمدیت میں یہ چیزیں لازمی ہیں
حضرت بابو غلام محمد اختر صاحب رضی اللہ عنہ آف لاہور (وفات: اپریل 1946ء) نہایت مخلص اور جاں نثار صحابی تھے، حضورؑ کے سفر امرتسر 1905ء کی روداد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’دہلی سے واپسی پر جب امرتسر پہنچے تو رمضان کا مہینہ تھا …جب حضور بند گاڑی میں سوار ہوئے تو اس کی سب کھڑکیاں بند کر دی گئیں، درمیان میں ایک طرف کی کھڑکی نہ تھی اس میں پائیدان پر کھڑکی کی جگہ میں کھڑا ہوگیا تا کہ اندر کوئی اینٹ پتھر نہ جاسکے، گاڑی پر اس قدر پتھراؤ کیا گیا کہ ہم نے سمجھا کہ پتھروں کی کوئی مشین چل رہی ہے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جس قدر پتھر لوگ جمع کر سکتے تھے انہوں نے جمع کر کے گاڑی پر مارنا شروع کر دیے ہیں۔ حضرت صاحب کے ساتھ جہاں تک مجھے رہنے کا اتفاق ہوا ہے اس قدر پتھر میرے خیال میں اور کہیں نہیں پڑے۔ جب گاڑی اشرار کی زد سے نکل گئی تو سامنے ایک لمبی داڑھی والا مولوی داڑھی منہ میں ڈال کر لٹھ گھماتا ہوا آیا اور اس زور سے گاڑی پر لٹھ ماری کہ لکڑی کی جھرمنیاں ٹوٹ گئیں، لٹھ کا درمیانی حصہ میری کمر پر لگا۔ حضورؑ نے زور سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ ایک مولوی نے لٹھ مارا ہے اور یہ جھرمنیاں کھڑکی کی ٹوٹ گئی ہیں۔ فرمایا آپ کو تو نہیں لگی؟ میں نے عرض کیا درمیانی حصہ تھا اگر سر لگتا تو شاید میری کمر بھی ٹوٹ جاتی۔ حضورؑ بہت متأسف ہوئے اور اکثر یاد دلایا کرتے تھے کہ وہ امرتسر کا لٹھ تمہیں یاد ہوگا چنانچہ میری بھاوج صاحبہ نے حضور سے بیعت کے لیے کہا اور عرض کیا کہ میں بابو غلام محمد کے بھائی کی بیوی ہوں تو حضور نے بلا تأمل فرمایا کہ سوچ لو! بابو غلام محمد کو وہ لٹھ پڑا تھا کہ اگر اس کا سِرا اُس کی کمر پر پڑتا تو اُن کی ہڈیاں ٹوٹ جاتیں۔ احمدیت میں یہ چیزیں لازمی ہیں، تم ان چیزوں کے لیے تیار ہو؟ اس نے کہا حضور میں تیار ہوں، چنانچہ بیعت حضور نے لے لی۔‘‘(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ 223تا 225 از عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل)
بھاوج سے اغلبا ًحضرت عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت میر کریم بخش پہلوان رضی اللہ عنہ مراد ہیں کیونکہ حضرت کریم بخش پہلوانؓ اُن کے بھائی تھے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان مخلص صحابہ کے یہ ایمان افروز نمونے ایک جھلک ہیں کہ کیسے مخالفت کے شدید موسم میں ایذا رسانیوں اور تکالیف کی سخت آندھیوں میں بھی ان سر سبز شاخوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے درخت وجود سے پیوستہ رہ کر اپنی بقا اور افزائش کے سامان کیے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مخلص صحابی حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی رضی اللہ عنہ کو اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:’’جس قدر ابتلا آں مکرم کو پیش آیا ہے یہ خدا تعالیٰ کے مستقیم الحال بندوں کو پیش آیا کرتا ہے تا اُن کی استقامت اور قوت ایمانی لوگوں پر ظاہر ہو اور تا وہ اس ذریعہ سے بڑے بڑے ثواب حاصل کریں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ سخت دل مخالف لوگوں نے جو ہمارے ہی قوم کے علماء اور ان کے ہم خیال ہیں، اپنی فتنہ اندازی کو انتہا تک پہنچا دیا ہے …یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ اللہ جلّ شانہ ہم کو اور ہماری جماعت کو اس ابتلا میں نہیں چھوڑے گا اور وہ دن جلدی آنے والے ہیں جو حق کی چمک لوگوں پر ظاہر ہو جائے گی اور مخالف حق کے نادم اور خائب ہوں گے۔ جناب سیّدنا رسول اللہﷺ کے ابتدائی حالات کو دیکھو کہ کیا کچھ آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کو دُکھ درد اُٹھانے پڑے تھے یہاں تک کہ وطن عزیز چھوڑنا پڑا اور سب دوست دشمن ہوگئے لیکن آخر خداوند تعالیٰ نے ڈوبتی کشتی کو اپنے ہاتھ سے تھام لیا اور اسلام کو زمین میں پھر جما دیا۔ یہی حال اس جگہ ہوگا اور مخالفوں کو بجز سیاہ روئی اور ندامت کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ خدا تعالیٰ اُن کی بد دعائیں انہیں پر ڈالے گا اور وہ گردشیں جن کی وہ انتظار کرتے ہیں انہیں پر پڑیں گی۔‘‘(مکتوبات احمد جلد چہارم صفحہ 39،نیا ایڈیشن)
دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لیے نماز، ذکر الٰہی، درود شریف، بار بار قادیان آنا، جماعتی اخبارات کا مطالعہ، حضرت اقدسؑ کی خدمت میں باقاعدگی سے خط لکھنا، مالی قربانی میں حصہ لینا، مقامی جماعت سے رابطہ رکھنا، بری مجالس سے پرہیز اور عاجزی و انکسار وغیرہ جیسے نسخوں نے ہی فائدہ دیا ہےاور آج بھی خلافت احمدیہ کے سائے تلے سلسلہ احمدیہ پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لیے اسی ایمان و ایقان کی ضرورت ہے۔ ہمارے موجودہ امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس زمانے میں ہمیں ان صحابہ کے نمونوں کو اپنانے اور یاد رکھنے کی بارہا تذکیر فرمائی ہے، حضور انور اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 17؍اکتوبر 2003ء میں فرماتے ہیں:
’’…یہ لوگ خاموشی سے آئے اور محبت و تعلق وفا اور اطاعت کی مثالیں رقم کرتے ہوئے خاموشی سے چلے گئے …جہاں ہم ان بزرگوں پر رشک کرتے ہیں کہ کس طرح وہ قربانیاں کر کے امام الزماں کی دعاؤں کے وارث ہوئے وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ آج بھی ان دعاؤں کو سمیٹنے کے مواقع موجود ہیں۔ آئیں اور ان وفاؤں، اخلاص، اطاعت، تعلق اور محبت کی مثالیں قائم کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔ یاد رکھیں جب تک یہ مثالیں قائم ہوتی رہیں گی زمینی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 12؍دسمبر 2003ء صفحہ 9)
٭…٭…٭