نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 6)
آئندہ زمانہ میں مجلسِ مشاورت کی اہمیت
’’ہماری یہ مجلس مشاورت نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ابھی اِس کی پوری عظمت محسوس نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ ابھی بیج کی طرح ہے اور بڑے سے بڑا درخت بھی پہلے ایک بیج ہی ہوتا ہے۔ ابھی جو نمائندے اِس مجلس کے لئے آتے ہیں ان میں سے بعض نہایت چھوٹے قصبات سے آتے ہیں، بعض ایسے مقامات سے آتے ہیں جہاں چار پانچ ہی احمدی ہوتے ہیں۔ پھر یہ نمائندے زیادہ ہندوستان ہی کے مختلف علاقوں کے ہیں اِس لئے معلوم نہیں ہو سکتا اور خیال بھی نہیں آسکتا کہ ہمارے مشوروں کاا ثر ہماری آئندہ ترقی پر ہو سکتا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے ہمارے سامنے جو مستقبل ہے وہ اتنا محدود نہیں ہے جتنا آج نظر آرہا ہے بلکہ وہ بہت شاندار ہے اور اس سے بھی زیادہ شاندار ہے جو آج تک کسی فاتح قوم نے دیکھا ہے کیونکہ کبھی کسی قوم کے متعلق یہ وعدہ نہیں دیا گیا کہ ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جائے گی کہ دوسرے لوگ اس کے مقابلہ میں مٹ جائیں گے اور ایسے کمزور ہو جائیں گے کہ ان کی مثال چماروں کی سی ہو جائے گی مگر ہمارے مستقبل کے متعلق یہی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسلام اور احمدیت ترقی کرتے کرتے اِس حد تک پہنچ جائے گی کہ دوسرے مذاہب والے اتنے قلیل رہ جائیں گے کہ ہم کہہ سکیں گے کہ اسلام ہی اسلام دنیا میں نظر آتا ہے۔ یہ مستقبل کسی اور قوم کا نہیں تھا۔ اِس کو مدنظررکھتے ہوئے ہمارے مشوروں کا اثر جو دنیا پر پڑے گا اِس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں ہمارے مشوروں کا تعلّق اِسی مستقبل سے نہیں جب کہ ہماری جماعت کے نمائندے دنیا کے گوشہ گوشہ سے آئیں گے۔ جب کہ نمائندے چار یا پانچ یا چھ آدمیوں کی طرف سے نہیں آئیں گے بلکہ چار، پانچ، چھ کروڑ آدمیوں کے نمائندے بن کر آیا کریں گے۔ جب کہ اِس مجلس کا اثر چار، پانچ لاکھ انسانوں پر نہیں پڑے گا بلکہ اس کے مشوروں کے نتیجہ میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کی حالت بدل جائے گی۔ صرف اس وقت ہی اِس مجلس کے مشوروں کو اہمیت نہیں حاصل ہو گی بلکہ آج بھی ویسی ہی اہمیت حاصل ہے۔ بلکہ آج اس وقت سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ مستقبل آج سے ہی پیدا ہو گا۔ آج ہم جو فیصلے کریں گے آنے والے لوگ ان کے بدلنے کی آسانی سے کوشش نہیں کر سکیں گے۔ بعد میں آنے والے لوگ پہلوں کا ادب و احترام کرتے ہیں۔ اور یہ بھی سنّت ہے کہ نبی کے قریب کے زمانہ کے فیصلوں کو اسلام اور دین بھی خاص وقعت دیتا ہے اور اِس کا نام اجماع اور سنّت رکھا جاتا ہے۔
اِس وقت جو نمائندے آئے ہیں وہ بعض مقامات کے لحاظ سے چار چار پانچ پانچ آدمیوں کے نمائندے ہیں۔ اور ایسے نمائندے نہیں ہیں جو ہزاروں اور لاکھوں کی طرف سے ہوں مگر اِس وجہ سے اِس مجلس کی اہمیت کو گرانا نہیں چاہئے کیونکہ جو فیصلے ہم آج کریں گے وہ ساری دنیا پر اثر ڈالیں گے بلکہ ساری دنیا پر بھی ایک زمانہ میں اثر نہیں ڈالیں گے بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک اثر کرنےوالے ہیں۔ جس طرح صحابہؓ کی محدود جماعت کے فیصلے آج تک اثر ڈالتے ہیں اور وہ تو الگ رہے امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام حنبلؒ، امام شافعیؒ کے فیصلے بھی چلے آتے ہیں کہ ان کو اس قدر وقعت دے دی گئی ہے کہ اس زمانہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے جو نبی کھڑا ہوا اس کے آگے بھی اِن اماموں کی کتابیں لاکر رکھیں حالانکہ خداتعالیٰ سے وحی پانے والے کے مقابلہ میں انسانی آراء کیا وقعت رکھ سکتی ہیں۔ مگر بوجہ اِس کے کہ وہ لوگ پہلوں میں سے تھے ان کے فیصلوں اور تحریروں کو مقابلہ میں پیش کیا گیا حالانکہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں وہ ہوتے تو آپؐ کے آگے زانوئے شاگردی طَے کرتے کیونکہ وہ خداتعالیٰ سے الہام پا کر کھڑا ہؤا تھا۔ جس مقام کو آج ہمارے مخالفین ذِلّت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حتیّٰ کہ جس فعل کی وجہ سے ہمارا قتل جائز سمجھتے ہیں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت۔ اِس وقت اگر وہ اَئمہؓ ہوتے جن کے فتووں کی بناء پر ہمیں واجب القتل ٹھہرایا جاتا ہے تو سب سے بڑھ کر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت کرتے اور آپؑ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دینا سمجھتے کیونکہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں ان کا ہاتھ خدا ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔
پس اِن پہلوں کو جو رتبہ اور احترام بعد میں آنے والے لوگوں میں حاصل ہوا یہی آپ کا ہونے والا ہے۔ جس طرح مسلمان آج یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے فلاں فعل غلط کیا یا حضرت ابوبکرؓ یا حضرت عمرؓ یا حضرت عثمانؓ یا حضرت علیؓ نے فلاں بات غلط کہی۔ اور اگر ان کی کوئی غلطی بتائی بھی جاتی ہے تو اِس پر کئی طرح کے پردے ڈال کر۔ اِسی طرح اور بعینہٖ اسی طرح ایسا زمانہ آنے والا ہے جب کہ آپ میں سے بہتوں کا یہی ادب اور یہی احترام کیا جائے گا۔ اس وقت بڑے بڑے حاکموں کی قدر نہ ہو گی کہ یہ کہہ سکیں پہلے لوگوں نے فلاں فعل غلط کیا اور اگر کوئی کہے گا تو ساری رعایا اس کے خلاف کھڑی ہو جائے گی کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حواریوں یا ان کے دیکھنے والوں کی ہتک کرتے ہو! جسے ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی رائے صحیح ہو اور تمہاری غلط مگر باوجود اِس کے کسی میں جرأت نہ ہو گی کہ تمہاری رائے کو ردّ کر سکے۔ جب تمہارے فیصلوں کا ایسا اثر پڑنے والا ہے کہ گویا آزادی کا بڑے سے بڑا دعویٰ کرنے والے، دنیا کی فتح کا ارادہ رکھنے والے بلکہ دنیا کو فتح کر کے دکھا دینے والے ایک طرف تو دنیا کو فتح کر رہے ہوں گے مگر دوسری طرف ان میں اِتنی ہمت نہ ہو گی کہ تم لوگ جو مر کر سینکڑوں من مٹی کے نیچے دفن ہو گے تمہاری رائے کو ردّ کر سکیں۔ جب یہ حالت ہونی ہے تو سوچ لو کہ تمہیں کس قدر خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کر کے رائے دینی چاہئے اور کس قدر غور و فکر کے بعد کسی مسئلہ کے متعلق اپنا خیال ظاہرکرنا چاہئے۔ ‘‘(خطاب فرمودہ3؍اپریل1926ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 168تا171)
کس قسم کے نمائندگان کا انتخاب کیا جانا چاہیے
’’پس یہ ضروری ہے کہ اِس مقام کی اہمیت کو سمجھنے والے نمائندے ہونے چاہییں اور احمدی جماعتوں کو ایسے لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو واقعہ میں نمائندے کہلا سکیں۔ جو لوگ اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں گو وہ خود نمائندے منتخب ہو کر آئے ہیں مگر جماعتوں میں جاکر تحریک کریں کہ نمائندہ منتخب کرنے میں جماعتیں بہت احتیاط سے کام لیا کریں۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض جماعتوں میں سے ایک ایسے شخص کو نمائندہ منتخب کرکے بھیج دیا جاتا ہے جس کی آواز جماعت میں کوئی اثر نہیں رکھتی۔ اس کے متعلق محض یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس وقت فارغ کون ہے۔ پھر خواہ روزانہ مشوروں میں کبھی اس سے مشورہ نہ لیا جاتا ہو اور اس کی رائے کو کچھ وقعت نہ دی جاتی ہو محض اِس لئے کہ ہمیں اور کام ہیں اسے مجلس مشاورت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک جماعت کا امیر تو نہیں آتا اور کسی دوسرے کو بھیج دیتا ہے۔ ایسے لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح نہ صرف جماعت کے مشورہ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ خداتعالیٰ نے جو نظام مقرر کیا ہے اس کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک قوم نے اِس طرح ناقدری کی تھی جس کی اسے ایسی سزا ملی کہ پھر وہ اسے مٹا نہ سکی۔ وہ بنی اسرائیل کی قوم تھی۔ خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا اپنی قوم سے کہو وہ اپنے نمائندے بھیجے جنہیں میں اپنا کلام سنائوں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں یہ کہا تو انہوں نے کہہ دیا موسیٰ توجاہم نہیں جاتے۔ اِس پر خداتعالیٰ نے کہا اب میں انہیں کلام نہیں سنائوں گا اور ان کے بھائیوں میں سے نبی برپا کروں گا۔ ایسے لوگ جو سلسلہ کے مقام کا ادب و احترام نہیں سمجھتے، یہ نہیں جانتے کہ یہ خداتعالیٰ کا احسان ہے کہ کسی کو اِس مجلس میں نمائندہ بنایا جاتا ہے جو تمام دنیا کے حالات ڈھالنے والی ہے اور یہ خداتعالیٰ کا انہیں عزّت دینا ہے اور اتنی بڑی عزّت دینا ہے کہ اگر ہفت اقلیم کا بادشاہ بھی ہو تو وہ اس مجلس کی ممبری جسے آئندہ دنیا کو ڈھالنا ہے بہت بڑی عزّت سمجھے گا۔ پس احمدی جماعتوں کو نمائندوں کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہئے اور بہترین آدمی کو منتخب کرکے بھیجنا چاہئے۔ ‘‘(خطاب فرمودہ3؍اپریل1926ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ171تا172)
نمائندگانِ شوریٰ پر عائد ذمہ داری
’’مجھے افسوس ہے کہ یہاں کئی فیصلے کئے جاتے ہیں مگر گھر جا کر احباب انہیں بھول جاتے ہیں۔ آپ لوگوں میں سے کئی ایک نمائندے ایسے ہیں جو اِس سال پھر آئے ہیں۔ وہ اپنے دل سے پوچھیں کسی اَور کے متعلق نہیں اپنے نفس کے متعلق ہی سوال کریں، کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ان فیصلوں کے مطابق زندگی بسر کی جو گزشتہ سال مجلس مشاورت میں کئے گئے تھے؟ اور کیا انہوں نے اپنے اپنے مقام اور اپنی اپنی جماعت میں ان فیصلوں کو جاری کرنے کی کوشش کی اور اتنی کوشش کی جتنی کرنے کی ضرورت تھی۔ اگر نہیں کی تو میں پوچھتا ہوں اِس طرح جمع ہونے سے کیا حاصل۔ یہ اجتماع ایسا ہی سمجھا جائے گا جیسے چوہوں نے جمع ہو کر تجویز کی تھی کہ سب مل کر بلی کو پکڑ لیں گے لیکن جب بلی آئی تو سب بھاگ گئے۔ اگر ہم یہاں مجلس میں یہ کہہ جائیں کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے لیکن جب گھر جائیں تو سب کچھ بھلا دیں تو بتاؤ یہاں جمع ہونے کا کیا فائدہ۔
اب مَیں دوستوں سے کہوں گا جو کچھ پیچھے ہو چکا وہ تو ہو چکا اسے ہم واپس نہیں لاسکتے مگر خداتعالیٰ کہتا ہے جب بھی تم توبہ کرو مَیں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر ہم سے پہلے کوتاہی اور سستی ہوئی ہے تو آؤ آج سے سچے دل سے اقرار کریں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ بے شک کارکنوں کی بھی کوتاہی ہے کہ گزشتہ سال کی مجلس مشاورت کی رپورٹ اَب شائع کی ہے حالانکہ چاہئے تھا کہ مشاورت کے بعد پہلے مہینہ میں ہی شائع کر کے بھیج دیتے تاکہ نمائندوں کو وہ اقرار یاد آجاتے جو انھوں نے مجلس میں کئے تھے۔ ‘‘(خطاب فرمودہ6؍اپریل1928ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 271)
(جاری ہے)
٭…٭…٭