حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب
حضرت مولوی صاحب خوانین کے ایک معرزقبیلہ کے آفریدی پٹھان تھے۔ آپ کی ولادت اپنے آبائی وطن قائم گنج ضلع فرخ آباد (صوبہ یو پی) بھارت میں ہوئی۔ یہ شہر ہمارے جد امجد مکرم قائم خاں صاحب نے آباد کیا تھا جوفرخ سیر(Farrukhsiyar)بادشاہ ہند کے زمانے میں مردان صوبہ خیبرپختون خوان سے بمع اپنے قبیلہ کے متبعین تشریف لائے تھے۔
آپ کی تاریخ پیدائش اکتوبر 1885ء ہے۔ آپ کے والد کا اسم گرامی مکرم نامدار خان صاحب اور دادا مکرم مدار خان صاحب تھے۔ نامدار خان ریاست حید رآباد کے محکمہ پولیس میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر فائز تھے۔ آپ کی پیدائش ایک دیندار گھرانے میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ فجر کے وقت یہ کہہ کر بیدارکرتیں کہ اٹھو تمہیں کوئی بلا رہاہے۔ آپ جب جاگ کر دریافت کرتے کہ کون بلا رہا ہے تو جواباًآپ مؤذن کی اذان کی طرف متوجہ کر کے فرماتیں، اذان سنو تمہیں بلایا جارہاہے پھر آپ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ نماز ادا کرنے چلے جاتے۔ مسجد ہمارے گھر کی حویلی میں ہی تھی جس میں گھر کے رہائشی اور ہمسائے نماز ادا کیا کرتے تھے۔
مولوی صاحب کی پرائمری تک تعلیم قائم گنج کے مقامی سکول میں ہوئی۔ اس کے بعد اٹاوہ چلے گئے جہاں بورڈنگ ہاؤس میں رہائش اختیار کر کے ہائی سکول کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کالج کی تعلیم بی ایس سی تک علی گڑھ میں حاصل کی۔
قبول احمدیت
آپ کا واقعہ قبول احمدیت بہت ایمان افروز ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ زمانہ طالب علمی میں جب میں اٹاوہ بورڈنگ ہاؤس میں تھا تو اللہ تعالیٰ رات کی تنہائی میں ایسے میٹھے سبق پڑھاتا کہ ان کی لذت میرے دل اور روح کے ایک ایک گوشے میں سما جاتی۔ فرمایا یہ سلسلہ کچھ عرصےتک جاری رہا لیکن پھر اچانک ایک دن بند ہو گیا اور اس کے بعد باوجود میری انتہائی بے تابی اور بے قراری اور گریہ وزاری کے پھر جاری نہ ہوا۔ جب میری بے قراری انتہا کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ کچھ عرصے بعد تم ایک شخص سے ملو گے اب اس کے وسیلے سے ہی یہ سلسلہ تمہارے لیے دوبارہ جاری ہو گا۔
آپ ابھی علی گڑھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھےکہ جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کا ذکر مخالفانہ رنگ میں آپ کے کانوں میں پڑنے لگا۔ ایک روز ایسی ہی کسی مجلس میں ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا کہ نعوذ باللہ مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں، چونکہ حضرت مولوی صاحب کوحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی آپ نے اس وجہ سے چاہا کہ اس شخص یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف جن کی طرف یہ گستاخی منسوب کی جارہی ہے، کچھ کہوں۔ لیکن وہ الفاظ جو آپ کے دل میں تھے ابھی حلق تک نہیں پہنچے تھے کہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے القا ہوا کہ خبردار اس شخص کے خلاف کوئی لفظ زبان سے نہ نکلے یہ وہی برگزیدہ ہے جس کے ذریعہ وہ سلسلہ تمہارے لیے دوبارہ جاری ہو گا جو اٹاوہ میں منقطع ہوا تھا۔
کالج کی چھٹیوں میں جب آپ اپنے گھر آئے ہوئے تھے تو آپ کی ملاقات اپنے چچا مکرم نواب اکبر یار جنگ صاحب سے ہوئی جو ان دنوں حیدرآباد دکن میں ہوم سیکرٹری کے معزز عہدہ پر متمکن تھے۔ میرے والد صاحب نے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں ذکر کیا توانہوں نے جواباً کہاکہ میں تو ایمان لے آیا ہوں قادیان جاکر بیعت کرنے کا ارادہ ہے۔
بیعت
محترم والد صاحب کو بھی قادیان جانے کا خیال زور پکڑ گیا اور انہی دنوں چھٹیوں میں آپ قادیان چلے گئے۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ آپ نے ان کی بیعت کی اور پھر آکر اپنی تعلیم مکمل کی۔
زمانہ طالب علمی میں توکل علی اللہ
علی گڑھ میں تعلیم کے آخری سال آپ کو سیکرٹری میس چن لیا گیا اوراس طرح آپ کو یہ عہدہ ایک سال نبھانا پڑا۔ میس کے قواعد میں یہ بات بھی تھی کہ جس طالب علم کی میس فیس ختم ہوجاتی تو سیکرٹری میس اس کے کھاناکھانے کی اجازت بند کردیتا۔ اتفاق سے ایک ماہ آپ کی میس فیس ختم ہوگئی۔ اس پر آپ نے خود ہی کھانا تناول کرنا چھوڑد یا۔ میس کے منتظم نے میس کے صدر( جو کالج کے ایک استاد تھے)سے اس معاملہ کا ذکر کیا۔ میس کے صدر صاحب نے آپ سے مل کر کہا کہ میں آپ کو کھانا کھانے کی اجازت دیتا ہوں۔
آپ نے جواباً عرض کیا کہ آپ کا بہت بہت شکریہ اگر میں خود سیکرٹری نہ ہوتا تو ضرور آپ کی پیش کش قبول کر لیتا۔ اب جبکہ میں خوداس قاعدہ کی پابندی کرواتا ہوں تو اپنے لیے اس قاعدے کو فراموش نہیں کرسکتا۔ چنانچہ ایک دو دن یونہی بغیر کھانا کھائے گزر گئے کہ ایک دن صبح صبح کسی نے آپ کے کمرے کے دروازے پر دستک دی جب آپ باہر نکلے تو اس نے آپ کو مطلوبہ رقم پیش کی۔ اسی وقت آپ سے فرشتے نے کہا کہ’’اس رقم سے تمہاری دنیاوی ضرورت تو پوری ہوجائےگی لیکن تمہاری روحانی ترقی رک جائے گی‘‘۔ آپ نے یہ سن کر بڑی سختی سے رقم لینے سے انکار کردیا۔
اس واقعہ کے کچھ دیر بعدآپ کو اپنے ماموں کی طرف سے منی آرڈر مل گیا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے والد صاحب اپنے والد (یعنی میرے دادا)سے کچھ لینا بالکل پسند نہیں کرتے تھےکیونکہ میرے دادا حیدر آباد دکن کے محکمہ پولیس میں سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے اور پولیس کی شہرت کچھ اچھی نہ تھی۔
میرے دادا کی عدم موجودگی میں میرے والدصاحب کے ماموں ہماری زرعی زمینوں کی نگرانی کرتے تھے اوراس کی آمد میری دادی کودیتے اورانہی کی ہدایت سے خرچ کرتے تھے۔ میرے دادا کی اراضی کئی گاؤں میں سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل تھی، جو مزارع کاشت کیا کرتے تھے۔
قادیان میں دوبارہ آمد
علی گڑھ میں بی ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہوتے ہی آپ کو قادیان کی یاد نے بے قرار کر دیا۔ لہٰذا آپ امتحانات کے بعد گھر جانے کی بجائے سیدھے قادیان کھنچے چلے آئے۔ قادیان آکرحضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری بیماری کے ایام میں تیمارداری میں ہمہ تن حصہ لیا اور حضورؓ کی وفات کے بعد بھی قادیان میں ہی ٹھہرے رہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح اورقادیان سے محبت اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا
ابھی آپ قادیان میں ہی مقیم تھے کہ آپ کو گھر والوں نے تین کارڈ جو آپ کے بی ایس سی کے نتیجے کے بعد گھر میں یکے بعد دیگرے آئے تھے قادیان بھجوا دیے۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور یہ تینوں کارڈ پیش کر دیے۔
ایک کارڈ وائس چانسلرعلی گڑھ یونیورسٹی کے آفس سے ملا جس میں لکھا تھا کہ چونکہ تم پہلے مسلمان طالبعلم ہو جس نے کیمسٹری میں گریجویشن کی ہے اس لیے جناب وائس چانسلر صاحب آپ کو بحیثیت ڈیمانسٹر رکھنا چاہتے ہیں جتنی جلدی ہو سکے ہیڈ آفس میں رپورٹ کریں۔
دوسرا کارڈ گورنمنٹ آف انڈیا کی طرف سے تھا۔ جس میں درج تھا کہ وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی کی طرف سے انڈین آئی سی ایس سول سروس کے لیے جن ناموں کی سفارش کی گئی ہے ان میں تمہارا نام بھی ہے۔ اس لیے آؤ اور دفترہٰذا میں رپورٹ کروتاکہ تمہارے انٹرویو کی تاریخ طے کی جاسکے۔
تیسرا کارڈ ضلع فرخ آباد کے کمشنر آفس کی طرف سے کمشنر صاحب سے انٹرویو کے متعلق تھا۔ کمشنر صاحب نے میرے دادا جان سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ جب ان کا بیٹا گریجویٹ ہو جائے گا تو وہ اُسےبراہِ راست تحصیلداری کی سروس دیں گے۔
حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ نےوالد صاحب سے آپ کا رجحان جاننے کے لیےاستفسارفرمایا کہ تم محکمہ تعلیم یا ایڈمنسٹریشن میں سے کس شعبہ میں جانا پسند کرتے ہو۔ آپ نے بڑے ادب سے عرض کیا۔ حضور!میں قادیان اس ارادے سے آیا ہوں کہ اگر مجھے سڑک پر بیٹھ کر لوگوں کی جوتیاں پالش کرنے یا مرمت کے لیے کہا جائےگا تو حکم کی تعمیل کروں گا مگر قادیان سے نہیں جاؤں گا۔ اس پرحضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب سن کر فرمایا کہ کل سے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں سائنس پڑھانا شروع کرو۔
آپ ابتدا میں کچھ عرصہ آنریری طورپر پڑھاتے رہے۔ جبکہ 15؍نومبر1916ء کو آپ کا مستقل تقرر بطور سائنس ٹیچرتعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان ہوا۔
مرکزی عہدوں پر خدمت کا موقع
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جنوری1919ء میں جب پہلی مرتبہ نظارتوں کی تشکیل فرمائی تو آپ کو ناظر بیت المال مقرر فرمایا۔(الفضل4؍جنوری1919ء)نظارت بیت المال میں 17سال کام کرنے کے بعد 1936ءمیں آ پ کا تبادلہ ہوا اورآپ ناظردعوت و تبلیغ مقرر ہوئے۔ یکم نومبر 1945ء کو 60سال کی عمر ہوجانے پر حسب قواعد صدر انجمن احمدیہ سےآپ ریٹائر ہوئے لیکن چارج دینے کے دوسرے روز ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحریک جدید میں وکیل التبشیر مقرر فرمایا۔ تقسیم ملک پر جب صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر پاکستان آئے تو اوّل لاہور اوربعد ازاں ربوہ میں آپ بیک وقت ناظر دعوت وتبلیغ اوروکیل التبشیر کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان ہر دو ذمہ داریوں سے 1950ءمیں آخری مرتبہ سبکدوش ہوئے۔ (الفضل 10؍جنوری 1960ء صفحہ 3)
آپ کو متعدد مرتبہ جلسہ سالانہ قادیان اور ربوہ میں مختلف موضوعات پر تقاریر کا موقع ملتا رہا اور بعض اجلاسات جلسہ سالانہ کی صدرات کا اعزاز حاصل ہوا۔
نمائندہ مجلس مشاورت
16،15؍اپریل 1922ءکی اولین مجلس مشاورت (رپورٹ مجلس مشاورت 1922ء صفحہ 3 زیر نمبر 27) سے لے کر1950ء تک جب تک آپ ناظر رہے، مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے مجلسِ مشاورت میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا خراج تحسین
جولائی 1924ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ نے سفرِ یورپ کے لیے روانگی سے قبل ایک مشاورتی کمیٹی تجویز فرمائی تھی جس کے بارہ ممبران میں سے چوتھا ممبر آپ کو نامزد فرمایا اورآپ کے بارے میں فرمایا: ’’ماسٹر عبدالمغنی صاحب کی بھی میں قدر کرتا ہوں سلسلہ کے کاموں کے تفکرات کی وجہ سے وہ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ ان کی عمر اتنی نہیں جتنی عمر کے وہ نظر آتے ہیں لیکن مالی معاملات میں اعتراضوں اور تنبیہوں کی وجہ سے وہ جوانی میں ہی بوڑھے ہوگئے ہیں۔‘‘(الفضل 22؍جولائی1924ء صفحہ6)
اسی طرح26؍مارچ 1939ء کو جلسہ خلافت جوبلی کے پروگرام کی تکمیل کے لیے ایک سب کمیٹی مقرر ہوئی جس کے ایک ممبر آپ بھی تھے۔ اس سب کمیٹی کی تجاویز مجلسِ مشاورت 1939ءمیں پیش کی گئیں جن پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فیصلہ جات فرمائے۔ اورانتظامات کی سرانجام دہی کے لیے پانچ رکنی کمیٹی مقرر فرمائی جس کے صدر حضرت چودھری محمدظفر اللہ خان صاحبؓ تھے اورایک ممبر آپ بھی تھے۔ (روئیداد جلسہ خلافت جوبلی از حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد)
کمیٹی فرقان بٹالین کے ممبر
1948ءمیں حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ سے ایک رضاکا ربٹالین کے قیام کا منشا ظاہر کیا جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرقان بٹالین کا قیام فرمایا۔ اس بٹالین میں رضا کار بھجوانےاور دوسرے ضروری انتظامات کرنے کے لیےدرج ذیل کمیٹی کا قیام فرمایا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ (صدر)۔ مکرم مولوی عبدالرحیم درد صاحبؓ (سیکرٹری)۔ مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ناظر امورعامہ (ممبر)۔ مکرم مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر دعوۃ وتبلیغ (ممبر)۔ اس کمیٹی کا دفتر قیام امن کے نام سے موسوم تھا۔ (تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ700تا701)
آخری بیماری
آپ ایک عرصے سے انتڑیوں کی شدید تکلیف کی وجہ سے بیمار چلے آرہے تھے۔ مئی 1955ءمیں آپ شدید بیمار ہوئے۔ ابتداءًربوہ میں علاج کرایا جاتا تھا۔ مگر افاقہ نہ ہوا۔ مرض بڑھتا چلا گیا۔ اور صحت کمزور ہوتی چلی گئی۔ مورخہ 21؍جولائی 1955ء کو بغرض علاج آپ کے دامادمحترم برادرم میجر محمد وقیع الزمان خان صاحب نے انہیں سیالکوٹ بلا لیا۔ وہاں مکرم ڈاکٹر کرنل شفیع صاحب میڈیکل سپیشلسٹ اور مکرم ڈاکٹر میجر اکرم صاحب سرجیکل سپیشلسٹ کے زیر علاج رہے۔ بعد تحقیقات و باہمی مشورہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ حضرت والد صاحب کے پیٹ میں کینسر (یعنی سرطان) ہے جس کا علاج سوائے آپریشن کے کوئی نہیں۔ سیالکوٹ میں آپ ایک ماہر یونانی طبیب کے بھی زیر علاج رہے۔ انہوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ میو ہسپتال میں لے جاکر اس امر کی تحقیق کر لی جائےکہ کینسر تو نہیں۔ کیونکہ طب یونانی میں بھی تاحال کینسر کا کوئی علاج معلوم نہیں ہو سکا۔
مورخہ 19؍اگست 1955ء کو حضرت والد صاحب کو سیالکوٹ سے لاہور لے جاکر میو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ مکرم ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب سرجن اور مکرم ڈاکٹر یعقوب صاحب آپ کے معالج تھے۔ بعض ادویہ اور متعدد ایکسریز کے ذریعے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انتڑی میں کینسر ہے جو کافی خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ اوراس کا اثر جگر تک ہو چکا ہے۔ اس لیے سوائے آپریشن کے کوئی اور چارہ نہیں۔ مگر اس وقت حضرت والد صاحب اس قدر نحیف اور لاغر ہو چکے تھے کہ آپریشن نہیں ہوسکتا تھا۔ طاقت کے ٹیکے لگائے گئے۔ خون دیا گیا، مگر بے سود۔ کمزوری بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ ہر وقت بے ہوشی کی سی حالت رہنے لگی۔ مورخہ 29؍اگست 1955ء کی درمیانی شب تو نہایت مایوس کن تھی۔
چونکہ ان ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بسلسلہ علاج یورپ تشریف لے گئے ہوئے تھے حضورؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ کو امیر مقامی مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ صاحبزادہ صاحبؓ موصوف کو والد صاحب کی حالت سے مطلع کیا گیا۔ حضرت میاں صاحبؓ نے ازراہِ شفقت مکرم ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کو ذاتی چٹھی لکھی اور ان کی رائے طلب کی۔ چنانچہ مکرم ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب اورمکرم ڈاکٹر یعقوب صاحب کی رائے کے مطابق کہ اس وقت آپریشن ناممکن ہےاوراس کے سوا کوئی علاج نہیں مورخہ 31؍اگست 1955ءکووالد صاحب کو میو ہسپتال سے واپس ربوہ لایا گیااور میو ہسپتال کا مجوزہ علاج جاری رہا۔ جب ریل گاڑی ماڑی انڈس ربوہ اسٹیشن پررات 12بجے پہنچی تو حضرت والد صاحب کو بتایا گیاکہ آپ ربوہ پہنچ گئے ہیں تو ایسے معلوم ہوا جیسے آپ میں زندگی کی روح دوڑ گئی ہے۔ آپ آنکھیں کھولتے اور احباب کو دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرتے تھے۔
چنانچہ محترم حضرت ڈاکٹرسید غلام غوث شاہ صاحبؓ نے آپ کو السلام علیکم کہا تو آپ نے صرف آنکھ کھول کر دیکھا۔ چنانچہ اس خیال سے کہ شاید آپ نے پہچانا نہ ہو۔ بتایا گیا کہ ڈاکٹر غلام غوث صاحب السلام علیکم کہتے ہیں۔ تو آپ فرمانے لگے۔ ’’پہچان لیاوعلیکم السلام ‘‘
اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ رات تو نسبتاً اچھی گزر گئی۔ مگر پھر وہی نیم بے ہوشی کی سی حالت ہوگئی۔ نہایت درجہ کمزور اور لاغر ہوگئے۔ گھبراہٹ بہت زیادہ ہوگئی۔
ربوہ آنے کے دوسرے دن حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحبؓ دیکھنے کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت والد صاحب کی حالت بہت کمزور تھی۔ نیز حضرت میاں صاحبؓ کو دیکھ کر کچھ رقت کی سی حالت ہوگئی جس کی وجہ سے آپ بول نہیں سکے۔ حضرت میاں صاحبؓ چند منٹ آپ کے قریب تشریف فرمارہے اور دعا کے بعد واپس تشریف لے گئے۔
وفات
آپ کی وفات 4؍ستمبر 1955ء کوبوقت پونے تین بجے سہ پہر ہوئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کی وفات کی اطلاع ملتے ہی بزرگانِ سلسلہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ امیر مقامی بھی باوجود علالتِ طبع بنفسِ نفیس تشریف لائے۔ آپ نے جنازہ پڑھانے کا وقت اگلے دن5؍ستمبر1955ء صبح 9بجے مقرر فرمایا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی شفقت
ان دنوں چونکہ گرمی کافی تھی اس لیے چنیوٹ سے برف کے کئی بلاکس منگو الیے گئے۔ برف کے پہنچنے سے پہلے آپ کو غسل دے کر کفنادیا گیا۔ برف کے آتے ہی آپ کی چارپائی کے اردگردبلاکس رکھ دیے گئے۔ پھر مغرب کے بعد میت والی چارپائی صحن میں منتقل کردی گئی۔ جہاں خواتین کے بیٹھنے کےلیےچارپائیاں بھی بچھادی گئیں اورمردوں کے لیے گھر کے دروازہ کے ساتھ باہر سڑک پر بیٹھنے کا انتظام کردیاگیا۔ خاکسار چنددوستوں کے ساتھ گھر کےباہر بیٹھاتھا۔ ہم نےدیکھا کہ کوئی شخص مسجد محمود(کوارٹرز تحریکِ جدید) کی غربی جانب سے جو سڑک ہمارے کوارٹر کی طرف آتی تھی، آرہا ہے۔ اس وقت رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ سڑک پر اندھیرا بھی تھا۔ میں نے چال دیکھ کر اندازہ لگایا کہ یہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحبؓ ہیں۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ یہ تو ہمارے میاں صاحب ہیں۔ بعض دوست تو ہنس پڑے اورکہا کہ اگر میاں صاحب ہوتے تو ان کے ساتھ پہر ہ دار بھی ہوتا۔ ابھی فیصلہ نہ کرپائے تھے کہ وہ وجودہمارے قریب آگیا۔ اورحضرت میاں صاحب نے میرا نام پکارکرپوچھاکہ عبد المنان کہاں ہے؟ میں نے بآواز بلند جواب دیا کہ میں حاضر ہوں اور آپ کی طرف دوڑا، مصافحہ کیا۔ آپ پوچھنے لگے میت کہاں رکھی ہے مجھے دکھاؤ میں اس فکر میں سو نہیں سکا کہ تم نے میت ٹھیک طرح سے رکھی ہے یا نہیں۔ تم ابھی چھوٹے ہو۔ میں خود جاکردیکھوں تو پھر تسلی ہو۔ میں آپ کو گھر کے اندر صحن میں لے گیا۔ آپ نے اندر آتے ہی فرمایا مجھے صحیح الفاظ یاد نہیں لیکن آپ نے جو فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے یہی فکر تھی یا اسی بات کا ڈر تھا کہ تم نے میت کے گردبرف کا انتظام درست طریق سے نہیں کیا ہوگا۔
خاکسار نے چارپائی پر دری بچھا کرکھیس ڈالااورپھر سفید چادر بچھاکر میت کو رکھا اورچارپائی کے چاروں طرف برف کے بلاک رکھ دیے تھے۔ آپ نے اس طریق کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے کوئی اورچارپائی دکھاؤ۔ جو خواتین صحن میں بیٹھی تھیں اندر برآمدے میں چلی گئیں۔ چند چارپائیاں صحن میں بھی خالی پڑی تھیں۔ میں نےان پر سے دری کھیس وغیرہ اٹھا دیے۔ آپ نے ایک چارپائی منتخب کی جو نسبتاً بڑی تھی اور مونج کی بنی ہوئی تھی۔ میں نے باہر سے کچھ دوستوں کو بھی بلالیا۔ جس تختے پر غسل دیا تھا وہ ابھی گھر میں ہی پڑا تھا۔ حضرت میاں صاحبؓ نے وہ تختہ ایک جگہ بچھواکر اس پر برف کا بلاک رکھوایا۔ آپؓ نے جو چارپائی پسند کی تھی اس کھُری [خالی] چارپائی پرکفن میں لپٹی ہوئی میت رکھوائی اوریہ چارپائی برف والے تختے پر اس طرح رکھوائی کہ چارپائی برف سے صرف ایک آدھ اِنچ اوپر ہو۔ چارپائی کےنیچے تختے پر جس قدر برف آسکتی تھی رکھ دی گئی تھی۔ اب چارپائی کی پٹیوں اورمیت کے اوپر چادریں اس طرح ڈلوائیں کہ برف کی ٹھنڈک سائیڈوں سے نہ نکلے بلکہ میت کو ہی پہنچے۔ پھر بھی جو برف بچ گئی تھی وہ چارپائی کے چاروں طرف رکھوادی۔
حضرت میاں صاحبؓ کی فکر اورپریشانی آپ کے لباس سے بھی عیاں ہورہی تھی۔ آپ نے سونے کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔
ہر طرح سے تسلی کرنے کے بعد جب آپ واپس جانے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل پڑا۔ آپ کھڑے ہوگئے اورمجھے وہیں رکنے کے لیے فرمایا۔ پھر مکرم مولوی عبدالکریم صاحب سابق مبلغ سیرالیون جو ہم سب میں بڑے تھے آپ کے ساتھ آپ کے گھر تک گئے۔
نماز جنازہ
نمازجنازہ میں بزرگانِ سلسلہ و احبابِ جماعت بڑی کثرت سے شامل ہوئے۔ تمام مقامی جماعتی ادارے جنازہ کے لیے بند کر دیے گئے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلبہ بھی اپنے اساتذہ کی معیت میں شامل ہوئے۔ بہشتی مقبرہ کے میدان میں حضر ت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
تبرک حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں آپ کی تدفین
خاکسار کے بہنوئی مکرم میجر محمدوقیع الزمان خان صاحب مرحوم اس وقت سیالکوٹ میں تھے۔ جو بمشکل جنازہ میں شامل ہوسکے تھے۔ جنازہ کے معاً بعد آپ حضرت میاں صاحبؓ کے پاس پہنچے اور والدصاحب کی ایک وصیت کا ذکرکیا۔ پھر اسی وقت مجھے بھائی جان وقیع نے بلایا اوراپنے ساتھ گھر چلنے کو کہا۔ میں ان کے ساتھ کار میں گھر آیا۔ راستے میں آپ نے اپنےاُس بکس کے متعلق پوچھا جو قادیان میں ہجرت سے قبل سے ہمارے گھر میں تھا۔ اورہجرت کے بعد بھی ہمارے گھر میں موجود تھااور آج بھی ہے۔ اس وقت تک ہمیں اس بکس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس میں کیا ہے۔ گھر پہنچ کر وہ مقفّل بکس میں نے نکالا۔ بھائی جان نے اس کا تالہ توڑا اوراس میں سے ایک چادر سفید رنگ کی نکلی۔ بھائی جان وقیع نے بتایا کہ تم اورشکور(میرے بڑے بھائی مرحوم) چھوٹے تھے تو حضرت مولوی صاحب نے مجھے بتایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ میں پہلی بیعت جس کمرہ میں لی اس کمرہ میں یہ چادر بیعت کے وقت بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اسی پر تشریف فرماکر بیعت لی تھی نیز لدھیانہ میں جتنی بیعتیں ہوئی تھیں اسی پر بیٹھ کر لی تھیں۔ حضرت مولوی صاحب نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ جب وہ فوت ہوجائیں توانہیں اسی چادر میں دفن کیا جائے۔
بھائی جان وقیع نے یہ بھی بتلایا کہ انہوں نے میرے والد سے درخواست کی کہ یہ بہت لمبی چوڑی ہے اگر اجازت دیں تو آدھی وہ اپنے کفن کے لیے رکھ لیں تو انہوں نے اجازت دے دی تھی۔ لیکن چونکہ اس وقت حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ اورسب حاضرین جنازہ انتظار کررہے تھے اور آدھا کرنے کا وقت نہیں تھااس لیے یہ چادر ویسی کی ویسی لے کر ہم دونوں جنازہ گاہ پہنچے اوروالد صاحب کی میت کو تابوت سے نکال کر چادر دوہری چوہری کر کے تابوت میں بچھا دی پھر میت رکھ کر اچھی طرح لپیٹ دیا۔ قبر تیار ہونے پر حضرت میاں صاحبؓ نے دعا کروائی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا اظہار تعزیت
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنے علاج کے بعد جب واپس پاکستان تشریف لائے تو چند دنوں کے لیے خود تو کراچی میں رُک گئے لیکن حضرت اُم وسیم صاحبہ کو اگلے دن ہی ربوہ میری والدہ سے والد صاحب کی تعزیت کے لیے بھجوادیا۔ وہ خاص طورپر حضورؓ کی طرف سے اوراپنی طرف سے تعزیت کے لیے چند دن مسلسل آتی رہیں۔ دو تین گھنٹے بیٹھ کر پھر چلی جاتیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت مولوی صاحب کے بارے میں ذکر خیر
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 23؍ستمبر 1955ء کےخطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’مولوی عبد المغنی خان صاحب بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں اپنی زندگی وقف کی۔ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قادیان ہجرت کرکے آگئے اورپھر وفات تک مرکز میں ہی رہے۔ اورسلسلہ کے مختلف عہدوں پر نہایت اخلاص اورمحبت کے ساتھ کام کرتے رہے۔‘‘(روزنامہ الفضل 22؍اکتوبر1955ء صفحہ3)
اس طرح آپ نے نوجوانی میں حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ کیے گئےاپنےاُس عہد کو پوراکیا جو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے دن کیا تھاکہ قادیان سے نہیں جاؤں گا۔
٭…٭…٭