احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
آبائی قبرستان کی صرف چندایک قبورکے نشانات باقی رہ گئے ہیں۔ باقی تمام زمین کھیتوں کے طورپراستعمال ہورہی ہے۔ قبرستان کوجانے والاابھی توکوئی باقاعدہ راستہ بھی نہیں ہے۔ کھیتوں سے گزرکرجاناپڑتاہے۔
آبائی قبرستان
قادیان کی غربی جانب حضرت مسیح موعودؑ کا آبائی قبرستان ہے جو عیدگاہ بھی کہلاتاہے۔ اور شاہ عبداللہ غازی کے نام سے بھی موسوم ہے۔ عبداللہ غازی نام کے بزرگ تھے جو حضرت اقدسؑ کے پڑداداحضرت مرزاگل محمدصاحب کے زمانےمیں تھے اور قادیان میں ہی قیام پذیرتھے۔ سیرت المہدی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ اس قبرستان اور اس بزرگ کی بابت تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قادیان کے جس قبرستان میں حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کے افراد دفن ہوتے رہے ہیں۔ وہ مقامی عیدگاہ کے پاس ہے۔ یہ ایک وسیع قبرستان ہے جو قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے جن افراد کی قبروں کا مجھے علم ہو سکا ہے ان میں سے بعض کا خاکہ درج ذیل ہے اس خاکہ میں شاہ عبداللہ صاحب غازی کی قبر بھی دکھائی گئی ہے جو ایک فقیر منش بزرگ گذرے ہیں۔ مجھے یہ اطلاع اس قبرستان کے فقیر جھنڈو شاہ سے بواسطہ شیخ نور احمد صاحب مختار عام مرحوم ملی تھی۔ اور شاہ عبداللہ غازی کے متعلق مجھے والدہ عزیزم مرزا رشید احمد سے معلوم ہوا ہے کہ وہ مرزا گل محمد صاحب (پڑدادا حضرت صاحب) کے زمانہ میں ایک فقیر مزاج بزرگ گذرے ہیں۔ جن کے مرنے پر مرزا گل محمد صاحب نے ان کا مزار بنوادیا تھا۔ ہماری ہمشیرہ امۃ النصیر کی قبر بھی اسی قبرستان میں ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر: 758)
یہ قبرستان ظاہر ہے کہ ایک وسیع رقبہ پر مشتمل ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی عیدگاہ بھی واقع تھی۔ حضرت اقدسؑ کے دعویٰ کے بعد اغلباً احمدی افرادکی تدفین تو شاذ ہی ہوتی ہوگی کیونکہ تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ پھر احمدیہ محلہ کے قریب ہی ایک قبرستان میں تدفین ہونے لگی۔ جوروڑی قبرستان کے نام سے مشہورتھا۔
روڑی قبرستان اب بھی موجودہے گوکہ اب صرف چندایک قبروں کے نشان ہی باقی ہیں۔ لیکن ایک وقت میں، بہشتی مقبرہ کے قیام سے قبل بعض کبارصحابہؓ کی تدفین بھی اسی قبرستان میں ہوئی۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اور حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ قاضی کوٹی کی قبریں بھی یہیں تھیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ کی نعش مبارک کو تو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اجازت سے بہشتی مقبرہ کی بنیاد رکھتے ہی وہاں منتقل کردیاگیا۔ البتہ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کی قبراسی قبرستان میں ابھی تک موجودہے ہرچند کہ ان کا یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ چاردیواری کے اندر موجودہے۔ اس کے علاوہ چند اور اِکّا دُکّاپرانی قبروں کے نشان موجودہیں۔
(فخرالدین ملتانی صاحب کی قبربھی اسی قبرستان میں ہے۔اوراس کانشان ابھی یعنی 2012ء تک تو موجود تھا خاکسار نے خود دیکھا ہے۔ )
آبائی قبرستان جس کاذکر ہورہا تھاکہ دعویٰ کے بعد تو حضرت اقدسؑ کے خاندان کے دوسرے افرادکی تدفین ہوتی رہی ہوگی۔ یہ کافی وسیع قبرستان تھا۔لیکن1947ءمیں ہندوپاک آزادی کے نتیجے میں جب قادیان کے اردگردکی زمین پر پھر سے وہاں کے مقامی سکھوں اورہندوؤں نے ایک بارقبضہ کرلیا تو اس میں یہ آبائی قبرستان بھی آگیا۔ اور شنیدہے کہ جس کے قبضہ میں تھا اس نے اس ساری جگہ پر ہل چلا کر اپنے کھیتوں میں تبدیل کرلیا۔ البتہ شاہ عبداللہ غازی اور چندایک قبروں کے نشان ابھی تک موجودہیں اور عیدگاہ کی جگہ پر ایک شکستہ محراب بھی اس جگہ کی نشانی کے طورپر سال 2012ء دسمبر تک توموجودتھا جبکہ خاکسار نے خود یہ ساری جگہیں مشاہدہ کی تھیں۔ عمومی طور پر جن صاحب کے قبضہ میں یہ جگہ ہے وہ پسندنہیں کرتے کہ کوئی ادھرآئےاس لیے قبروں کے گرداگرد جھاڑجھنکاراور درختوں کی شاخیں وغیرہ پھیلا کر راستہ بند کردیاجاتا ہے۔ خاکسار جب 2005ء میں قادیان گیا تو مجھے علم نہ تھا کہ اس زمین کے موجودہ مالک کسی کو اندرنہیں آنے دیتے۔ ایک شدید دھند والی صبح پہلی مرتبہ خاکسار اپنی اہلیہ صاحبہ کے ہمراہ اس قبرستان کی زیارت کے لیے گیا تو بمشکل راستہ بناکر قبروں تک پہنچ سکے، سیرت المہدی کا یہی نقشہ جو ذیل میں ہے خاکسار کے پاس تھا۔ بڑی اونچی لمبی گھاس قبروں پر اگی ہوئی تھی۔ ہم دونوں نے حضرت اقدس کی والدہ ماجدہ اوربھائی اورپڑ دادا کی قبروں پرسے اپنے ہاتھوں سے ساری گھاس کاٹی اور قبروں کو صاف کیااوردعاکے بعد واپس لوٹے۔
حضرت اقدسؑ کے بزرگ آباءواجداد اور بہن بھائیوں اوروالدہ ماجدہ اورحضورکے بعض بچوں کی قبریں بھی اسی قبرستان میں ہیں لیکن ان سب کی نشاندہی نہیں ہوئی کہ کس جگہ ہوں گی۔ جن قبروں کے نشان موجودہیں وہ ایک نقشہ کی صورت میں سیرت المہدی میں مذکورہیں۔ ان میں سے بھی کچھ قبروں کے نشان باقی ہیں اورکچھ کے تواب نشان بھی ختم ہوچکے ہیں۔
نقشہ آبائی قبرستان
جیساکہ اوپرذکرہوچکاہے کہ اس آبائی قبرستان کی صرف چندایک قبورکے نشانات باقی رہ گئے ہیں۔ باقی تمام زمین کھیتوں کے طورپراستعمال ہورہی ہے۔ قبرستان کوجانے والاابھی توکوئی باقاعدہ راستہ بھی نہیں ہے۔ کھیتوں سے گزرکرجاناپڑتاہے۔ اورچھوٹے بڑے درختوں کے ایک جھنڈکے اندرقدرے اونچی جگہ پرکچھ قبریں اور کچھ کے نشان ابھی تک باقی ہیں۔ شاہ عبداللہ غازی کی قبرایک چاردیواری کےاحاطہ کے اندرہے۔ یہ چاردیواری بھی خستہ حالت میں ہے۔ لیکن نظرآتاہے کہ یہ چاردیواری ہی تھی۔ اس کے اندر دو قبریں ہیں۔ ایک توعبداللہ غازی صاحب کی اپنی ہے اورایک ان کےصاحبزادے کی ہے۔
باقی قبروں میں جن کے نشان ابھی نمایاں ترہیں ان کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ
احاطہ کے باہرجنوبی جانب دوپختہ قبریں اکٹھی ہیں۔ اب اگرہم ان دونوں اکٹھی قبروں کے پاؤں کی طرف کھڑے ہوں تو:
ہمارے دائیں جانب حضرت اقدسؑ کے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب کی قبرہوگی۔
اور ان کے ساتھ والی قبرحضورؑ کی والدہ ماجدہ حضرت چراغ بی بی صاحبہؒ کی ہوگی۔
اورتھوڑے سے فاصلے پربائیں جانب آپؑ کے پڑدادا مرزاگل محمدصاحب کی قبرہے۔
اگرہم یہیں کھڑے کھڑے اپنے دائیں جانب اسی نقشہ کی مددسے دیکھناچاہیں تو کچھ نشان تین قبروں کےاورہوں گے۔ صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب کی قبرکے پاؤں کی طرف ایک قبرمحترمہ صاحبزادی مرادبی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت اقدسؑ، اور اسی قبرکے اوپرکی جانب ایک ابھراہوانشان ہے وہ حضورؑ کے چچا مرزاغلام محی الدین صاحب کی قبراوراس سے کچھ اوراوپرایک گڑھاساہے وہ آپؑ کی چچی صاحب جان صاحبہ کی قبرکانشان ہے۔ حضورؑ کی والدہ ماجدہ کی قبرکے پاؤں کی جانب پانچ قبریں اورتھیں جوہمارے دائیں جانب سے بالترتیب:
جنت بی بی صاحبہ۔ حضورؑ کی وہ ہمشیرہ جوآپ کے ساتھ ہی پیداہوئیں۔
مرزاغلام حیدرصاحب۔ حضورؑ کے چچا
حضرت گل محمدصاحب کی اہلیہ صاحبہ۔ پڑدادی حضوراقدسؑ
لاڈلی بیگم صاحبہ۔دادی حضوراقدسؑ
مرزاعطامحمدصاحب۔ داداحضوراقدسؑ
چندسال پہلے ان قبروں کے کچھ نشان موجودتھے لیکن اب وہ بھی تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ یہ ترتیب اور نشان اسی نقشہ کے مطابق ہی موجودہے۔ یاممکن ہے کہ اسی نقشہ کی مددسے کسی وقت ان کےآثار و نشانات کودوبارہ بھرکرقائم کردیاجائے۔
کوئی بعیدنہیں کہ اسی قبرستان میں اور انہیں قبورکے نزدیک ہی حضرت اقدسؑ کی بیٹی صاحبزادی امۃ النصیرصاحبہ کی قبربھی ہو۔ کیونکہ انہیں بھی اسی قبرستان میں دفن کیاگیاتھا۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭