مقامِ مسیح موعود علیہ السلام احادیث مبارکہ اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں (قسط چہارم۔ آخری)
آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ دن آتا ہے کہ میرے مبارک اور خوش بخت زمانہ کو یاد کر کے لو گ رویا کریں گے
خاتم الاولیاء
گیارھویں صدی ہجری کے مشہور عالم و فاضل، عارف کامل حضرت علامہ محمد اسمٰعیل حقی البروسویؒ اپنی تفسیر’’ روح البیان‘‘میں سورۃ النساء کی آیت 158کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’عیسیٰؑ (اپنی دوسری بعثت میں ) ولایت عامہ کے خاتم ہوں گے اس لیے کہ آپ کے بعد پھر کوئی ولی نہ ہو گا۔ آپؑ پر دورہ محمدیہ کی ولایت ختم ہو گی۔ یہ آپؑ کی بزرگی اور شرافت کی بنا ء پر ہو گا۔ جیسے نبی کریمﷺ کو خاتم النبیین بنا یا گیا تو آپؑ کو خاتم الاولیاء۔ ‘‘(تفسیر روح البیان)
شیخ محمد اکرم صابری اپنی فارسی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ’’محمد بود کہ بصورت آدم در مبداء ظہو ر نمود یعنی بطور بروز در ابتدا ء آدم، رو حانیت محمد مصطفیٰﷺ در آدم متجلی شد۔ و ہم او باشد کہ در آخر بصورت ِ خاتم ظاہر گردد یعنی در خاتم الولایت کہ مہدی است نیز روحانیت محمد مصطفیٰﷺ بروز و ظہور خواہد کرد و تصرفہا خواہد نمود۔ ‘‘(اقتباس الانوار صفحہ 52مؤلفہ شیخ محمد اکرم صابری)یعنی وہ محمدﷺ ہی تھے جنہو ں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتدا میں ظہو ر فرمایا یعنی ابتدا ئےعالم میں محمد مصطفیٰﷺ کی رو حانیت برو ز کے طور پر حضرت آدمؑ میں ظاہر ہو ئی اور محمد مصطفیٰﷺ ہی ہو ں گے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی صورت میں ظاہر ہو ں گے۔ یعنی رسول اللہﷺ کی رو حانیت مہدی میں بروز اور ظہور کرے گی۔
حضرت ملاّ جامیؒ خاتم الولایت امام مہدی کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ فَمِشْکٰوۃُ خَاتَمِ الْاَنْبِیَآءِِ ہِیَ الْوِلَا یَۃَالْخَاصَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَ ہِیَ بِعَیْنِہَا مِشْکٰوۃُ خَاتَمِ الْاَوْلِیَاءِ لِاَنَّہٗ قَائِمٌ بِمَظْہَرِیَّتِہَا‘‘(شرح فصوص الحکم ہندی صفحہ 69)یعنی خاتم الانبیاءﷺ کا مشکوٰۃ ہی محمدی ولایتِ خاصہ ہے اور وہی بجنسہٖ خاتم الاولیاء حضرت امام مہدی کا مشکوٰۃ باطن ہے کیونکہ امام مہدی دراصل آپﷺ ہی کے کامل مظہر ہیں۔
چھٹی صدی ہجری کے ممتاز مفسر اور پیشوائے طریقت حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ (متوفی638 ہجری 1240ء) اپنی تصنیف ’’الفتوحات المکیۃ ‘‘ میں حضرت عیسیٰؑ کی بعثت ثانیہ کا ذکر کرتے ہو ئے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’وَاَنَّ عِیْسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَمُ اِذَا نَزَلَ مَا یَحْکُمُ اِلَّا بِشَرِیْعَۃِ مُحَمَّدٍﷺ وَھُوَ خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ فَاِنَّہُ مِنْ شَرْفِ مُحَمّدٍﷺ اَنَّ خَتَمَ اللّٰہُ وِلَایَۃَ اُمَّتِہِ وَالْوِلَایَۃَ مُطْلَقَۃً بِنَبِیٍ رَسُوْلٍ مُکَرَّمٍ خَتَمَ بِہِ مَقَامَ الْوِلَایَۃِ، فَلَہٗ یَوْ مَ الْقِیَامَۃِ حَشْرَانِ اَ یَحْشُر مَعَ الرُّسُلِ رَسُوْلًا وَ یَحْشُرُ مَعَنَا وَلِیًّا تَابِعًا مُّحَمَّدًاﷺ کَرَّمَہُ اللّٰہُ تَعَا لیٰ۔ ‘‘(الفتوحات المکیۃ، جز اوّل، باب الرابع عشر فی معرفۃ اسرار الانبیاء، صفحہ 150)یعنی جب حضرت عیسیٰؑ نزول فرمائیں گے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شریعت کے مطا بق حکم کریں گے اور وہ خاتم الاولیا ء ہو ں گے۔ کیونکہ یہ رسول اللہﷺ کا شرف ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے آپؐ کی امت پر ولایت ختم فرمائی اور ایک مکرم رسول اور نبی کے ذریعہ ولایۃ مطلقہ کو ختم فرمایا۔ پس حضرت عیسیٰؑ کے لیے دو حشر ہو ں گے ایک حشر ان کا رسولوں کے ساتھ بحیثیت رسول ہو گا اور ایک حشر ہمارے ساتھ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے متبع ولی کی حیثیت میں ہو گا اور یہ دراصل اللہ تعا لیٰ نے ان کا اکرام کیا ہے۔
حضرت ابن عربیؒ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ وَاَعْلَمْ اَنَّہٗ لَا بُدَّ مِنْ نُزُوْلِ عِیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَلَا بُدَّ مِنْ حُکْمِہٖ فِیْنَا بِشَرِیْعَۃِ مُحَمَّدٍﷺ یُوحِی اللّٰہُ بِھَا اِلَیْہِ مِنْ کَوْنِہٖ نَبِیًّا فَاِنَّ النَّبِیَّ لَا یَاخُذُ الشَّرْعَ مِنْ غَیْرِ مُرْسلِہٖ فَیَاْتِیْہِ الْمَلَکُ مُخْبِرًا بِشَرْعِ مُحَمَّدٍ الَّذِیْ جَاءَ بِہٖﷺ وَقَدْ یُلْہِمُہٗ اِلْہَامًا فَلَا یَحْکُمُ فِیْ الْاَشْیَِاءِِ بِتَحْلِیْلٍ وَ تَحْرِیْمٍ اِلَّا بِمَا کَانَ یَحْکُمُ بِہٖ رَسُولُ اللّٰہِﷺ لَوْ کَانَ حَاضِرًا۔ وَ یُرْتَفَعُ اِجْتِہَادُ الْمُجْتَہِدِیْنَ بِنُزُوْلِِہ عَلَیْہِ السَّلَا مِ وَلا یحکم فینا بشرعہ الذی کا ن علیہ فی اَوَانِ رسالتہ و دولتہ فیما ہو عالمٌ بہا من حیث الوحی الالٰہی الیہ بہا ہو رسولٌ و نبیٌ و بما ھو الشرع الذی کان علیہ محمدﷺ ھو تا بعٌ لہ فیہ وقد یکو ن لہ من الاطلاع علی روح محمدﷺ … ان یاخذ عنہ ما شرع اللّٰہ لہ ان یحکم بہ فی امتہﷺ فیکو ن عیسیٰ علیہ السلام صاحباً و تابعاً مِن ھذ الوجہِ وہو علیہ السلام مِنْ ھذا الوَجْہِ خَاتَمُ الاَوْلِیَاءِِ فکان مِنْ شَرفِ النَّبِیِّﷺ اَنَّ خَتَمَ الاَولِیَاءَ فی اُمَّتِہٖ نَبِیٌّ رَسُولٌ مُکَرّمٌ ھُوَ عیسیٰ علیہ السلام وَھُوَ اَفْضَلُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ المُحمدیّۃِ و قد نَبہ عَلَیْہِ التِّرمِذیُّ الْحَکِیْمُ فی کتابٍ ختم الاولیاء لَہٗ، و شَھِدَ لَہُ بالفضیلۃ علیٰ اَبِی بَکْرٍٍ الصدیق و غیرہ، فانَّہ واِنْ کان ولیًّا فی ھذہ الاُمَّۃ والمِلَّۃِ الْمُحمدیۃ فَھُوَ نَبِیٌّ و رَسُوْلٌ فی نَفْسِ الْاَمْرِ فَلہٗ یوم القیامۃ حَشَرَانِ: یحشر فی جماعۃ الانبیاء والرسل بِلِوَاءِِ النُّبوّۃ والرِّسالۃ واصحابہ تَابِعُونَ لَہُ فیَکُونُ مَتْبُوعًا کَسَائِرِ الرُّسُلِ۔ وَ یَحْشُرُ اَیْضًا مَعَنَا وَلِیًّا فِی جَماعۃِ اَوْلِیاءِِ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ تَحْتَ لِوَاءِ مُحَمّدٍﷺ تَابِعًا لَہٗ مُقَدِّمًا عَلٰی جَمِیعِ الْاَ وْلِیَاءِِ مِنْ عَھْدِ آدمَ الیٰ آخرِ وَلِیٍّ یکُو نُ فِی العَالَمِ فَجَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ بَیْنَ الْوِلاَیَۃِ وَالنُّبوّۃِ ظَاھرًا۔ وَما فِی الرُّسُلِ یَو مَ الْقِیامۃِ مَنْ یَتَّبِعُہٗ رَسُولٌ الَّا مُحَمَّدﷺ فَانَّہٗ یُحْشَرُ یَومَ الْقِیامۃِ فِی اَتِّباعِہِ عِیسیٰ وَ اِلْیَاسَ عَلیہما السلام وَاِنْ کَانَ کُلُّ مَنْ فِی الْمَوقفِ مِن آدم فَمَنْ دُونَہٗ تَحتَ لِوَائِہِﷺ فَذَالِکَ لِوَائُہُ الْعَامُ۔ ‘‘(الفتوحات المکیۃ، جز اوّل، باب الرابع والعشرون فی معرفۃ جاءت عن العلوم الکونیۃ، صفحہ184تا185)جاننا چا ہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام لازما ًنزول فرمائیں گے اور حضرت محمدﷺ کی شریعت کے ساتھ ہم میں لازما ًحکم دیں گے جس کو اللہ تعا لیٰ ان کی طرف ان کے نبی ہو نے کی وجہ سے وحی فرمائے گا کیو نکہ نبی سوائے اپنے مرسل کے شریعت نہیں لیتا۔ چنانچہ فرشتہ ان کے پاس اس شریعت کی خبر لایا کرے گا جس کے ساتھ حضرت محمدﷺ تشریف لائے ہیں۔ پس اللہ تعا لیٰ انہیں الہام کرے گا تو آپؑ اشیاء کی حلت و حرمت میں وہی حکم فرمائیں گے جو حکم حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے اور اگر آپؐ موجود ہو تے تو یہی حکم فرماتے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے ساتھ مجتہدین کے اجتہاد اٹھ جا ئیں گے۔ اور وہ ہم میں اُس شریعت کے ساتھ حکم نہیں دیں گے جس پر وہ اپنے رسالت و دولت کے زمانہ میں تھے اور جس میں آپ اس کے ساتھ بحیثیت وحی الٰہی کے عا لم تھے اور وہ جس کے ساتھ نبی و رسول تھے۔ اور وہ اس شریعت پر ہو ں گے جس پر حضرت محمدﷺ تھے کیونکہ وہ اس امر میں آپؐ کے تابع ہوں گے۔ اور کبھی ان کو بصورت کشف حضرت محمدﷺ کی روح مبارک پر اطلا ع ہو گی اور وہ آپؐ سے اس امر کو اخذ کریں گے۔ جو ان کے لیے اللہ تعا لیٰ کی شریعت ہو گی۔ اور وہ اس کے ساتھ آنحضرتﷺ کی امت میں حکم دیں گے۔
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وجہ سے آپؐ کے تابع اور صحابی ہوں گے۔ اور اس وجہ سے وہ خاتم الاولیاء ہوں گے۔ اور یہ دراصل آنحضرتﷺ کا شرف ہے کہ نبی اور صاحب کرامت رسو ل جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں آپﷺ کی امت کے خاتم الاولیا ء ہو ں اور وہ اس امت محمدیہ میں افضل ہیں۔
حکیم ترمذی نے اپنی کتاب ’ختم الاولیاء ‘ میں یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور دوسرے لو گوں سے افضل ہیں کیو نکہ حضرت عیسیٰؑ اگرچہ اس امت اور ملت محمدیہ کے ولی ہیں مگر نفس الامر میں وہ نبی اور رسول ہیں۔
پس قیامت کے دن ان کے دو حشر ہیں۔ ایک حشر نبوت و رسالت کے پرچم کے ساتھ انبیاء مرسلینؑ کے ساتھ اپنے صحابیوں اور متبعین کے ساتھ ہو گا۔ اور دوسرا حشر حضرت محمدﷺ کے پرچم کے نیچے اس امت کے اولیاء کی جماعت میں ہمارے ساتھ ہو گا۔ اور وہ حضورﷺ کے تابع ہوں گے۔ اور حضرت آدم سے لے کر دنیا کے آخری ولی تک تمام اولیاء اللہ سے آگے ہو ں گے یعنی ان کے پیشوا ہوں گے۔ پس اللہ تعا لیٰ ان کے لیے ظاہر طور پر ولایت اور نبوت کو جمع فرمائے گا۔ اور قیامت کے دن سوائے حضرت محمدﷺ کے کوئی ایسا رسول نہ ہو گا جس کی اتباع ایک رسول نے کی ہو گی۔ کیونکہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰؑ اور حضرت الیاسؑ کا حشر آنحضرتﷺ کے متبعین میں ہو گا۔ اگر چہ حضرت آدمؑ سے لے کر تمام نبی میدان حشر میں حضرت محمدﷺ کے پرچم تلے ہو ں گے اور آپﷺ کا یہ پرچم عام ہو گا۔
ان مذکورہ بالا دونوں حوالوں میں حضرت ابن عربیؒ نے اپنا موقف بیان فرمادیاہے کہ رسول اللہﷺ کی امت میں ظاہر ہو نے والے حضرت عیسیٰؑ خاتم الاولیاء ہو ں گے اور وہ نبی و رسول بھی ہو ں گے اس حال میں کہ وہ شریعت محمدیہ پر ہی قائم ہو ں گے اور یہ شریعت آپ پر الہام کی جائے گی۔
اسی طرح کا اظہار گیارھویں صدی ہجری کے مشہور عالم و فاضل، عارف کامل حضرت علامہ محمد اسمٰعیل حقی البروسویؒ نے اپنی تفسیر’’روح البیان ‘‘ میں فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’عیسیٰ علیہ السلا م خاتم الولایت بن کر تشریف لائیں گے اور مہدیؑ خاتم الخلافۃ ہوں گے۔ ‘‘(ملاحظہ ہو تفسیر روح البیان، زیر آیت سورۃ التوبہ 33 ھُوَ الَّذِیٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَ ہٗ عَلیَ الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِ ہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے سب دینو ں پر غالب کر دے خواہ مشرک کیسا ہی نا پسند کریں۔ )
تصوف کے موضوع پر لکھی جانے والی کتاب ’ مِرْ أَ ۃُ الْاَسْرَار ‘جس کا زمانہ تا لیف 1065-1045 ہجری ہے اس کتاب میں بھی یہ لکھا ہے کہ ’’ امام مہدی خاتم ولایت مطلقہ محمدیہ ہیں۔ اور خاتم ولایت مطلقہ عامہ حضرت عیسیٰؑ ہیں۔ ‘‘ اسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ولایت محمدی کی دوسری قسم جو جامع ہے تصرف ظاہری و باطنی کی لیکن مقرون خلافت نہیں ہے، اس کے خاتم امام مہدی علیہ السلام ہیں جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے۔آپ کا اسم گرامی محمد ہو گا اور خلق میں حضرت محمدﷺ کی صورت کی مانند ہو ں گے لیکن خلق ان کے تا بع ہو گی۔ اور ان کے بعد کوئی ولی بادشاہ نہ ہو گا۔ پس اس قسم کی ولایت ان پر ختم ہو جائے گی۔ …ولایت کی چوتھی قسم کے خاتم حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں کہ ان کے بعد کوئی ولی نہ ہو گا اور اس قسم کی ولایت ان کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔ ان کو خاتم اکبر کہتے ہیں۔‘‘(مرأۃ الاسرار، صفحہ122تا 125، ازشیخ عبد الرحمٰن چشتیؒ 1094-1005 ہجری، ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور)
حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ خَا تَمُ الْاَ وْلِیَاء و خَاتَمُ الخُلَفاء
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعویٰ کی بنیاد اللہ تعا لیٰ کی طرف سے عطا ہو نے والی وحی اور الہام پر رکھی تھی ۔اللہ تعالیٰ نے 1905ء میں آپؑ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’وہ تجھے رد کرتے ہیں۔ میں تجھے خاتم الخلفاء بنا ؤں گا۔ ‘‘(تذکرہ، صفحہ 539، ایڈیشن چہارم، 1977ء شائع کردہ الشرکۃ الاسلامیہ )
حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف اپنے نصوص قطعیہ سے اس بات کو واجب کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر جو موسوی خلیفو ں کے خاتم الانبیاء ہیںاس امت میں سے بھی ایک آخری خلیفہ پیدا ہو گا تا کہ وہ اسی طرح محمدی سلسلہ خلافت کا خاتم الاولیاء ہو اور مجددانہ حیثیت اور لواز م میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مانند ہواور اسی پر سلسلہ خلافت محمدیہ ختم ہوجیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر سلسلہ خلافت موسویہ ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘(تحفہ گو لڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ182)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جا ئیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں۔ زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے اور اس تکمیل کے لئے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کانام خاتم الخلفاء ہے۔ ‘‘( چشمہ معرفت، رو حانی خزائن جلد23صفحہ90تا91)
حضرت مسیح موعودؑ خطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں: ’’ وَاِنِّی عَلیٰ مَقَامِ الْخَتْمِ مِنَ الْوِلَایَۃِ کَمَا کَانَ سَیِّدِی الْمُصْطَفٰی عَلیٰ مَقَامِ الْخَتْمِ مِنَ النُّبُوَّۃِ وَ اِنَّہٗ خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِِ وَ اَنَا خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِِ۔ لَا وَلِیَّ بَعْدِی اِلَّا الَّذِیْ ھُوَ مِنِّیْ وَعَلیٰ عَہْدِیْ۔ ‘‘(خطبہ الہامیہ، رو حانی خزائن جلد16صفحہ69تا70)اور مَیں ولایت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سید آنحضرتﷺ نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے تھے۔ اور وہؐ خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کو ئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہو گا اور میرے عہد پر ہو گا۔
مقام محمود
امت محمدیہ میں ظاہر ہونے والے مسیح موعودؑ کے متعلق علماء و اولیاء یہ لکھتے چلے آئے ہیں کہ جس طرح رسول اللہﷺ کو مقام محمود حاصل ہوا اسی طرح مسیح موعودؑ کو بھی مقام محمودحاصل ہو گا۔ صوفیاء و اولیاء کے سلسلہ سہر وردیہ کے بانی حضرت شہاب الدین سہروردیؒ لکھتے ہیں کہ ’’وَ ھُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِیْ لَا یُشَارِکُہٗ فِیْہِ مِنَ الْاَنْبِیَاءِِ وَ الرُّسُلِ اِلَّاالْاَوْلِیَاءِِ اُ مَّتِہٖ‘‘(ہدیہ مجددیہ صفحہ70)یعنی مقام محمود میں نبی کریمﷺ کا انبیاء اور رسولوں میں سے کوئی شریک نہیں سوائے ان اولیاء کے جو آپﷺ کی امت میں سے ہیں۔
اسی طرح امام مہدی سے متعلق شرح فصوص الحکم میں یہ لکھا ہے کہ ’’ فَلَہُ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ۔ ‘‘( شرح فصوص الحکم، ازحضرت امام عبد الرزاق قاشانی، صفحہ 53، مطبوعہ مصر)یعنی امام مہدیؑ کو بھی مقام محمود حاصل ہو گا۔
قرآن کریم میں اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ہے کہ عَسَیٰ اَن یَّبْعَثَکَ رَ بُّکَ مَقَا مًا مَّحْمُودًا۔ (بنی اسرا ئیل: 80)قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقامِ محمود پر فائز کر دے۔
سورہ بنی اسرا ئیل کی اس مذکورہ با لا آیتِ قرآنی میں جس مقا م محمود کا ذکر کیا گیا ہے اس کے با رے میں متعدد کبار صحابہؓ اور مفسرین کی یہی رائے ہے کہ اس مقام محمو د سے مراد مقام شفاعت ہے جس پر اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن آپﷺ کو فائز فرما ئے گا۔
امام ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ با ت بھی بیان کی ہے کہ مقا م محمود سے مراد ’’مقامِ حمد‘‘ہے جو آخرت میں آپؐ کو عطا ہو گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مقام محمود سے مرا د یہ ہے کہ ہم تجھے اس مقا م پر کھڑا کریں گے کہ جہا ں کھڑا ہو نے پر تمام مخلو ق آپؐ کی تعریف کرے گی اور خود خالق اکبر (اللہ تعالیٰ ) بھی آپؐ کی حمد کرے گا۔ ‘‘(تفسیر ابن کثیر۔ زیر آیت عَسَیٰ اَن یَّبْعَثَک)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں: ’’مقامًا محمودًا میں ایک بہت بڑی پیشگوئی کی گئی ہے۔ دنیا میں کسی شخص کو بھی اتنی گا لیا ں نہیں دی گئیں جتنی کہ آنحضرتﷺ کو دی گئی ہیں۔ …مقام محمود عطا فرما کر اللہ تعا لیٰ نے ان گا لیو ں کا آپؐ کو صلہ دیا ہے فرماتا ہے جس طرح دشمن گا لیا ں دیتا ہے ہم مومنو ں سے تیرے حق میں درود پڑھوائیں گے اسی طرح عرش سے خود بھی تیری تعریف کریں گے۔ اس کے مقا بل پر دشمن کی گا لیا ں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔
مقام محمود سے مرادمقا م شفا عت بھی ہے۔ کیو نکہ جیسا کہ حدیثو ں سے ثا بت ہے (قیامت کے دن ) سب اقوام کے لوگ سب نبیو ں کے پا س سے ما یو س ہو کر رسول کریمﷺ کے پاس شفا عت کی غرض سے آئیں گے۔ اور آپؐ شفا عت کریں گے۔ اس طرح گویا ان سب اقوام کے منہ سے آپؐ کے لیے اظہا ر عقیدت کروایا جائے گا جو اس دنیا میں آپؐ کو گا لیا ں دیتی تھیں۔ اور یہ ایک نہا یت اعلیٰ درجہ کا مقام محمود ہے۔‘‘(تفسیر کبیر، جلدچہا رم، صفحہ 375)
سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس آیت کے معا نی مختلف مقا مات پر بیا ن فرما ئے ہیں اور آپؑ کو بھی اللہ تعا لیٰ نے مقام محمود پر فائز ہو نے کا وعدہ فرمایا تھا۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ عَسَیٰ اَن یَّبْعَثَکَ رَ بُّکَ مَقَا مًا مَّحْمُودً ا۔ خدا تجھے اس مقام پر اٹھا ئے گا جس میں تو تعریف کیا جا ئے گا۔ ‘‘(مجموعہ اشتہا را ت، جلد دوم صفحہ 93 تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 5صفحہ 240)
آپؑ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جا ئے گی۔ یعنی گو اوّل میں احمق اور نا دا ن لو گ بد با طنی اور بد ظنی کی را ہ سے بد گوئی کرتے ہیں اور نا لا ئق با تیں منہ پر لا تے ہیں لیکن آخر خدا ئے تعا لیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہو ں گے اور سچا ئی کے کھلنے سے چا رو ں طرف سے تعریف ہو گی۔ ‘‘(مجموعہ اشتہا را ت، جلداول، صفحہ 117 تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 5صفحہ 240)
آپؑ مزید فرما تے ہیں کہ’’وہ وقت قریب ہے کہ میں ایسے مقا م پر تجھے کھڑا کروں گا کہ دنیا تیری حمد و ثنا کرے گی۔‘‘(دافع البلاء، روحانی خزائن جلد 18صفحہ8 تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 5صفحہ 240)
مجدد چودھویں صدی
ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وَلَنْ تَزَا لَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃُ قَائِمَۃً عَلٰی اَمْرِاللّٰہِ لَا یَضُرُّ ہُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی یَاْ تِیَ اَمْرُ اللّٰہِ۔ (بخاری، کتاب العلم، مسلم کتاب الزکوٰۃ)کہ اس امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے دین پر مضبوطی سے قائم رہے گی اور قیامت تک کوئی مخالف ان کو تکلیف یا نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یَحْمِلُ ھٰذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْلُہٗ یَنْفُونَ عَنْہُ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَاِنْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ و تَاْ وِیْلَ الْجَا ہِلِیْنَ۔ (مشکوٰۃ کتاب العلم حدیث 44، صحیح مسلم، حدیث 247,156)یعنی ہر دَور میں اس علم (یعنی دین اسلام ) کے حامل ایسے افراد ہوں گے جو عادل اور امانتدار ہیں، جو غلو کرنے والوں کے غلو اور ان کی تحریفات کو دین سے چھانٹتے رہیں گے اور باطل پرستو ں کے فریب اور غلطیو ں کو دور کرتے رہیں گے۔ اور جا ہلوں اور ان پڑھ لو گو ں کی غلط تا ویلات کی نفی کرتے رہیں گے۔
اس حدیث میں مختلف الفاظ کے ساتھ اہل علم ہی کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ قیامت تک ہوتے رہیں گے جو یہ تین امور سرانجام دیتے رہیں گے۔ یہ کون لوگ ہوں گے اس کی وضاحت حدیث مجددین سے ہو تی ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَ جَلَّ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَاْسِ کُلِّ مِائَۃٍ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہَا۔ (مشکوٰۃ کتاب العلم حدیث 43، سنن ابو داؤد کتاب الملاحم، حدیث 4291)یقیناًاللہ تعا لیٰ ہر صدی کے سر پر ایسے افراد کو مبعوث کرتا رہے گا جو اس امت کے دین کے معاملہ کی تجدید کرتے رہیں گے۔
ان تمام مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرمﷺ کی بعثت صرف دَور اوّل تک محدود نہیں تھی بلکہ آپؐ کی بعثت کا پھیلاؤ آپؐ کے نائبین کے ذریعہ قیامت تک ہوتا رہے گا، آپؐ کی نیابت چلتی رہے گی، آپؐ کی وراثت بھی چلتی چلی جا ئے گی اور ایسے لو گ پیدا ہو تے رہیں گے جو ان احادیث میں مذکور تین فرا ئض اد کرتے رہیں گے۔ یعنی اوّل یہ کہ دین کے معاملہ میں غلوکرنے والو ں کے غلو اور ان کی تحریفات کو اس دین سے چھانٹتے رہیں گے۔ دوم یہ کہ باطل پرستوں کی بدعات و غلط کاریو ں اور ان کے فریب کو اس دین سے دور کرتے رہیں گے۔ اور سوم یہ کہ جاہل و نادان، کم علم لوگو ں کی غلط تاویلات کی نفی کرتے رہیں گے۔
حدیث مجددین کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ’’ اکثر علماء نے اس حدیث سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں امت کے اندر اپنے علم و فضل کے اعتبارسے سب میں ممتاز ایک ایسا شخص موجود ہو تا ہے جو دین کو نکھارتا اور تجدید کرتا ہے جسے مجدد کہا جا تا ہے۔ مجدد اپنے زمانہ میں دین کے اندر ہرپیدا ہو نے والی برائی اور خرابی کو دور کرتا ہے۔ بدعت اور رسم و رواج کے جو گہرے پردے دین کی حقیقت پر پڑ جاتے ہیں وہ اپنے علم و معرفت کی قوت سے انہیں چاک کرتا ہے اور امت کے سامنے پورے دین کو نکھار کر اور صاف ستھرا کر کے اس کی اپنی اصلی شکل میں پیش کردیتا ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے تعیّن بھی کیا ہے کہ فلاں صدی میں فلاں مجدد پیدا ہوا تھا۔ اور فلاں صدی میں فلاں مجدد موجود تھا۔
بعض علماء نے حدیث کے معنی کو عمومیت پر محمول کیا ہے، یعنی خواہ دین کی تجدید کرنے والا کو ئی ایک شخص واحد ہو خواہ کوئی جماعت ہو جو دین میں پیدا کی گئی برا ئیو ں اور خرابیوں کو ختم کر ے۔ ‘‘(مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم، حدیث 229تا230 جلد 1صفحہ252تا253)
اہل سنت کے مشہور امام، عظیم الشان محدّث اور شارح مشکوٰۃ المصابیح علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاریؒ المعروف ملا علی قاریؒ (متوفی1014 ہجری، 1606ء)مجدد کے بارے میں لکھتے ہیں ’’جو سنت و بدعت میں امتیاز کردکھائے علوم کے دریا بہائے علماء کی عزت کرے، بدعات کا قلع قمع کر دے اور اہل بدعت کو ذلیل و رسوا کر دے۔ ‘‘( مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح [اردو ترجمہ] از علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاریؒ، متوفی 1014 ہجری، جلد دوم، صفحہ 302، شائع کردہ مکتبہ رحمانیہ)
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ’’خا تم النبیین محمد رسول اللہﷺ کے وجود باجود سے پہلے انبیاء کا سلسلہ جاری رہا۔ حضورؐ کی آمد کے بعد جا نشینان نبوتِ محمدی یعنی مجددین ِامت اس فرض کو انجام دیتے ہیں۔ یہ مجد دین ملت رسولﷺ کے متبع کامل ہو تے ہیں۔ ‘‘(سیرۃ النبیﷺ از شبلی نعمانی، جلد سوم صفحہ15 حاشیہ)
تذکرہ مجدد الف ثانیؒ کے مصنف مولانا محمد منظور نعمانی لکھتے ہیں کہ ’’ اللہ تعا لیٰ نے اپنے دین کی حفا ظت کے لیے اس ضرورت کا بھی تکفّل فرمایا اور اس کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے مختلف مو قعو ں پر حکمت الٰہی کے اس فیصلہ کا اعلان فرمایا کہ اللہ تعا لیٰ میری امت میں قیامت تک ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو دین کی اما نت کے حامل و امین اور محافظ ہو ں گے وہ اہل افراط و تفریط کی تحریفات، اہل زیغ و ہوا کی ترا شی ہو ئی بدعات اور حق نا آشنا مدعیو ں کی تا ویلات سے دین کو محفو ظ رکھیں گے۔ اور اس کو اس کی بالکل اصلی شکل میں ( جس میں کہ وہ ابتدا میں خود نبیﷺ کے ذریعہ آیا تھا )امت کے سامنے پیش کرتے رہیں گے۔ اور اس میں نئی روح پھونکتے رہیں گے۔ اسی کام کا اصطلاحی عنوان تجدید دین ہے اور اللہ تعا لیٰ اپنے جن بندو ں سے یہ کام لے وہی مجددین ہیں۔ ‘‘(تذکرہ مجدد الف ثانیؒ، از مولانا محمد منظور نعمانی، دار الاشاعت کراچی، صفحہ14تا15)
مولانا محمد منظور نعمانی حدیث مجددین کی وضاحت کرتے ہوئے مزیدلکھتے ہیں کہ ’’در اصل رسول اللہﷺ کا مقصد اس ارشاد سے امت کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ یہ دین کبھی محرف نہ ہو سکے گا اور نہ مرور زمانہ سے یہ بوسیدہ ہو گا اور نہ زمانہ کے انقلابات اس کی حقیقت کو بدل سکیں گے بلکہ اللہ تعا لیٰ اس کی بقا اور حفاظت اور تجدید کا انتظام برابر کرتا رہے گا اور ہر دور اور ہر قرن میں ایسے بندے پیدا ہوتے رہیں گے جو دین پر سے اس گرد وغبار کو برابر جھاڑتے رہیں گے جو زمانہ کی ہواؤں سے اس پر پڑے گا اور اس کی کہنگی دور کر نے کے لیے اس کی رگو ں میں تازہ خون اپنی جدو جہد سے دوڑاتے رہیں گے۔ اس تشریح کی بناء پر یہ حدیث اللہ تعا لیٰ کے محکم وعدے اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ کے سلسلہ کے ایک الٰہی انتظام کا بیان ہو گی۔ ‘‘
’’امت مطمئن رہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد بھی آپؐ کا لا یا ہو دین محفوظ رہے گا اور آپؐ کا روشن کیا ہوا چراغ ہمیشہ یو نہی روشن رہے گا اور اللہ تعا لیٰ اس امت ہی میں سے ایسے بندے ہر دور میں کھڑے کرتا رہے گا جو اللہ ورسولﷺ کی اس امانت کی حفاظت کریں گے اور اس کو اس کی اصلی شکل میں پیش کرتے رہیں گے۔ اور اس طرح آپؐ کی لا ئی ہوئی ہدایت، انسانی نسل کی آپؐ کے بعد بھی ہمیشہ ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی اور اللہ کے بندے اس کی روشنی میں سعادت کی راہ پر چلتے رہیں گے۔ اور اس دین کی حقیقت تحریفو ں اور تا ویلوں کے پردو ں میں کبھی اس طرح گم نہ ہو سکے گی جس طرح پہلے نبیوں کے ذریعہ آئی ہو ئی ہدا یتیں دنیا سے گم ہو گئیں۔ ‘‘(تذکرہ مجدد الف ثانیؒ، از مولانا محمد منظور نعمانی، دار الاشاعت کراچی، صفحہ19تا20)
علماء اور محدثین نے حدیث مجددین سے ایک خاص فرد مراد لیا ہے۔ ان معنو ں کی رو سے امت مسلمہ کے اوّلین دَور میں خلافت راشدہ کے بعدخلافت کا ایک سلسلہ مجددین امت کی صور ت میں ظاہر ہوا اور حدیث مجددین کے مطابق ہر صدی اور ہر دَور میں ایسے ائمہ اور علمائے ربانی، فقہاء، محدثین اور مفسرین ظاہر ہو تے رہے جو دین اسلام کی آبیاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تیرہ صدیو ں تک جاری رہا اور چو دھویں صدی کے لیے اللہ تعا لیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اپنی حکمت کاملہ سے منتخب فرمایااور چودھویں صدی کے مجدّد کے طور پر اللہ تعا لیٰ نے آپؑ کو مقام نبوت پر فائز کرتے ہو ئے مسیح موعود اور امام مہدی کے طور پر بھیجا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ۔ (تذکرہ صفحہ 633و 665، ایڈیشن چہارم 1977ء)اور اس طریق پر آپؑ کے ذریعہ دین اسلام کے احیاء اور شریعت کے ازسر نو قیام کا آغاز فرمایا گیا۔ اور بلا شبہ آپؑ کا وجود ہی وہ مجدد ہے جسے احادیث میں رسول اللہﷺ نے نبی اللہ، مسیح موعود اور امام المہدی کے خطابا ت سے یاد فرمایا تھا۔ آپؑ ہی کے ذریعہ نبی اکرمﷺ کی پیشگو ئی ثُمَّ تَکُوْنُ خِلاَ فَۃٌ عَلیٰ مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃِ بھی پوری ہوئی جس کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا اور خلفائے احمدیت اس دَور آخرین میں تجدید دین اسلام کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ضلالت و گمراہی اور دین میں فروعی اختلافات اور مسائل کے وقت انبیاء و مجد دین آتے ہیں۔ چودھویں صدی کے آغاز سے پہلے دین اسلام میں بہت سی بدعات، رسومات، توہمات، غلط عقائد اور فاسد خیالات رواج پاچکے تھے۔ مسلمانوں کے عقائد اور اعمال و افعال میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا۔ عیسائی پادری و مناد دنیا پر غلبہ کی سکیمیں سوچ رہے تھے اور ان کے ساتھ دوسرے مذاہب بھی اسلام پر پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہو چکے تھے۔ اس وقت ضرورت تھی کہ اللہ تعا لیٰ کی طرف سے کو ئی و جود کھڑا ہو جو اسلام کی گرتی ہو ئی شان و شوکت کو دوبارہ بحال کرے تا دین اسلام کو حقیقی غلبہ حاصل ہو سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ’’ہر ایک مجدد ان مفاسد کے دور کرنے کے لئے مبعوث ہو تا ہے جو زمین پر سب سے زیادہ خطرناک اور سب سے زیادہ موجب ہلاک اور نیز سب سے زیادہ کثرت میں ہوتے ہیں۔ اور انہی خدمات کے منا سب حال اس مجدد کا نام آسمان پر ہوتا ہے۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ 165)
انبیاء کی بعثت کی غرض تصحیح عقائد، تصحیح اعمال و افعال اور تصحیح اخلاص ہو تی ہے۔ چودھویں صدی کے آغاز پر اللہ تعا لیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو بطور مجدد، مسیح موعود و مہدی معہودؑ اور امتی نبی کے مبعوث فرمایا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے امت مسلمہ کی ان تینوں شاخوں کی اصلاح کی عظیم الشان مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے ۔تم خدا سے مت لڑو۔ تم اس کو نابو د نہیں کر سکتے۔ ا س کا ہمیشہ بول بالا ہے۔ …اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے پیدا ہوا ہے۔‘‘(اربعین 4، روحانی خزائن جلد 17صفحہ456)
حضرت مسیح موعودؑ کا دَور ایسا تھا جس میں ہر طرح کی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں امت مسلمہ اعتقادی و عملی غلطیوں کا شکار ہو چکی تھی۔ اسلام سخت فتنہ کی حالت میں تھا اور عیسائیوں ہندوؤں اور دیگر مذاہب والوں کے اسلام پر حملے اس قدر ہو رہے تھے کہ دین اسلام غربت کی حالت میں چلا گیا تھا۔ اس لیے آپؑ کے ذریعہ ہونے والی تجدید دین میں ایسی جامعیت اور ہمہ گیری نظر آتی ہے کہ جس کا نمو نہ پہلے کسی دورمیں نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت سے مجدد صدی اور مجدد الف آخر کا فرق روزروشن کی طرح نمایا ں ہو جاتاہے۔ اور حضور علیہ السلام کی علمی تصانیف، ملفوظات، مکتو بات اور اشتہا رات ہی میں دراصل آپ علیہ السلام کے تجدیدی کارنامے ہیں جو روحانی خزائن کی صورت میں محفوظ ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کی علمی تصانیف میں عقائد و عبادات، معاملات اور اخلاقی تعلیم سب کچھ ہی موجود ہے۔ اور اس سےبڑھ کر وہ حقائق و معارف قرآن اور دقائق فرقان ہیں جن تک رسائی بہت مشکل ہے۔ اس کے لیے تقویٰ و طہارت اور بلندی فکر و نظر کی ضرورت ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا دعویٰ مجددیت
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو ماموریت اور مجد دیت کا پہلا الہام تو 1882ء میں ہوا تھا لیکن آپؑ نے اپنے مجدد ہو نے کا دعویٰ 1885ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ شا ئع فرمایا جس میں آپؑ نے یہ تحریر فرمایا کہ’’اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کما لات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشا بہت ہے۔ اور اس کو خواص انبیاء و رسل کے نمو نہ پر محض ببرکتِ متابعت ِحضرت خیر البشرو افضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان بہتو ں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب ِبُعدو حرِمان ہے۔ ‘‘( اشتہار منسلکہ برکات الدعا، روحانی خزائن، جلد 6صفحہ 39، حیات طیبہ، از عبد القادر، صفحہ78تا79)
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں کہ’’جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چو دھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعا لیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہےاور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ آبَائَھُمْ۔ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّی اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ یعنی خدا نے تجھے قرآن سکھلا یا اور اس کے صحیح معنے تیرے پر کھول دیئے۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا تو ان لو گو ں کو بد انجام سے ڈراوے کہ جو بباعث پشت در پشت کی غفلت اور نہ متنبہ کئے جانے کے غلطیو ں میں پڑ گئے۔ اور تا ان مجرموں کی راہ کھل جائے کہ جو ہدایت پہنچنے کے بعد بھی راہ راست کو قبول کرنا نہیں چا ہتے ان کو کہہ دے کہ میں مامور من اللہ اور اول المومنین ہوں۔ ‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن، جلد 13صفحہ 201تا202، حاشیہ)
حضرت مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے۔ تب میں نے اس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہا را ت اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شرو ع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کرو ں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کوا صلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیو ں کو دور کروں۔‘‘(تذکرۃ الشہا دتین، روحانی خزائن جلد20صفحہ 3)
حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف برکات الدعا میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’میں اس وقت محض للہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہو ں کہ مجھے خدا تعا لیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لیے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیا ں اور حضرت رسول اللہﷺ کی عظمتیں ظاہر کرو ں اور ان تمام دشمنو ں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدّنیہ کی مدد سے جواب دو ں جو مجھے عطا کئے گئے ہیں۔ ‘‘(برکات الدعا، روحانی خزائن، جلد 6صفحہ 34)
حضرت مسیح موعودؑ اپنے دعویٰ پر قسم اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعا لیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہو ںکیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجد د کھلے کھلے دعویٰ کے ساتھ آتا۔ سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کرو گے۔ ‘‘(برکات الدعا، روحانی خزائن، جلد6صفحہ36)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری زمانہ کے مجدد اور مجدد الف آخر بھی ہیں
نویں صدی ہجری کے مجدد حضرت امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتب و تالیفات میں حدیث مجددین کا تذکرہ فرمایا ہے اور آپ کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ ہر صدی کے لیے ایک مجدد ہو تا ہے جو نبی اکرمﷺ کے دین کی تجدید کرتا ہے اور اپنے بارہ میں فرمایا تھا کہ میں اس نویں صد ی کا مجدد ہوں۔ اور آخری صدی کے مجدد کے طور پر اللہ تعا لیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمائے گا۔ اس کا اظہار امام سیو طیؒ نے ایک قصیدہ میں کیا تھا۔ اس قصیدہ کے ایک شعر میں آپ فرماتے ہیں:
وَ آخِرُ الْمِئَیْنِ فِیْمَا یَاتِیْ
عِیْسٰی نَبِیُ اللّٰہِ ذُو الآیَاتٖ
(حجج الکرامہ، از نواب صدیق حسن خان، صفحہ 138)
ترجمہ: اور آخری صدی میں عیسیٰ نبی اللہ علیہ السلام، اپنے نشا نات کے ساتھ ظاہر ہو ں گے۔
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے 1907ء میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ ’’صلحاء اسلام نے بھی اس زمانہ کو آخری زمانہ قرار دیا ہے اور چو دھویں صدی میں سے تئیس سال گزر گئے ہیں۔ پس یہ قوی دلیل اس بات پر ہے کہ یہی وقت مسیح موعود کے ظہور کا وقت ہے اور میں ہی وہ ایک شخص ہو ں جس نے اس صدی کے شرو ع ہو نے سے پہلے دعویٰ کیا۔ اور میں ہی وہ ایک شخص ہوں جس کے دعوے پر پچیس برس گزر گئے اور اب تک زندہ موجود ہو ں اور میں ہی وہ ایک ہو ں جس نے عیسائیوں اور دوسری قوموں کو خدا کے نشا نو ں کے ساتھ ملزم کیا۔ پس جب تک میرے اس دعویٰ کے مقابل پر انہیں صفات کے ساتھ کوئی دوسرامدعی پیش نہ کیا جائے تب تک میرا یہ دعویٰ ثابت ہے کہ وہ مسیح موعود جو آخری زمانہ کا مجدد ہے وہ میں ہی ہو ں۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ201)
2؍نومبر 1904ء کو سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کا ایک لیکچر بعنوان ’اسلام ‘سیالکوٹ شہر میں پڑھا گیا تھا۔ اس لیکچر میں حضورؑ نے تحریرفرمایا ہے کہ’’اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام ِآخر الزماں اس کے سر پر پیدا ہو۔ اور اس کے بعد کو ئی امام نہیں اور نہ کو ئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو۔ کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیو ں نے شہا دت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعا لیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدد صدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی۔ ‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ208)
حضور علیہ السلام ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’میں دنیا کے سلسلہ کے خاتمہ پر آیا ہو ں۔ چنانچہ چھٹے ہزار کے آخر میں میری پیدائش ہے اور قمری حساب کی رو سے اب ساتو اں ہزار جاتا ہے۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 113)
حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف اپنے نصوص قطعیہ سے اس بات کو واجب کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر جو موسوی خلیفو ں کے خاتم الانبیاء ہیں، اس امت میں سے بھی ایک آخری خلیفہ پیدا ہو گا تا کہ وہ اسی طرح محمدی سلسلہ خلافت کا خاتم الاولیاء ہو۔ اور مجددانہ حیثیت اور لوازم میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مانند ہواور اسی پر سلسلہ خلافت محمدیہ ختم ہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر سلسلہ خلافت موسویہ ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘(تحفہ گو لڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 182)
رسول اللہﷺ کا سلام مسیح و مہدیؑ کے لیے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس شان کے وجود تھے اور آپؑ کا مقام کس قدر بلند ہے اس کا اظہا ر خود رسول اللہﷺ نے فرما یا ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مَنْ اَدْرَکَ مِنْکُمْ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فَلْیَقْرَأ ہُ مِنِّی السَّلَا مَ۔(مستدرک للحاکم، کتاب الفتن باب ذکر نفخ الصور۔ امام جلال الدین سیوطیؒ نے بھی اپنی تفسیر درمنثور میں یہ روایت درج فرمائی ہے۔ ) یعنی تم میں سے جو عیسیٰ ابن مریمؑ کوپائے وہ انہیں میرا سلام پہنچا دے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلَا مَنْ اَدْرَکَہٗ فَلْیَقْرَأ عَلَیْہِ السَّلَامَ۔ (طبرانی الاوسط و الصغیر بحوالہ حدیقۃ الصالحین مرتبہ ملک سیف الرحمٰن، حدیث 952صفحہ900تا901شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمدیہ قادیان، جنوری 2015ء)یعنی سنو ! تم میں سے جو عیسٰی ابن مریم کوپائے وہ انہیں میرا سلام پہنچا دے۔
حرف آخر
نبی اور نبوت کی حقیقت سے صرف وہ نبی ہی واقف ہو تا ہے جسے اللہ تعا لیٰ خود یہ منصب عطا کرتا اور اسے مبعوث فرماتا ہے۔ اللہ تعا لیٰ کے نزدیک ایک نبی کا مقام کیا ہے یہ اللہ تعا لیٰ اور اس کا نبی ہی جانتے ہیں جیسا کہ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ’’ لَا یَعْرِفُ حَقِیْقَۃَ النُّبُوَّ ۃِ اِلَّا النَّبِیِّ۔ ‘‘(احیاء العلوم، جز ثالث، بیان خاصیۃ قلب الانسان، صفحہ7)یعنی نبوت کی حقیقت کو نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
حضرت امام غزالیؒ اپنی ایک دوسری تصنیف میں مزید فرماتے ہیں کہ’’اَلنُّبُوَّۃُ لَا یَعْرِفُھَا بِالْحَقِیْقَۃِ اِلَّا النَّبِیِّ۔‘‘(اَلْاِمْلاَءُعَنْ اِشْکَالاَتِ الْاِحْیَاءِ) کہ فی الحقیقت نبوت کو نبی ہی جانتا ہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وَلَیْسَ اَحَدٌ اَشْقٰی مِنَ الَّذِیْ یَجْہَلُ مَقَامِیْ۔ ‘‘(تذکرۃ الشہادتین، عربی حصہ، رو حانی خزائن جلد 20صفحہ 91)اس شخص سے زیادہ بد بخت کوئی نہیں جو میرے مقام سے بے خبر ہے۔
حضور علیہ السلام اپنے ایک فارسی شعر میں فرماتے ہیں:
امروز قوم من نشناسد مقام من
روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم
یعنی آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ دن آتا ہے کہ میرے مبارک اور خوش بخت زمانہ کو یاد کر کے لو گ رویا کریں گے۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِہٖ بِعَدَدِ ہَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَحُزْنِہٖ لِہٰذِہِ الْاُ مَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلیَ الْاَبَدِ۔
یٰا رَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائِمًا
فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا وَ بَعْثٍ ثَانٖ
٭…٭…٭