سیرت ایوب (مصنفہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب) (قسط 16)
’’الہام ہوا ’مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہوں ‘۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو‘‘(حضرت مسیح موعودؑ )
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب ابن حضرت مرزا نیاز بیگ صاحبؓ کے بارے میں یہ کتاب ان کے بھائی ڈاکٹرمرزا یعقوب بیگ صاحب کی رقم کردہ ہے۔
مصنف کتاب ہذا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے بیعت کا شرف پایا۔ خلافت اولیٰ میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ سے بھی فیض اٹھایا، لیکن دَور خلافت ثانیہ میں قادیان سے رخ موڑ کر انجمن اشاعت اسلام لاہور سے منسلک ہوگئے۔ ان کی یہ زیر نظر تصنیف سن 1900ءمیں تحریر میں لائی گئی تھی۔
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات 28؍اپریل 1900ء ہوئی۔ اس موقع پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے الحکم میں ایک تفصیلی تعزیتی مضمون لکھا(جو الحکم جلد 4 نمبر 18، شمارہ 17؍مئی 1900ء کے اولین چار صفحات پر شائع ہوا) اس مضمون میں جہاں آپ نے اپنے برادرعزیز کے اوصاف حمیدہ درج فرمائےاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو مکتوب بھی درج کیے وہاں اس عزیز مرحوم کی بے وقت موت پر ایک تفصیلی سیرت و سوانح کتابی شکل میںلکھنے کا ارادہ ظاہر کیاتھا۔
سن 1900ء میں اس کتاب کے موادپر کام کرتے اور مسودہ تیارکرتے وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی عمر 27-28سال ہوگی۔ لیکن ان کی عبارت میں زور اور پختگی، ایمانیات اور اخلاقیات کے دقیق امور میں گہرا درک اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےر فیع الشان منصب و مقام کے سامنے حقیقی ادب اور عاجزی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ اس امر پر مرزایعقوب بیگ صاحب نے خود بھی حیرت کا اظہاران الفاظ میں کیا ہے: ’’روحانی نشوونما، تعلق باللہ، اعمال صالحہ، سچی روحانی زندگی، گناہ او راس سے بچنے کی راہ وغیرہ دقیق مسائل کے متعلق جو کچھ کہ اس عاجز نے بیان کیاہے وہ سب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صحبت اور قرآن مجید کی محبت کا نتیجہ ہےجو کہ آپؑ کے طفیل حاصل ہوئی واِلّا ان مسائل کا حل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جب تک کوئی شخص صاحبِ حال نہ ہو۔ بیان نہیں کرسکتا۔ یا وہ کرسکتا ہے جس نے بزرگان دین اور صوفیائے کرام کی کتابیں مطالعہ کی ہوں۔ یا عرصہ تک ان کی صحبت میں رہا ہو۔ فالحمدللہ علی ذالک‘‘
کتاب کے اس مذکورہ بالاحصہ میں درج ذیل عناوین کے تحت بحث کی گئی ہے: ایک قابل رشک نمونہ۔ صحبت مردِ کامل۔ احیائے روحانی۔ سیرت مسیح موعود۔ جماعتِ مسیح موعود۔ بیعت کی اصل غرض۔ ہادیان دین ومجددین کی ضرورت۔ مومن کے لیے مرادِ عظیم۔ ایمانی ثمرات جو مرحوم کو حاصل ہوئے۔ دنیا کے لیے رحمت۔ گناہ سوز فطرت۔ گناہ اور اس سے بچنے کی راہ۔ سلطنت برطانیہ اور مذہبی آزادی۔ عقائد صحیحہ کا استحکام۔
ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اس کتاب ’’سیرت ایوب ‘‘کے مسودہ کی تیاری کے بعد طباعت مطبع الحکم قادیان سے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کے توسط و تعاون سے سال 1901ء میں شروع کروائی، کچھ حصہ چھپ بھی گیا، لیکن کچھ فرمے تلف ہوگئے اور بوجوہ کتاب کی مکمل اشاعت ممکن نہ ہوسکی۔ اور پھر دَور خلافت اولیٰ کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدرضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں بعض احباب قادیان سے ترک تعلق کرکے لاہور جابسے، تب ایک دفعہ 1935ء میں ڈاکٹرمرزا یعقوب بیگ صاحب نے مسودہ کی طرف دوبارہ توجہ کی لیکن یہ مسودہ کتابی شکل نہ اختیار کرسکا، اور پھرفروری 1936ء میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی وفات ہوگئی۔
کتاب’’سیرت ایوب‘‘ کا زیر نظر ایڈیشن ’’مرزا مسعود بیگ صاحب ایم اے، بی ٹی۔ ہیڈماسٹر مسلم ہائی سکول لاہور(برادرزادہ مرزا ایوب ویعقوب بیگ)نے دسمبر 1964ء کو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے شائع کیاجو ’’آئینہ صدق و صفا‘‘ کے نام سے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کے سوانح حیات پر مشتمل ہے۔
کنول آرٹ پریس۔ جان محمد روڈ۔ 1 انارکلی لاہور سے شائع کردہ قریباً 90 صفحات پر مشتمل اس حصہ کتاب میں حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کی تصویر بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے تعارف کے بعد کتاب کے دوسرے حصہ کے آغاز میں ’’سیرت مرزا ایوب بیگ مرحوم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات ‘‘ کے عنوان کے تحت عزیزمرحوم کی اس نوٹ بک کا بتایا گیا ہے جس کا بیشتر حصہ خود مرحوم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا تھااور بعض حصے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے لکھے ہوئے تھے اور بعض پر ہر سہ اصحاب کے دستخط ہیں۔ اور پڑھنے والے حضرات سے سب نے درخواست دعا کی ہے کہ گویا ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ مکتوب اشاعت پائیں اور پبلک ان سے فائدہ حاصل کرے۔ دراصل اس نوٹ بک میں ان تینوں عزیز دوستوں کی مشترکہ کوشش سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے خطوط اور بعض ارشادات درج کیے جاتے تھے۔ کیونکہ یہ تینوں اصحاب اکثر اکٹھے رہتے تھے۔ تعلیم بھی اکٹھی حاصل کی، رخصتوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زیارت کے لیے قادیان بھی اکٹھے آتے تھے۔ اور اپنے دینی ذوق و شوق کو بھی اکٹھے ہی پورا کیا کرتے تھے۔
اس نوٹ بک میں مرحوم کے بعض اپنے رؤیائے صادقہ اور الہامات بھی درج تھے۔
اس کتاب میں حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کی سوانح کے بیان میں ان کے مختصر ابتدائی حالات، خاندانی حالات، طفولیت، بیعت، بیعت کی برکات، نماز و سنت و حدیث سے خصوصی لگاؤ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کشش، آپؑ سے کامل عشق و اخلاص، حضورؑ کا پہرہ دار بننے کا شرف، قادیان سے قلبی محبت، مفتی محمد صادق صاحب سے دوستی، رمضان المبارک میں سورج گرہن کا نشان دیکھنے قادیان کا والہانہ سفر، مرحوم کے ہم جماعت دوستوں کا ذکر، مرحوم کی معاشرت اور بیوی سے حسن سلوک، نیز دیگر اقرباء سے مثالی معاشرت کا بیان درج کیا گیا ہے۔
نیز آخرپر الحکم کے مذکورہ بالا مضمون کا مکمل متن درج کرکے بعض بزرگان کے تعزیتی خطوط بھی شامل کتاب کیے ہیں: حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ۔ حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ۔ حضرت مولوی سید احسن امروہوی صاحب۔ حضرت مولانا شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ۔ ان کے علاوہ غلام محمد خان ایم اے، میانوالی۔ حافظ عبدالعلی صاحب سرگودھا۔ محمد اسماعیل۔ مرزا خدا بخش (مصنف عسل مصفیٰ)۔ حافظ محمد حسین خان برادر خان بہادر عبدالرحمٰن چغتائی کوچہ چابک سواراں لاہور کے تعزیتی خطوط بھی درج ہیں جن سے مرحوم مرزا ایوب بیگ صاحب کی سیرت کے نیک اور حسین گوشوں پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
یادرہے کہ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ اگست 1875ء میں کلانور ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ 1892ء میں لاہور تشریف لے گئے جہاں مولوی عبدالحکیم کلانوری سے مباحثہ ہوا جو 3؍فروری 1892ء کو ختم ہوا، انہی دنوں حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ اور آپؓ کے حقیقی بھائی مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دوسرے سے خفیہ بیعت کی۔
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ 5؍فروری کو میں سکول سے واپس آیا اور ایک ہم جماعت کے ہمراہ حضورؑ کی قیام گاہ پر پہنچا۔ وہاں دو رکعت نماز ادا کی اور خادم کے ذریعے ملاقات کی درخواست خدمت اقدس میں پہنچائی۔ حضورؑ نے از راہ شفقت بالاخانے میں بلایا اور باری باری علیحدگی میں بیعت لی۔ آپؑ دس شرائط بیعت تفصیل وار بیان کرکے اقرار لیتے تھے۔ پہلے میرے ہم جماعت نے بیعت کی تو میرے دل میں تضرع اور خشیت اللہ نے بہت زور کیا۔ اس وقت تین چار دفعہ میری آنکھوں کے سامنے بجلی کی طرح ایک نور کی چمک نظر آئی۔ پھر حضورؑ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ آپ کے چہرہ سے رشد اور سعادت ٹپکتی ہے۔ پھر بیعت لی تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے نور اندر بھر جاتا ہے۔
حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ جب جموں میں ملازم تھے تو اکثر لاہور بھی آیا کرتے تھے۔ آپؓ کا عشقِ قرآن، سچا اخلاص اور اخلاقی و روحانی نمونہ دیکھ کر حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کو آپؓ سے غیرمعمولی محبت پیدا ہوگئی اور وہ پڑھائی سے فارغ ہوکر اکثر وقت آپؓ کی خدمت میں گزارتے۔ حتی کہ نماز فجر بھی آپؓ کی قیامگاہ پر جاکر ہی ادا کیا کرتے۔ حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کو بھی حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ سے ایسی محبت تھی کہ انہیں اپنا بیٹا کہا کرتے تھے۔
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ اپنے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے ہمراہ مارچ 1893ء میں پہلی بار قادیان آئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان دونوں بھائیوں اور حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے علاوہ قادیان میں اور کوئی مہمان نہ تھا۔ حضورؑ کے رہائشی مکان کی شرقی جانب کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘طبع ہو رہی تھی۔ حضورؑ کا اکثر وقت مہمانوں کے ساتھ ہی گزرتا اور کھانا بھی اکثر حضورؑ خود ہی اندر سے لایا کرتے۔ اس پاک ماحول اور محبت نے دونوں بھائیوں کے ایمان میں ایسی تقویت دی کہ انہوں نے واپس گھر جاکر اپنی مخفی بیعت کا اظہار کردیا۔ ان کے والد صاحب نے اپنے بیٹوں کی زندگیوں میں غیرمعمولی تبدیلی ملاحظہ کرلی تھی اور یہ اخلاقی تغیر اُن کے قبول احمدیت کا باعث بھی بنا۔
اس کے بعد حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ ہر ماہ دو تین بار قادیان حاضر ہونے لگے اور موسم گرما کی رخصت بھی وہیں پر گزارتے۔ کئی بار صرف اتوار کے لیے قادیان جاتے اور ہفتہ کی رات دس گیارہ بجے بٹالہ سے پیدل قادیان روانہ ہوتے اور سارا دن قادیان میں گزار کر اتوار کی شام کو پیدل واپس آجاتے۔ کئی بار بارش کے طوفان سے کمر تک پانی میں سے گزرکر وہاں پہنچے۔ جب دوسرے لوگ ہمراہ ہوتے تو آپؓ کمزوروں کا سامان خود اٹھا لیتے اور بعض دفعہ ضعیف العمر احباب کو اپنی کمر پر بھی اٹھا لیتے۔
مارچ 1894ء میں جب ماہ رمضان میں چاند کو گرہن لگا تو اسی رمضان میں سورج گرہن کے دن قریب آنے پر آپؓ بھی اپنے بھائی اور ایک اور ہم جماعت کے ساتھ قادیان روانہ ہوئے۔ رات گیارہ بجے بٹالہ پہنچے تو سامنے سے شدید آندھی اور بادل کی گرج چمک سے چلنا مشکل تھا۔ ان تینوں نے نہایت تضرع سے دعا شروع کی تو ابھی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ ہوا کا رُخ بدل گیا اور وہ ممد سفر بن گئی۔ تھوڑی دیر میں یہ نہر پر پہنچ گئے جہاں ایک کمرہ میں کچھ دیر آرام کیا اور پھر روانہ ہوئے تو سحری حضرت اقدسؑ کے دستر خوان پر کھائی۔ صبح حضورؑ کے ہمراہ کسوف کی نماز ادا کی جو مولوی محمد احسن امروہی صاحب نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کا نام اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘میں 313صحابہ کی فہرست میں شامل فرمایا ہے۔
لیکھرام کے قتل کے بعد دارالمسیح کا باقاعدہ پہرہ شروع کیا گیا۔ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کو بھی پہرہ دینے کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔
3؍جنوری 1998ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی پرائمری جماعتوں کا اجرا ہوا اور اُسی سال جب مڈل کی جماعتیں شروع ہوئیں تو اُن کے لیے حضرت اقدسؑ نے آپؓ کو عارضی ہیڈماسٹر مقرر فرمایا۔ آپؓ اُن دنوں B.A میں زیر تعلیم تھے اور رخصت پر قادیان آئے ہوئے تھے۔ قادیان میں آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضورؑ کے پاؤں اور بدن دابتے۔ بارہا آپؓ نے حضورؑ کی کمر کو بوسہ دیا۔ حضورؑ کے پرانے کپڑے اور بال تبرکاً اپنے پاس رکھتے۔ حضورؑ کے لیے نئی رومی ٹوپی لاتے اور پرانی خود لے لیتے۔ مجلس میں حضورؑ کے بہت زیادہ قریب بیٹھتے اور ٹکٹکی لگاکر چہرہ مبارک کو دیکھتے۔ حضورؑ کوئی تقریر تقویٰ و طہارت کے متعلق فرماتے تو آپؓ کا پیراہن آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔ بعض اوقات جسم دباتے دباتے حضورؑ کے شانہ پر سر رکھ کر روتے رہتے لیکن حضورؑ اس وجہ سے کبھی کبیدہ خاطر نہ ہوتے اور دبانے سے منع نہ فرماتے۔
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کوقرآن کریم اور آنحضورﷺ سے بھی عشق تھا۔ ہر بات میں سنّت پر عمل کرنا باعث فخر سمجھتے۔ تہجد باقاعدہ ادا کرتے اور نمازیں خشوع و خضوع سے پڑھتے۔
آپؓ کی اہلیہ حضرت فاطمہ بی بی صاحبہؓ کا سن پیدائش 1876ء تھا اور وہ جوانی میں ہی 21؍اپریل 1904ء کو وفات پاگئیں۔ آپؓ کئی بار قادیان آئیں اور حضرت اقدسؑ آپؓ سے بیٹیوں کی طرح سلوک فرمایا کرتے تھے۔ آپؓ کی ایک بچی تھی جو پانچ برس کی عمر میں 1900ء میں فوت ہوگئی تھی۔ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کی آخری بیماری کے دوران حضرت اقدسؑ نے ایک نہایت دردناک خط آپؓ کے بھائی ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو تحریر فرمایا جس کا لفظ لفظ اپنے غلام کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ 28؍اپریل 1900ء کو مسیح موعودؑ کا یہ عاشق صادق صرف پچیس سال کی عمر پاکر اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔
حضرت اقدسؑ نے جو تعزیت نامہ تحریر فرمایا اُس میں لکھا: ’’عزیزی مرزا ایوب بیگ جیسا سعید لڑکا جو سراسر نیک بختی اور محبت اور اخلاص سے پُر تھا، اس کی جدائی سے ہمیں بہت صدمہ اور درد پہنچا …ایک نوجوان صالح، نیک بخت جو اولیاءاللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا اور پودہ نشوونما یافتہ جو امید کے وقت پر پہنچ گیا تھا، یکدفعہ اس کا کاٹا جانا اور دنیا سے ناپید ہو جانا سخت صدمہ ہے۔ … الہام ہوا ’مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہوں ‘۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو۔ …‘‘اس کے بعد حضورؑ نے اپنے ایک خواب کا ذکر بھی فرمایا جس میں آپؓ کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کو فاضلکا میں دفن کیا گیا اور گیارہ سال بعد حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے زمانے میں آپؓ کا جسم مبارک صندوق میں بند قادیان لایا گیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے بمع جماعت کے اُن کا جنازہ پڑھایا اور پھر بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی مرتب کردہ ملک صلاح الدین صاحب ’’اصحاب احمد‘‘ کی جلد اول کے صفحہ 79سے 110 پر موجود ہیں۔ جن کے آغاز میں لکھا ہے کہ ’’یہ حالات ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے غالبا ً1901ء میں قلمبند کئے تھے۔ اور بعد ازاں 1935ء میں ڈلہوزی میں اس مسودہ پر نظر ثانی کی…راقم کو یہ حالات بلکہ خاندان کے متعلق حالات کا اکثر حصہ اور تصاویر اور سندات اور سرکاری چٹھیوں کی مطبوعہ نقول آپ کے برادر زادہ مرزا مسعود احمد صاحب بی اے، بی ٹی۔ ہیڈ ماسٹر مسلم ہائی سکول لاہور کے ذریعہ دستیاب ہوئی ہیں …۔‘‘
الغرض حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ کے نوجوانوں کے لیے ایک مؤثر نمونہ کے نوجوان تھے، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ محبت میں گداز تھے اور ان کی عملی زندگی قابل رشک تھی۔ اور ’’درجوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری‘‘کا مفہوم ان کے حسب حال تھا۔ یقیناً ان کے حالات زندگی سے آگاہی بہت سے لوگوں کے لیے آج بھی موجب راہنمائی ہوگی۔
٭…٭…٭