نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 7)
علوہمتی سے غور کیا جانا چاہیے
’’ہمارے ارادوں میں بلندی ہو پستی نہ ہو ہمارے ارادوں کو خداتعالیٰ نے پورا کرنا ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ چاہے ہماری جانیں چلی جائیں ہم پیچھے قدم نہیں ہٹائیں گے تو ضرور خداتعالیٰ ہماری مدد کرے گا۔ ہم نے کئی نظارے خداتعالیٰ کی تائید کے دیکھے ہیں۔ ایسی حالت میں جب بظاہر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی خداتعالیٰ نے کامیابی کے سامان پیدا کر دیئے ہیں۔ پس جب ہمارے ذاتی معاملات میں خداتعالیٰ ایسے نشان دکھاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسلام کے لئے نہ دکھائے۔
ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں تجویز ہوئی کہ چونکہ قحط ہے اس لئے سالانہ جلسہ کے دن تین کی بجائے دو کر دیئے جائیں۔ اس وقت مَیں لنگرخانہ کا منتظم تھا۔ دِنوں میں کمی کرنا میرا کام نہ تھا یہ مجلس نے فیصلہ کیا تھا۔ مگر حضرت خلیفہ اول کا جس طرح طریق تھاکہ جس کاقصور ہوتا اسے مخاطب نہ کرتے دوسرے کو مخاطب کر کے وہ بات کہہ دیتے۔ آپ نے مجھے خط لکھا۔ اس میں عربی کا ایک مصرعہ لکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ خداسے یہ خوف مت کرو کہ وہ عاملوں کے عمل کا اجر کم دے گا۔ پس اگر خداتعالیٰ پر یقین ہو اور جو کچھ پاس ہو اسے قربان کر دیا جائے تو پھر جس قدر زائد کی ضرورت ہو وہ خود پوری کر دے گا۔ ہمیں دون ہمتی سے نہیں بلکہ علوِّ ہمتی سے ان مسائل پر غور کرنا چاہئے جو ہمارے سامنے پیش ہوں۔‘‘(خطاب فرمودہ6؍اپریل1928ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 272تا273)
مشورہ دیتے وقت وسعتِ حوصلہ اور محبت و الفت مدِنظر رہے
’’ محبت اور الفت کے رنگ میں غور کرنا چاہئے۔ بسااوقات ایسا ہو تا ہے کہ ایک شخص کوئی بات بیان کرتا ہے اور دوسرا اسے اپنے خلاف سمجھ لیتاہے۔ مشورہ میں تبھی فائدہ ہو سکتا ہے جب وسعتِ حوصلہ سے کام لیا جائے اور ہر ایک کی بات کو ٹھنڈے دل سے سناجائے۔ جب اِسے چھوڑ دیا جائے تو تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پس کبھی یہ مت سمجھو کہ ہماری بات غالب ہو کر رہے بلکہ ہر وقت یہی سمجھو کہ خدا کی بات غالب رہے۔‘‘(خطاب فرمودہ6؍اپریل1928ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 273)
وقت کا ضیاع نہ ہو
’’دوست اِس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ وقت ضائع نہ ہو۔ بعض اوقات ایک ہی بات ہوتی ہے جسے دوست دہراتے جاتے ہیں۔ اگر اس بات کی تائید کرنی ہو جو پیش ہو تو یہ ووٹ طلب کرنے کے وقت کی جاسکتی ہے۔ ہاں اگر کوئی نئی دلیل پیش کر نی ہو یا کوئی بات رہ گئی ہو وہ بیان کرنی ہو تو بیان کی جاسکتی ہے۔ ورنہ پہلی بات کو دہرانا وقت ضائع کرنا ہے۔ پس اس بات کو دوست یاد رکھیں کہ جب نئی بات پیش کرنی ہو تب کھڑے ہوں پہلی بات کو دہرانے کے لئے کھڑے نہ ہوں۔‘‘( خطاب فرمودہ 6؍اپریل1928ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 273)
باتیں غور سے سننی چاہئیں
’’ایک دوسرے کی باتوں کو غور اور توجہ سے سننا چاہئے۔ دیکھاگیا ہے کہ بعض دوست دورانِ مشاورت سو بھی جاتے ہیں یا ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اور اس پارلیمنٹ میں جو صدر پارلیمنٹ کہلاتی ہے دیکھا گیا ہے کہ ممبر تالیاں بجاتے، دانت نکالتے اور منہ چِڑاتے ہیں۔ مگر وہ دنیاکی پارلیمنٹوں کی ماں ہے۔ آپ کی مجلس دینی مجلسوں کی ماں ہے اور ایسی مجلس میں شامل ہونے والوں کے لئے حکم ہے فَاسْتَمِعوْا لَهٗ کہ سنو۔ پس سوائے ایسی بات کے کہ مثلاً کوئی باہر سے آئے اور پوچھ لے کہ کیا بات ہورہی ہے یا کسی کو کوئی ہدایت دینے کے لئے بات کی جاسکتی ہے مگر یو ں ہی باتیں کرنا یا آپس میں باتیں کرنایہ درست نہیں اِس سے بچنا چاہئے۔‘‘(خطاب فرمودہ6؍اپریل1928ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 273تا274)
کسی کی طرف داری کرتے ہوئے رائے نہ دی جائے
’’یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ کسی کی خاطر کوئی رائے نہ دی جائے۔ مومن کا قول بازار کا سَودا نہیں جو لحاظ سے یا روپیہ سے خریدا جا سکے یا مومن بازاری عورت نہیں جسے ہر ایک خرید سکے بلکہ وہ خدا کے لئے رائے قائم کرتا اور اس کے لئے رائے دیتا ہے، وہ کسی عزیز سے عزیز کے لئے رائے نہیں دیتا۔ وہ نہ کسی کی محبت کی وجہ سے اپنی رائے دیتا ہے اور نہ کسی بڑے کی بڑائی سے ڈرتا ہے وہ جو بات حق سمجھتا ہے وہی بیان کرتا ہے۔ ہاں یہ احساس ضرور ہو کہ کسی دوسرے پر حملہ نہ ہو، کسی کی دل شِکنی نہ ہو، کسی بات پر ضد نہ ہو کہ اپنی ہی بات پر زور دیتا رہے۔ اوّل تو یہ سمجھنا چاہئے کہ دوسروں کی رائے بھی درست ہو سکتی ہے۔ لیکن اپنی رائے کو درست سمجھے تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر اس کی رائے نہ تسلیم کی گئی تو دنیا تباہ نہ ہو جائے گی اور اگر اس کی رائے کے خلاف کرنے سے دنیا تباہ بھی ہو سکتی ہو تو پھر خداتعالیٰ اس کی اصلاح کردے گا اور اس بِگڑی کو بنا دے گا۔‘‘( خطاب فرمودہ 6؍اپریل1928ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 274)
مشاورت کی کارروائی میں زیادہ سے زیادہ وقت بیٹھا جائے
’’ یہ بات بھی مدّنظر رہے کہ زیادہ سے زیادہ مجلسِ شوریٰ میں حصہ لیا جائے۔ ہمارا کام اتنا لمبا ہوتا ہے کہ سارے آدمی اِتنے عرصہ تک نہیں بیٹھ سکتے۔ سوائے میرے کہ مجھے بیٹھنا پڑتا ہے۔ بعض کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں، بعض کو کھانے کی ضرورت پیش آتی ہے، بعض کو کوئی اور حاجت لاحق ہو جاتی ہے مگر باوجود اس کے دوستوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہئے۔ اگر کسی ضرورت کے لئے جانا پڑے تو اس کے لئے بہت کم وقت خرچ کرنا چاہئے اور پھر جلد واپس آجانا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں تو اس طرح ہوتا ہے کہ جب تک دلچسپی ہو ممبر بیٹھے رہتے ہیں اور جب کوئی ایسا کام ہو جس سے دلچسپی نہ ہو اٹھ کر چلے جاتے ہیں مگر ہمیں پورا وقت دینا چاہئے کیونکہ ہماری کوئی بڑی سے بڑی ضرورت دین کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے مقابلہ میں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔‘‘(خطاب فرمودہ6؍اپریل1928ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 274)
مجلس مشاورت کی ممبری کا اعزاز
’’ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ ہماری مجلس شوریٰ کی عزّت ان بنچوں اور کرسیوں کی وجہ سے نہیں ہے جو یہاں بِچھی ہیں بلکہ عزت اس مقام کی وجہ سے ہے جو خداتعالیٰ کے نزدیک اسے حاصل ہے۔ بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت اس لباس کی وجہ سے تھی جو آپ پہنتے تھے۔ آپؐ کی عزت اس مرتبہ کی وجہ سے تھی جو خداتعالیٰ نے آپؐ کو دیا تھا۔ اِسی طرح آج بے شک ہماری یہ مجلس شوریٰ دنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹوں کے ممبروں کو وہ درجہ حاصل نہ ہو گا جو اِس کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہو گا کیونکہ اِس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمنٹیں آئیں گی۔ پس اس مجلس کی ممبری بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اِس پر فخر کرتا۔ اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اِس پر فخر کریں گے پس ضرورت ہے کہ جماعت اس کی اہمیت کو اور زیادہ محسوس کرے اور ضرورت ہے کہ سال میں دو دفعہ ہو تاکہ زیادہ مسائل پر غور کیا جا سکے۔‘‘(خطاب فرمودہ6؍اپریل1928ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 275تا276)
مجلس مشاورت میں وقار اور خشیت اللہ سے بات کی جائے
’’احباب کو اِس بات کی عادت ڈالنی چاہئے کہ اس مجلس مشاورت میں زیادہ وقار اور خشیت اللہ سے بات کریں مگر دیکھا گیا ہےبعض لوگوں نے یہ مدنظر نہیں رکھا کہ میں فیصلہ کر چکا ہوں۔ اور کئی نے کہا ہے کہ فلاں فیصلہ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ تو دنیوی حکومتوں میں بھی ہوتا ہے کہ جو فیصلہ پریذیڈنٹ کر دے پھر اس کے خلاف نہیں کہا جاتا حالانکہ ان لوگوں کو پریذیڈنٹ سے کوئی اخلاص نہیں ہوتا، کوئی مذہبی تعلق نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات دل میں اسے پا جی کہہ رہے ہوتے ہیں مگر اس کے فیصلہ کا لحاظ رکھتے ہیں۔ ہماری جماعت کے لوگ اخلاص رکھتے ہیں مگر آدابِ مجلس سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اِس قسم کی باتیں اِن سے سرزد ہو جاتی ہیں۔
پچھلی دفعہ کی مجلس مشاورت میں ایسا نہیں ہؤا مگر اب کے محسوس کیا گیا ہے کہ بعض نے مجھے بھی ناظروں میں سے ایک ناظر سمجھا ہے حالانکہ خلیفہ کسی پارٹی کا نہیں ہوتا بلکہ سب کا ہوتا ہے اور سب سے اس کا یکساں تعلق ہوتا ہے۔ اسے کسی محکمہ سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ سب سے اور سب افراد سے تعلق ہوتا ہے اس لئے ان باتوں میں شریعت کے آداب کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں میں وعظ کا سلسلہ شروع کیا مگر ان کی مجلس میں شور ہؤا تو آپ نے فرمایا اب ہم وعظ نہیں کریں گے کیونکہ عورتوں نے ادب ملحوظ نہیں رکھا۔ پس خلافت کے آداب اور مجلس کے آداب مد نظر رکھنے چاہئیں۔‘‘(خطاب فرمودہ8؍اپریل1928ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 310)
کثرتِ رائے کا احترام کیا جانا چاہئے
’’اگر کوئی صاحب دیکھیں کہ باقی لوگ ایک بات کو قبول کر رہے ہیں تو کوئی حرج نہیں اسے اس بات سے اتفاق نہ ہو تو بھی خاموش رہے۔ اس کی رائے کے خلاف ہونے سے آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ مجھے اِس دفعہ کی مجلس مشاورت کی چار پانچ باتوں سے اختلاف تھا مگر میں نے سوائے ایک آدھ کے باقیوں کو اِس لئے بدلا نہیں کہ معمولی باتیں ہیں، اِن سے کسی خاص نقصان کا خطرہ نہیں ہے اور کثرتِ رائے نے جو مشورہ دیا اسی کو منظور کر لیا۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ضروری نہیں ہماری رائے ہی صحیح ہو یہ امکان بھی ہے کہ کثرتِ رائے صحیح ہو اور بالعموم ہم دیکھتے ہیں مومنوں کی کثرتِ رائے صحیح ہوتی ہے۔ اس لئے اگر دوسری رائے کی کثرت ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اپنی رائے پر ہی زور دیا جائے۔ کثرتِ رائے کا احترام کرنا چاہئے۔‘‘(خطاب فرمودہ8؍اپریل1928ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 311)
(جاری ہے)
٭…٭…٭