حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمتِ قرآن (قسط دوم۔ آخری)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پڑھنے سے قبل نوافل پڑھ کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ راہِ راست کی طرف راہنمائی فرمائے۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا سینہ کھلتا گیا اور اس کلام کی ہیبت سے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ یہ الٰہی وحی ہے
موجودہ زمانے میں تفسیر کا اثر
حضرت مسیح موعودؑ کی تفسیر قرآن کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بعض ایمان افروز واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’[شمالی افریقہ کے ایک ملک]سے حجاز صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ مسخ شدہ اسلامی تعلیم اور قرآنِ کریم کی غلط تفاسیر سے بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ علماء کی تشریحات سن کر سوچتا تھا کہ کیا یہ خدا کا کلام ہو سکتا ہے؟ یہاں تک کہ اُردن کے احمدی دوست کے ذریعہ احمدیت اور بانی سلسلہ کی تحریرات سے آگاہی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پڑھنے سے قبل نوافل پڑھ کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ راہِ راست کی طرف راہنمائی فرمائے۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا سینہ کھلتا گیا اور اس کلام کی ہیبت سے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ یہ الٰہی وحی ہے۔
پھر فراس صاحب ابوظہبی سے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جس قدر کتابیں مجھے مہیا ہو سکیں اُن کے مطالعہ سے نیز ایم ٹی اے کے پروگرام ’’الحوارالمباشر‘‘کو باقاعدگی سے دیکھنے سے مجھے جماعتی عقائد پر اطلاع ہوئی۔ شروع میں تو جہالت اور گزشتہ خیالات کی وجہ سے میں نے فوری منفی ردّ عمل ظاہر کیا لیکن جب قرآنی آیات و احادیث اور خدائی سنت کا بغور مطالعہ کیا تو میرا دل مطمئن ہونے لگا۔ اب میرے سامنے دو راستے ہو گئے۔ یا تو مَیں مسلسل حضرت عیسیٰ بن مریم کے آسمان سے نزول کا انتظارکئے جاؤں اور اس سے قبل دجال کا انتظار، جس کی بعض ایسی صفات بیان کی گئی ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کو زیبا ہیں، جیسے احیائے موتی وغیرہ اور پھر جنّ بھوتوں کے قصے اور قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کے عقیدے سے چمٹا رہوں۔ یا پھر حضرت احمد علیہ السلام کو مسیح موعود اور امام مہدی مان لوں جنہوں نے اسلام کو خرافات سے پاک فرمایا ہے اور اسلام کے حسین چہرے کو نکھار کر پیش فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی دفاع فرمایا ہے۔ خیرکہتے ہیں، بہر حال میں نے خدا تعالیٰ سے مدد چاہی اور بہت دعا کی کہ وہ میری راہنمائی فرمائے اور حق اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔ چنانچہ میں نے جماعت احمدیہ اور حضرت احمد علیہ السلام کی طرف ایک دلی میلان محسوس کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ میں نے قانون پڑھا ہوا ہے۔ جب مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار سنے تو میرا جسم کانپنے لگا اور آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور میں نے زور سے کہا کہ ایسے شعر کوئی مفتری نہیں کہہ سکتا۔ ایک مفتری کے سینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت کیسے ہو سکتی ہے۔ پھر ایک عجمی کا اتنا قوی اور فصیح و بلیغ عربی زبان کا استعمال کرنا بغیر خدائی تائید کے ناممکن ہے۔
…محمد بن احمد صاحب جرمنی میں رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ …مَیں نے جماعت کے عقائد اور تفسیر کا مطالعہ کیا۔ یہ کم و بیش وہی عقائد تھے جن کا ہم بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے۔ مثلاً یہ کہ دجال سے مراد اثرِ حاضر کا مغربی ممالک کا صنعتی انقلاب اور مادی کشش، نیز عیسائیت کا پرچار کرنے والی قوتیں ہیں۔ پھر مجھے لکھتے ہیں کہ یقین کریں کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھتے وقت حقائق و معارف اور حضور کی روزِ روشن کی طرح واضح صداقت کو پڑھ کر رویا کرتا تھا۔ ہر لفظ میری روح میں اتر جاتا تھا۔ یہ متاع ایمان ایسی دولت ہے جس کا بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ جماعت کے عقائد کا دوسروں پر غلبہ بھی واضح تھا۔ یقیناً جو جماعت اسلام کے صحیح عقائد پیش کرتی ہے، مثلاً قرآنِ کریم کا ناسخ و منسوخ سے پاک ہونا، اس کی عقلی اور منطقی تفسیر، عصمتِ انبیاء، ختم نبوت کی تفسیر، اسراء اور معراج کی حقیقت، وہ صرف مسیح موعود کی جماعت ہی کھول سکتی ہے۔ گو آج اُسے جزوی غلبہ حاصل ہے لیکن مستقبل قریب میں اُسے کامل غلبہ حاصل ہو گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ14؍فروری 2014ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍مارچ2014ءصفحہ7تا9)
اصول تفسیر
قرآن کریم کے معانی اور تفسیر کرتے وقت جن اصولوں اور باتوں ملحوظ رکھنی ضروری ہے ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’قرآن کے معنی اپنے طرف سے نہ گھڑ لیا کریں۔ بلکہ وہی معنی کریں جوتواتر آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں …ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے معصیت عظیمہ ہے۔ قرآن کی کسی آیت کے معنی اگر کریں تو اس طور سے کرنے چاہیں کہ دوسری قرآنی آیتیں ان معنوں کی مؤید اور مفسر ہوں۔ اختلاف اور تناقض پیدا نہ ہو کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں بعض کے لئے بطور تفسیر کے ہیں۔ اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل رسول اللہﷺ کی بھی اُنہیں معنوں کی مفسر ہو۔ کیونکہ جس پا ک اور کامل نبی پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے بہتر قرآن شریف کے معنی جانتا ہے۔‘‘ (آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 80، حاشیہ)
مزید فرمایا کہ’’کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو۔ غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں۔ پس ہریک معترض پر لازم ہو گا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے۔‘‘(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 86)
تعلیم القرآن
قادیان اسلام اور تعلیم القرآن کا گہوارہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے آباء واجداد بھی تعلیم القرآن کا شغف رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں جبکہ کتب عام نہ تھیں قادیان میں قرآن کریم کے500 کے قریب قلمی نسخہ جات موجود تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن شریف کے ان کے پاس رہتے تھے جن کے کافی وظیفے مقرر تھے اور ان کے دربار میں اکثر قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا۔ اور تمام ملازمین اور متعلقین میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تارک نماز ہو۔ یہاں تک کہ چکّی پیسنے والی عورتیں بھی پنج وقتہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں …اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور اُن کے مال ومتاع سب لوٹی گئی…اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں سے پانسو نسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا‘‘۔(کتاب البریۃ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 166 و 175، حاشیہ)
’’انسان اگرخدا کی طرف قدم اٹھائے تو اﷲ تعالیٰ کا فضل دوڑ کر اس کی دستگیری کرتا ہے۔ یہ سچی بات ہے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ چالاکی سے علوم القرآن نہیں آتے۔ دماغی قوت اور ذہنی ترقی قرآنی علوم کو جذب کرنے کا اکیلا باعث نہیں ہو سکتا۔ اصل ذریعہ تقویٰ ہی ہے۔ متقی کا معلم خدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر اُمیّت غالب ہوتی ہے۔ ہمارے نبی کریمﷺ کو اسی لئے اُمّی بھیجا گیا اور باوجودیکہ آپ نے نہ کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو استاد بنایا۔ پھر آپؐ نے وہ معارف اور حقائق بیان کیے جنہوں نے دنیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور حیران کر دیا۔ قرآن شریف جیسی پاک، کامل کتاب آپؐ کے لبوں پر جاری ہوئی جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے عرب کو خاموش کرا دیا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 284۔ایڈیشن1988ء)
حضرت مسیح موعوؑد کا منشائے مبارک تھا کہ لوگ اسی طرح فہم قرآن حاصل کریں جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا اور آپ مسلمانوں کے اس کسل سے نالاں بھی تھے۔
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کا طریق سکھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’قرآنِ شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْاٰن۔ یعنی بہت سے ایسے قرآنِ کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآنِ کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اُس پر عمل نہیں کرتا اُس پر قرآنِ مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآنِ کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 157، ایڈیشن 2003ء)
یہ صورت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب اس کی اہمیت کا اندازہ ہو، اس سے خاص تعلق ہو۔ پس یہ اہمیت اور خاص تعلق ہم نے اپنے دلوں میں قرآنِ کریم کے لیے پیدا کرنا ہے۔ بعض لوگوں کے اس بہانے اور یہ کہنے پر کہ قرآنِ شریف سمجھنا بہت مشکل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’بعض نادان لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآنِ شریف کو نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ (اس واسطے) ’’اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ یہ اُن کی غلطی ہے۔ قرآنِ شریف نے اعتقادی مسائل کو ایسی فصاحت کے ساتھ سمجھایا ہے جو بے مثل اور بے مانند ہے اور اس کے دلائل دلوں پر اثر ڈالتے ہیں۔ یہ قرآن ایسا بلیغ اور فصیح ہے کہ عرب کے بادیہ نشینوں کو جو بالکل اَن پڑھ تھے سمجھا دیا تھا تو پھر اب کیونکر اس کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 177، ایڈیشن 2003ء)(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍ دسمبر 2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری 2012ءصفحہ6تا7)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں مدرسہ احمدیہ جاری کیا اور اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ ایسے واعظ اور علماء پیدا ہوں جو آئندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوں جو اس دنیائےفانی سےرخصت ہو رہے ہیں۔اس مدرسہ کو ایسے رنگ میں رکھا جاوے کہ یہاں سے قرآن دان، واعظ اور علماء پیدا ہوں جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں۔ مدرسہ احمدیہ کی شاخ دینیات سے جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام سکول کا قیام اور پھر آج مختلف ممالک میں جامعات احمدیہ اور جماعتی سکولز میں قرآن کریم کی تعلیم کا مستقل بنیادوں پر قیام حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خواہش کی عملی تصویر ہے۔ پھر آپؑ نے مَردوں کے علاوہ مستورات کے لیے درس القرآن جاری کروایا۔ اور درس القرآن کا یہ مائدہ آج ایم ٹی اے کے ذریعہ بھی قریہ قریہ کل عالم میں خدائے واحد کے کلام کو پہنچا رہاہے۔
قرآن کریم کے اعجاز کا قیام
قرآن کریم ہر اعتبار سے ایک معجزہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات و ملفوظات میں اس امر کو خوب بیان فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’کیا باعتبار فصاحت وبلاغت۔ کیا باعتبار ترتیب مضامین کیا باعتبارتعلیم۔ کیا باعتبارِ کمالاتِ تعلیم۔ کیا باعتبارات ثمراتِ تعلیم۔ غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے۔ اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی، بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے۔ یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو۔ خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد۔ خواہ بلحاظ تعلیم۔ خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں۔ غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد2صفحہ 26تا27۔ ایڈیشن1988ء)
حضورؑ فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف کی اعجازی خوبیوں میں سے ایک بلاغت فصاحت بھی ہے جو انسانی بلاغت فصاحت سے بالکل ممتاز اور الگ ہے کیونکہ انسانی بلاغت فصاحت کا میدان نہایت تنگ ہے۔ اور جب تک کسی کلام میں مبالغہ یا جھوٹ یا غیر ضروری باتیں نہ ملائی جائیں تب تک کوئی انسان بلاغت، فصاحت کے اعلیٰ درجہ پر قادر نہیں ہو سکتا‘‘۔
نیز فرمایا: ’’قرآن شریف میں یہ معجزانہ خوبی ہے کہ اس کی تعلیم انسانی فطرت کو اس کے کما ل تک پہنچانے کے لئے پورا پورا سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور مرتبہ یقین حاصل کرنے کےلئے جن دلائل اور نشانوں کی انسان کو ضرورت ہے سب اس میں موجود ہیں ‘‘۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ 268، حاشیہ)
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف ایسا علوم و معارف و کمالات ظاہری و باطنی پر حاوی ہے کہ صریح حد بشریت سے بڑھا ہوا ہے اور بہ بداہت معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر اس نے حقائق و دقائق کو ایک بے مثل بلاغت و فصاحت میں بیان کیا ہے اور پھر بالتزام ایسے بلیغ و فصیح بیان کے تمام دینی صداقتوں پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو گیا ہے حقیقت میں یہ ایسا کام ہے جس کو معجزہ کہنا چاہیے کیونکہ یہ انسانی طاقتوں سے ماورا اور بشری قوتوں سے بالاتر ہے۔‘‘ ( شحنہ حق، روحانی خزائن جلد2صفحہ 342)
مباحثہ میں اپنی دینی کتاب
کسی قسم کے مباحثہ میں فریق مخالف کی تحریر اور کتب پر اعتراض کرنا نہایت آسان امر ہے لیکن مخالفین نے اس امر کو نظر انداز کر دیا کہ یہ اعتراضات ان کی اپنی کتب پر بھی پڑتے ہیں۔ اس لیے آپؑ نے ایک اصول یہ پیش فرمایاکہ جوبھی دعویٰ پیش کیاجائے وہ اپنی مقدس الہامی کتاب سے ہو۔ دوسرایہ اصول تھا کہ نہ صر ف یہ کہ دعویٰ الہامی کتاب سے ہوبلکہ دلیل بھی الہامی کتاب سے ہو۔ ان اصولوں کو آج بھی بنیاد بنا کر مناظرہ کیا جائے تو مسلمانوں کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ وہ ہمیشہ سرخرو رہیں گے۔
تفسیر بالقرآن کا اصول
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی آیات کا صحیح ترجمہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم کی کسی آیت کے ایسے معنے کرنے چاہئیں کہ جو صدہا دوسری آیات سے جو اس کی تصدیق کے لئے کھڑی ہوں مطابق ہوں اوردل مطمئن ہو جائے اور بول اُٹھے کہ ہاں یہی منشاء اللہ جلّ شانہ کا اس کے پاک کلام میں سے یقینی طور پر ظاہر ہوتا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ229حاشیہ)
مدحِ قرآن
حضرت مسیح موعودؑ نے اردو، فارسی اور عربی منظوم کلام کے ذریعہ بھی قرآن کریم کی مدح بیان فرمائی۔ ایسا دلکش اور پیارا کلام جو آج زبان زدِ عام ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
زِ عشّاقِ فرقان و پیغمبریم
بدیں آمدیم و بدیں بگذریم
ترجمہ: ہم قرآن اور پیغمبر (علیہ الصلوٰة و السلام)کے عاشقوں میں سے ہیں۔ اسی (عشق)کے ساتھ ہم آئے ہیں اور اِسی کے ساتھ جائیں گے۔
اس شعر میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عشق قرآن آپ کواپنے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے اتّباع اور محبت سے نصیب ہوا ہے۔ اور پھر اس عشق کا یہ والہانہ انداز بھی دیکھیں۔
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
اور عربی میں فرماتے ہیں:
و اِنَّ سُرُوْرِیْ فِیْ اِدَارَةِ کَأْسِہِ
فَھَلْ مِنَ النَّدَامیٰ حَاضِرٌ مَّنْ یُّکَرِّرُ
ترجمہ: اور میری خوشی اس پیمانے کو گردش میں لانے میں رہی ہے۔ کیامیرے ہم مجلسوں میں کوئی ہے جو بار بار پلائے۔ (ترجمہ منقول از ادب المسیح صفحہ 307 و 308)
چند دیگر اشعار درج ذیل ہیں:
جمال و حسن قرآں نور جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلامِ پاک رحماں ہے
بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے
کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لؤلوئے عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے
خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاںہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَجلیٰ نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا
ناگہاں غیب سے یہ چشمۂ اصفیٰ نکلا
یا الٰہی! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالَم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں
مئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قرآں کتاب رحماں سکھلائے راہ عرفاں
جو اس کے پڑھنے والے ان پر خدا کے فیضاں
قرآں کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا
فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
از نور پاک قرآن صبح صفا دمیدہ
بر غنچہائے دلہا بادِ صبا و زیدہ
ایں روشنی و لمعاں شمس الضحیٰ ندارد
وایں دلبری و خوبی کس در قمر ندیدہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ھَلُمَّ اِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ صِدْقًا
وَّ اِیْمَانًا بِتَصْدِیْقِ الْجَنَانِ
شَغَفْتُمْ اَیُّھَا النُّوْکٰی بِشَوْکٍ
وَ اَعْرَضْتُمْ عَنِ الزَّھْرِ الْحِسَانِ
وَ اٰثَرْتُمْ اَمَاعِزَ ذَاتَ صَخْرٍ
عَلٰی مُخْضَرَّةٍ قَاعٍ ھِجَانِ
وَمَا الْقُرْآنُ اِلَّا مِثْلَ دُرَرٍ
فَرَائِدَ زَانَھَا حُسْنُ الْبَیَانِ
وَ مَا مَسَّتْ اَکُفُّ الْکَاشِحِیْنَا
مَعَارِفَہُ الَّتِیْ مِثْلَ الْحِصَانِ
بِہِ مَا شِئْتَ مِنْ عِلْمٍ وَّ عَقْلٍ
وَّ اَسْرَارٍ وَّ اَبْکَارِ الْمَعَانِیْ
یُسَکِّتُ کُلَّ مَنْ یَعْدُوْ بِضِغْنٍ
یُبَکِّتُ کُلَّ کَذَّابٍ وَّ جَانِیْ
رَئَیْنَا دَرَّ مُزْنَتِہِ کَثِیْرًا
فَدَیْنَا رَبَّنَا ذَا الاِْمْتِنَانِ
وَ مَا اَدْرَاکَ مَا الْقُرْآنُ فَیْضًا
خَفِیْر جَالِب نَحْوَ الْجِنَانِ
لَہُ نُوْرَانِ نُوْر مِّنْ عُلُوْمٍٍ
وَ نُوْر مِّنْ بَیَانٍ کَالْجُمَانِ
خدا کی کتاب کی طرف۔ صدق اور دلی ایمان سے آجا۔ بے وقوفو! تم کانٹوں پر فریفتہ ہوگئے۔ اور خوبصورت پھولوں سے کنارہ کیا۔ اور تم نے کنکریوں اور بڑے پتھروں والی زمین جو بہت سخت ہے اختیار کی۔ اور ایسی زمین کو چھوڑا جو پُر سبزہ اورنرم اور نہایت عمدہ اور قابلِ زراعت ہے۔ اور قرآن درحقیقت بہت عمدہ اور یکدانہ موتیوں کی طرح ہے۔ جو حسنِ بیان سے اور بھی اس کی زینت اور خوبصورتی نکلی ہے۔ اور دشمنوں کی ہتھیلیاں ان معارف کو چھوئی بھی نہیں۔ جو قرآن میں ایسے طور پر چھپی ہوئی ہیں جیسے پردہ نشین پارسا عورت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اس میں ہر یک وہ علم اور عقل ہے جس کا تو طالب ہے۔ اور انواع و اقسام کے بھید اور نئی صداقتیں اس میں بھری ہیں۔ ہر یک ایسے دشمن کا منہ بند کرتا ہے جو مخالفانہ طور پر دوڑ پڑتا ہے۔ اور ہر ایک ایسے شخص پر اتمامِ حجت کرتا ہے جو دروغگو اور گناہگار ہے۔ ہم نے اس کے مینہ کا پانی بہت ہی دیکھا ہے۔ سو ہم اس خدا پر قربان ہیں جس نے ایسے احسان کئے۔ اور تو کچھ جانتا ہے کہ قرآن فیض کے رو سے کیا شے ہے؟ وہ ایک راہبر ہے جو بہشت کی طرف کھینچتا ہے۔ اس میں دو نور ہیں ایک تو علوم کا نور اور دوسرے۔ فصاحت اور بلاغت کا نور جو دانۂ نقرہ کی طرح چمکتا ہے۔
ساری عمر کی مساعی کا نچوڑ
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’مَیں جوان تھا اور اب بوڑھا ہو گیا اور اگر لوگ چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ مَیں دنیا داری کے کاموں میں نہیں پڑا اور دینی شغل میں ہمیشہ میری دلچسپی رہی۔ مَیں نے اس کلام کو جس کا نام قرآن ہے نہایت درجہ تک پاک اور رُوحانی حکمت سے بھرا ہوا پایا۔‘‘(سناتن دھرم، روحانی خزائن جلد19 صفحہ474)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی اصل چیز عاجزی سے قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھ کر اُس پر عمل کرنا ہے۔ اس کو پیشہ بنانا نہیں ہے بلکہ اس سے محبت کرنا ہے۔ اور آج ہم میں سے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ اس پر توجہ دے۔ اس کے حصول کی کوشش کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام’کشتی ٔ نوح‘میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلّ تھے۔ سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی نے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اُس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدّق یا مکذّب قیامت کے دن قرآن ہے۔ اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے۔ اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے اُن کے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اِس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی‘‘(گندے لوتھڑے کی طرح تھی) ’’قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں ‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عز ّت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کیلئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی۔ بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا‘‘ (یعنی اس کا شریعت اور روحانیت کا فیض جو ہے وہ قیامت تک جاری ہے)’’اور آخر کار اُس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دُنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کیلئے ضروری تھا۔ کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دُنیا ختم نہ ہو جب تک محمدی سلسلہ کیلئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کیلئے دیا گیا تھا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحہ:6)‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13-14)
اللہ کرے کہ ہم اور ہماری اولادیں اور آئندہ تا قیامت جو بھی آنے والی نسلیں ہوں، جنہوں نے مسیح محمدی کو مانا ہے، وہ قرآنِ کریم سے حقیقی رنگ میں محبت رکھتے ہوئے اس کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں، اور اس کی برکات سے ہر دم فیض پاتے چلے جانے والے ہوں۔‘‘(خطبہ جمعہ 16؍ دسمبر2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2012ءصفحہ7)
٭…٭…٭
اشاءاللہ بہت ہی زبرست مضمون تحریر فرمایا ہے۔ پڑھ کر بہت مزا آیا اور علم میں اضافہ کا باعث بنا۔ الحمدللہ ۔ جزاکم اللہ