یادِ رفتگاں

حضرت بابو اکبر علی صاحب رضی اللہ عنہ آف سٹار ہوزری قادیان (صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

(ندیم احمد کرامت۔ لندن)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے عشق و وفا کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور فرستادوں کا زمانہ پاتے ہیں۔ یہ نمونے دکھانے کا موقع ہم میں سے بعض کے باپ دادا کو بھی ملا، آباءو اجداد کو بھی ملا، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وقت پایا اور اپنی محبت اور پیار اور عقیدت اور احترام کا اظہار براہِ راست آپ سے کیا۔ اور پھر آپؑ کے پیار اور شفقت سے بھی حصہ لینے والے بنے۔ …

یہ یاد رہے کہ اُن بزرگوں کے کس قدر ہم پر احسان ہیں۔ ورنہ شاید آج بہت سوں میں اتنی جرأت نہ ہوتی کہ حق کو اس طرح قبول کر لیتے جس جرأت سے اُن بزرگوں نے قبول کیا۔ پس ان بزرگوں کی نسلوں کو بہت زیادہ اپنے بزرگوں کے لئے دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور پھر ساتھ ہی اپنے ایمان کی ترقی اور استقامت کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ نیز ان بزرگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو تعلق تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے، اُن کے نمونوں پر، ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍دسمبر2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍جنوری2011ءصفحہ5تا10)

اس ارشاد کی روشنی میں خاکساراپنے پڑدادا حضرت بابو اکبر علی صاحبؓ کی زندگی کے بعض شمائل کا ذکر کرتا ہے۔

حضرت بابو اکبر علی صاحبؓ اگست 1880ء میں ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں اوپل ساہنسی میں پیدا ہوئے جو ایمن آباد موڑ کے جنوب مشرق میں کامو نکی اور گوجرانوالہ کے درمیان واقع ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے اور آپ کی قوم راجپوت راٹھور تھی۔ آپ کا خاندان مذہبی رجحان کا حامل تھا۔ آپ کے دادا چودھری محمد یار صاحب، والد چودھری کریم بخش صاحب اور والدہ بھاگن بی بی صاحبہ سب دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ 5 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت

آپ کے صاحبزادے چودھری محمد ضیاء اللہ صاحب بتاتے تھے کہ ان کے دادا یعنی کریم بخش صاحب نے اپنے گاؤں اوپل ساہنسی میں ایک بڑی مسجد بنا رکھی تھی جہاں بچوں اور بڑوں کی تعلیم و تربیت کا کام ہوتا تھا اور اکثر مباحثے اور مناظرے وغیرہ منعقد کیے جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر قادیان سے آئے ہوئے ایک احمدی مبلغ کے ساتھ مناظرے کا اہتمام کیا گیا جسے سن کر اکبر علی بہت متاثر ہوئے اور اُن سے مزید احمدیہ لٹریچر حاصل کر کے پڑھا، جس سے انہیں مکمل شرح صدر ہو گیا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی مسیح موعود و مہدی موعود ہیں جن کی آمد کی دنیا منتظر تھی اور انہوں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ کے والد تک جب اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے آپ کو بلا کر شدید ناراضگی اور غم و غصے کا اظہار کیا اور آپ کو اپنا فیصلہ بدلنے پر ہر طرح مجبور کیا اور کہا کہ’’ اگر تم اپنی بات سے نہ ہٹے تو میں تم سے قطع تعلق کر کے تمہیں جائیداد سے عاق کر دوں گا۔‘‘آج کے حساب میں ان کی کروڑوں کی اراضی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جائیداد سے ہاتھ دھونا کوئی بھی نوجوان برداشت نہیں کر سکتا۔ آپ نے بڑے تحمل سے اپنے باپ کی باتیں سنیں اور مختلف دلائل سے انہیں راہ راست دکھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ تو صداقت قبول کرنے پر تیار ہوئے اور نہ ہی آپ کو اپنے فیصلے سے ہٹا سکے۔ اور جب کچھ نہ بن پڑا تو انہوں نے بیٹے کو احمدی ہونے سے بچانے کے لیے احمدی مبلغ کے ساتھ ایک اور فیصلہ کن مناظرے کا اہتمام کیا۔ جس کے نتیجے میں آپ کا ایمان مزید پختہ ہو گیا۔ مناظرے کے معاً بعد کریم بخش صاحب نے بیٹے پر اس کا اثر دیکھتے ہوئے جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے سخت الفاظ استعمال کرنے شروع کر دیے۔ اس پر آپ نے کہا کہ چودھری صاحب میں آپ کا بیٹا ہوں آپ جو مرضی سخت بات مجھے کہہ لیں اور جتنی مرضی چاہیں مجھے جوتیاں مار لیں میں اُف تک نہ کروں گا، مگر حضرت مرزا صاحبؑ کے لیے سخت الفاظ استعمال کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔ یہ سن کر ان کے والد نے آخری حر بے کے طور پر انہیں یا تو جماعت کا خیال چھوڑنے یا گاؤں چھوڑ کر جانے کا حکم دیا۔ ان کا خیال تھا کہ عیش و آرام کی زندگی چھن جانے اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے کا خوف انہیں احمدیت قبول کرنے سے باز رکھے گا۔ مگر آپ والد کی بات سن کر انہی قدموں سے بغیر کوئی زادِ راہ لیے گاؤں چھوڑ کر چل دیے۔

آسمانی تحریکات پر لبیک کہنے کی سعادت پانے والے انسانوں کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، صد ہا روکیں پیدا ہوتی ہیں، مگر ان کا عزمِ صمیم انہیں گوہر مراد پانے میں کامیاب کر دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: وَالَّذِیۡنَ جَاھَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡد ِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) ترجمہ: ا ور وہ لوگ جو ہمارے بارہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے۔ چنانچہ آپ کو بیعت کرنے کی توفیق ملی اور آپ کی تمام زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے دینی و دنیاوی ترقیات عطا فرمائیں۔ بیعتوں کے ریکارڈ سے پتا لگتا ہے کہ بیعت کے وقت آپ کی عمر لگ بھگ 26سال تھی، چنانچہ ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم میں قادیان کے صحابہ کی فہرست میں صفحہ 49پر نمبر شمار 297پر درج ہے:

’’بابو اکبر علی صاحب ریٹائرڈ ورک انسپکٹر ریلویز۔ متوطن اپل ساہنسی ضلع گوجرانوالہ حال دارالعلوم قادیان۔ سنِ بیعت 1906ء یا 1907ء۔ سنِ زیارت 1906ء یا 1907ء‘‘

اسی طرح جناب شیخ محمود احمد صاحب عرؔفانی ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان نے اپنی کتاب ’’مرکز احمدیت قادیان‘‘ کے صفحہ337 پر قادیان میں رہائش پذیر چیدہ چیدہ اصحاب مسیح موعودؑ کے اسما اور ان کا سن بیعت ایک لسٹ کی صورت میں تحریر کیا ہے، نمبر شمار 97 پر درج ہے: ’’بابو اکبر علی صاحب 1906ء‘‘

عبرت ناک انجام

بیعت کرنے کے بعد بھی آپ اپنے والد کی وفات تک انہیں احمدیت کی سچائی دکھا نے کی کوشش کرتے رہے جس کا ذکر رجسٹر روایات جلد 7صفحہ 259پر یوں درج ہے: ’’حضرت جناب بابو اکبر علی صاحبؓ ریٹائرڈ انسپکٹر آف ورکس، اکبر منزل حال مہاجر قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق اپنی ایک ملاقات روایت بیان کرتے ہیں کہ حضورؑ نے فرمایا کہ ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ آپ اور چھٹی لے لیں اور یہاں ہمارے پاس کچھ عرصہ ٹھہریں۔ اس کے بعد میری ملازمت کے حالات دریافت فرماتے رہے۔ کیا تنخواہ ملتی ہے؟ کیا کام کرنا پڑتا ہے؟ حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی دریافت فرمائیں گویا حضورؑ میرے حالات سے پورے طور پر واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

الغرض میں وہ کتاب (حقیقۃ الوحی) لے کر گیا اور اپنے والد صاحب کو پڑھنے کے لئے دی۔ وہ کہنے لگے کہ میں تو اس گندی کتاب کو (معاذاللہ ) ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ جس پر میں نے حضرت اقدسؑ کے ارشاد کے مطابق وہ سب کچھ عرض کر دیا۔ آخر میرے والد صاحب نے کتاب لے کر چند اوراق ادھر اُدھر سے پڑھے۔ پھر وہ کتاب ہمارے گاؤں کے ایک نوجوان مولوی کو جسے ایک اور مولوی ملازم رکھ کر پڑھواتا تھا، پڑھنے کو دی۔ اس بد قسمت نوجوان مولوی نے کتاب کو پڑھ کر والد صاحب سے کہا کہ یہ کتاب تو ایسی ہے جیسا کہ حلوہ میں زہر۔ خدا کی شان کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُسے اسی رنگ میں زہر پلا دیا۔ یعنی ایک زہریلے سانپ نے اُسے کاٹا اور وہ دوسرے دن راہی ملک عدم ہو گیا۔‘‘(رجسٹر روایات جلد 7صفحہ259 بحوالہ الفضل آن لائن 16؍جنوری 2021ء)

انسپکٹر آف ورکس انڈین ریل روڈ

آپ ریلوے سول انجینئرنگ کے انسپکٹر آف ورکس کے سرکاری عہدے پر لمبے عرصے تک فائز رہے۔ آپ کے صاحبزادے کرنل محمد عطاء اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اُن کے والد ایک کنسٹرکشن انجینئر تھے جو انڈین ریل روڈ کے لیے کام کرتے تھے جس کے لیے انہیں دور دراز کے ان علاقوں میں رہنا پڑتا تھا جہاں نئی ریلوے لائنیں بچھائی جاتی تھیں اور ریلوے کے پل وغیرہ تعمیر ہوتے تھے۔ کبھی جنگلات میں تو کبھی صحراؤں میں، کبھی دریاؤں کے کنارے اور کبھی ندیوں کے۔ آپ جہاں بھی رہے گھر کا ماحول بہت سادہ اور پاکیزہ رہا۔ آپ کا معمول تھا کہ روزانہ صبح جلدی اٹھ کر آپ فجر کی نماز با جماعت پڑھاتے، تلاوت قرآن کریم کرتے اور پھر بچوں کو قرآن کریم کا سبق دیتے تھے۔ بقیہ تمام دن سب اپنے ا پنے کاموں میں مشغول رہتے مگر پنجوقتہ با جماعت نمازوں کا خاص اہتمام کرتے۔ والد صاحب کو اردو اور فارسی کے بےشمار اشعار زبانی یاد تھے خاص کر حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام بکثرت پڑھتے تھے۔ اکثر ایسے مقامات پر تعیناتی ہوتی جہاں دور دراز تک کسی ڈاکٹر کا ملنا محال تھا۔ چنانچہ بہت سی ضروری دوائیں اور طب سے متعلق کتب کا ایک ذخیرہ ان کے ساتھ ہوتا تھا جس سے نہ صرف گھر میں ہونے والی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج کر لیتے تھے بلکہ ہمسایوں اور دیگر ضرورتمندوں کی مدد بھی بڑی خندہ پیشانی سے کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شفا ہو جاتی۔ (ماخوذ از Citizen of Two Worlds مؤلفہ کرنل محمد عطاء اللہ صاحب)

اس تمام عرصے کے دوران جہاں جہاں آپ رہے خدمت دین اور تبلیغِ دین میں مصروف رہے۔ جس کا تذکرہ جماعتی کتب و اخبارات میں جا بجا ملتا ہے، تحدیثِ نعمت کے طور پر چند کا تذکرہ کروں گا۔

1919ء میں جب آپ روہڑی میں متعین تھے تو وہاں آپ کو جماعت قائم کرنے کی توفیق ملی۔ چنانچہ سندھ کے احمدیوں کی اطلاع کے لیے جناب میر غلام حیدر خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ہمارے چند بھائیوں نے بمقام روہری ضلع سکھر انجمن احمدیہ قائم کی ہے…چونکہ سندھ میں بہت سے ایسے احباب بھی ہوں گے جن سے نہ تو ہمارا تعارف ہے اور نہ ہی ان کا پتہ معلوم ہے۔ اس لئے مہربانی فرما کر یا خود آ کر ملاقات کریں یا اپنا پتہ سیکرٹری صاحب انجمن احمدیہ روہری کو لکھ بھیجیں۔ خط و کتابت اس پتہ پر کریں: اسٹیشن روہڑی۔ ضلع سکھر۔ بنگلہ نمبر ۵۔ بخدمت جناب بابو اکبر علی صاحب انسپکٹر ورکس ریلوے۔‘‘(الفضل قادیان 13؍ستمبر1919ء صفحہ 2)

حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ ناظم جائیداد اور پریذیڈنٹ ٹاؤن کمیٹی قادیان، جو آپ کے سمدھی بھی تھے، لکھتے ہیں: ’’بابو صاحب مرحوم کی ایمانی حالت اور دعاؤں پر یقین کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ جب وہ روہڑی [میں] انسپکٹر آف ورکس تھے تو ان کے ملنے والوں میں سےایک شخص کو ڈبل نمو نیا ہو گیا۔ بابو صاحب اس کی عیادت کو گئے۔ تو گھر والے کہتے تھے کہ ہم اس کو فلاں پیر کے پاس دعا کے لئے لے جاتے ہیں۔ یہ سن کر بابو صاحب کی غیرت ایمانی جوش میں آ گئی۔ کہ ہم غلامانِ مسیح موعودؑ ہیں۔ آج ہم سے زیادہ کس کی دعا قبول ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مرحوم نے وہیں بہت الحاح سے دعا کی جو قبول ہوئی، اور مریض کو صحت کامل ہو گئی۔

چند سال ہوئے مفتی محمد صادق صاحب ہسپتال میں بیمار تھے۔ ان کے پیٹ میں شگاف دیا گیا تھا۔ اور وہ سخت تکلیف میں تھے…ایک دن چند دوست جن میں مَیں بھی اور بابو صاحب موصوف بھی تھے۔ ایک جگہ مفتی صاحب کے متعلق ذکر کر رہے تھے۔ ایک نے محبت سے کہا کہ اس تکلیف کی زندگی سے تو مرنا ہی اچھا ہے۔ یہ سن کر بابو صاحب بڑے جوش سے بولے جو خدا مار کر آرام دے سکتا ہے کیا وہ صحت نہیں دے سکتا؟۔ آؤ عہد کریں کہ آج رات ہم سب مفتی صاحب کے لئے دعا کریں گے۔ سب نے دعا کی ہو گی مگر بابو صاحب کو بذریعہ خواب مفتی صاحب کی صحت کی بشارت بھی دی گئی۔ چنانچہ مفتی صاحب اچھے ہوگئے۔‘‘(اخبار الفضل قادیان یکم اکتوبر 1943ء صفحہ 4)

حضرت مولانا مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’بابو صاحب میرے بہت پرانے دوستوں میں سے تھے۔ جب میں اخبار بدر کی ایڈیٹری پر متعین تھا۔ تو بابو صاحب جب قادیان آیا کرتے بمعہ اہل و عیال میرے ہی غریب خانہ پر قیام کرتے۔ میرے سفر ولایت اور امریکہ کے زمانہ میں بھی ان کے ساتھ سلسلہ خط و کتابت جاری رہا اور امریکہ سے واپسی پر جب میں عہدہ نظارت پر مامور ہوا اور سلسلہ کی ضروریات کے لئے دہلی جانے کی ضرورت ہوتی تو اس وقت بابو صاحب دہلی میں ریلوے کے انسپکٹر تھے اور میں ان کے ہاں ہی عموماً قیام کرتا۔ بابو صاحب نہایت مہمان نواز، دوستوں کے سچے خیر خواہ اور سلسلہ حقہ کے دلی خادم تھے۔‘‘(الفضل قادیان 7؍ستمبر 1943ء صفحہ 4)

جب آپ دہلی میں متعین تھے تو 2؍مارچ 1932ءکو جماعت دہلی نے حضرت منشی برکت علی صاحب کے لیے ایک الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا جس میں حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شرکت فرمائی اور خطاب فرمایا۔ اس تقریب کی مکمل روداد الفضل قادیان 20؍مارچ 1932ء اور 17؍اپریل 1932ء کے پرچوں میں شامل اشاعت ہے، جس سے پتا لگتا ہے کہ آپ اس وقت بطور جنرل سیکرٹری جماعت دہلی خدمات انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ اخبار لکھتا ہے: ’’جماعت دہلی کا اڈریس جناب بابو اکبر علی صاحب جنرل سیکرٹری نے پڑھا۔‘‘(الفضل قادیان 20؍مارچ 1932ء صفحہ 5)

اسی طرح دہلی میں انجمن احمدیہ دہلی کا آٹھواں سالانہ جلسہ 23تا 26؍مارچ 1929ء منعقد ہوا۔ جس میں جلسے کے ایک اجلاس کی صدارت کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا۔ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 128)

حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ اکتوبر 1938ء میں حیدر آباد دکن کے دورے سے واپسی پر آگرہ تشریف لے گئے۔ جہاں آپ کو حضورؓ کی معیت میں قلعہ دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ملک صلاح الدین صاحب کا بیان ہے کہ’’آگرہ سے ایک دو اسٹیشن قبل حضور نے فرمایا کہ چونکہ تاج محل کو چاندنی میں دیکھنا ہی اصل دیکھنا ہوتا ہے اس لئے بہت جلد ٹیکسی کا انتظام کرنا چاہئے۔ چنانچہ وہاں اترتے ہی خاکسار نے انتظام کر دیا۔ حضور مع خاندان تاج محل کو تشریف لے گئے…پھر وہاں سےحضور قلعہ دیکھنے تشریف لے گئے۔ وہاں اتفاقاً بشیر احمد صاحب سکھروی …اور حضرت بابو اکبر علی صاحب انسپکٹر ورکس …کو علم ہو گیا اور وہ اور مکرم سیٹھ اللہ جوایا صاحب آگرہ…قلعہ میں آگئے اور قلعہ کے دیکھنے تک ساتھ رہے۔‘‘( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 7صفحہ 520)

قادیان میں مستقل رہائش

انسپکٹر آف ورکس کے عہدے سے 55 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی اور محلہ دارالعلوم میں کوٹھی اکبر منزل بنوائی۔ جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان، قادیان کے محلہ جات کا ذکر کرتے ہوئے دارالعلوم میں آ پ کا اور آپ کے جلیل القدر ہمسایوں کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: ’’ان محلہ جات میں بہت سی عمارتیں قابل دید ہیں۔ دارالعلوم میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی دارالسلام، حضرت مولوی شیر علی صاحب کا مکان، حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب کی کوٹھی الصُفّہ، خان بہادر شیخ رحمت اللہ صاحب کی کوٹھی، بابو اکبر علی صاحب کی کوٹھی۔‘‘(مرکز احمدیت قادیان۔ مؤلفہ شیخ محمود احمد صاحب عرؔفانی صفحہ 418)

اسی تناظر میں حضرت مولانا مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہو کر انہوں نے قادیان میں مستقل رہائش اختیار کی۔ اپنا مکان شاندار بنوایا۔ گلاس فیکٹری اور ہوزری کا انتظام کیا۔ اور سلسلہ کے محکمۂ انجنیئری کے کئی کام سر انجام دئیے۔ غریبوں کی ہمیشہ امداد کرتے۔ کبھی کسی سائل کو محروم نہ بھیجتے۔‘‘(الفضل قادیان 7؍ستمبر 1943 ء صفحہ 4)

آ پ کی یہ کوٹھی بھی صداقت احمدیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جب آپ کے والد نے آپ کو قبول احمدیت یا کروڑوں کی وراثت میں سے کسی ایک کو چننے کا حکم دیا تھا تو آپ نے جائیداد اور عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر صداقت کا ساتھ دینا منظور کیا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر، اس کی قائم کردہ جماعت کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں وہ انہیں ضرور نوازتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے روحانی ترقی کے بھی سامان فرما دیے اور دنیاوی اور ظاہری ترقی کے بھی سامان فرما دیے۔

آپ مالی قربانیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے۔ کھلے دل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والے تھے اور ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے احباب جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں ایک جماعتی ضرورت کے سلسلہ میں آپ کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے یاد ہے کہ بابو اکبر علی صاحب نے اپنی تجارت کا ایک حصّہ نیلام کر دیا اور روپیہ مجھے قرض بھجوا دیا۔ چونکہ یہ جماعتی حساب میں تھا جماعت نے ادا کر دیا۔‘‘(الفضل قادیان 15؍مارچ 1955ء۔ احباب جماعت کے نام پیغام۔ صفحہ 1)

دی سٹار ہوزری ورکس لمیٹڈ قادیان کا آغاز

حضرت بابو اکبر علی صاحبؓ عمومی طور پر سٹار ہوزری کے حوالے سے جماعت میں معروف ہیں۔ اس فیکٹری کا افتتاح 25؍اگست 1934ء کو ہوا۔ جس کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے اس کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس بابرکت تقریب کی خبر اخبار الفضل قادیان نے یوں دی: ’’25؍اگست 9 بجے کے قریب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ دی سٹار ہوزری ورکس لمیٹڈ قادیان کے کارخانہ میں تشریف لے گئے۔ جہاں پبلک کو بھی مدعو کیا گیا تھا …حضور نے اس موقعہ پر ایک مختصر سی تقریر فرمائی جس میں کارخانہ میں کام کرنے والوں اور کارخانہ کے ڈائریکٹروں کو ہدایات دیں۔ نیز یہ ارشاد فرمایا کہ جماعت احمدیہ کو اس کارخانہ کی بنائی ہوئی جرابیں وغیرہ استعمال کرنی چاہئیں۔ تقریر کے بعد حضور نے دعا فرمائی۔ پھر اپنے ہاتھوں سے مشینوں کو رواں کیا۔ اور ضروری امور دریافت فرماتے رہے۔ امید ہے کہ ہوزری بہت جلد مال تیار کر کے فروخت کرنا شروع کر دے گی۔‘‘(الفضل قادیان 28؍اگست 1934ء صفحہ 2)

اس ضمن میں حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’بابو صاحب جب سے پنشن لے کر قادیان میںتشریف لائے، جس قومی ادارے میں ان کو کام کرنے کو کہا گیا انہوں نے بلا کسی معاوضہ کے خیال کے کیا، اور ہمیشہ سخت محنت کی۔ ہوزری کا کام جب انہوں نے شروع کیا تو ہوزری سخت نقصان میں تھی۔ ان کی محنت سے کام کچھ چلنے لگا۔ مگر یہ یقین نہیں تھا کہ ضرور کامیابی ہو گی۔ چنانچہ بابو صاحب فرماتے تھے کہ میرا ارادہ محض خدا کی خوشنودی کے لئے قومی کام کرنے کا تھا اور مجھے نفع کی امید نہ تھی۔ مگر حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک دن فرمایا کہ بابو صاحب کو منافع کا یقین نہیں۔ اگر یقین ہوتا تو نفع نقصان میں حصہ دار کیوں نہیں بن جاتے۔ بابو صاحب کہتے تھے کہ حضور کی یہ بات سن کر اسی وقت میں نے اس کے نفع نقصان میں حصہ دار ہونا قبول کیا۔ چنانچہ ان کو منیجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا۔ اور خاطر خواہ نفع ہوا۔ ہوزری کے حصہ داران کو بھی بابو صاحب کی محنت سے فائدہ ہوا، قرضہ اتر گیا، جائیداد اور ریزرو بڑھ گئے اور بابو صاحب کو خود بھی معتدبہ فائدہ ہوا۔

ہوزری کے کام کے متعلق بابو صاحب نے ایک پاک جذبہ کا ایک اظہار کیا اور اس کام کے لئے ایسے ملازم رکھے جنہوں نے یہاں کے بیکار نوجوانوں اور دوسرے آدمیوں کو کام سکھلایا اور اس طرح بعض لوگ جو دو آنہ بھی نہیں کماتے تھے دو تین روپے یومیہ کمانے لگے۔ عورتوں اور لڑکیوں کو بھی عورتوں کی معرفت کام سکھلایا اور قادیان کی عورتیں ایک مہینہ میں قریباً دو ہزار روپیہ کا کام کرنے لگیں۔ اور اس سے قادیان سے بیکاری دور ہونے اور عام اقتصادی حالت کے اچھے ہونے میں خاصی مدد ملی۔

بابو صاحب مرحوم غرباء کو بڑی فراخدلی سے معاوضہ دیتے تھے۔ بعض لوگ اس پر اعتراض بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دن اس کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ اعتراض کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھی میں منافع میں سے خرچ کرتا ہوں، اس میں سے ہر حصہ دار سے بڑھ کر میں اپنا خرچ کرتا ہوں، کیونکہ میں چوتھے حصہ کے منافع کا حقدار ہوں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ میں اپنا نقصان کرتا ہوں۔ کام کرنے میں صرف اپنی ہی ذات مد نظر نہیں ہونی چاہئے، بلکہ حتی الامکان بانٹ کر کھانے کا خیال چاہئے۔ کئی آدمی میرے پاس اور دوسرے دوستوں کے پاس جاتے اور کہتے کہ بابو صاحب نے بہت کم کسی کو مایوس کیا۔ ان کے اس حسن اخلاق اور بہی خواہی خلق کا نتیجہ ہے کہ آج نہ صرف ان کے اپنے عزیز اور دوست ہی ان کو یاد کرتے ہیں، بلکہ بہت سی بیوہ عورتیں، یتیم بچے اور دوسرے انسان ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔‘‘(الفضل قادیان یکم اکتوبر 1943ء صفحہ 4)

الغرض آپ تقویٰ، عاجزی اور انکساری اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور بہت ہی نافع الناس وجود تھے۔ آپ ایک ذی علم اور صاحب فراست انسان تھے اور انتظامی صلاحیتوں کے بھی مالک تھے۔ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہوزری کی کامیابی میں بابو اکبر علی صاحب کا بہت کچھ دخل تھا کیونکہ وہ سرکاری کارخانوں میں کام کر چکے تھے اور لوہاروں اور ترکھانوں کے کام سے خوب واقف تھے۔ ان کی انگریزی تعلیم کافی تھی۔ اگر انہیں کسی معاملہ میں دِقت پیش آتی تو وہ انگریزی کتابوں کا مطالعہ کر لیتے تھے۔ اور اِس دِقت کو حل کر لیتے تھے۔ غرض دستی کام کے ساتھ اگر علم مل جائے تو وہ سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اکتوبر 1945ء مطبوعہ خطباتِ محمود جلد 26صفحہ 438تا 439)

دارالصناعت قادیان

حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے احباب جماعت کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی کی غرض سے جو خدمات و اقدامات کیے ان میں سے ایک ’ادارہ دارالصناعت ‘کا قیام تھا، جس کی نگرانی کے لیے آپؓ نے حضرت بابو اکبر علی صاحبؓ کو چنا۔ تاریخ احمدیت مؤلفہ مولانا دوست محمد صاحب شاہد، میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے: ’’احمدی نوجوانوں میں صنعت و حرفت کا شوق پیدا کرنے کے لئے (محلہ دارالبرکات قادیان میں) دارالصناعت قائم کیا گیا جس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 2 مارچ 1935ء کو فرمایا۔ اس موقعہ پر حضورؓ نے رندہ لے کر خود اپنے دستِ مبارک سے لکڑی صاف کی۔ اور آری سے اس کے دو ٹکڑے کر کے عملاً بتا دیا کہ اپنے ہاتھوں سے کوئی کام کرنا ذلت نہیں بلکہ عزت کا موجب ہے۔ دارالصناعت میں طلبہ کی تعلیم و تربیت اور رہائش کا انتظام تحریک جدید کے ذمہ تھا۔ ابتدائی مسائل اور عقائد کی زبانی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ اس کے تین شعبے (نجاری، آہنگری اور چرمی) تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح ثانیؓ نے بابو اکبر علی صاحب کو (جو محکمہ ریلوے انسپکٹر آف ورکس کی اسامی سے ریٹائر ہو کر آۓ تھے) آنریری طور پر صنعتی کاموں کا نگران مقرر فرمایا۔ یہ صنعتی ادارہ 1947ء تک بڑی کامیابی سے چلتا رہا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 67)

محکمہ قضا

حضرت مصلح موعودؓ نے یکم جنوری 1919ء سے باقاعدہ طور پر محکمہ قضا کا قیام فرمایا۔ حضرت بابو اکبر علی صاحبؓ کو بھی اس محکمے میں بطور قاضی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ چنانچہ الفضل قادیان 4؍جون 1937ء کی اشاعت کے صفحہ 9پر لکھا ہے: ’’احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مولوی ظفر محمد صاحب کی جگہ مولوی ظہور حسین صاحب کو، شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری کی جگہ صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس کو اور مزید بابو اکبر علی صاحب کو مرکزی دارالقضاء کا قاضی مقرر فرمایا ہے۔‘‘

آپ بڑے صائب الرائے، سادہ مزاج، شریف النفس، معاملہ فہم، حلیم الطبع اور مدبر، انسان تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’نظامِ سلسلہ کی طرف سے قاضی مقرر ہو کر انہوں نے بہت سے مقدمات کا فیصلہ کیا۔ اور بہتوں کی آپس میں مصالحت کرا دی۔ غرض بابو صاحب موصوف بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔‘‘(الفضل قادیان 7؍ستمبر1943ء صفحہ 4)

لوائے احمدیت

لوائے احمدیت جماعت میں 1939ء میں متعارف کروایا گیا۔ اس کی تیاری ایک خاص جذباتی اور تاریخی اہمیت رکھتی تھی۔ اُس سال جوبلی کے موقع پر اس کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس نے حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا کہ جھنڈے کا سائز18 فٹ لمبا اور 9 فٹ چوڑا ہو اور اسے ایک 62 فٹ لمبے پول پر لہرایا جائے۔ اس تاریخی خدمت میں حضرت بابو اکبر علی صاحبؓ کو بھی شامل ہونے کا موقع ملا۔ تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ جھنڈا تیار ہونے کے بعد: ’’جھنڈے کے پول کے معاملہ میں ممبران کمیٹی کو بہت غور و خوض کرنا پڑا۔ ایک لمبی بحث کے بعد آخر یہی فیصلہ کرنا پڑا کہ پائپ کرایے پر لےکر کام چلایا جائے کیونکہ لکڑی 62 فٹ لمبی، خوبصورت اور سیدھی ملنا مشکل تھی۔ اور اس کے کھڑے کرنے کا سوال بہت ٹیڑھا تھا۔ گو وقت بہت تھوڑا تھا لیکن بابو اکبر علی صاحبؓ کی کوشش سے یہ کام خیر و خوبی سے انجام پا گیا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 7صفحہ 585 تا 586)

عائلی زندگی اور اولاد

آپ کی پہلی شادی محترمہ حاکم بی بی صاحبہ سے ہوئی۔ جن کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے عطا کیے۔

1۔ ڈاکٹر کرنل محمد عطاء اللہ صاحب۔ اہلیہ اول بشیر بی بی صاحبہ۔ اہلیہ ثانی قمر النساء صاحبہ

2۔ چودھری محمد کرامت اللہ صاحب۔ اہلیہ آ منہ بیگم صاحبہ

3۔ چودھری محمد ضیاء اللہ صاحب۔ اہلیہ اول مبارکہ بیگم صاحبہ۔ اہلیہ ثانی محمودہ بیگم صاحبہ

محترمہ حاکم بی بی صاحبہ جون 1914ء میں وفات پا گئیں اور ان کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی۔ الفضل قادیان نے ان کی وفات پر لکھا: ’’اس ہفتہ مقبرہ بہشتی میں بابو اکبر علی صاحب سپروائزر کی بیوی حاکم بی بی جو ایک مخلصہ نیک خاتون تھیں دفن ہوئیں۔ اللّٰہم اغفرلی وارحمہا ‘‘(الفضل قادیان 20؍جون 1914ء صفحہ 1)

آ پ کی دوسری شادی محترمہ اقبال بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ جن سے آپ کے 6 بیٹے اور 5 بیٹیاں ہوئیں۔

1۔ چودھری محمد انعام اللہ صاحب۔ اہلیہ محمودہ ثروت صاحبہ

2۔ سعیدہ بیگم صاحبہ۔ خاوند صوفی غلام اللہ صاحب

3۔ حمیدہ بیگم صاحبہ۔ خاوند لیفٹننٹ کرنل محمد شریف احمد صاحب

4۔ چودھری محمد اکرام اللہ صاحب۔ اہلیہ امۃ الحئی صاحبہ

5۔ احسان اللہ صاحب۔ (یہ بارہ سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے)

6۔ فہمیدہ بیگم صاحبہ۔ خاوند میجر عبد اللطیف صاحب

7۔ فلائٹ لیفٹننٹ اعزاز اللہ صاحب۔ (یہ جواں سالی میں طیارے کے حادثے میں وفات پا گئے تھے)

8۔ رشیدہ بیگم صاحبہ۔ خاوند اصغر حسین خان صاحب

9۔ محمد مطیع اللہ صاحب۔ اہلیہ فائزہ بیگم صاحبہ

10۔ محمد احسان اللہ راٹھور صاحب۔ اہلیہ عفت بیگم صاحبہ

11۔ ڈاکٹر محمودہ بیگم صاحبہ۔ خاوند محمد سلیمان مبشر صاحب

بعض دشمنانِ احمدیت درو غ گوئی سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے بدنامِ زمانہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق کو آپ کا بیٹا بتاتے ہیں لیکن اس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں۔

آخری بیماری اور وفات

حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’بابو صاحب کئی دفعہ سخت بیمار ہوئے، ہمیشہ اپنا حوصلہ قائم رکھا، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت پائی۔ اس دفعہ بھی جب وفات سے قریباً دو مہینے پہلے ان کو کاربنکل نکلا تو انہوں نے پورا حوصلہ اور توکل دکھلایا، بلکہ اس میں غلو کیا اور ہمدرد ڈاکٹروں نے جو مشورہ دیا کہ لاہور جا کر یا یہاں آپریشن کرایا جائے، اس کو قبول نہ کیا اور کہا جو خدا لاہور میں ہے یہاں بھی ہے، اور مجھے شفا دے سکتا ہے۔ یہاں (قادیان میں ) جو علاج ہو سکتا تھا اس میں کوتاہی نہیں ہوئی، ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے پورا حق دوستی ادا کیا، اور توقع سے بڑھ کے محنت کی۔ مرنے سے دو دن پہلے جب طبیعت بہت زیادہ نڈھال ہو گئی تو ان کے بیٹے محمد کرامت اللہ صاحب کا قریباً ڈیڑھ پاؤ خون ان کے اندر داخل کیا گیا، مگر ان کا آخری وقت آ پہنچا تھا، اس سے بھی فائدہ نہ ہوا اور آپ 30؍اگست 1943ء مطابق 30ماہ ظہور 1322 ہش کو9بجے صبح مالک حقیقی سے جا ملے۔‘‘(الفضل قادیان یکم اکتوبر 1943ء صفحہ 4)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اُس وقت طبیعت ناساز ہونے کے باعث ڈلہوزی میں مقیم تھے چنانچہ اگلے روز قادیان میں: ’’…7بجے شام جناب بابو اکبر علی صاحب کا جنازہ باغ میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے پڑھایا، اور مرحوم مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔‘‘(الفضل قادیان یکم ستمبر 1943ء صفحہ 1)

آپ قادیان کی سرزمین میں پروانہ وار آئے اور رہے اور اپنی زندگی تمام دنیاوی ناطوں سے توڑ کر قادیان ہی کے لیے بنا لی۔ اور اب دائمی نیند میں حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بہشتی مقبرہ کی زمین میں آرام کر رہے ہیں۔

اے خدا بر تربتِ اُو ابر رحمت ہاببار

داخلش کن از کمالِ فضل در بیت النعیم

ترجمہ: اے خدا ان کی قبر پر رحمت کی بارش نازل فرما

اور نہایت درجہ فضل کے ساتھ انہیں جنت میں داخل کر دے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button