امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ (Dallas) امریکہ کی (آن لائن) ملاقات
ہمیں علم ہونا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی آمد کا مقصدکیا تھا اور آپ ﷺ پر قرآن کریم میں کیا نازل ہو اہے
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 13؍مارچ 2022ء کو ممبران مجلس خدام الاحمدیہ (Dallas) امریکہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 15 سے 25 سال تک کے ممبران مجلس خدام الاحمدیہ نے بیت الاکرام مسجدDallas (امریکہ) سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم (سورۃ المومنون کی ابتدائی 12آیات ) سے ہوا ۔ جس کے بعد حضور انور نے ان آیات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
حضور انور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ آپ نے آج بھی تلاوت کے لیے انہی آیات کا انتخاب کیا ہے جن کی گزشتہ روز تلاوت کی گئی تھی۔ اگر آپ کے اطفال اور خدام ان سب باتوں پر عمل کرنے والے ہوجائیں جن کا ان آیات میں ذکر ہےتو آپ کی مجلس خدام الاحمدیہ یو ایس اے دنیاکی سب سے نیک اور متقی اطفال اور خدام الاحمدیہ بن سکتی ہے۔ یہ حکم اور راہنمائی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے کہ جب اس پر عمل کیا جائے تو ہمیں دوسروں کے لیے نمونہ بنا سکتی ہے۔
بعد ازاں شاملین مجلس کو حضور انور کی خدمت میں سوالات پیش کرنے کا موقع ملا۔ جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ فلسطین کے احمدیوں سے آن لائن ملاقات کے دوران حضور انور نے فرمایا تھا کہ اگلے 20 سے 25 سال جماعت احمدیہ کی ترقی کے لیے نہایت اہم ہیں اس حوالہ سے احمدی مسلمان آئندہ سالوں میں جماعت کی ترقی کے پیش نظر اپنی ذمہ داری کیسے نبھا سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ آپ کی جماعت دنیا بھر میں پھیلے گی اور خدام کوبلکہ ہر فرد جو احمدی ہونے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متبع ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس کو بڑی محنت کرنی چاہیے کہ جب وقت آئے اوراگر ہم اس وقت زندہ ہوں، اگر ہم اس وقت موجود ہوں تو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان لوگوں کی راہنمائی کرنے والے ہوںجو ہمارے پاس کسی بھی قسم کی راہنمائی کے لیے آئیں ۔ اور اس کے لیے ہمیں دین کے بارے میں زیادہ سیکھنا ہوگا۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی آمد کا مقصدکیا تھا اور آپ ﷺ پر قرآن کریم میں کیا نازل ہو اہے۔ قرآن کریم میں کون سے احکامات بیان ہوئے ہیں جو ایک شخص کو حقیقی مسلمان بنانے کا ذریعہ ہیں ۔ اس لیے اگر ہم خود ہی ان چیزوں پر عمل پیرا نہیں اور ہمیں خود ہی علم نہیں کہ قرآن کریم میں کیا لکھا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے تو پھر ہم ان کی راہنمائی کیسے کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بدل رہی ہے۔ چند سال پہلے آپ کے سیاستدانوں، تھنک ٹینک اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ عالمی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تاہم میں ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ نہیں عالمی جنگ کا خدشہ ہے۔ آپ کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ وہ سبھی اس کا انکار اور تردید کرتے رہتے تھےلیکن اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جنگ کے بادل ہمارے سر پر چھائے ہوئے ہیں۔ خواہ یہ عالمی جنگ ہو یا نہ ہو تاہم لوگوں میں اب یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گیاہے کہ یہ دنیا کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ بالآخر لوگ اس بارہ میں بھی سوچنا شروع کردیں گے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اگر ہم اسلام اور احمدیت کا پیغام لوگوں تک پھیلا نے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں گےتب ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کو یہ احساس ہوگا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ مسلمانوں کو ہی قرآن کریم میں دیے گئے ہوں بلکہ دیگر تمام الٰہی کتب اور انبیاء نے اپنے ماننے والوں کویہ کہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور اخلاقی لحاظ سے اچھے ہوں، ان کے اعمال اچھے ہوں۔ مخلوق کے ساتھ ان کا اچھا اور رحمدلی کا سلوک ہو، لیکن تب آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے مذاہب اس زمانہ کے لیے تھے جب آپ کے پیغمبر نبوت کا دعویٰ کرتے تھے۔ لیکن آج خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کا زمانہ ہے۔ اور قرآنی تعلیم عالمگیر ہے۔ اب اگر اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں اور خد اکا قرب پانا چاہتے ہیں تو اسلام قبول کرلیں اور اسلامی تعلیم پر عمل کریں۔ حالات ایسے ہوں گے کہ لوگ اس بات کو سمجھنے لگیں گے۔ اور میں امید کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ لوگ آپ کی بات کو توجہ دیں گے۔ اور جب وہ آپ کی بات کو سننے لگ جائیں گے تب آپ کی ذمہ داری ہوگی کہ آپ انہیں سیدھی راہ دکھائیں۔ وہ آپ سے پوچھیں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کس طرح دعا مانگیں؟ ہم قرآن کریم اور اسلام کی حقیقی تعلیم پر کس طرح عمل کریں۔ تب ہمارے پاس قرآن کریم کا ان کی زبان میں ترجمہ موجود ہونا چاہیے۔ اس کام کو ہم کرتے آرہے ہیں۔ پس اس پیغام کو ہم نے پھیلانا ہے۔ اور اس وقت کے آنے سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اگر ہم یہ کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس وقت کی تیاری کر رہے ہیں۔
ایک خادم نے سوال کیاکہ کیا حضور انور کے ذہن میں احمدیت کی صداقت کے بارے میں کبھی کوئی شک پیدا ہوا ہے؟اگر ایسا ہوا ہے تو حضور نے ان شکوک کو کس طرح دور کیا؟
حضور انور نے فرمایا کہ خوش قسمتی سے میں ایک مذہبی ماحول میں پلا بڑھا ہوں۔ ہمارے بچپن میں مسجد میں اطفال الاحمدیہ کی کلاسز ہوا کرتی تھیں۔ وہاں سے ہم جان چکے تھے کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں۔ اور ہمیں یہ سکھایا گیا کہ آنحضورﷺ کی یہ ایک پیشگوئی ہے کہ آخری زمانہ میں اسلامی تعلیم کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ایک مجدد آئے گا جب لوگ اسے بھول چکے ہوں گے۔ یہ وہ بات ہے جو ہمیں بچپن کے شروع میں سکھائی گئی۔ پس مجھے کبھی بھی زندگی میں یہ بات ذہن میں نہیں آئی کہ احمدیت سچی نہیں۔ اگر میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے اور قادر مطلق ہے اور آنحضرتﷺ اس کے رسول ہیں اور اسلام ہی صحیح دین ہے تو مجھے اس بات پر بھی ایمان لانا ہوگا کہ آنحضورﷺ کی تمام پیشگوئیاں بھی سچی ہیں اور آئندہ وقت میں بھی سچی ثابت ہوں گی۔ یہ وجہ ہے کہ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے احمدیت کی صداقت پر کبھی کوئی شک نہیں تھا۔ پس اگر آپ اپنے علم کو بڑھائیں گے، قرآن کریم کی تلاوت کریں گے اور سورۃ الجمعہ جو 62ویں سورت ہے اس کی پہلی پانچ چھ آیات پڑھیں گے اور ان کا ترجمہ اور ان کی تشریح اور تفسیر پڑھیں گےتب ضرور آپ کا ذہن اس بات پر غور کرے گا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی آنحضورﷺ نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر کی۔ تب آپ بات سمجھ جائیں گے۔ پھر اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں گے، آپ علیہ السلام کے دعویٰ کو پڑھیں گے اور امت مسلمہ کی حالت کو دیکھیں گےتو آپ کے ذہن میں یہ بات کبھی نہیں آئے گی کہ احمدیت غلط ہے۔ اگر آپ ایمان رکھتے ہیں کہ ا سلام سچا ہے اور آنحضور ﷺ کی تمام پیشگوئیاں سچی ہیں اور آئندہ وقت میں بھی سچی ثابت ہوں گی تو آپ کے ذہن میں کبھی ایسا شک پیدا نہیں ہوگا۔ اس کے لیے آپ قرآن کریم کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ سے پانچ وقت نماز میں یہ دعا کریں کہ اگر کوئی شک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دور کردے۔ اور آپ کتب کا مطالعہ کریں، خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا۔ اس حوالہ سے حقیقۃ الوحی ایک اچھی کتاب ہے۔
حضور انور نے اس خادم سے استفسار فرمایا کہ کیا وہ یونیورسٹی میں یا کالج میں پڑھتے ہیں۔ جس پر اس خادم نے عرض کی کہ وہ کام کرتا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ پھر آپ دیباچہ تفسیر القرآن پڑھ سکتے ہیں جو حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ہے۔ اس سے آپ اسلام اور احمدیت کی صداقت کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر اگر آپ آخری پانچ صفحے پڑھیں گے تو وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور احمدیت کی صداقت کا ذکر ہے۔ اور ساتھ میں دعوت الامیر بھی ایک اچھی کتاب ہے۔ اگر آپ اسے پڑھیں گے تو اس سے بھی آپ کو احمدیت کی صداقت کا سچا تصو ر ملے گا۔
ایک اور خادم نے سوال کیاکہ ہم اپنی دینی اقدار اور معاشرے میں اپنے ساتھیوں کےساتھ قریبی اور اچھے تعلقات قائم رکھنے میں توازن کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، میں یہ یقین نہیں کر سکتا کہ سو فیصد طلباء برائیوں میں ملوث ہیں جیساکہ نشہ، شراب نوشی وغیرہ وغیرہ۔ غیر مسلم طلباء میں کئی ایسے بھی ہوں گے جو اچھی طبیعت کےمالک ہیں۔ آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر آپ کے ساتھی یا دوسرے طلباء اپنی پڑھائی میں اچھے ہیں تو پھر آپ کو ان کے ساتھ دوستیاں کرنی چاہئیںاورآپ ان سے اپنی پڑھائی کے متعلق مختلف مضامین پر بات چیت کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ کہیں کہ چلو کلب میں چلتے ہیں یا تھوڑی سی شراب پی لیتے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ نہیں، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں ایسا کچھ نہیں کر نا چاہتا۔ اگر وہ آپ کو برے کاموں میں ملوث ہونے کو کہیں یا لڑکیوں کے ساتھ غلط قسم کے تعلقات رکھنے کو کہیں یا کسی بھی قسم کی برائی کی طرف ترغیب دلائیں تو آپ انہیں کہہ دیں کہ نہیں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچا کر رکھتا ہوں۔ لیکن جہاں تک آپ کی پڑھائی کا تعلق ہے تو آپ انہیں اپنا دوست بنا سکتے ہیں۔ آپ لیکچر رومز میں، لائبریری میں کامن رومز میں، عام گفت و شنید میں اور کھیل کے میدان میں ان کی صحبت میں رہ سکتے ہیں۔ آپ کو اپنے کردار کے لحاظ سے اس قدر طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ آپ پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ بلکہ آپ کو ان پر ایسے طریق پر اثر انداز ہونا چاہیے کہ آپ کو دیکھنے سے وہ اپنی برائیوں کو چھوڑ دیں اور شراب نوشی چھوڑ دیں۔ آپ ان کو بتا سکتے ہیں کہ شراب نوشی کے نقصانات ہیں اس لیے ہمارا مذہب کہتا ہے کہ شراب نوشی نہیں کرنی چاہیے۔ پھر دوسری اخلاقی بدیاں ہیں جن کے متعلق آپ کو انہیں بتانا چاہیے کہ ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں۔ تو ایک حقیقی احمدی مسلمان طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ اب آپ کا کام ہے۔ آپ کو انہیں بتانا چاہیے کہ ہمیں ان سب باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ آپ ان سے اثر انداز ہوں آپ کو ان پر اثر انداز ہونا چاہیے اور انہیں اپنے زیر اثر لانا چاہیے تاکہ وہ اپنے آپ کو تبدیل کریں۔ آپ کو دنیا کی اصلاح کے لیے پیدا کیا گیاہےنہ اس لیے کہ آپ دنیاوی چیزوں میں ملوث ہوجائیں۔ اس کے لیے استقلال اور اولوالعزمی کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے تاکہ آپ معاشرے کی برائیوں سے محفوظ رہیں۔ لیکن کبھی بھی کسی طالب علم سے لڑنے کی کوشش نہیں کرنی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ آپ اپنی صحبت میں مختلف طبیعت کے لوگوں کو اچھی مختلف عادتوں کے ساتھ دیکھیں گےجب بھی وہ کوئی غلط کام کر رہے ہوں آپ وہاں سے سلام کہہ کر چلے جائیں۔ جب وہ کوئی بات کریں اور اچھے کام کر رہے ہوں پھر ان میں شامل ہو جائیں۔ یہ قرآن کریم کا ارشاد ہے۔ آپ کہیں کہ اب تم کسی برے کام میں ملوث ہو اس لیے تم پر سلامتی ہو میں تمہارے لیے دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے بچا لے، میں جا رہاہوں۔ جب تم نارمل ہو جاؤ گے تو میں واپس آجاؤں گا۔ تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔
ایک اور خادم نے سوال کیا کہ حضور انور کی ایسی برائیوں کو چھوڑنے کے بارے میں کیا نصیحت ہے جن کی عادت پڑ گئی ہو؟
حضور انور نے فرمایا کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہیں استغفار کرنا چاہیے۔ جہاں یہ آپ کو بچاتا ہے اور اپنے سابقہ گناہوں سے اللہ کی بخشش کے حصول کا ذریعہ ہے وہاں یہ آپ کو آئندہ گناہوں سے بھی بچاتا ہے۔ اس لیے استغفار کرنا چاہیے اور آپ کو اس کا مطلب آنا چاہیے۔ اگر آپ اس کو مستقل مزاجی سے پڑھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یاد کر رہے ہیں اور اپنی پنجگانہ نمازوں میں آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو ان چیزوں سے بچائے، پھر اللہ تعالیٰ آپ کو بچائے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انٹر نیٹ اور ٹیلی وژن پر کبھی غیر اخلاقی پروگرام نہ دیکھیں جو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ چند اچھی ویب سائٹس ہیں لیکن ایسی ویب سائٹس یا لنکس کو کبھی نہ کھولیں جو آپ کو برائی کی طرف لے جانے والی ہوں۔ (حضور انور نے اس خادم سے اس کی عمر پوچھی جس پر اس نے بتایا کہ وہ 19 سال کا ہے)۔
حضور انور نے فرمایا کہ تو اس عمر میں آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا دینی علم بڑھانے کے لیے کچھ وقت دیں اور اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ آپ نے کوئی نماز نہیں چھوڑنی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، خاص طور پر سجدہ کی حالت میں یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو معاشرے کی تمام برائیوں سے بچائے۔ تو صرف اللہ ہی ہے جو ہماری مدد کر سکتا ہے۔ ورنہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہ ایسا ہے کہ اگر ہم تھوڑا سا بھی relaxکر جائیں تو یہ ہمارے مذہب اور زندگی کو برباد کر کے رکھ دے گا اور ہم کسی جگہ کے نہیں رہیں گے۔ اس لیے ہمیں بہت محتاط ہونا پڑے گا۔ اپنے آپ کو شیطان سے بچانا بہت مشکل ہے، اور اللہ کی مدد کے بغیر اور قرآنی احکامات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانے بغیر اور دیگر دینی کتب کے مطالعہ کے بغیر آپ اپنے آپ کونہیں بچا سکتے۔ اس لیے آپ کو کچھ وقت اپنے دینی مطالعہ کےلیے دینا چاہیے اوریہ آپ کو ایمان میں بڑھانے والا بھی ہوگا۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ جب حضور ہمارے خطوط موصول کرتے ہیں تو کیا محسوس کرتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا بات یہ ہے کہ اگر دوران سال آپ کا صرف ایک ہی خط مجھے ملے تو میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنا فضل فرمائے جس نے مجھے یہ خط لکھا ہے۔ اور بعض وہ افراد جو مجھے باقاعدگی سے مہینہ میں ایک مرتبہ خط لکھتے ہیں ان افراد کے ساتھ ایک ذاتی رابطہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ میں بھی انسان ہی ہوں تو انسانی فطرت ہے کہ ایسے مختلف لوگوں کے لیے مختلف احساسات ہوتے ہیں۔ بہرحال خواہ آپ سال کے دوران ایک مرتبہ لکھیں یا مہینہ میں ایک مرتبہ لکھیں، میں ان لوگوں کے لیے دعا کرتا ہوں جو مجھے خط لکھتے ہیں بلکہ ان کے لیے بھی جو مجھے نہیں لکھتے۔ لیکن وہ جن کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ان کے ساتھ ایک ذاتی را بطہ ہے۔ ان کے لیے ذاتی احساسات اور جذبات ہیں۔ تو جب آپ اپنے دوست یا بھائی یا عزیز کا کوئی خط موصول کرتے ہیں تو اسی طرح میرے بھی جذبات ہوتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ