نظامِ شوریٰ (قسط نمبر5)
از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جماعتِ احمدیہ کی مجلسِ مشاورت اور دنیا کی دیگر مجلسوں میں فرق
’’ہمارا طریقِ عمل اور ہمارا غوروفکر جو ہے وہ اس طریق پر اور ان اصول کے مطابق نہیں ہو گا جن کے مطابق دنیا کی پارلیمنٹیں یا مجالسِ شوریٰ عمل کرتی ہیں کیونکہ ان کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہر فرقہ اور ہر جماعت اپنے حقوق کی حفاظت کرے یا اپنے حقوق کا گورنمنٹ سے مطالبہ کرے اس لئے ان کی مجالسِ شوریٰ گویا لڑائی کا میدان ہوتی ہیں جہاں مختلف خیالات کی فوجیں جمع ہوتی ہیں اور ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے حقوق حاصل کریں اِس وجہ سے ان کی کونسلوں کے ہال میدانِ رزم ہوتے ہیں۔ مگر ہمارا نقطہ نگاہ چونکہ اور ہے اس لئے ہمارا میدانِ عمل بھی اور ہے۔ ہم اِس لئے جمع نہیں ہوئے کہ اپنے حقوق حاصل کریں۔ کیونکہ ہمارے حقوق ہماری پیدائش سے بھی پہلے ہمارے لئے مقرر ہو چکے ہیں اور وہ خدا جس کا حکم ہے کہ قبل اِس کے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہو اسے اس کی مزدوری دے دو۔اس سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہمارے حقوق ہمیں نہ دے اور اس بات کا انتظار کرے کہ ہم مانگیں تب دے۔ ہم جن کے پاس بسا اوقات مزدور کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا جب سمجھتے ہیں کہ مزدور کو فوراً اس کی مزدوری دے دیں گے حالانکہ ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ ہم نہیں دے سکتے تو خداتعالیٰ کسی کا حق کیوں نہ دے گا اور جب کہ ہمیں ایسے حالات میں حکم ہے کہ پیشتر اس کے کہ مزدور کا پسینہ سوکھے اسے اس کا حق دے دو تو جس کی طرف سے یہ حکم ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ اس سے بہت زیادہ مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرتا ہے۔ پس ہم یہاں نہ اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے آئے ہیں اور نہ کسی انسان سے ہمیں اپنے حقوق لینے ہیں کہ یہ سمجھیں اس سے دینے میں غلطی ہو جائے گی اس لئے ہم پورے حقوق لینے کی کوشش کریں۔‘‘(خطاب فرمودہ11؍اپریل1925ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ118)
مجلس مشاورت کی غرض
’’ہمارے یہاں جمع ہونے کی غرض یہ ہے کہ یہ سوچیں کہ ہم اپنے حقوق اور فرائض کیونکر ادا کریں۔اِس صورت میں ہمارے اندر کسی قسم کے لڑائی جھگڑے کی صورت نہیں پیدا ہو سکتی۔ ہم سب ایک مقصد اور ایک غرض کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے فرائض کس طرح ادا کریں۔ جو لوگ اِس نیت اور اِس ارادہ سے جمع ہوئے ہوں ان کے اندر لڑنے کی کوئی خواہش نہیں پیدا ہو سکتی بشرطیکہ وہ اپنے فرض کو سمجھیں۔ اِس وقت میں اپنے دوستوں کو اختصاراً اِسی امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سمجھیں۔ اِن کے جمع ہونے کی غرض یہ ہے کہ وہ بہتر طور پر اپنے فرائض کو کس طرح اداکر سکتے ہیں اور اس کے متعلق تدابیر سوچنا ہے۔ ایسی حالت میں اظہارِ رائے کے وقت کسی قسم کا غصہ یا جلد بازی نہیں ہونی چاہئے یا کسی شخص کی ذات کو مدّنظر رکھ کر کوئی رائے نہ دینی چاہئے۔
مومن کامقام خدا تعالیٰ کا عرش ہوتا ہے۔ وہ جسم کے لحاظ سے زمین پر ہوتا ہے لیکن خیالات کے لحاظ سے اس بلند مقام پر پرواز کرتا ہے کہ خداتعالیٰ کی صفات کامظہر ہوتا ہے اس لئے وہ تمام قسم کی رنجشوں سے بالا ہوتا ہے۔ اس کے لئے چھوٹے یا بڑے، جاہل یا عالم، اپنے یا پرائے کا سوال نہیں ہوتا بلکہ وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ پس تم لوگ اپنے فکروں، اپنے غوروں، اپنی اظہارِ آراء میں اپنے مقامِ مومنانہ کو یاد رکھو اور کوئی بات ایسی نہ کرو جس سے کسی کو خواہ مخواہ رنج پہنچے۔‘‘(خطاب فرمودہ11؍اپریل1925ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ119،118)
رائے نیک نیتی سے قائم کرنی چاہیے
’’میرے نزدیک یہ بات تو آسان ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر مشکل یہ ہے کہ اندھیرے اور تاریکی میں کوئی رائے نہ قائم کی جائے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جو رائے ظاہر کرو، نیک نیتی اور خلوص سے ظاہر کرو۔ بعض اوقات ایک انسان خود نہیں سمجھتا کہ کسی ذاتی رنجش سے اس کی رائے مؤثر ہو رہی ہے مگر وہ مؤثر ہوتی ہے اِس لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا میری رائے ہمیشہ فلاں کے خلاف تو نہیں ہوتی۔ حالانکہ بسا اوقات وہ قلّتِ رائے کی تائید میں ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی ذاتی رنجش کا اثر ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ فلاں کے خلاف ہوتی ہے حالانکہ کثرتِ رائے اس کے حق میں ہوتی ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ چھپے ہوئے خیالات اس پر اثر کر کے اِس رنگ میں اس کی رائے کو رنگ دیتے ہیں اور اسے ایسے رستہ پر چلاتے ہیں جو دشمنی اور عداوت کا رستہ ہوتا ہے۔‘‘(خطاب فرمودہ11؍اپریل1925ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ119)
مشاورت کا حکم قرآنِ حکیم کی امتیازی خصوصیت
’’قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے کہ وہ تمام امور باہمی مشورہ سے طے کیا کرتے ہیں۔یہ تعلیم اور یہ ارشاد ان خصوصیات میں سے ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہ بات کہ دنیا پر کوئی زمانہ بھی ایسا آیا ہوگا جب لوگ مشورہ سے کام نہیں لیتے ہوںگے یا مشورہ کرنا نا پسند کرتے ہوںگے یہ انسانی وہم و گمان میں نہیں آسکتا۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے لوگ مشورہ لیتے چلے آئے ہیں اور لیتے چلے جائیں گے لیکن اِس امر کو دین اور ایمان کا جزو، اسلام کی علامتوں میں شامل کرنا اور مذہبی فرائض اور ذمہ داریوں میں داخل کرنا یہ صرف قرآن کریم کے لئے مخصوص ہے۔ اس سے پہلی کسی کتاب میں خواہ وہ شام کے انبیاء پر نازل ہوئی ہو یا ہندوستان کے انبیاء پر، خواہ وہ ایران کے انبیاء پر اتری ہو، خواہ عرب کے انبیاء پر یا کسی اور ملک کے بزرگوں پرجن کی نبوّت پر قرآن کریم نے نام لےکر مہر نہیں کی بلکہ اجمالاً ان کا ذکر کیا ہے ان کی طرف جو کتابیں منسوب ہوتی ہیں ان میں بھی نہیں ہے اور سب سے پہلی کتاب قرآن ہی ہے جس نے توجہ دلائی ہے کہ ایمان اور اسلام کی شاخوں میں سے ایک شاخ مشورہ بھی ہے۔‘‘(خطاب فرمودہ3؍اپریل1926ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ166،165)
آنحضرتﷺ کی جانب سے مشورہ کے تاکیدی ارشادمیں حکمت
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کی یہاں تک تاکید فرمائی ہے کہ جس امر میں مشورہ نہیں ہوتا اس میں خداتعالیٰ کی برکات نہیں ہوتیں۔آپؐ نے فرمایا دیکھو خدا اور اس کا رسول تمہارے مشورہ کا محتاج نہیں ہے۔ خدا نے مشورہ کو تمہارے لئے رحمت کے طور پر نازل کیا ہے۔ خداتعالیٰ تو مشورہ کا محتاج نہیں، یہ ظاہر ہی ہے مشورہ کے معنی اچھی اور عمدہ بات بیان کرنے کے ہیں اور خداتعالیٰ کو کون کوئی بات بتا سکتا ہے۔ رسول اپنی ذات کے لحاظ سے تو محتاج ہے مگر خداتعالیٰ کی طرف سے چونکہ اس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے اس لئے وہ بھی محتاج نہیں مگر فرمایا مشورہ رحمت ہے۔ اس لئے کہ رسول لوگوں کے لئے نمونہ اور اسوہ ہوتا ہے۔ اگر رسول مشورہ نہ کرتا تو جب استبدادی زمانہ آتا لوگ کہتے رسول نے کبھی مشورہ نہیں لیا تھا، ہم اس سنت پر عمل کریں گے۔ معاً کہتے دیکھو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے نماز کی سنتیں پڑھیں تو وہ سنّت قرار پا گئی، جسم کا ایک حصہ کاٹنے کا حکم دیا تو اس کا نام سنّت رکھا گیا، ڈاڑھی کے رکھنے کا حکم دیا تو سنّت بن گئی، پھر کیا وجہ ہے کہ جب آپؐ نے مشورہ لیا تو اسے سنت نہ قرار دیا جائے۔ ہم اِسی سنّت پر عمل کریں گے اِس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ لیتے رہے تاکہ مشورہ میں خدا تعالیٰ نے جو فوائد رکھے ہیں ان سے لوگ محروم نہ رہ جائیں۔
دوسری وجہ یہ ہے۔ پنجابی میں مثل ہے۔’’سَو سیانے اِکّو مت‘‘۔ یعنی سَو دانا بھی اگر مشورہ کریں گے تو جو بات ایک عقلمند کے دماغ میں آئے گی، اگر وہ صحیح ہو گی تو سب کے دماغ میں وہی آئے گی۔ ممکن ہے رسول خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ماتحت اور اس کی ہدایت کے ماتحت ایک بات کہے لیکن سننے والے اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہوں۔ دیکھو بعض باتیں جن کا انحصار خدا تعالیٰ نے اپنے یا رسول کے حکم پر رکھا ہے ان کو انسان اس رنگ میں قبول کرتے ہیں جیسے ان کے دلی حالات ہوتے ہیں۔ اور یہ فطری بات ہے۔ ایک انسان جسے سخت صدمہ پہنچا ہو وہ سمجھتا ہے میرے لئے بہترین بات یہی ہے کہ مَیں کہیں تنہائی میں جا بیٹھوں۔ اس وقت اگر اسے کوئی دوست بلائے، اس کا ادب و احترام کر کے اپنے پاس بٹھانا چاہے تو وہ اپنی جلتی حالت کے ماتحت کیا سمجھے گا؟ اس پر سخت ناراض ہو گا اور اس کی خاطر مدارات کو اپنے لئے وبالِ جان سمجھے گا حالانکہ اس نے اخلاص اور محبت سے بلایا ہو گا تو انسان کے دل کی جیسی حالت ہوتی ہے، اسی رنگ میں وہ بات قبول کرتا ہے۔ دیکھو خدا کے رسول کیسے اخلاص اور محبت سے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتے ہیں مگر وہ لوگ جن کے قلوب دنیا داری میں مشغول ہوتے ہیں وہ کان میں آواز پڑتے ہی کہہ اٹھتے ہیں دنیا کمانے کا ڈھنگ نکالا گیا ہے اور کچھ نہیں ہے حالانکہ اس آواز کی ایک ایک لہر میں اخلاص ہوتا ہے مگر سننے والے چونکہ ایسے حالات سے متا ٔثر ہوتے ہیں کہ جو چاروں طرف دنیا کی صحبت سے لبریز ہوتے ہیں اِس لئے اِس آواز کا ترجمہ بھی اِس رنگ میں کرتے ہیں۔ تو جس قسم کے انسان کے حالات ہوتے ہیں گِرد و پیش کے واقعات کو اسی رنگ میں سمجھتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے۔۱س کا یہی مطلب ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ ملکہ دیا ہے کہ میرے اِرد گِرد اگر بد باتیں ہوں تو بھی مَیں ان سے نیک نتیجہ نکال لیتا ہوں۔‘‘(خطاب فرمودہ3؍اپریل1926ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ168،167)(جاری ہے)
٭…٭…٭