متفرق مضامین

رمضان کیسے گزارا جائے

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

جو شخص ایمان کی حالت میں احتساب کرتے ہوئے روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیاہو

’’سنو سنو تمہارے پاس رمضان کا مہینہ چلا آتا ہے۔ یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ اوراس میں ایک رات ایسی مبارک ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی برکات سے محروم رہا تو سمجھو کہ وہ نامراد رہا۔‘‘(نسائی کتاب الصوم)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہماری زندگیوں کوسیراب کرنے کے لیے برس رہی ہیں۔ اس مہینے کی عظمتوں اور برکتوں کا کیا ٹھکانہ کہ جسے ’’شہرِ عظیم‘‘ اور ’’شہرِ مبارک‘‘، ’’سیّدالشہور‘‘ کہا گیا ہے۔ اِس مہینے کے دامن میں وہ بیش بہا ایک رات ہے جس میں ہمارے رب کریم نے کائنات کی سب سےبڑی رحمت بنی نوع انسان پر اُتاری جس کے متعلق فرمایا کہ إِنَّآ أَنْـزَلْنَاهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ (الدخان: 4) ترجمہ: یقیناً ہم نے اِسے ایک بڑی مبارک رات میں اتارا ہے۔ اور وہ رحمت ہے قرآن کریم!

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اِس مبارک مہینے کی ہر گھڑی ہر لمحہ، ہر دن سعید ہے اور ہر شب، شبِ مبارک۔ اِس ماہ مبارک میں ہر نیکی کا اجرہر عبادت کا ثواب عام دنوں میں کی جانے والی عبادت اور نیکی سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اِس ماہ جتنی محنت کی جائے اتنی ہی نیکیوں کی فصل عمدہ اور اچھی پیدا ہوگی۔ ایک زرخیز زمین کی طرح جب آپ کے دل نرم اور آنکھیں نم ہوں گی اور پھر اس پرجب آپ اپنی نیکیوں کے بیج بوئیں گے تو فصل ایسی ہوگی جسے دیکھ کر سینے سکون پائیں گے اور آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ ہم ایسا کیا کریں کہ جس سے رمضان المبارک کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے؟ ان گنت پہلوؤں میں سے کچھ پہلو پیش ہیں۔

نیت اور ارادہ

سب سے پہلی چیز نیت اور ارادہ ہے جیسا کہ فرمان ہے کہ ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ (بخاری)نیت شعور اور احساس پیدا کرتی ہے۔ شعور اگر بیدار ہو تو ارادہ محنت اور کوشش کی صورت میں ظہور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کا اجر خود ہی دینے کا ارشاد فرمایا ہے۔رمضان المبارک میں سب سے پہلا کام یہی کرنا چاہیے کہ اس مہینے کے تقدس، مقام، پیغام، مقصد، عظمت و برکت کے احساس کو تازہ کریں اور نیت باندھیں کہ اِس مہینے اپنے اندر وہ تقویٰ پیدا کرنے کی حقیقی کوشش کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے، اس کے دین کے تقاضوں کےلیےاور قرآن مجید کے پیغام کو پورا کرنے کے لیےمددگار ہو۔ پھر اِس بات کی نیت بھی کریںکہ جو معمولات اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور جن معمولات کی تاکید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمائی ہے ان سب کو محنت اور باقاعدگی سے بجا لانے کی کوشش کرنی ہے۔

قرآن کریم سے تعلق

دوسری اہم چیز اِس مہینے میں یہ ہے کہ قرآن کریم سے اپنا تعلق نئے سرے سے زندہ کیا جائے۔ اس کی تلاوت اور علم و فہم کے حصول کےلیے خاص اہتمام کیا جائے۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے اِس دَور میں ایم ٹی اے کی برکت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے جہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کےخطبات کےساتھ ساتھ درس القرآن بھی پیش ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اکثر لوگ پڑھتے ہوئے تجوید کی غلطی کر جاتے ہیں۔ ان کمزوریوں کو دور کرنےکے لیے بھی ایم ٹی اے سے رجوع کیا جا سکتا ہے جہاں دن کے مختلف حصوں میں تلاوت پیش کی جاتی ہے۔ اس تلاوت کو سننا چاہیےکیونکہ قرآن کریم سننا بذات خود ایک بڑی نیکی ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بڑے شوق سے قرآن سنا کرتے تھے۔ اِس طرح نہ صرف اِس سنت نبویؐ پر عمل ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ہماری تلاوت کی غلطیاں بھی دُور ہوں گی۔

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’پس رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہئے۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی اس مہینہ میں درس قرآن کا انتظام کرتے ہیں۔ دوستوں کوچاہئے کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیاکریں اور قرآن کریم کے معانی پر غور کیاکریں تا کہ ان کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔‘‘(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت 186)

قیام اللیل

رات کا قیام حصولِ تقویٰ اور روحانی ترقیات کے لیے بہت ضروری اور انتہائی کارگر نسخہ ہے۔ نمازِ تراویح بھی قیامِ لیل ہے اور نمازِ تہجدبھی۔ رمضان کی نسبت خاص طور پرنمازِ تہجد کے ساتھ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’رمضان خصوصیت کے ساتھ تہجد کے ساتھ تعلق رکھتاہے یعنی تہجد کی نماز یں …خصوصیت سے رمضان سے تعلق رکھتی ہیں اگرچہ دوسرے مہینوں میں بھی پڑھی جاتی ہیں اور اس پہلو سے وہ سب جو روزے رکھتے ہیں ان کے لئے تہجد میں داخل ہونے کا ایک راستہ کھل جاتاہے کیونکہ اس کے بغیر اگر عام دنوں میں تہجد پڑھنے کی کوشش کی جائے توہو سکتاہے بعض طبیعتوں پر گراں گزرے مگر رمضان میں جب اٹھنا ہی اٹھنا ہے اور پیٹ کی خاطر اٹھنا ہےتو روحانی غذا بھی کیوں انسان ساتھ شامل نہ کرلے۔ اس لئے اسے اپنا ایک دستور بنا لیں اور بچوں کو بھی ہمیشہ تاکید کریں کہ اگروہ سحری کی خاطراٹھتے ہیں تو ساتھ دو نفل بھی پڑھ لیا کریں اور اگر روزے رکھنے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں پھر تو ان کوضرور نوافل کی طرف متوجہ کرنا چاہئے۔ یہ درست نہیں کہ اٹھیں اور آنکھیں ملتے ہوئے سیدھا کھانے کی میز پرآ جائیں، یہ رمضان کی روح کےمنافی ہے اورجیساکہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اصل برکت تہجد کی نماز سے حاصل کی جاتی ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍جنوری1996ء)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہمارا رب جو بڑی برکت اور بڑی شان والا ہے ہر رات جب اس کا ایک تہائی حصہ باقی رہتا ہے اس دنیاوی آسمان پر نازل ہوتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے: ’’کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اسے جواب دوں۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تا میں اسے عطا کروں، اور کون ہے جو مجھ سےبخشش طلب کرے تا میں اسے بخش دوں۔‘‘(صحیح مسلم کتاب صلوۃ المسافرین باب الترغیب فی الدعا والذکر فی آخراللیل)

پس رمضان میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کی اِن گھڑیوں سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہوا جائے۔

ذکر و دُعا

ذکر اور دُعا تو ایسی چیزیں ہیں جن کا اہتمام پوری زندگی میں ہر وقت ضروری ہے صالحین کا تو یہ ماننا تھا کہ ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘۔ذکر کیاہے؟ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو ذکر ہے خواہ دل سے ہو یا زبان سے یا اعضاء سے۔ روزہ بذاتِ خود ذکر کی قسم ہے کیونکہ انسان محض رب واحد ویگانہ کی خاطر کھانا پینا روکتا ہے۔

قربِ الٰہی اور خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کےلیے سب سے مقدم عرفانِ الٰہی کا حصول ہے۔ کسی چیز کا عرفان دو طرح سے حاصل ہوتا ہے۔ اس چیز کے حسن اور احسان کے صحیح ادراک سے اور یہ وہ نعمت ہے جس کے حاصل کرنے کے لیے صفاتِ باری تعالیٰ کاورد کرنا اور اپنے لمحات ذکرِ الٰہی سے معمور رکھنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ۔ (البقرۃ: 153)پس میرا ذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا۔

پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کی ایک نشانی یہ بھی بیان کرتا ہے کہ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ۔ (آل عمران: 192)جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی۔

مزید یہ کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں کثرت سے دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اِس لیے کثرت سے دعا کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دُعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔ مبارک تم جبکہ دُعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دُعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ ا ٓنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کردیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کو ٹھڑیوں او ر سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آ خر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم ورحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجز وں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جا ؤ اور پورے صدق اوروفا سے دُعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ222تا223)

یہ چند پہلو رمضان کے اَن گنت پہلوؤں میں سے ہیں جن کو اپنا کر ہم نیکیوں میں ترقی کر سکتے ہیں اور تقویٰ کی راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کر سکتے ہیں۔

فضیلت و برکاتِ رمضان

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے حالت ایمان میں اور احتساب کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر1768)

حضرت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے تم پر فرض کیے اور میں نے تمہارے لیے اس کا قیام جاری کر دیا۔ پس جو شخص ایمان کی حالت میں احتساب کرتے ہوئے روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیاہو۔ (سنن نسائی کتاب الصیام باب ثواب من قام رمضان حدیث نمبر2180)

اگر تمہیں معلوم ہوتا

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے۔ اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ (الجامع الصحیح مسند الامام الربیع بن حبیب، کتاب الصوم)

اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ رمضان تمام امتِ مسلمہ، جماعت احمدیہ عالمگیر، ہمارے پیارے آقا امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، ہر دردمند پریشان حال، بیمار، اسیرراہ مولیٰ اورہر احمدی کے لیے خیر وبرکت اورنصرت و مدد والا ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کی برکات سے خوب جھولیاں بھرنے والا بنائے۔نیز اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت عطا کردے۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button