متفرق مضامین

مقامِ مسیح موعود علیہ السلام احادیث مبارکہ اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں (قسط سوم)

(قمر داؤد کھوکھر۔ آسٹریلیا)

مسیح موعودؑ تمام گذشتہ انبیاء کا بھی مظہر اور بروز ہو گا

گیارھویں صدی ہجری کے شیعہ مجدد علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’’بحار الانوار ‘‘ میں مسیح موعودؑ کا مقام بیان کرتے ہو ئے حضرت امام با قرؒ کا یہ قول درج کیا ہے کہ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: ’’ یَقُوْلُ( الْمَہْدِیُّ) یَا مَعْشَرَ الْخَلَائِقِ اَلَا وَمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ فَہَا اَنَا ذَا اِبْرَاہِیْمُ وَ اِسْمٰعِیْلُ۔ اَلَا وَمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلیٰ مُوْسٰی وَ یُو شَع فَہَا اَنَا ذَا مُوْسٰی وَ یُو شَع۔ اَلاَمَنْ اَرَادَ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی عِیْسٰی وَ شَمْعُوْنَ فَہَا اَنَا ذَا عِیْسٰی وَ شَمْعُوْنَ۔ اَلَا وَمَنْ اَرَادَ اَنْ یَنْظُرَ اِلیٰ مُحَمَّدٍﷺ وَ اَمِیْرِ الْمُوْمِنِیْنَ ( صَلٰوتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ)فَہَااَنَا ذَا مُحَمَّدٍﷺوَاَمِیْرِ الْمُوْمِنِیْنَ‘‘(بحار الانوار جلد 13صفحہ 202)یعنی جب امام مہدی آئیں گے تو وہ یہ اعلان کریں گے کہ اے لو گو ! اگر تم میں سے کو ئی ابراہیمؑ اسمٰعیلؑ کو دیکھنا چاہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ ہوں۔ اگر تم میں سے کوئی موسیٰؑ اور یو شعؑ کو دیکھنا چاہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰؑ اور یو شعؑ ہوں۔ اور اگر تم میں سے کو ئی عیسیٰؑ اور شمعونؑ کو دیکھنا چا ہتا ہے تو سن لے کہ عیسیٰ اور شمعون میں ہی ہوں۔ اور اگر تم میں سے کو ئی محمد مصطفیٰﷺ اور امیر المومنین (علیؓ ) کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد مصطفیٰﷺ اور امیر المومنین میں ہی ہوں۔

اسی طرح شیعہ روایات میں ایک روایت حضرت جابر جعفیؓ سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے تھے کہ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: امام قائم (مہدی) یہ اعلان کریں گے کہ جو اللہ کے بارہ میں کو ئی بحث کرنا چا ہتا ہے تو وہ آئے کہ میں سب لوگو ں سے زیادہ اللہ کے نزدیک تر ہو ں۔ اور جو آدمؑ کے بارہ میں گفتگو کرنا چا ہتا ہے تو وہ آئے اس لیے کہ میں سب کی نسبت آدمؑ سے نزدیک تر ہو ں۔ اور جو نوحؑ کے بارہ میں بحث کرنا چا ہتا ہے وہ آئے اس لیے کہ میں نوحؑ سے قریب تر ہو ں۔ اور جو ابراہیمؑ کے بارہ میں بحث کرنا چا ہتا ہے وہ آئے اس لیے کہ میں سب لو گو ں سے زیادہ ابراہیمؑ کے نزدیک تر ہو ں۔ اور جو محمدﷺ کے بارہ میں بحث کرنا چا ہتا ہے وہ آئے اس لیے کہ میں سب لو گو ں سے زیادہ محمدﷺ سے نزدیک تر ہو ں۔ اور جو ہم سے انبیاءؑ کے بارہ میں بحث کرنا چا ہتا ہے وہ آئے کہ ہم انبیاءؑ کے قریب تر ہیں۔ اور جو کتاب اللہ کے بارہ میں ہم سے بحث کرنا چا ہتا ہے وہ آئے اس لیے کہ ہم سب سے زیادہ کتاب اللہ کے قریب ہیں۔ ‘‘ اس سے آگے یہ بھی درج ہے کہ امام قائم ( المہدی) کے ساتھ تین سو تیرہ افراد ہو ں گے۔ اس وقت ایک منادی آسمان سے اس کا نام لے کر آواز دے گا اور اس( مہدی ) کے ظہور کی اطلاع دے گا۔ اس آواز کو دنیا کے سارے لو گ سنیں گے اور وہ آسمانی آواز تمہارے لیے مشتبہ نہ ہو گی جس میں اس کے ظہور کی خبر دی جائے گی۔ اس کا نام نبیﷺ کا نام ہے۔ ( علامات ظہور مہدی، از علامہ طالب جو ہری، صفحہ 177تا180، مقام اشاعت امام بارگاہ باب العلم لاہور)

یہ مذکورہ روایت طویل ہے اس لیے صرف ترجمہ اور متعلقہ حصہ کو ہی یہاں درج کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ روایت حضرت امام باقر ؓکی ہے جن کی پرورش اہل بیت نبویﷺ میں ہو ئی تھی اور و ہ جو بات بھی بیان فرماتے ہیں وہ قول رسولﷺ پر ہی مبنی ہوتی ہے کہ اہل بیت کا یہی طرز و طریقِ روایت ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ

اللہ تعا لیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘ اللہ کا رسول تمام رسولوں کے لباس میں۔ (تذکرہ، صفحہ 243، ایڈیشن چہارم، 1977ء شائع کردہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)

یہی الہام دوسرے الفاظ کے ساتھ اس طرح ہوا ’’جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ‘‘یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرا ئیو ں میں۔ (تذکرہ، صفحہ 288، ایڈیشن چہارم، 1977ء شائع کردہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف برا ہین احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’خدا تعا لیٰ نے میرا نا م عیسیٰ ہی نہیں رکھا بلکہ ابتدا ء سے انتہا تک جس قدر انبیاء علیہم السلام کے نام تھے وہ سب میرے نام رکھ دیئے ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام آدم رکھا۔ …اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعا لیٰ نے میرا نام نو ح بھی رکھا۔ …اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابرا ہیم بھی رکھا گیا ہے۔ …اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام یوسف بھی رکھا گیاہے۔ …ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام موسیٰ رکھا گیا۔ …اسی طرح خدا نے براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام داؤد بھی رکھا۔ ….ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعا لیٰ نے میرا نام سلیمان بھی رکھا۔ …ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعا لیٰ نے میرا نام احمد اور محمد بھی رکھا۔ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسا کہ آنحضرتﷺ خاتم النبوت ہیں ویسا ہی یہ عا جز خاتم ولایت ہے۔ اور بعد اس کے میری نسبت برا ہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ بھی فرمایا جَرِیُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِِیعنی رسول خدا تمام نبیو ں کے پیرا ئیو ں میں۔ اس وحی الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لےکر آخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعا لیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ان سب کے خا ص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عا جز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے۔ اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عا جز کو حصہ نہیں دیا گیا۔ ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے۔ اسی پر خدا نے مجھے اطلا ع دی۔ …

اس زمانہ میں خدا نے چا ہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گزر چکے ہیں ایک ہی شخص کے وجودمیں ان کے نمونے ظاہر کئے جا ویں۔ سو وہ میں ہو ں۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ 112تا118)

حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’خدا کے دفتر میں صرف عیسیٰ بن مریم کے نام سے موسوم نہیں بلکہ اَور بھی میرے نام ہیں جو آج سے چھبیس برس پہلے خدا تعا لیٰ نے برا ہین احمدیہ میں میرے ہا تھ سے لکھا دیئے ہیں۔ اور دنیا میں کو ئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا۔ سو جیسا کہ برا ہین احمدیہ میں خدا تعا لیٰ نے فرمایا ہے میں آدمؑ ہوں۔ میں نو حؑ ہو ں۔ میں ابرا ہیمؑ ہوں۔ میں اسحاقؑ ہوں۔ میں یعقوبؑ ہوں۔ میں اسمٰعیلؑ ہو ں۔ میں موسیٰ ہوں۔ میں داؤد ہوں۔ میں عیسیٰؑ ا بن مریم ہوں۔ میں محمدﷺ ہوں۔ یعنی برو زی طور پر جیسا کہ خدا نے اس کتاب میں یہ سب نام مجھے دیئے اور میری نسبت جَرِی اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِفرمایا یعنی خدا کا رسول نبیو ں کے پیرا ئیو ں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے۔ اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو۔ ‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 521)

اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف نزول المسیح میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’اس نے مجھے پیدا کر کے ہر ایک گذشتہ نبی سے مجھے اس نے تشبیہ دی کہ وہی میرا نام رکھ دیا۔ چنانچہ آدم، ابرا ہیم، نو ح، موسیٰ، دا ؤد، سلیمان، یو سف، یحیٰ عیسیٰ وغیرہ یہ تمام نام برا ہین احمدیہ میں میرے رکھے گئے۔ اور اس صورت میں گویا تمام انبیاء گذشتہ اس امت میں دوبارہ پیدا ہو گئے۔ یہا ں تک کہ سب کے آخر مسیح پیدا ہو گیا۔ ‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 382، حاشیہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک اردو شعر میں فرماتے ہیں:

میں کبھی آدمؑ کبھی موسیٰؑ کبھی یعقوبؑ ہوں

نیز ابراہیمؑ ہوں نسلیں ہیں میری بےشمار

(از نظم بعنوان: مناجات اور تبلیغ حق، در ثمین اردو صفحہ 131، براہین احمدیہ حصہ پنجم)

ہند وؤں کے اوتار کرشن کے مظہر

جیسا کہ گذشتہ سطور میں یہ ذکر ہوا ہے کہ امام مہدیؑ اور مسیح موعودؑ سابقہ انبیاءؑ کے مظہر ہوں گے۔ حضرت مرزا غلا م احمد قادیانی علیہ السلام نے اللہ تعا لیٰ سے خبر پا کر یہ اعلا ن فرمایا کہ ’’وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے میرے پر یہ ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلا یا ہے کہ تو ہندوؤں کے لیے کرشن اور مسلمانو ں اور عیسا ئیو ں کے لیے مسیح موعود ہے۔ میں جانتا ہو ں کہ جا ہل مسلمان اس کوسن کر فی الفور کہیں گے کہ ایک کافر کا نام اپنے پر لے کر کفر کو صریح طور پر قبو ل کیا ہے۔ لیکن یہ خدا کی وحی ہے جس کے اظہار کے بغیر میں نہیں رہ سکتا۔ اور آج یہ پہلا دن ہے کہ ایسے بڑے مجمع میں اس بات کو میں پیش کرتا ہو ں۔ کیونکہ جو لو گ خدا کی طرف سے ہو تے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملا مت سے نہیں ڈرتے۔ اب واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پا ئی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے رو ح القدس اترتا تھا۔ وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور با اقبال تھا جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا۔ وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتو ں میں بگاڑ دیا گیا۔ وہ خدا کی محبت سے پر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا۔ ‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 228تا229)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہو ں مجھے اور نام بھی دیئے گئے ہیں اور ہر ایک نبی کا مجھے نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گزرا ہے جس کو ردّر گوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پر ورش کرنے والا) اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے۔ پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنو ں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن مَیں ہی ہو ں۔ اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعا لیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہو نے والا تھا وہ تُو ہی ہے آریوں کا بادشاہ۔ ‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 521تا522)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’خدا تعا لیٰ نے کشفی حالت میں بار ہا مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام جو ایک شخص گزرا ہے وہ خدا کے برگزیدوں اور اپنے وقت کے نبیوں میں سے تھا۔ اور ہندوؤں میں اوتار کا لفظ در حقیقت نبی کے ہی ہم معنے ہے۔ اور ہندوؤں کی کتا بو ں میں ایک پیشگو ئی ہے اور وہ یہ کہ آخری زمانہ میں ایک اوتار آئےگا جو کرشن کے صفات پر ہو گا اور اس کا برو ز ہو گا۔ اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ مَیں ہو ں۔ کرشن کی دو صفت ہیں، ایک ردّر یعنی درندو ں اور سؤروں کو قتل کرنے والا یعنی دلائل اور نشانو ں سے۔ دوسرے گو پال یعنی گا ئیو ں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکو ں کا مدد گار۔ اور یہ دو نوں صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں اور یہی دونوں صفتیں خداتعا لیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔ ‘‘(تحفہ گو لڑ ویہ، روحانی خزائن، جلد17صفحہ 317 حاشیہ در حاشیہ)

اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ لیکچر سیالکو ٹ میں فرماتے ہیں کہ’’ مَیں ان گناہو ں کے دور کرنے کے لیے جن سے زمین پُر ہو گئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہو ں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہو ں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا۔ یا یو ں کہنا چا ہیے کہ رو حا نی حقیقت کی رو سے مَیں وہی ہو ں۔ یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتا یا ہے کہ تو ہندوؤں کے لیے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیو ں کے لیے مسیح موعود ہے۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 228)

مقامِ ذوالقرنین

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف برا ہین احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح خدا تعا لیٰ نے میرا نام ذوالقرنین بھی رکھا۔ کیو نکہ خدا تعا لیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدس کہ جَرِی اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کا رسول تمام نبیو ں کے پیرا ئیو ں میں، یہ چا ہتی ہے کہ مجھ میں ذوالقرنین کی بھی صفات ہو ں کیو نکہ سورۂ کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین بھی صاحب وحی تھا۔ خدا تعا لیٰ نے اس کی نسبت فرمایا ہے قُلْنَا یٰا ذَاالْقَرْنَیْنِ۔ پس اس وحی الٰہی کی رو سے کہ جَرِیءُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاء اس امت کے لیے ذوالقرنین میں ہو ں۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ118)

مقام امتی نبی

حضرت امام جلال الدین سیو طیؒ اپنی تصنیف ’’الخصائص الکبریٰ ‘‘ میں حضر ت انسؓ سے( حدیث قدسی کی) روایت بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ ’’اللہ تعا لیٰ نے(حضرت) موسیٰؑ سے فرمایا: جو لو گ احمدؐ پر ایمان نہیں لائیں گے میں ان کو جہنم میں داخل کرو ں گا خواہ کوئی بھی ہو۔ موسیٰؑ نے دریافت فرمایا: احمدؐ کون ہیں؟ اللہ تعا لیٰ نے فرمایا: وہ میرے سب سے مقرب بندے ہیں۔ میں نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے ان کا نام عرش پر اپنے نام کے ساتھ لکھ رکھا ہے۔ اور ان کی امت سب سے پہلے جنت میں دا خل ہو گی۔ حضرت موسیٰؑ نے پھر دریافت فرمایا: وہ کو ن لو گ ہیں؟ تو اللہ تعا لیٰ نے فرمایا اَلْحَمَّادُوْن وہ بڑی حمد کرنے والے لو گ ہیں وہ چڑھائی پر چڑھتے ہو ئے بھی اللہ کی حمد کرتے ہیں اور اترائی میں بھی اللہ کی حمد کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کی عبادت کے لیے کمریں کسی ہو ئی ہیں، وہ با وضو رہتے ہیں، دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو عبادت کرتے ہیں۔ میں ان کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی قبو ل کرو ں گا اور کلمہ شہادت کی برکت سے انہیں جنت میں دا خل کرو ں گا۔ حضرت موسیٰؑ نے خواہش کی کہ اے اللہ مجھے اس امت کا نبی بنا دے۔ اللہ تعا لیٰ نے جواب دیا کہ اس امت کا نبی اسی امت میں سے ہو گا۔ پھر حضرت موسیٰؑ نے یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ اے اللہ مجھے اس نبی کا امتی ہی بنا دیجیے۔ تو اللہ تعا لیٰ نے فرمایا: ایسا نہیں ہو سکتا تم پہلے ہو اور محمدﷺ بعد میں ہو ں گے ہا ں میں تم کو اور انہیں جنت میں اکٹھے کر دوں گا۔ ‘‘(حدیث طویل ہے اس لیے صرف اردو ترجمہ پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ بحوالہ کِفَایَتُ اللَّبِیْب فِیْ خَصَائِصَ الْحَبِیْبِ اَلْمَعْرُوْف بِالْخَصَائِصِ الْکُبْرٰی لِلْاِمَام جَلَال الدِّین اَلسّیُو طی، ؒ جلد اول صفحہ 12مطبو عہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکھن )

مذکورہ بالا حدیث قرآنی بیان کی تصدیق کرتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ صرف بنی اسرائیل کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اوریہ حدیث بتاتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ امت محمدیہ کے نہ نبی بن سکتے ہیں نہ امتی تو دو ہزار سال قبل امت موسویہ میں مبعوث ہو نے والے حضرت عیسیٰؑ کیسے امت محمدیہ کے امتی اور نبی بن سکتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعا لیٰ نے اپنے کلام مجید میں خود یہ فرمادیا ہے کہ وَرَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ۔ (آل عمران: 50) کہ یہ (ابن مریم) بنی اسرائیل کے لیے رسول ہو گا۔ اور دوسری جگہ فرمایا: وَجَعَلۡنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ (الزخرف: 60) یعنی ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے عبرت بنایا تھا۔ اور ایک تیسرے مقام میں خود ان کی زبان سے یہ بھی کہلوا دیا کہ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ(الصف: 7) کہ اے بنی اسرائیل میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہو کر آیا ہو ں۔

پس یہ حدیث فیصلہ کن ہے کہ امت محمدیہ میں نبی ہو گا تو اسی امت میں سے ہو گا، وہ ایک پہلو سے امتی ہو گا اور ایک پہلو سے نبی جیسا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کا دعویٰ ہے کہ آپ ایک پہلو سے امتی ہیں اور ایک پہلو سے نبی ہیں۔

حضرت امام عبد الوہاب شعرانیؒ مسیح موعودؑ سے متعلق حضرت محی الدین ابن عربی کا مذہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’فَیُرْ سَلُ وَلِیًّا ذَا نُبُوَّۃٍ مُطْلِقَۃٍ وَ یُلْہَمُ بِشَرْعِ مُحَمَّدٍﷺ ‘‘یعنی مسیح موعودؑ ایسے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا جو نبوت مطلقہ کا حامل ہو گا اور اس پر شریعت محمدیہ الہاماً نازل ہو گی۔ (الیواقیت والجواہر، جلد 2صفحہ 89بحث47 الطبعۃ الثالثہ بالمطبعۃ الازہر یۃ المصریۃ، 1321ہجری )

حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ امتی نبی

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریرفرماتے ہیں: ’’ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگریہ شرف مجھے محض آنحضرتﷺ کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرتﷺ کی امت نہ ہو تا اور آپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہا ڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگزنہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبو تیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کو ئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت نبی آسکتا ہے …مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اسی بنا پر میں امتی بھی ہو ں اور نبی بھی۔ ‘‘( تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 411-412)

حضرت مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریمؑ سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کو ئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہو تا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعا لیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہو ئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔ مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ153تا154)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں۔ وہی نبوت محمدیہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہو ئی۔ ‘‘(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ412)

حضرت مسیح موعودؑ ایک دوسرے مقام پرتحریر فرماتے ہیں کہ’’مجھے خدا تعا لیٰ نے میری وحی میں بار بار امتی کر کے بھی پکارا ہے اور نبی کر کے بھی پکا را ہے۔ اور ان دو نو ں ناموں کے سننے سے میرے دل میں نہایت لذت پیدا ہوتی ہے۔ اور میں شکر کرتا ہو ں کہ اس مرکب نام سے مجھے عزت دی گئی ہے۔ ‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ355)

رسول اللہﷺ کے مصدق

بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ امام مہدی رسول اللہﷺ کے مصدق بن کرظاہر ہو ں گے یعنی ان کی تصدیق کریں گے۔ حضرت عبداللہ ابن مغفلؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمُحَمَّدٍﷺ وَ عَلٰی مِلَّتِہٖ اِمَامًا مَھْدِیًّا وَ حَکَمًا عَدْلًا ‘‘ایک دوسری روایت میں مُصَدِّقًا بِمُحَمَّدٍﷺ کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ یعنی عیسیٰ ابن مریم رسول اللہﷺ کے مصدق بن کر نازل ہو ں گے، اور آپؐ کی شریعت پر عمل کرنے والے امام مہدی اور حکم و عدل ہو ں گے۔ (اَلْمُعْجَمُ الکبیر و الْا َوْسَط، لِاِمَام طَبَرَانِیْؒ، متو فیٰ360 ہجری، جلد 5صفحہ 293، ریاض، سعودی عرب۔ و مجمع الزوائد از علامہ ھیثمی، جلد 7صفحہ 336 دارالکتاب العربی، بیروت)

خلیفۃ اللہ

گیارھویں صدی ہجری کے مشہور عالم و فاضل، عارف کامل حضرت علامہ محمد اسمٰعیل حقی البروسویؒ اپنی تفسیر ’’روح البیان ‘‘میں سورۃ البقرہ کی آیت 31 ( اِنِّی جَا عِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً )کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ عالم دنیا میں ہر زمانہ میں خلیفہ صرف ایک ہو تا ہے جس کی ابتدا آدم سے ہو ئی تھی اور اس کی انتہا ء حضرت عیسٰیؑ پر ہو گی۔ ‘‘( تفسیر روح البیان )

حضرت ثوبا نؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فَاِذَا رَأَ یْتُمُوہُ فَبَایِعُوہُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَی الثَّلْجِ فَاِنَّہٗ خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَہْدِیُّ جب تم اس مہدی کو دیکھو تو اس کی بیعت کرنا خواہ گھٹنو ں کے بل برف پر چل کر جانا پڑے کیونکہ وہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب خروج المہدی)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِذَا رَأَیْتُمُ الرَّایَاتَ السُّوْدِ خَرَجَتْ مِنْ قِبَلِ خُرَاسَانَ فَاَ تَوْ ھَا وَلَوْ حَبْوًافَاِنَّ فِیْھَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ کہ جب تم خراسان کی طرف سے نمو دار ہونے والے سیاہ جھنڈے دیکھو تو خواہ تمہیں گھٹنو ں کے بل جانا پڑے ضرور جاؤ کیونکہ انہی میں اللہ کے خلیفہ امام مہدی ہوں گے۔ (مستدرک للحاکم، حدیث 8578)

مشکوٰۃ المصابیح میں بھی بروایت حضرت ثوبانؓ اوربحوالہ مسند احمد و دلائل النبوۃ للبیہقی، یہ حدیث کسی قدر الفاظ کے فرق کے ساتھ درج کی گئی ہے۔ اس حدیث کی شرح میں حدیث کے الفاظ ’’ فَاَ تَوْ ھَا ‘‘ کے معنی و تشریح کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ’’متوجہ ہو نے سے مراد اس لشکر میں شامل ہو نا اور آنے والو ں کے امراء و حکام کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ہے۔ ’’مہدی‘‘ سے مراد اس کے لغوی معنی ہیں یعنی وہ خلیفہ یا سربراہ کو ئی معمولی آدمی نہیں ہو گا بلکہ خدا کی طرف سے ہدایت پا یا ہوا اور لو گوں کو ہدایت و راستی کی راہ پر لگانے والا ہو گا۔ جس کی سربراہی کو قبول کرنا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہو گا۔‘‘ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰ ۃ المصا بیح، جلد 5صفحہ44 شائع کردہ دارالاشاعت کراچی پاکستان)

علامہ شاہ رفیع الدین دہلوی نے اپنی کتاب ’’ قیامت نامہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ بیعت کے وقت آسمان سے یہ ندا آئے گی ھٰذَاخَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَطِیْعُوْا ؛ کہ یہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں ان کی بات سنو اور اطاعت کرو، اس آواز کو اس جگہ موجود ہر خاص و عام سن لیں گے۔ اسپیکر پر اعلان بھی اس پیشین گو ئی کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔ ‘‘( بحوالہ ظہور مہدی تک، ازابو عبداللہ آصف مجید نقشبندی، صفحہ51تا52، مکتبہ الحسن، اردو بازار لا ہور)

خلیفۃ الرسولﷺ

نبی کریمﷺ نے اپنی امت کے دور آخرین میں ظاہر ہو نے والے مسیح و امام مہدی کو اپنا خلیفہ قرار دیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اَلَا اِنَّ عِیْسیٰ ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ لَیْسَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہٗ نَبِیٌّ وَ لاَ رَسُوْلٌ اَلاَ اِنَّہٗ خَلِیْفَتِیْ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْ بَعْدِیْ‘‘خبر دار ! بے شک میرے اور عیسٰی ابن مریم علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں۔ سنو ! وہ میرے بعد میری امت میں میرے خلیفہ ہو ں گے۔ (مجمع الزوائد جلد 8صفحہ 205، المعجم الصغیر از علامہ طبرانیؒ متوفی 360 ہجری، جز اول، شائع کردہ دارالفکر بیروت، لبنان)

بعض دیگر روایات کے مطابق مسیح موعودؑ و امام مہدیؑ ایسے خلیفہ ہو ں گے جو حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ سے بھی افضل ہو ں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 15صفحہ 198، شائع کردہ ادارہ القرآن دار العلوم الاسلامیہ کراچی پاکستان)

مشہور تابعی حضرت امام محمد ابن سیرینؒ نے امت مسلمہ میں ظاہر ہونے والے امام مہدی کو حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ سے بھی افضل اور نبی کے برابر قرار دیا۔ بعض لوگو ں نے تعجب کیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ سے بھی افضل ہو ں گے؟ تو آپؒ نے فرمایا: ممکن ہے وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہوں۔ (عقد الدر فی اخبار المنتظر، از علامہ یوسف بن یحییٰ، صفحہ 149 شائع کردہ مکتبہ عالم الفکر قاہرہ)

مذکورہ بالا روایات سے ثابت ہے کہ مسیح موعوداور امام مہدی رسول اللہﷺ کے صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ نبی بھی ہیں۔ کیونکہ رسول اللہﷺ افضل الرسل اور افضل الانبیاء تھے اس لیے آپؐ کے دَور آخرین میں آنے والے خلیفہ بھی افضل ہی قرار پاتے ہیں جس کی طرف علمائے سلف و خلف نے بھی اشارے کیے ہیں۔ مثلاً مشہور مفسر قرآن امام فخر الدین رازیؒ نے لکھا ہے کہ’’اکمل خلیفہ وہ ہے جو خلافت کے ساتھ نبوت بھی رکھتا ہو۔ ‘‘(التفسیرالکبیر لامام رازی، جلد6صفحہ301)

حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ خلیفۃ الرسولﷺ

حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف اپنے نصوص قطعیہ سے اس بات کو واجب کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر جو موسوی خلیفو ں کے خاتم الانبیاء ہیں اس امت میں سے بھی ایک آخری خلیفہ پیدا ہو گا تا کہ وہ اسی طرح محمدی سلسلہ خلافت کا خاتم الاولیاء ہو۔ اور مجددانہ حیثیت اور لوازم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مانند ہواور اسی پر سلسلہ خلافت محمدیہ ختم ہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر سلسلہ خلافت موسویہ ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘(تحفہ گو لڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ182)

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے جس آیت قرآنی سے مجددین کا استنبا ط و استدلال فرمایا تھا اسی آیت کے بارے میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اس آیت کی تفسیر سورۃ النور کی آیت استخلاف کرتی ہے۔ حضورؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچا نے کے لیے آنحضرتﷺ آئے تھے۔

ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن دوسری تاثیرِقرآن جو موجب تزکیہ نفوس ہےاور قرآن کی حفا ظت صرف اسی قدر نہیں جو اس کے صحفِ مکتوبہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود و نصاریٰ نے بھی کئے یہاں تک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے۔ بلکہ اس جگہ مع حفاظتِ ظاہری، حفاظتِ فوائد و تا ثیرِ قرآنی مراد ہے اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہو سکتی ہے کہ جب وقتاً فوقتاً نائب رسول آئیں جن میں ظلی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیو ں کو دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ان آیات میں اسی امر عظیم کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (النور: 56)

پس یہ آیت درحقیقت اس دوسری آیت اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ(الحجر: 10)کے لیے بطور تفسیر کے واقع ہے۔ اور اس سوال کا جواب دے رہی ہے کہ حفا ظت قرآن کیونکر اور کس طور سے ہو گی۔ سو خدا تعا لیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریمﷺ کے خلیفے وقتاً فوقتاًبھیجتا رہوں گا۔ ‘‘ (شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 338تا339)

حضرت مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اور میں یہ بھی دیکھتا ہو ں کہ مسیح ابن مریمؑ آخری خلیفہ موسیٰؑ کا ہے۔ اور میں آخری خلیفہ اس نبی کا ہو ں جو خیر الرسلؐ ہے اس لیے خدا نے چا ہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ154)

حضرت مسیح موعودؑ کا مقام خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ایک رؤیاکی روشنی میں

امام المحدثین امام ابن قیم الجوزیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ’’فاطمہ بنت عبد الملک زوجہ عمر بن عبدالعزیزؒ سے مروی ہے کہ ایک رات عمر بن عبد العزیزؒ نے جاگ کر فرمایا کہ میں نے ایک خوشکن خواب دیکھا ہے۔ میں نے کہا میرے جان نثار سنائیے، فرمایا: صبح تک بیان نہیں کرو ں گا۔ پھر صبح صادق کے بعد مسجد میں جا کر نماز پڑھی پھر واپس اپنی جگہ پر تشریف لائے۔ میں نے یہ تنہا ئی غنیمت سمجھی اور خواب سنانے کی بڑے شوق سے گزارش کی۔ فرمایا: میں نے دیکھا جیسے کوئی مجھے ایک ہری بھری اور کھلی سرزمین پر لے گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں زمرد کا فرش بچھا ہوا ہے۔ اتنے میں، میں نے اس میں ایک سفید چاندی جیسا محل دیکھا۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ اس سے ایک آدمی باہر آکر پکار کر اعلان کرتا ہے کہ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب اللہ کے رسول محمدﷺ کہا ں ہیں؟ اتنے میں دیکھتا ہوں کہ آپؐ تشریف لاتے ہیں اور اس قصر میں دا خل ہو جاتے ہیں۔ پھر اس قصر سے دوسرا شخص باہر آکر پکار کر کہتا ہے کہ ابوبکرؓ بن ابی قحافہ کہاں ہیں؟ اسی لمحے میں میں دیکھتا ہوں کہ ابو بکر صدیقؓ تشریف لاتے ہیں اور اس قصر میں دا خل ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک شخص اور نکل کر اعلان کرتا ہے کہ عمر بن الخطابؓ کہا ں ہیں؟ اتنے میں کیا دیکھتا ہو ں کہ حضرت عمرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور اس میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک اور شخص نکل کر منادی کرتا ہے کہ عثمان بن عفانؓ کہا ں ہیں؟ آپ بھی آتے ہیں اور اس میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک اور شخص نکل کر اعلان کرتا ہے کہ علی بن ابی طالبؓ کہا ں ہیں؟ آپ بھی تشریف لاتے ہیں اور اس میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک شخص نکل کر اعلان کرتا ہے کہ عمر بن عبد العزیز کہا ں ہیں؟ آخر میں بھی اٹھ کر اس میں دا خل ہو جا تا ہو ں۔ میں آپؐ کے پا س پہنچتا ہو ں۔ آپؐ کے اصحاب آپؐ کے چا رو ں طرف ہیں۔ میں دل میں سوچ رہا ہوں کہ کہا ں بیٹھوں۔ آخر اپنے نانا حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھ جا تا ہوں۔ پھر غور سے دیکھتا ہو ں تو آپﷺ کے دا ئیں جانب تو حضرت ابو بکرؓ ہیں اور بائیں جانب حضرت عمرؓ ہیں۔ مزید غور کرتا ہو ں تو کیا دیکھتا ہوں کہ رحمۃ للعالمینﷺ اور ابوبکرؓ کے درمیان ایک اَور صاحب تشریف فرما ہیں۔ کہتا ہو ں کہ یہ کون ہیں؟ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰؑ ہیں۔ پھر مجھے نور کے پردے کے پیچھے سے ایک آواز آتی ہے کہ اے عمر بن عبد العزیز جس را ہ پر تم قائم ہو اسے مضبوط پکڑے رہو اور اس پر جمے رہو۔ پھر مجھے باہر آنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہو ں تو اچانک میرے پیچھے پیچھے حضرت عثمانؓ یہ فرماتے ہو ئے تشریف لا رہے ہیں الحمد للہ ! اللہ تعا لیٰ نے میری مدد فرمائی۔ اور آپ کے پیچھے حضرت علیؓ یہ فرماتے ہو ئے آرہے ہیں: الحمد للہ ! اللہ تعا لیٰ نے مجھے معاف فرما دیا۔‘‘(کتاب الرو ح اردو، از امام ابن قیمؒ الجوزی، صفحہ 51تا52، شائع کردہ دوست ایسوسی ایٹس، لاہور)

گو کہ یہ رؤیا ہے جس میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو حضرت ابوبکرؓ اور رسول اللہﷺ کے درمیان تشریف فرما دیکھا تھا۔ تاہم یہ رؤیا بھی اس حدیث کی تا ئید کرتا ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھاکہ اَبُوْبَکْرٍ اَفْضَلُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْ نَ نَبِیٌّ۔ ( کَنُوْزُالْحَقَائِقِ فِیْ حَدِیْثِ خَیْرِ الْخَلاَ ئِقِ، صفحہ 4)کہ ابوبکرؓ اس امت میں سب سے افضل ہیں پر اگر کو ئی نبی پیدا ہو جائے تو اس سے افضل نہیں ہو ں گے۔

منہاج نبوت پر خلافت کا قیام

نبی کریمﷺ نے نہ صرف یہ کہ اپنی امت کے دَور آخرین میں ظاہر ہو نے والے مسیح ومہدی کو اپنا خلیفہ قرار دیا تھا بلکہ ان کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوت کے قیام کی پیشگوئی بھی فرمائی تھی۔ صحابی رسولؐ حضرت حذیفہؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ تعا لیٰ چاہے گا پھر اللہ تعا لیٰ جب چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ہو گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر اللہ تعا لیٰ جب چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ پھر ایک مضبوط طاقتور بادشاہت کا دور آئے گا جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ پھر ظالم و جابر حکومت کا دور آئے گا جب تک اللہ تعا لیٰ چاہے گا پھر اللہ تعا لیٰ جب چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ اور پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ (بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح باب الانذار والتحذیر حدیث 5143)

یہ حدیث مختلف کتب حدیث مسند احمد، مسند البزار، طبرا نی فی الاوسط وغیرہ میں موجود ہے۔ اس حدیث سے یہ بالبداہت ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے امت کے آخر میں ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کی امت کو خوشخبری سنائی ہے اور چودہ سو سال پہلے ہی یہ بتا دیا تھا کہ جس طرح میرے بعد جو کہ نبوت کا زمانہ ہے ایک خلافت قائم ہو گی اسی طرح امت کے آخر میں بھی اللہ تعالیٰ ایک نبی کے ذریعہ ہی یہ خلافت قائم فرمائے گا۔ یعنی جس طرح اسلام کے دَور اوّلین میں نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو ئی تھی اللہ تعالیٰ امت کے آخری دَور میں بھی نبوت کے بعد دوبارہ خلافت کا دَور شروع فرمائے گا۔ پیشگوئی پرمشتمل اس حدیث کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ ’’اس خلافت سے مراد حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ ہے۔ ‘‘(مظاہر حق جدید شرح مشکوٰ ۃ المصابیح، جلد 4صفحہ 822)

چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کے بعد خلافت راشدہ کا قیام عمل میں آچکا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کے متبعین خلافت خامسہ سے وابستہ دینی و روحانی فوائد و برکات سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔

رسول اللہﷺ کی خلافت راشدہ سے متعلق یہ پیشگوئی دراصل سورۃ النور کی آیت استخلاف (سورۃ النور 56) کی تفسیر ہی ہے جس میں اللہ تعا لیٰ نے مومنوں سے خلافت کے قیام کا وعدہ فرمایا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہے کہ خلافت کے ساتھ دینی و روحانی برکات بھی وابستہ ہیں۔ اور اس خلافت کے ذریعہ اللہ تعا لیٰ دین کو تمکنت بھی عطا فرمائے گا اور مومنوں کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا۔ اور اس آیت کے آخر میں فرمایا: وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُ ولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانو ں میں سے قرار دیے جائیں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button