اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
فروری/مارچ2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
17؍مارچ کو پولیس نے ایک آپریشن میں خوبصورت میناروں کو شہید کر دیا اور مسجد پر کلمہ طیبہ مٹانے کا بیڑا اٹھایا۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ یہ آر پی او (ریجنل پولیس آفیسر) کے حکم پر ملاّؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیا۔ ایس ایچ او کی نگرانی میں سات پولیس اہل کاروں اور دو میونسپل کارکنوں کی ایک ٹیم نے یہ توہین آمیز کارروائی کی
گرمولا ورکاں، ضلع گوجرانوالہ، فروری/مارچ 2021ء: سجاد حسین نامی ایک شخص نے گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر کو احمدیوں کے زیر انتظام مقامی ناصر ایلیمنٹری اسکول کے خلاف ایک خط بھیجا تھا۔ ڈی سی کی ہدایت پر ایک سیکیورٹی آفیسر نے انکوائری کے لیے اسکول کا دورہ کیا اور خود دیکھا کہ حسین کی شکایات بے بنیاد اور جھوٹی تھیں۔ اس کے بعد اسی کارکن نے 8صفحات پر مشتمل احمدیہ مخالف پمفلٹ تقسیم کیا۔
فرقہ وارانہ تشہیر کے خوف سے ایک احمدی وفد نے جناب سرفراز فلکی سی پی او سے ملاقات کی اور انہیں نفرت انگیز مواد اور احمدیوں کے مقبروں کے خلاف انتہا پسندوں کی مہم پر اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ سی پی او نے ان سے کہا کہ وہ اپنی درخواست جمع کرائیں۔ وہ اسے امن کمیٹی کو بھیجے گا، دونوں فریقوں کو بھی بھیجے گا، اور پھر عمل درآمد کے لیے اپنا فیصلہ دے گا۔ سی پی او کی ہدایت پر احمدیوں نے نفرت انگیز پمفلٹ کے بارے میں ایس پی سے ملاقات کی اور اسے ایک کاپی فراہم کی۔ اس نے بدلے میں ایس ایچ او گرمولا ورکاں سے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور وفد کو اگلے دن ایس ایچ او سے ملنے کو کہا۔ اسی رات سیکیورٹی انچارج نے ٹیلی فون کیا کہ احمدی وفد 2؍مارچ کو سی پی او سے جا کر ملاقات کرے۔
اسی مناسبت سے 6 رکنی احمدی وفد CPOکے دفتر گیا۔ وہاں پر امن کمیٹی کے تین ارکان کے علاوہ مخالفین، تحصیلدار، پٹواری اور ایک اور ریوینیو اہلکار موجود تھے۔ امن کمیٹی کے ارکان میں ایک سنی، ایک اہل حدیث اور ایک شیعہ شامل ہیں۔ کوئی احمدی نہیں۔ احمدیوں نے پولیس حکام کو مشورہ دیا کہ وہ ان سے علیحدہ ملاقات کریں، جسے انہوں نے مسترد کر دیا لیکن یقین دلایا کہ احمدیوں کو اپنی بات کہنے کا کافی موقع دیا جائے گا۔
پولیس نے پہلے سجاد حسین سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ اس نے کہا کہ قبرستان مسلمانوں کا ہے۔ قادیانیوں کا اپنا الگ قبرستان ہونا چاہیے۔ احمدیوں نے بتایا کہ گاؤں میں تین اضافی قبرستان تھے۔ اس قبرستان میں احمدی وفات شدگان عرصہ دراز سے دفن ہیں۔ احمدیوں نے یہ بھی کہا کہ قبرستان کا مسئلہ سجاد حسین کی درخواست پر عدالت میں زیر سماعت ہے۔
جہاں تک اسکول کا تعلق ہے، احمدیوں نے بتایا کہ اسکول ان کی برادری نے تعمیر کیا تھا، اور اس کی رجسٹریشن کے لیے سرکاری طور پر درخواست دی گئی ہے۔ اس پر مخالفین نے مشورہ دیا کہ دوسرے (غیر احمدی)بچوں کو فوری طور پر اس سے فارغ کر دیا جائے۔ احمدیوں نے جواب دیا کہ اس سے بچوں کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو جائے گا، ان طلبہ کے والدین بھی پھراسکول کی احمدیہ انتظامیہ کے خلاف ہوجائیں گے۔ تاہم اگر طلبہ خود ہی اسکول چھوڑ دیں تو انتظامیہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس پر ڈی ایس پی نے ریمارکس دیے کہ انتظامیہ کو پہلے مسلم بچوں کو داخلہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ جو کہ حیرت انگیز بات ہے!
احمدی وفد نے پولیس حکام کو بتایا کہ سی پی او نے احمدیوں سے کہا ہے کہ وہ نفرت انگیز پمفلٹ کے حوالے سے میٹنگ میں شرکت کریں نہ کہ اسکول اور قبرستان کے حوالے سے۔ سجادحسین نے پمفلٹ تقسیم کرکے احمدیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں۔ اس طرح اس نے قانون کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ اس پر سجاد کی پمفلٹ کی تقسیم پر بازپرس کی گئی۔
میٹنگ کے اختتام کے وقت، امن کمیٹی کے ایک رکن نے تجویز پیش کی کہ اسکول کو سیل کر دیا جائے اور کمیٹی تحریری طور پر یہ لکھ کر دینے کے لیے تیار تھی۔ احمدیوں نے جواب دیا کہ وہ اسے ماننے کو تیار نہیں۔ اس پر ڈی ایس پی غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ تم کون ہوتے ہو اسے قبول نہ کرنے والے۔ اسکول کو سیل کر دیا جائے گا اور اگر آپ تعاون نہیں کرتے تو (آپ کے خلاف) مقدمہ درج کیا جائے گا۔ آخر میں یہ تحریری طور پر پیش کیا گیا کہ جب تک احمدیوں کو علیحدہ قبرستان نہیں دیا جاتا وہ اسی قبرستان میں اپنی تدفین جاری رکھیں گے۔ مسلم بچے بھی تعلیمی سال کے اختتام تک اپنی کلاسز جاری رکھیں گے۔
اس کے بعد اسی سجاد حسین نے ڈی ایس پی نوشہرہ ورکاں کو لکھا کہ احمدیوں کےگرمولا ورکاں میں مسجدکے منار ہیں اور وہاں کلمہ بھی لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد ڈی ایس پی نے دونوں جماعتوں کو 8؍مارچ کو آنے کے لیے پیغام بھیجا۔ جب احمدی وفد وہاں پہنچا تو انہوں نے وہاں تقریباً 40 ملاؤں کو جمع پایا۔
قبرستان کے بارے میں احمدی وفد نے بتایا کہ چونکہ یہ معاملہ زیر سماعت ہے اس لیے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ جہاں تک اسکول کا تعلق ہے، والدین اگر اپنے بچوں کو اپنے طور پر اٹھوا لیں تو اس پر احمدیوں کو اعتراض نہیں ہوگا۔ جہاں تک کلمہ اور مناروں کو ہٹانے کا تعلق ہے، احمدی ایسا نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی پرائیویٹ پارٹی کو ایسا کرنے دیں گے۔ اگر پولیس وردی میں ایسا کرتی ہے تو احمدی مزاحمت نہیں کریں گے۔
اگلے دن ڈی ایس پی کے مطالبے پر احمدی قبرستان کے کاغذات، اسکول کی رجسٹریشن اور حلف کا بیان جمع کرانے وہاں گئے۔ ڈی ایس پی نے اس صورت حال کا دیکھ کر یہ خلاصہ پیش کیا کہ قبرستان کا معاملہ اب فعال نہیں ہے، درخواست اور چالان کے علاوہ اسکول کی رجسٹریشن نہیں ہے، (انہیں بتایا گیا کہ سرکاری طریقہ کار میں وقت لگتا ہے)۔ جہاں تک کلمہ کا تعلق ہے، ڈی ایس پی نے اصرار کیا کہ احمدی اسے خود ہٹا دیں۔ اسے بتایا گیا کہ احمدی ایسا نہیں کریں گے، لیکن پولیس کے خلاف مزاحمت نہیں کریں گے۔
اس پر ڈی ایس پی نے مقامی پولیس اور احمدیوں کو 11؍ مارچ کو ان کے پاس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔
پھر 17؍مارچ کو پولیس نے ایک آپریشن میں خوبصورت مناروں کو شہید کر دیا اور مسجد پر کلمہ طیبہ مٹانے کا بیڑا اٹھایا۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ یہ آر پی او (ریجنل پولیس آفیسر) کے حکم پر ملاّؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیا۔ ایس ایچ او کی نگرانی میں سات پولیس اہل کاروں اور دو میونسپل کارکنوں کی ایک ٹیم نے یہ توہین آمیز کارروائی کی۔ اس کے بعد محکمہ انسداد دہشت گردی کا ایک اہل کار آیا اور (ریاست کی طرف سے احمدیوں پر کی گئی اس زیادتی کی)تصویریں کھینچیں۔
اس سے 1953ء کےپنجاب فسادات پر تیار کی جانے والی ایک معروف رپورٹ کی یاد آتی ہے جسے مشہور ججوں نے تیار کیا تھا(جس کی تحریر کچھ یوں تھی کہ) ا حرار ( جو کہ احمدی مخالف مظاہرین تھے) کے ساتھ (حکام کی طرف سے) فیملی کے افراد جیسا سلوک روا رکھا گیا جبکہ احمدیوں کے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک کیا گیا۔
عظیم ججوں کی حکمت عملی!
گرمولا ورکاں جیسے متعدد واقعات کے پیش نظر ان دو عظیم ججوں کے فیصلوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جنہوں نے کورٹ آف انکوائری کی مشہور رپورٹ مرتب کی تھی:
1953ءکے پنجاب کے فسادات(اقتباس):
’’ انہیں یہی خوف تھا کہ اگر کوئی جرأت مندانہ یا دلیرانہ کام کیا گیا تو یہ غیر مقبول ہو جائیں گے۔ درحقیقت یہ انہی صفات کی کمی تھی کہ یہ اس تحریک کے سامنے جو لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکی تھی کھڑے نہ ہوئے اور نہ اسے روک سکے۔ لہٰذا ہماری رائے ہے کہ ہمارے لیڈرز اپنے فرض ادا کرنے میں ناکام رہے اور وہ اس موقع کو سلجھانے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے جو اس امر کا متقاضی تھا کہ یہاں یہ لیڈر اپنی دوراندیشی، حکمت اور مدبرانہ صلاحیتوں کا استعمال کرتے۔ اس پورے عرصے میں کسی بھی مقبول رہنما نے عام شہری کے فہم و عقل کو اپیل کرنے کی ہمت نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب ہنگامہ آرائی اپنے عروج پر تھی، ان میں سے کسی نے بھی لوگوں سے بات کرنے اور انہیں یہ سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ وہ ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیں جس کا فوری نتیجہ ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا ہے۔‘‘(صفحہ276)
1953ء کا فساد لاہور میں مارشل لاء کے نفاذ پر ختم ہوا۔ ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہرائے گی۔
٭…٭…٭