نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 9)
مشورہ دیتے وقت درمیانی راہ اختیار کی جائے
’’ہمیں اپنے فیصلے کرتےوقت دو باتیں ضرور مدنظر رکھنی چاہئیں۔ ایک تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیےکہ ہر جماعت میں کچھ لوگ طاقتور ہوتے ہیں اور کچھ کمزور ہوتے ہیں۔ اگر کوئی طاقتور ہو تو اسے کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ تمام کے تمام لوگ اسی رنگ میں طاقت رکھتے ہیں اور اگر کوئی خود کمزور ہو تو اسے خیال نہیں کرنا چاہئے کہ سب کو اُسی کی طرح کمزور ہو جانا چاہئے۔ طاقتور کو کچھ طاقت کم کرنی پڑتی ہے اور کمزور کو کچھ اُوپر ہونا پڑتا ہے تب دونوں مل کر کام کر سکتے ہیں۔ اِس کی موٹی مثال دو بیلوں کے متعلق ملتی ہے جو ایک گاڑی میں جُتے ہوئے ہوں۔ جن میں سے ایک مضبوط ہو اور ایک کمزور۔ ان کا مشترکہ کام دونوں کی طاقتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ طاقتور کا کام یہ ہوتا ہے کہ اپنی طاقت کی نسبت کچھ کم تیزی سے چلے اور کمزور کا کام یہ ہوتا ہے کم ہونے کی نسبت سے زیادہ طاقت لگائے۔ پس آپ لوگ جو مشورے دیں اُن میں یہ خیال ضرور رکھیں کہ درمیانی راہ اختیار کی جائے۔ نہ تو اتنا بوجھ بنایاجائے کہ کمزور چل ہی نہ سکیں اور نہ اتنا کمزوروں کا خیال رکھا جائے کہ ترقی ہو ہی نہ سکے۔‘‘(خطاب فرمودہ25؍مارچ1932ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ481تا482)
ہماری کامیابی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے
’’دوسری بات جو اپنے مشوروں میں مدنظر رکھنی چاہئے وہ یہ ہےکہ یہ سلسلہ خداتعالیٰ کا ہے اور اس کی ترقی ہماری کوششوں پر مبنی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت پر منحصر ہے۔ اس لئے ہمیں کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری کیا حیثیت ہے۔ ہماری حیثیت خواہ کچھ ہی ہو جن مقاصد کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور اُسی نے یہ کام ہمارے سپرد کر کے کہا ہے کہ جاؤ ان مقاصد کو حاصل کرو۔ اوّل تو خداتعالیٰ پر حُسنِ ظنی چاہتی ہے کہ ہم یہ خیال کریں کہ ہم ان مقاصد کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کوئی عقلمند انسان بڑے آدمی کا کام ایک بچہ کے سپرد نہ کرے گا۔ کوئی بادشاہ جرنیل کا کام ایک سپاہی کو نہیں دے گا۔ پھر کس طرح یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ خداتعالیٰ ہمارے سپرد وہ کام کرے جو ہم نہ کر سکتے ہوں اور وہ مقاصد پورے کرنا ہمارا فرض ٹھہرائے جن کے پورے کرنے کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔‘‘(خطاب فرمودہ25؍مارچ1932ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 482)
باہر سے آئے دوستوں کو بولنے کا زیادہ موقع دیا جائے
’’قادیان کے دوستوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ باہر سے جو دوست آئے ہوئے ہیں انہیں بولنے کا زیادہ موقع دیں۔ یہاں کے دوست ہر وقت مشورہ دے سکتے ہیں لیکن باہر کے دوستوں کو کم موقع ملتا ہے لیکن ایک بات اور بھی مدنظر رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ جو ناظر صاحبان ہیں اُن کا فرض ہے کہ اگر کوئی بات کسی غلط فہمی کی وجہ سے لمبی ہو رہی ہو تو وہ صحیح بات پیش کر دیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی صاحب ایک بات بیان کرتے ہیں لیکن اس کے متعلق اُنہیں غلط فہمی ہوتی ہے اور پھر اس پر بات لمبی ہوتی چلی جاتی ہے۔ مگر متعلقہ ناظر اس کی اصلاح نہیں کرتا ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘(خطاب فرمودہ14؍اپریل1933ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 534تا535)
مشورہ دینے والے آپس میں خطاب نہ کریں
’’دوست جب کوئی بات پیش کرنا چاہیں تو آپس میں خطاب نہ کریں۔ یہ بات دینی اور دُنیوی دونوں لحاظ سے ناجائز ہے۔ اِس مجلس مشاورت کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ آپ صاحبان سے مشورہ لے رہا ہے اِس لئے بات کرتے وقت مخاطب خلیفہ ہی ہونا چاہئے۔ یہ معمولی بات نہیں اِس کی وجہ سے انسان کئی قسم کی ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے۔ جب انسان کسی کو مدِّمقابل سمجھ کر کوئی بات کرتا ہے تو اُسے غصہ آجاتا ہے لیکن جب مخاطب خلیفہ ہو گا تو پھر غصہ نہیں آئے گا۔ پس احباب کو یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہئے کہ ایسے مواقع پر خلیفہ کو مخاطب کر کے بات کی جائے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بات کرتے وقت خلیفہ کا لفظ بولا جائے بلکہ یہ ہے کہ گفتگو کا رُخ اس کی طرف ہو۔
پھر یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ گفتگو مختصر اور بادلائل کی جائے۔ بعض لوگ تقریر کرتے وقت ایسی تفاصیل میں پڑ جاتے ہیں جو اصل بات سے دُور ہوتی ہیں۔ چونکہ وقت کم ہوتا ہے اور قابلِ مشورہ معاملات زیادہ اس لئے مختصر بات کرنی چاہئے۔
ایک اور بات جو گزشتہ اجلاسوں کی تربیت کے سبب سے کم تو ہو رہی ہے لیکن چونکہ ہر سال نئے نمائندے بھی آتے ہیں، اِس لئےکلّی طور پر بند نہیں ہوئی۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک ہی بات کو دُہرایا جاتا ہے۔ یہاں جو دوست گفتگو کرتے ہیں وہ ووٹ دینے کے لئے نہیں بلکہ دلائل بیان کرنے کے لئے کرتے ہیں اِس لئے نئی دلیل بیان کرنی چاہئے اور بیان شُدہ دلیل کو دُہرانا نہیں چاہئے۔ ووٹ اس وقت ہوتا ہے جب کھڑے ہونے کے لئے کہا جاتا ہے۔ علاوہ اِس کے کہ اِس طرح وقت ضائع ہوتا ہے یہ بھی ہوتا ہے کہ بار بار کی تکرار عقل اور فکر پر بُرا اثر ڈالتی ہے کئی طبائع خیال کرتی ہوں گی اور کرتی ہیں کہ ایسے اصحاب مجلس میں سوتے رہتے ہیں اور جو کچھ بیان کیا جاتا ہے سُنتے نہیں اِس لئے وہی کہنا شروع کر دیتے ہیں جو دوسرے کہہ چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ اثر پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس سنجیدگی سے اِس مقام پر نہیں بیٹھتے جس سے کہ بیٹھنا چاہئے۔ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ بن کر بیٹھے ہیں۔ ملائکۃُ اللّٰہ کا زمین پر نمونہ بن کر بیٹھے ہیں۔ اِس لئے ضروری ہے کہ پوری توجہ اور غور سے باتیں سُنیں اور ہر بات کی طرف متوجہ رہیں ورنہ لوگ ہم پر ہنسی کریں گے۔ یہ ہنسی ان کے لئے بھی مضر ہے مگر ہمارے مقام کے لحاظ سے ہمارے لئے بھی ناموزوں ہے۔ پھر وقت بھی زیادہ صَرف ہو جاتا ہے اور کام کم ہوتا ہے اِس وجہ سے پروگرام یا تو جلدی جلدی ختم کرنا پڑتا ہے یا باقی رہ جاتا ہے۔‘‘(خطاب فرمودہ14؍اپریل1933ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 535تا536)
نمائندگان اپنی جماعتوں کے امین ہیں
’’ایک بات یہ مدنظر رکھنی چاہئے کہ آپ صاحبان اپنی جماعتوں کے نمائندے ہیں اور اس لحاظ سے امیدکی جاتی ہے کہ جو امور ایجنڈا میں لکھے گئے ہیں ان کے متعلق آپ نے اپنی جماعتوں سے مشورہ کیا ہو گا۔ اگر نمائندہ کی رائے اور جماعت کی رائے یا جماعت کی کثرت کی رائے ایک ہو تو اسے پیش کریں۔ اور اگر جماعت نے کوئی رائے نہ دی ہو تو اپنی رائے پیش کریں لیکن اگر ان کا مشورہ جماعت کی رائے کے خلاف ہو یعنی ان کی رائے اور ہو اور جماعت کی اَور تو جماعت کی رائے بھی پیش کریں کیونکہ وہ جماعت کی طرف سے امین ہیں۔‘‘(خطاب فرمودہ14؍اپریل1933ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 536)
مشورہ دیتےوقت کیاحالت ہونی چاہیے
’’کیا تم خیال کرتے ہو کہ جو مشورہ تکبر، تعلّی اور غرور کے ساتھ دیا جائے وہ خداتعالیٰ کےفضل کو جذب کرنے کا موجب ہو سکتا ہے، قطعاً نہیں۔ ہماری حالت تو یہ ہونی چاہئے کہ جب ہماری زبانیں کسی مشورہ کے لئے بول رہی ہوں تو ہمارے دل خداتعالیٰ کے عرش کے سامنے لرز رہے ہوں۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ دوست مشورہ دیتے وقت اِس بات کو مدنظر رکھیں گے۔‘‘(خطاب فرمودہ31؍مارچ1934ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 574)
اسٹیج پر آکر مشورہ دینے والوں کو چند عمومی ہدایات
1935ء میں مجلسِ مشاورت کے دوسرے روز حضرت مصلح موعودؓ نے باقاعدہ کارروائی سے قبل بعض ہدایات ارشاد فرمائیں۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’جب کوئی تجویز پیش ہو تو پِیر صاحب[حضرت پیر اکبر علی صاحب]اُن دوستوں کے نام لکھیں گے جو اپنے نام لکھائیں گے۔ جن دوستوں کو بولنے کی خواہش ہو وہ اُسی وقت نام لکھا دیں۔ اگر بعد میں ضمنی سوال پیدا ہو یا تجویز کی اہمیت واضح ہونے پر کوئی نام لکھانا چاہے تو اس کے لئے استثناء رکھا جا سکتا ہے اور یہ بات پیر صاحب کے اختیار میں ہو گی یا ہو سکتا ہے کہ مَیں اجازت دے دوں۔
پھر مَیں اِس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اگر کسی وقت گفتگو کو لمبا کرنے سے روکا جائے تو دوست رُک جائیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جس بات سے روکا جائے بعض دوست اُسی پر لمبی بحث شروع کر دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر انفرادی رائے کسی معاملہ کے متعلق کسی مصلحت کے ماتحت نہ سنی جائے تو اُس سے سلسلہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور یہ بات بدتہذیبی میں داخل ہے کہ جس کے سپرد کام ہو اس سے یہ بحث شروع کر دی جائے کہ آپ میری بات سمجھے نہیں۔ اگروہ نہیں سمجھا اور اُس نے گفتگو لمبی کرنے سے روک دیا ہے تو کیا حرج ہو جائے گا۔ اُس وقت ضرور رک جانا چاہئے اور اگر ضرورت ہو تو تحریری طور پر لکھ کر بتا دینا چاہئے کہ میرا یہ مطلب تھا۔ اُس وقت اگر ضرورت ہو گی تو مَیں بولنے کی اجازت دے دوں گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ مضمون میں تکرار نہ ہونا چاہئے۔ اس کے متعلق میں نے کئی بار کہا ہے مگر دوست یاد نہیں رکھتے۔ انگلستان کی پارلیمنٹ کے متعلق میں نے حال ہی میں پڑھا ہے کہ وہاں بھی ایک بات کو بار بار دُہرایا جاتا ہے تو ہر جگہ یہ بات پائی جاتی ہے۔ مگرہمارا کام اور ہمارا طریق دُنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹ سے بھی بالا ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے آدمی بہت زیادہ ہوتے ہیں اور معاملات نہایت اہم ہوتے ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ احباب اختصار کو مدنظر رکھ کر بولیں بِلاضرورت ایک بات کو لمبا کرنا مفید نہیں ہو سکتا۔
پانچویں بات یہ ہے کہ کسی موقع پر بھی آپس میں ایک دوسرے کو مخاطب نہ کیا جائے۔ ہر ایک بولنے والے کو چاہئے کہ مجھے مخاطب کرے کیونکہ میں نے ہی آپ لوگوں کو مشورہ کے لئے بُلایا ہے۔
چھٹی بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی کہا جائے اُس میں نیک نیتی مدنظر رہے اور کوئی ذاتی سوال درمیان میں نہ آئے اور کسی کی ذات کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو گئی اور اُس پر تنبیہ کی ضرورت ہوئی تو میں خود کر دوں گا۔ (خطاب فرمودہ20؍اپریل1935ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 622تا623)
(جاری ہے)
٭…٭…٭