احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت اقدسؑ کے بزرگ آباءواجداد ایک بہت بڑی ریاست کے خودمختار مالک تھے اور مغلیہ سلطنت کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور مغل دربارسلطنت سے گاہے گاہے خوشنودی کی اسناد اور تعریفی خطوط موصول ہوتے رہتے تھے
بادشاہوں /حکومت کی طرف سے تعریفی اسنادوخطوط
جیسا کہ گذشتہ اقساط میں ذکر ہوچکاہے کہ حضرت اقدسؑ کے بزرگ آباءواجداد ایک بہت بڑی ریاست کے خودمختار مالک تھے اور مغلیہ سلطنت کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور مغل دربارسلطنت سے گاہے گاہے خوشنودی کی اسناد اور تعریفی خطوط موصول ہوتے رہتے تھے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب ؓ نے اپنی تصنیف ’’سیرت المہدی‘‘ میں ان کا تفصیل سے ذکر فرمایاہے۔آپؓ فرماتے ہیں :’’خاکسار عرض کرتا ہے۔کہ ہمارے خاندان کے متعلق مجھے اخویم مکرم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے پاس سے مندرجہ ذیل خطوط اور سندات ملی تھیں۔ یہ خطوط شہنشاہان دہلی کی طرف سے ہمارے آباءواجداد کے نام ہیں۔ اور اصل کاغذات میرے پاس محفوظ ہیں۔ ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے اور ان کے نیچے مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم کا ایک عالمانہ نوٹ بھی درج کیا جاتا ہے۔ جو مولوی صاحب مرحوم نے ان خطوط کو دیکھ کر لکھا تھا۔ مولوی صاحب مرحوم علمِ تاریخ اور فارسی زبان کے نہایت ماہر اور عالم تھے۔ ترجمہ بھی مولوی صاحب موصوف کا کیا ہوا ہے۔‘‘
1: منشور محمدفرخ سیرغازی شہنشاہ ہندوستان
’’زبدة الاماثل والاقران میرزا فیض محمد خاں مستمال بودہ بداند۔ کہ چوں دریں وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظل سُبحانی از وفاکیشی و خیر سگالی و جان نثاری شما مسرور ومبتہج شدہ است لہذا حکم جہاں مطاع عالم مطیع شرف صدورمی یا بدکہ آں اخلاص نشان را درسلک امرائے ہفت ہزاری منضبط کردہ وجا داداہ از خطاب عضد الدولة مفتخر و ممتاز فرمودہ می شود باید کہ در موکب فیروزی کوکب خود را موجود و حاضر ساختہ مدام بوفا کیشی و خیر سگالی بندگان عرش آشیانی ساعی و مصروف می بودہ باشد۔ فقط
تحریر بتاریخ نوز دہم شہر شوال جلوس ۴ مہر مدوّر‘‘
ترجمہ: ’’بزرگوں و ہمسروں میں برگزیدہ میرزا فیض محمد خاں شاہی دلجوئی یافتہ ہو کر جان لیں کہ اس وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظلِ سبحانی آپ کی وفاکیشی اور خیر اندیشی اور جان نثاری سے نہایت خوش ہوئے ہیں۔ اس لئے حکم جہاں مطاع عالم مطیع نے صدور کا شرف حاصل کیا ہے کہ اس اخلاص نشان کو ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منضبط کرکے اور جگہ دے کر عضد الدولہ کے خطاب سے مفتخراور ممتاز کیا جاتا ہے۔ چاہئے کہ اب لشکر فیروزی اثر میں اپنے آپ کو موجود اور حاضر کریں اور ہمیشہ عرش آشیانی کی درگاہ کے بندوں کی وفا کیشی اور خیر اندیشی میں مصروف اور ساعی رہیں۔
19؍ ماہ شوال 4جلوس
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرزا فیض محمد صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے دادا کےدادا تھے اور خط کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ یہ خط 1716ء میں لکھا گیا تھا۔ کیونکہ فرخ سیر 1713ء میں تخت پر بیٹھا تھا اور یہ خط سنہ جلوس کے بعد چوتھے سال کا ہے۔
2: منشور عہد محمد شاہ بادشاہ ہندوستان
’’اخلاص و عقیدت د ستگاہ میرزا گل محمد مستمال بودہ بدانند۔ دریں وقت سلالة النجباء فضیلت و کمالات پناہ حیات اللہ مفصّل حقیقت شما حالی گردانید باید کہ درہرباب خاطر جمع نمودہ درامکنہ خودہا آباد و مطمئن باشند و اینجانب را متوجہٴ احوال خود انگاشتہ چگونگی را ارسال دارند بکار ہائے خود بکمال خاطر جمعی مشغول و سرگرم باشند وہرگاہ احدے از عازمان متوجہٴ آں سر زمین خواہد شد برمضمون تعلیقچہ اطلاع یافتہ در بارہ آں اخلاص نشان غور واقعی بعمل خواہد آورد۔
تحریر فی التاریخ بست وچہارم شہر رجب 1161ھ‘‘
ترجمہ:’’اخلاص و عقیدت دستگاہ میرزا گل محمد (شاہی) دلجوئی یافتہ ہو کر معلوم کریں۔ اس وقت برگزیدہ شرفا و نجبا فضیلت و کمالات پناہ حیات اللہ نے خود آپ کی بیان کردہ حقیقت کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ لازم ہے کہ ہر باب میں خاطر جمع ہو کر اپنی جگہ میں آباد اور مطمئن رہیں اور ایں جانب کو اپنے حالات کی جانب متوجہ سمجھ کر اپنے حالات کی کیفیت ارسال کرتے رہیں اور اپنے کار متعلقہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ مشغول اور سرگرم رہیں۔ جب کوئی کار پرداز اس سرزمین کی طرف متوجہ ہو گا۔ تو تعلیقہ (رپورٹ) کے مضمون پر اطلاع پا کر اس اخلاص نشان کے بارہ میں واقعی غور عمل میں لایا جائے گا۔
محررہ 24؍ رجب 1161 ہجری مہر
مرزا گل محمد صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے دادا کے والد تھے۔یہ وہی عالی مرتبہ بزرگ ہیں جن کے تقویٰ اور طہارت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ میں بڑے تعریفی رنگ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ صاحبِ خوارق و کرامات تھے۔‘‘
3: منشور عہد شاہ عالم ثانی بادشاہ ہندوستان
’’نجابت و معالی پناہ میرزا گل محمد بتوجہات خاطر عالی مستمال بودہ بداند کہ دریں وقت رایات عالی وزیر آباد را رشک فروردین واردی بہشت فرمودہ فضیلت و کمالات مآب سیادت و نجابت انتساب بطالہ حسن اخلاق اورا بعرض رسانید در ہر باب خاطر خود راجمعداشت نمودہ درجائیگاہ خودہاسکونت داشتہ باشد کہ انشاء اللہ تعالیٰ در حِین ورود مسکن فیروزی مامن غور وپرداخت احوال آنہا۔ بواقعی خواہدشد درکمال اطمینان و دیانتداری وکلا ئے خود را روانہ درگاہ نمایند۔
1211 ہجری مہر کلاں جو دریدہ ہے‘‘
ترجمہ:’’نجابت و معالی پناہ میرزا گل محمد خان خاطر عالی کی توجہات سے دلجوئی یافتہ ہو کر معلوم کریں کہ اس وقت لشکر شاہی نے وزیر آباد کو فرور دین اور اردی بہشت کا رشک بنایا ہے۔ فضیلت و کمالات مآب بٹالہ کے رہنے والے نے آپ کا حسن اخلاص عرض کیا ہے۔ ہر باب میں خاطر جمع ہو کر اپنے گھر بار میں سکونت رکھیں۔ انشاء اللہ جس وقت مسکن فیروزی مامن میں ورود ہو گا۔ اس وقت آپ کے حالات کی واقعی غوروپرداخت کی جائے گی۔ کمال اطمینان کے ساتھ اپنے وکلاء درگاہ میں روانہ کریں۔
1211 ہجری مہر
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خط زیادہ دریدہ ہے۔ اور بعض حصوں کا بالکل پتہ نہیں چلتا۔‘‘
4: منشور عہد شاہ عالم ثانی بادشاہ ہندوستان
’’عالیجاہ رفیع جائیگاہ اخلاص و عقیدت دستگاہ گل محمد خاں بسلامت باشد بعدہ آنکہ عریضہ کہ دریں وقت بخصوص چگونگی احوالات و روئیداد و اخلاص و خدمت گذاری خود وغیرہ مواد کہ قلمی وارسال داشتہ بود رسید حقائق آں واضح وحالی گردید۔ عریضہ مرسلہ ترقی خواہ را در نظر بہادراں حضور فیض گنجور خاقانی گذرانیدہ شد و درجواب رقم قدر تو ام مالک مطاع اشرف بسرافرازی آں عالیجاہ شرف اصدار یافتہ کہ بزیارت آں مشرف دار بعمل خواہد آورد در ہر باب خاطر جمعداشتہ و مستعد خواہش دیوانی بودہ نویساں حالات باشد۔
بتاریخ جمادی الثانی 1213 ہجری مہر بیضوی جو بہت مدھم ہے‘‘
ترجمہ:’’عالیجاہ بلند مرتبہ اخلاص اور عقیدت کے دستگاہ رکھنے والے۔ گل محمد خاں سلامت رہو۔ بعدہٗ وہ عریضہ کہ آپ نے اپنی چگونگی حالات اور روئیداد و اخلاص و خدمت گزاری وغیرہ مواد کے خصوص میں لکھا تھا۔ اس کی حقیقت واضح ہوئی۔ اس عالیجاہ کا عریضہ حضور فیض گنجور کے بہادروں کے سامنے پیش ہو گیا۔ اس کے جواب میں اس عالیجاہ کی سرفراز کی نسبت رقم قدر توام مالک و مطاع اشرف کا حکم صادر ہوا ہے۔ مشرف دار یعنی ناظر اعلےٰ اس کو عمل میں لائے گا۔ دیوانی ضرورتوں کے مستعد ہو کر اپنے حالات لکھتے رہیں۔
محررہ ماہ جمادی الثانی 1213 ہجری مہر
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خط بھی کچھ دریدہ ہے اور بعض حصے اچھی طرح پڑھے نہیں جاتے۔‘‘
(سیرت المہدی ،جلداول روایت نمبر721)
(باقی آئندہ)