جلسہ یوم مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زیر اہتمام جماعت احمدیہ یوکے
منعقدہ مورخہ 23؍مارچ 2022ء
جماعت احمدیہ یوکے نے حسب روایت امسال بھی جلسہ سالانہ یوم مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام منانے کی توفیق پائی۔ جلسے کی تقریب کا اہتمام مورخہ 23؍مارچ کو شام پونے سات بچے مسجد بیت الفتوح میں کیا گیا تھا جس کی صدارت نائب امیر یوکے محترم منصور احمد شاہ صاحب نے کی۔ کورونا پابندیوں کی وجہ سےانتہائی محدود تعداد میں احباب جماعت کو جلسے میں بنفس نفیس شامل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ جلسہ کی کارروائی میں برطانیہ کے تمام احباب جماعت کی شمولیت کے لیے یوٹیوب کے لنکس فراہم کیے گئے تھے اور گزشتہ ایک ہفتہ سے ان لنکس کو صدران ِجماعت کے ذریعہ تمام ممبران جماعت کو بھیجا جارہا تھا ، بار بار یاددہانی کروائی جارہی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ احباب اس جلسہ کی کارروائی کو برا ہ راست دیکھ سکیں، سُن سکیں اور اس جلسہ میں کی جانے والی تقاریر سے استفادہ کرکے سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں اپنی یادیں تازہ کرسکیں۔
جلسہ کا باقاعدہ آغاز مکرم توفیق ادریس صاحب نے سورۃ الجمعہ کی ابتدائی پانچ آیات کی تلاوت سے کیا جبکہ مکرم کلیم Mensanصاحب نے ان آیات کا ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مکرم طاہر خالد صاحب مربی سلسلہ نے درثمین سے مُناجات اور تبلیغِ حق کے عنوان میں لکھے گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام سے چند اشعار
کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر مسیح
خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار
سے شروع کرکے بہت ہی خوبصورت انداز میں نہ صرف نہایت ترنم سے پیش کیےاور انگریزی زبان میں ترجمہ بھی پیش کیا۔
جلسہ کی پہلی تقریر مکرم عثمان شہزاد بٹ صاحب مربی سلسلہ نے ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انسانیت سے محبت‘‘ کے موضوع پر کی جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت انسانیت کے بے مثال واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے گھر میں ہمیشہ دوائیوں کا ذخیرہ رکھاکرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر تمام ایسے مریضوں کو بلا معاوضہ فراہم کیا کرتے تھے جو اُن کے پاس علاج کے لیے آیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کوبھی نہ تو کبھی علاج سے اور نہ ہی کسی دوائی دینے سے منع فرمایا۔ اس ضمن میں لالہ شرمپت کا واقعہ مشہور ہے جو ہمیشہ مسیح موعودؑ کو تکلیف دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا لیکن جب ایک مرتبہ اُس کے پیٹ میں شدید درد ہوا تو وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس کا بھی علاج کیا اور اپنے پاس سے مفت دوائی دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف اپنی تمام عمر انسانیت کی عظیم خدمات میں گزاری بلکہ اپنے ماننے والوں کو بھی ہمیشہ اس کی تلقین فرمائی۔
بعد ازاں عزیزم طاہر عودے صاحب، وقف نو نے ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدا سے محبت‘‘ کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ سے محبت بے مثال تھی۔ اُنہیں ہمیشہ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لیے خدا پر بے انتہا یقین تھا۔ وہ بچپن سے ہی انتہائی خشوع و خضوع سے عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بڑے افسر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد محترم سے پوچھا کہ آپ کا ایک چھوٹا لڑکابھی ہے لیکن ہم نے اُسے کبھی نہیں دیکھا۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ تو ہمیں بھی کم ہی نظر آتا ہے۔ اگر اُسے دیکھنا ہو تو مسجد کے کسی گوشے میں جاکر دیکھ لیں وہ تو مسیتڑ ہے اُسے دنیا کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایک مرتبہ اُن کے والد محترم نے اُنہیں کہیں ملازمت پر لگانے کے لیے پوچھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے جہاں ملازم ہونا تھا ہوگیا مجھے اب کسی ملازمت کی ضرورت نہیں۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے اپنے گہرے تعلق کا اظہار فرمایاکہ اب مجھے خدا کے بعد کسی اور کی ضرورت نہیں۔
بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیعت لینے سے متعلق ایک مختصر ویڈیو حاضرین جلسہ کو دکھائی گئی۔ جس کے بعد مکرم اقبال احمد قدسی صاحب نے ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے مثال تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مرتبہ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اُس وقت آئے ہوئے کسی مہمان نے دروازہ کھولنےکی کوشش کی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں منع فرمادیا اور خود جاکر دروازہ کھولا اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کی عزت و اکرام کی تعلیم دی ہے۔ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی روز مرّہ کی زندگی میں بھی چھوٹے چھوٹے کاموں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرکے اپنے ماننے والوں کوبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کا پیغام دیا ۔
اس کے بعد ایک نومبائع مکرم زبیر ظفر صاحب نے اپنے احمدی ہونے کے بارے میں بتایا کہ میرے والدین کا تعلق جہلم پاکستان سے ہے اور میری پیدائش ایک کٹر سنی بریلوی گھرانےمیں ہوئی۔ میری عمر اس وقت 34 سال ہے۔ انٹرنیت پر میری نظر حضرت مسیح ناصریؑ کی وفات کے متعلق ایک مضمون پر پڑی جو alislam.org ویب سائٹ پر موجود تھا۔ ساتھ ہی مجھے اس موضوع سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف لطیف ’مسیح ہندوستان میں‘ مل گئی جسے میں نے کھولا اور پھر اُسے پڑھتا چلا گیا۔ اس کتاب سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میرے دماغ میں ہمیشہ سے یہ خیال راسخ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گزشتہ دوہزار سال سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور جنہوں نے کسی وقت واپس آنا ہے۔ لیکن اس کتاب اور جماعت احمدیہ کی دیگر مختلف کتابوں سے اور بعد ازاں پھر مختلف احمدی دوستوں سے تبادلہ خیالات کے بعد مجھے اپنے اس عقیدے پر قائم رہنے کی غلطی کا احساس ہونے لگا اور اسلام اور احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا یقین آنے لگا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نومبر 2020ء میں مجھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کرنےکی سعادت حاصل ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ اس ایمان پر قائم رکھے۔(آمین)
اس کے بعد مکرم منیر عودے صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کا عربی قصیدہ
عِلمي من الرحمن ذي الآلاءِ
باللّٰه حُزْتُ الفضلَ لا بِدَهَاءِ
كيف الوصول إلى مدارجِ شكرهِ
نثني عليه وليس حولُ ثنـاءِ
انتہائی خوبصورت انداز میں حاضرین جلسہ کی سماعت کے لیے پیش کیا۔
بعد ازاں امام مسجد فضل لندن و مشنری انچارج یوکے محترم عطاء المجیب راشد صاحب نے ’پہلی بیعت‘ کے موضوع پر اپنے خطاب میں بتایا کہ 23؍مارچ کا دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کا دن نہیں ہے بلکہ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت لےکرجماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ پہلی بیعت ’بیعت اولیٰ‘ کہلاتی ہے جو کہ آج سے 133 سال پہلے لی گئی تھی۔ 1882ء میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو پہلے الہام سے نوازا۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو امام مہدی اور مسیح موعودؑ قرار دینے کی بابت فرمایا۔ اُس زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کی جو حالت تھی اور جس طرح سے آپؑ اسلام کے دفاع میں قلمی کوششیں کررہے تھے اُس کی وجہ سے تمام لوگوں کی نظریں آپؑ کے وجود پر تھیں کہ آپؑ بیعت لینے کا آغاز کریں لیکن آپؑ نے خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر بیعت لینے سے منع فرمادیا تھا ۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی تو پھر آپؑ نے 23؍مارچ 1889ء کو حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مکان پر بیعت لی۔ پہلے دن چالیس افراد نے بیعت کی اور سب سے پہلی بیعت حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب(خلیفۃ المسیح الاوّلؓ) نے کی۔بیعت لینےوالے افراد بیان کرتے ہیں کہ جس وقت ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرتے تھے تو ہمارے جسم میں ایک برقی رَو دوڑتی تھی اور ہمارے اندر ایک جوش و جذبہ پیدا ہوجایا کرتا تھا۔ محترم امام صاحب نے بتایا کہ حضرت صوفی احمد جان صاحب کا یہ مکان دارالبیعت کہلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے تین مرتبہ اس مکان کا دورہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ امام صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا فرمائے اور اسلام اور احمدیت کو شاندار فتوحات عطا فرمائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے بعدہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اسلام اور احمدیت کی فتح کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
آخرمیں صدر اجلاس محترم منصور احمد شاہ صاحب نے اختتامی خطاب میں کہا کہ ہمیں اپنی روزمرہ کی گھریلوزندگی میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نمونوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور آپ علیہ السلام کی نصائح پر عمل کرنے سے ہمارے گھروں میں بھی جنت نظیر نمونے قائم ہوسکتےہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
دعا کے ساتھ اس جلسہ کا اختتام ہوا۔ مسجد بیت الفتوح میں اس جلسے میں موجود احباب جماعت کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جلسہ کے بعد نماز مغرب و عشاء جمع کرکے ادا کی گئیں۔
ادارہ الفضل کی جانب سے تمام قارئین کو یوم مسیح موعود علیہ السلام مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ دنیابھر کے تمام احباب جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح پر عمل کرنے اور اُن کے اعمال پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین