حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعویٰ سے قبل زندگی پر ایک نظر (قسط دوم)
ابتدائی عمر میں ہی آپؑ کے دل میں ادیان باطلہ پر اسلام کی برتری ثابت کرنے کا جذبہ موجزن تھا۔
عبادت کے علاوہ آپؑ کے اوقات کا زیادہ تر حصہ اسی غوروفکر میں گزرتا
شادی میں کوئی رسم خلاف شریعت نہ ہونے پائی
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عمر مبارک پندرہ سولہ برس ہوگی کہ آپؑ کے والد محترم نے آپ کی شادی کردی۔ اُس زمانے میں امیر گھرانوں میں بچوں کی شادیاں چھوٹی عمر میں کرنے کا رواج تھا۔ آپ کی شادی باوجود خاندان کے صاحبِ عظمت ہونے کے بہت سادگی سے ہوئی اور کسی قسم کی کوئی رسم خلاف شرع اور خلاف سنت عمل میں نہیں آئی۔ آپ کی پہلی زوجہ محترمہ کا نام حرمت بی بی صاحبہ تھا جو آپ کے ماموں مرزا جمعیت بیگ صاحب کی صاحبزاد ی تھیں۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب حیات احمد میں آپؑ کی پہلی شادی کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی جس شان سے ہوئی وہ اس خاندان کے اس وقت کے موجودہ رسم ورواج کے لحاظ سے بالکل نرالی اور انوکھی شادی تھی۔ وہ زمانہ …ہندوستان کے مسلمانوں پر عجیب ابتلا کا زمانہ تھا …اسلامی شعائر کی بجائے عجیب و غریب رسوم قائم ہوچکی تھیں۔ بیاہوں اور شادیوں پر ایسے ایسے امور ہوتے تھے جو اسلام کے لئے باعث شرم ہوں۔ اور وہ اعلیٰ تمدن اور اعلیٰ درجہ کے تمول اور خاندان کا نشان سمجھے جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی شادی اس دھوم دھام سے کی گئی تھی کہ اس کی نظیر گردو نواح میں اب تک بھی پیدا نہیں ہوئی۔ ہر قسم کے سائلین اور غرباء کی جماعت یہاں جمع تھی ایک مہینے تک یہ جشن رہا… اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ شادی کس پیمانہ اور کس رنگ کی تھی مگر حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے ہر رنگ میں ہر قسم کی بدعات اور خلاف شریعت رسوم سے بچالیا۔ آپ کی شادی کے سوال کا حل آپ کے اختیار میں نہ تھا۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کے اختیار میں تھا جو اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے اس وقت کے حالات کے موافق ہر قسم کے رسوم کے پابند ہوسکتے تھے …مگر قدرت الٰہی کا کرشمہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی کے وقت خود بخود ان رسوم خلاف شریعت میں سے ایک بھی ہونے نہیں پائی یہ تصرف الہٰی تھا آپ چونکہ مامور ہونے والے تھے اگر اس وقت آپ کے متعلق کوئی رسم ایسی ہوبھی جاتی تو بھی آپ عندالناس بری الذمہ تھے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اس پہلو سے بھی آپ پر کوئی اعتراض آنے نہیں دیا۔ وہ شادی سادگی اور اسلامی نکاح کا ایک نمونہ تھی …مرزا جمعیت بیگ صاحب آپ کے ماموں اور خسر یہاں ہی رہتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی کی تجویز ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نکاح ہوگیا۔ کوئی دھوم دھام اور کوئی رسم آپ کے نکاح میں عمل میں نہ آئی۔‘‘(حیات احمد صفحہ 212تا213)
ابتدائی عمر سے کثرت مطالعہ
ابتدائی عمر میں ہی آپؑ کے دل میں ادیان باطلہ پر اسلام کی برتری ثابت کرنے کا جذبہ موجزن تھا۔ عبادت کے علاوہ آپؑ کے اوقات کا زیادہ تر حصہ اسی غوروفکر میں گزرتا۔ اس مقصد کے لیے آپؑ دوسرے مذاہب کی کتابوں میں اسلام پر کیے گئے اعتراضات کو پڑھتے تاکہ اُن کا جواب دے سکیں۔ اس مقصد کے لیے آپؑ اللہ تعالیٰ کے حضورکثرت سے دعائیں کرتے اورقرآن کریم پر غور وفکر کرکے اُن اعتراضات کے حل کے لیے دعائیں کرنا آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صداقت اور اُس کی عظمت کے اظہار کے لیے آپؑ کے دل میں ایک جوش پیدا کردیا تھا۔ شادی کے بعد حضور علیہ السلام کی توجہ خاص طورپر غیروں کی طرف سے اسلام اور آنحضرتﷺ پر اعتراضات پر غوروفکر کرنے میں صَرف ہونے لگی۔ آپ پہلے سے بڑھ کر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے اور اُس کے مضامین پر غوروفکر کرتے۔ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضات پر غور کرتا رہا ہوں۔ ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہم کس کو شہادت میں پیش کرسکتے ہیں۔ کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے۔ سولہ یاسترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا رہا ہوں۔ مگر ایک طرفۃ العین کے لئے بھی ان اعتراضوں نے میرے دل کو مذبذب یا متأثر نہیں کیا اور یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔ میں جوں جوں ان اعتراضوں کو پڑھتا جاتا تھا۔ اسی قدر ان اعتراضوں کی ذلت میرے دل میں سماجاتی تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور محبت سے دل عطر کے شیشہ کی طرح نظر آتا۔ میں نے یہ بھی غور کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس پاک فعل پر یا قرآن شریف کی جس آیت پر مخالفوں نے اعتراض کیا ہے۔ وہاں ہی حقائق اور حِکَم کا ایک خزانہ نظر آیا ہے۔ جوکہ ان بد باطن اور خبیث طینت مخالفوں کو عیب نظر آتا ہے۔‘‘(الحکم مورخہ30؍اپریل 1901ء صفحہ 2کالم 1تا 3بحوالہ حیات احمد صفحہ 398-399۔ کمپوزڈ ایڈیشن 2013ء)
پس خدا تعالیٰ نے خود قدم قدم پر آپ کی راہ نمائی فرمائی اور آپ کو اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب کرلیا۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’چوں حاجتے بود بادیبِ دِگر مرا
من تربیت پذیر زِ ربّ مہیمنم‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 658)
مجھے کسی اَور استاد کی ضرورت کیوں ہو۔ میں تو اپنے خدا سے تربیت حاصل کیے ہوئے ہوں۔
پس اللہ تعالیٰ نے خود آپ کی تربیت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ نے آنحضرتﷺ سے براہ راست روحانی علوم حاصل کیے۔ جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’دِگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دِبستانِ محمدؐ ‘‘
(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 14)
میں اَور کسی استاد کا نام نہیں جانتا میں تو صرف محمدﷺ کے درس کا پڑھا ہوا ہوں۔
حضور علیہ السلام نوجوانی میں مطالعہ کتب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیےکیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے اور نیز اُن کا یہ بھی مطلب تھا کہ میں اس شغل سے الگ ہوکر ان کے غموم و ہموم میں شریک ہوجائوں‘‘۔(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ181تا182حاشیہ)
ابتدائی عمر میں نبی کریمﷺ سے والہانہ عشق
مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے مرزا سلطان احمد صاحب سے پوچھا کہ حضرت صاحب کے ابتدائی حالات اور عادات کے متعلق آپ کو جو علم ہو وہ بتائیںتو انہوں نے جواب دیا کہ والد صاحب ہر وقت دین کے کام میں لگے رہتے تھے۔ گھر والے اُن پر پورا اعتماد کرتے تھے۔ …شریک جو ویسے مخالف تھے اُن کی نیکی کے اتنے قائل تھے کہ جھگڑوں میں کہہ دیتے تھے کہ جو کچھ یہ کہہ دیں گے ہم کو منظور ہے۔ ہرشخص ان کو امین جانتا تھا …والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گزاری بلکہ فقیر کے طور پر گزاری۔ اور مرزا صاحب نے اسے بار بار دہرایا … ان کی ناراضگی بھی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی …ایک بات میں نے خاص طور پر دیکھی ہے کہ حضرت صاحبؐ (یعنی آنحضرتﷺ ) کے متعلق والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہوجاتا تھا اور آنکھیں متغیر ہوجاتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے …مرزا صاحب نے اس مضمون کو باربار دہرایا اور کہا کہ حضرت صاحبؐ سے تو بس والد صاحب کو عشق تھا۔ ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا۔‘‘(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 218-219روایت نمبر 196)
مقدمات کی پیروی اور حضورؑ کا طریق عمل
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد محترم کی یہ خواہش تھی کہ ان کے بیٹے اُن تمام دنیاوی امور سے واقف ہوں جو انہیں پیش آتے تھے۔ آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب پوری طرح دنیا داری میں منہمک تھے لیکن حضور کو ان کاموں میں ذرا برابر دلچسپی نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا کی اصلاح اور دین اسلام کے از سر نو احیاء کی ذمہ داری سونپناچاہتا تھا۔ اس لیے آپ کا دل دنیاوی کاموں سے سخت بیزار تھا۔ جبکہ آپ کے والد چاہتے تھے کہ آپ ان کے دنیاوی ہموم وغموم میں شریک ہوجائیں۔ آپ کے والد صاحب نے اپنے آباء واجداد کے دیہات دوبارہ حاصل کرنے کے لیے انگریزی عدالتوں میں بعض مقدمات دائر کر رکھے تھے۔ چنانچہ بیس پچیس سال کی عمر میں انہوں نے آ پ کو ان مقدمات کی پیروی میں لگادیا۔ اگرچہ آپ کی طبیعت اس قسم کے کاموں کو پسند نہیں کرتی تھی لیکن والد صاحب کی اطاعت اور فرمانبرداری کی وجہ سے آپ مقدمات کی پیروی کے لیے جایا کرتے تھے۔ ان مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میرے والد صاحب اپنے بعض آباء واجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کررہے تھے۔ انہوں نے انہیں مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں اِن کاموں میں مشغول رہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا۔ اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا رہا۔ اُن کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پرتھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے روبخلق بناویں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی۔ ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیاں میں آنا چاہا۔ میرے والد صاحب نے باربار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دوتین کوس جانا چاہیے۔ مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی۔ اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جا سکا۔ پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کردیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے برّ بالوالدین جانتے تھے۔‘‘(کتاب البریہ، براہین احمدیہ جلد 13صفحہ182تا184)
سچی گواہی
اس زمانے میں قائم عدالتوں میں اکثر فریقینِ مقدمہ اور اُن کے وکلاء سچائی، امانت اور دیانت کو خیرآباد کہہ چکے تھے۔ اس کے برعکس آپؑ نے ان مقدمات میں ہمیشہ سچائی اور امانت و دیانت کو قائم کرتے ہوئے دنیا کے لیے بے نظیر نمونہ قائم فرمایا۔ اگر کسی مقدمے میں آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنے خاندان کے خلاف گواہی دیں تو آپ نے گھر والوں کی مخالفت کی پرواہ کیے بنا سچی گواہی دی۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات آپ کے خاندان کو نقصان بھی برداشت کرنا پڑا لیکن آپ نے اس کی چنداں پرواہ نہ کی۔ ایک مقدمہ کے بارے میں لکھا ہے کہ’’ایک دفعہ جبکہ آپ کی عمر پچیس تیس برس کے قریب تھی۔ آپ کے والد بزرگوار کا اپنے موروثیوں سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہوگیا۔ آپ کے والد بزرگوار کا نظریہ یہ تھا کہ زمین کے مالک ہونے کی حیثیت سے درخت بھی ہماری ملکیت ہیں۔ اس لیے انہوں نے موروثیوں پر دعویٰ دائر کر دیا اور حضور کو مقدمہ کی پیروی کے لیے گورداسپور بھیجا۔ آپ کے ہمراہ دو گواہ بھی تھی۔ آپ جب نہر سے گذر کر گاؤں پتھنانوالہ پہنچے تو راستہ میں ذرا سستانے کے لیے بیٹھ گئے اور ساتھیوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’والد صاحب یونہی فکر کرتے ہیں۔ درخت کھیتی کی طرح ہوتے ہیں یہ غریب لوگ ہیں اگر کاٹ لیا کریں تو کیا ہرج ہے۔ بہرحال مَیں تو عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مطلقاً یہ ہمارے ہی ہیں ہاں ہمارا حصہ ہوسکتے ہیں۔‘‘موروثیوں کو بھی آپ پر بے حد اعتماد تھا۔ چنانچہ جب مجسٹریٹ نے موروثیوں سے اصل معاملہ پوچھا تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ خود مرزا صاحب سے دریافت کرلیں۔ چنانچہ مجسٹریٹ کے پوچھنے پر آپ نے فرمایاکہ میرے نزدیک تو درخت کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ ہے ویسے ہی درختوں میں بھی ہے۔ چنانچہ آپ کے اس بیان پر مجسٹریٹ نے موروثیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ واپسی پر جب آپ کے والد صاحب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے۔‘‘(حیات طیبہ صفحہ 16-17مصنفہ شیخ عبدالقادرصاحب)
نماز کا وقت ہوگیا اور میں نماز پڑھنے لگا
ان مقدمات کے دوران بھی آپ نمازیں بہت پابندی کے ساتھ وقت پر ادا فرماتے تھے۔ اگر عدالت کا ٹائم شروع ہوجاتا تب بھی نماز کو ترجیح دیتے اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کرتے کہ مقدمے کا فیصلہ غیر حاضری کی صورت میں خلاف بھی جاسکتا ہے۔ ایک ایسے ہی مقدمہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں بٹالہ میں ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ نماز کا وقت ہوگیا اور میں نماز پڑھنے لگا۔ چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا۔ فریق ثانی پیش ہوگیا اور ا س نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا مگر عدالت نے پروا نہ کی۔ اور مقدمہ اس کے خلاف کردیا اور مجھے ڈگری دے دی۔ میں جب نماز سے فارغ ہوکر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھا ہو مگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں۔‘‘(حیات النبیؑ جلد اوّل صفحہ 56بحوالہ حیات طیبہ صفحہ 15۔ مصنفہ شیخ عبدالقادر)
ان مقدمات کی پیروی کے لیے جو خادم آپؑ کے ساتھ جاتے اُن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے اور ہر طرح سے اُن کا خیال رکھتے۔ مرزا اسماعیل بیگ صاحب نے بچپن سے آپ کے آخری عہد زندگی تک خدمت کی توفیق پائی ہے۔ اُن کا بیان ہے کہ بعثت سے قبل جب آپ والد صاحب کے مقدمات کی پیروی کے لیے جاتے تو سواری کے لیے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ: جب حضرت قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کراتے۔ جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طے ہوجاتا تو میں اُتر پڑتا اور آپ سوار ہوجاتے اور اسی طرح جب عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کراتے اور بعد میں آپ سوار ہوتے۔ جب آپ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا اُسی چال سے چلنے دیتے۔ (الحکم 21تا28؍مئی 1934ءبحوالہ حیات طیبہ صفحہ 16)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُکُوۡرًا۔ (الدھر: 10) ہم تمہیں محض اللہ کی رضا کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم ہرگز نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی شکریہ۔
مرزا اسماعیل بیگ صاحب نے ایک موقع پر حضور علیہ السلام کی سادہ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں گھر سے سات روٹیاں لایا کرتا تھا۔ چار آپؑ کے لئے اور تین اپنے لئے۔ ان چار میں سے آپ کے حصہ میں ایک بھی نہیں آیا کرتی تھی …کھانے کے وقت عین وقت مقررہ پر عنایت بیگ آتا اور دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ حضرت کا طریق تھا کہ ہمیشہ دروازہ بندکرکے رکھا کرتے تھے اور میں کھول دیتا تو آپ ایک روٹی اور دوبوٹیاں اس کو دے دیتے تھے۔ اور وہ وہیں بیٹھ کر کھا لیتا۔ حضرت کھانے میں دیر کرتے۔ پھر وہ چلا جاتا اور میں دروازہ بند کردیتا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دستک ہوتی اور میں دروازہ پر جاتا۔ تو حسینا کشمیری موجود ہوتا۔ اس کو اندر آنے کی اجازت ملتی۔ ایک روٹی اور ایک بوٹی اسے دی جاتی اور وہ بھی وہاں ہی بیٹھ کر کھا کر چلاجاتا۔ پھر اس کے بعد جمال کشمیری آجاتا اسے بھی ملتی۔ پھر حافظ معین الدین آتا اسے ملتی اور اس طرح پر آپ اپنا سارا کھانا دے دیتے اور خود تھوڑا سا شوربا پی لیتے۔ میں ہر چند اِصرار کرتا مگر میری روٹی میں سے نہ کھاتے۔ اور وہ مجھے دے دیتے۔ میرے اِصرار کرنے پر بھی گھر سے اور روٹی نہ منگواتے اور نہ میری روٹی میں سے کھاتے۔ کبھی جب میں ایسی ضد کرتا کہ اگر آپ نہیں کھاتے تو میں بھی نہیں کھاتا تو تھوڑی سی کھالیتے۔ اور ایسا ہی شام کو ہوتا۔ البتہ شام کو ایک پیسے کے چنے منگواکر کچھ آپ چبا لیتے۔ گریاں میں آپ کو دے دیتا۔ باقی میں خود کھا لیتا۔ ایسا ہی کبھی چائے بنواکر اور مصری ڈال کر پی لیتے۔(حیات احمدمؤلفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 295)
حضور علیہ السلام کے ایک خادم مرزا دین محمد صاحب بیان کرتے ہیں: ’’مَیں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے واقف نہ تھا یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی۔ خود حضرت صاحب گوشہ نشینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن چونکہ وہ صوم صلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے۔ یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور میں ان کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے پیچھے سوار کرلیتے تھے اور بٹالہ جاکر اپنی حویلی میں باندھ دیتے۔ اس حویلی میں ایک بالا خانہ تھا۔ آپ اس میں قیام فرماتے اس مکان کی دیکھ بھال کا کام ایک جولاہے کے سپرد تھا جو ایک غریب آدمی تھا۔ آپ وہاں پہنچ کر دو پیسے کی روٹی منگواتے یہ اپنے لیے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھالیتے۔ باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی، وہ اُس جولاہے کو دے دیتے اور مجھے کھانا کھانے کے لیے چار آنہ دیتے تھے۔ آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے اور کسی قسم کے چسکے کی عادت نہ تھی۔‘‘(حیات طیبہ صفحہ 17مصنفہ شیخ عبدالقادرصاحب )
رسول کریمﷺ کی زیارت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1864ء یا 1865ء کے قریب ایک رؤیا دیکھی جس میں یہ اشارہ تھا کہ آپ سے خدمت دین کا کوئی ایسا عظیم الشان کام لیا جائے گا کہ جس کے ذریعہ سے اسلام کی مردہ حالت میں پھر سے زندگی کے آثار ہوں گے اور وہ زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔ حضور علیہ السلام اس رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’اس احقر نے 1864ء یا 1865ء عیسوی میں یعنے اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تونے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی تالیف ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس ہزار کا اشتہار دیا گیا ہے۔ غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی۔ اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا۔ آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا۔ تب وہ ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ وجلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔ پھر خلاصۂ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی۔ تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی۔ والحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 274تا276، حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)
(جاری ہے)
٭…٭…٭