حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ قرآ ن شریف میں فرماتاہے: وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ(لقمان: 19)۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اور (نخوت سے) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر۔ اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
جیساکہ اس آیت سے بھی ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں فرمارہاہے کہ یونہی تکبر کرتے ہوئے نہ پھرو۔ اپنے گال پھلاکر، ایک خاص انداز ہوتاہے تکبرکرنے والوں کا اور گردن اکڑاکر پھرنا اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے سے کم درجہ والوں کے سامنے اکڑ دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے سے اوپر والے کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں میں منافقت کی برائی بھی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔ تو یہ تکبر جوہے بہت سی اخلاقی برائیوں کا باعث بن جاتاہے اورنیکی میں ترقی کے راستے آہستہ آہستہ بالکل بند ہو جاتے ہیں۔ اورپھر دین سے بھی دورہوجاتے ہیں، نظام جماعت سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ اور جیسے جیسے ان کا تکبر بڑھتاہے ویسے ویسے وہ اللہ اور رسول کے قرب سے، اس کے فضلوں سے بھی دور چلے جاتے ہیں …ہر احمدی کو ادنیٰ سے تکبر سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ یہ پھرپھیلتے پھیلتے پوری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ اگست 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اکتوبر 2003ءصفحہ5۔6)