نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 10)
شوریٰ میں جمع ہونے کی غرض
’’جو دوست اِس موقع پر اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے مجلس شوریٰ کا نمائندہ بن کر آئے ہیں یا جن دوستوں کو میری طرف سے اِس غرض کے لئے منتخب کیا گیا ہے، میں اُن سب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک ہم اِس امر کو پوری طرح ذہن نشین نہ کر لیں کہ کس کام اور کس غرض کے لئے ہم یہاں جمع ہوتے ہیں، اُس وقت تک ہم اپنے کام کو کبھی صحیح طور پر بجا نہیں لا سکتے۔ میں نے جہاں تک جماعت کے حالات کا مطالعہ کیا ہے، میں افسوس کے ساتھ اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ابھی ہماری جماعت کا بیشتر حصہ ایسا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو نہیں سمجھا اور نہ وہ جماعت کی اہمیت اور اُس کے مقام سے واقف ہے۔ اگر ہم لوگ اس مقصد کو سمجھ جاتے تو یقیناً ہمارے اعمال اور افعال ایک نئے رنگ میں ڈھل جاتے اور اُن کے نتائج بھی موجودہ نتائج سے بہت شاندار نکلتے۔ جہاں تک میں نے سمجھا ہے ابھی تک بیشتر حصہ ہم میں ایسے لوگوں کا موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا، ہم آپؑ پر ایمان لائے اور ہمیں ہدایت حاصل ہو گئی اور جب ہدایت حاصل ہو گئی تو وہ سمجھتے ہیں کہ جو ہماری غرض تھی وہ پوری ہو گئی اور جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث فرمائے گئے تھے، وہ بھی حاصل ہو گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کے مامور افراد کی ہدایت کے لئے نہیں آتے بلکہ وہ قوموں میں تغیّرات پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں۔ دُنیا میں جب معمولی معمولی بادشاہوں کے ردّوبدل سے ایسے تغیّرات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اُن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے تو خدائی بادشاہوں کی آمد اور اُن کے قیام سے دُنیا میں بھلا کیا کچھ تغیّر پیدا نہ ہو گا۔‘‘(خطاب فرمودہ26؍مارچ1937ء، مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ131تا132)
مجلس شوریٰ کے آداب
’’میں سب سے پہلے اس دوسرے حصہ کو لیتا ہوں اور پھر اِس میں سے سب سے پہلے اِس امر کی طرف دوستوں کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ متواتر کئی سال سے میں احباب کو یہ بات بتا رہا ہوں کہ اِس وقت جو دوست جمع ہوتے ہیں بطور مجلس شوریٰ کے جمع ہوتے ہیں مگر افسوس کہ باوجود اس کے کہ سات آٹھ سال سے مَیں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں پھر بھی مغربیت ہمارے دوستوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی اِس لئے آج میں پھر اِس امر کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری مجلس کوئی پارلیمنٹ (PARLIAMENT) نہیں ہے، کوئی لیجسلیٹو اسمبلی (LAGISLATIVE ASSEMBLY) نہیں ہے بلکہ خالص اسلامی مجلس شوریٰ ہے یعنی آپ لوگ خواہ جماعتوں کی طرف سے نمائندہ بن کر آئیں، خواہ مرکز کی طرف سے آپ کو نامزد کیا جائے، خواہ صدر انجمن احمدیہ کے کارکن ہوں، خواہ دوسرے لوگ، آپ کے اس جگہ جمع ہونے کی محض اتنی ہی غرض ہوتی ہے کہ آپ خلیفۂ وقت کو اپنی رائے اور اپنے خیالات سے آگاہ کر دیں پس جب کہ اِس مجلس کی بنیاد ہی اِس اصول پر ہے کہ اِس میں صرف احباب خلیفۂ وقت کے سامنے اپنا مشورہ پیش کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو خطاب کلّی طور پر خلیفۂ وقت سے ہوتا ہے نہ آپس میں ایک دوسرے سے، مگر باوجود بار بار سمجھانے کے دوست ایک دوسرے کو مخاطب کرنے لگ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کا نام لے کر اعتراض کرنے یا جواب دینے لگ جاتے ہیں حالانکہ اِس مجلس کے آداب کے لحاظ سے ہر دوست کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اِس وقت اُس کے سامنے صرف ایک ہی وجود ہے جو خلیفۂ وقت کا وجود ہے۔ جب تک کوئی نمائندہ اِس مجلس میں بیٹھتا ہے اُس کو اپنے دائیں اور اپنے بائیں بیٹھنے والے آدمیوں سے ناواقف رہنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ میں ہی اکیلا خلیفۂ وقت سے خطاب کر رہا اور اُس کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں۔ مشورے کی غرض بالکل فوت ہو جاتی ہے اگر احباب اس بات کی پابندی نہ کریں اور اُن کے دماغ پر یہ بات مستولی رہے کہ چند دوسرے لوگ ہیں جن کے خیالات کو ردّ کرنا اُن کا کام ہے۔ اُن خیالات کو ردّ کرنا یا نہ کرنا یہ خلیفہ کا کام ہے اُن کا محض اتنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے خیالات ظاہر کر دیں اور خاموش ہو جائیں۔ اس امر کو مدنظر نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ باتوں میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اور نامناسب الفاظ ایک دوسرے کے متعلق استعمال ہونے لگ جاتے ہیں حالانکہ جب خطاب خلیفۂ وقت سے ہے تو کسی دوسرے کی بات کو ردّ کرنا کسی کے حق اور اختیار میں نہیں۔ میںامید کرتا ہوں کہ احباب اِس امر کو پھر ذہن نشین کر لیں گے کہ آئندہ جب کبھی بات کہنے کے لئے کھڑے ہوں تو گو دوسرے کی بات کی تردید کریں مگر ردّ خطاب کے طور پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصولی طور پر ہونا چاہئے اور ذاتیات کا سوال درمیان میں نہیں لانا چاہئے اور اگر کسی سے غلطی ہوئی ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس غلطی کو لمباکرے۔ اگر اس امر کو مدنظر نہ رکھا جائے اور ذاتیات کا سوال درمیان میں لایا جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے ایک بات کہتا ہے اور پھر دوسرا شخص کھڑا ہوتا ہے اور اس کا ردّ کرتا ہے اس کے بعد تیسرا کھڑا ہوتا ہے اور اس کا ردّ کرتا ہے اور اس طرح آپس میں ہی تکرار شروع ہو جاتا ہے اور اُن آداب کو وہ بھول جاتے ہیں جو خلافت کے لئے ضروری ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ اگر احباب نے اِس طریق میں اصلاح نہ کی تو مجھے کسی وقت زیادہ پابندی کے ساتھ اپنی اِس بات کو قائم کرنا پڑے گا اور ایسے دوستوں کو مجھے بولنے سے روکنا پڑے گا۔ ہم یہاں اِس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں، اسلام کی ترقی کی تجاویز سوچیں اور ایسی تدابیرعمل میں لائیں جن سے دین کو فائدہ پہنچے۔ بھلا اِس میں ہماری کیا عزت ہے کہ کہا جائے فلاں کی بات کم عقلی والی بات ہے لیکن ہماری بات بہت صحیح ہے۔ عقل سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے کیونکہ عقل علم کے تابع ہے اور علم خداتعالیٰ بخشتا ہے۔ بے شک عقلِ انسانی خاصہ ہے اور خداتعالیٰ کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ عقل کے یہ معنے ہیں کہ بُری اور اچھی باتوں کا موازنہ کر کے بُری باتوں سے رُکنا۔ اور اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اچھی اور بُری باتوں کا اندازہ کر کے بُری باتوں سے رُکتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی صفات میں علم داخل ہے عقل نہیں۔ وہ علیم تو ہے لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عاقل ہے مگر بہرحال عقل علم کے تابع ہے اور جو عقل علم کے تابع نہ ہو وہ عقل نہیں بلکہ جہالت ہوتی ہے۔ پس چونکہ عقل علم کے تابع ہے اور علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اِس لئے اس کے حصول میں کسی کی ذاتی خوبی نہیں ہوتی۔ پس ہمارے لئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ اپنی عقل پر ناز کریں اور دوسرے کی بے عقلی پر تمسخر اُڑائیں اور نہ یہ ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم معمولی باتوں میں جن میں تیزی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی تیز ہو جائیں اور ایسے فقرے استعمال کرنا شروع کر دیں۔ جیسے ’میری تو سمجھ میں نہیں آتا فلاں دوست نے فلاں خلافِ عقل بات کس طرح پیش کر دی‘۔ اگر کسی کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ دوسرے کو اُس کی غلطی سے آگاہ کرنا چاہتا ہے، تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ اُس مجلس میں جہاں خلیفہ موجود ہو، دوسرے کو سبق دینا اور سکھانا خلیفہ کا کام ہے دوسرے کا کام نہیں۔ جب تم مدرسوں اور کالجوں میں پڑھا کرتے تھے تو کیا اِسی طرح کرتے تھے کہ اُستاد کی موجودگی میں اپنے ساتھی کی غلطی پر اُسے ڈانٹنا شروع کر دیتے تھے یا اُستاد کا کام سمجھتے تھے کہ وہ غلطی پر آگاہ کرے اور اگر ڈانٹنا چاہے تو وہی ڈانٹے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اُستاد کی موجودگی میں اُستاد کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ غلطیوں کی طرف توجہ دلائے شاگردوں کا کام نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے جھگڑنے لگ جائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ احباب اِس امر کو آئندہ مدنظر رکھیں گے اور جب کسی دوسرے کی بات کو ردّ کرنا چاہیں گے تو اصولی طور پر کریں گے، ذاتیات کو درمیان میں نہیں لائیں گے اور نہ ایسے رنگ میں تردید کریں گے جس میں دوسرے کی تحقیر اور تذلیل ہو۔‘‘(خطاب27؍مارچ1937ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ155تا157)
شوریٰ کے نمائندوں کا انتخاب درست ہونا چاہیے
’’ہمیں اپنے کام کے لئے ہمیشہ اہل لوگوں کا انتخاب کرنا چاہئے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض جماعتیں ایسی ہیں جو مجلس شوریٰ میں اپنے اہل نمائندے چُن کر نہیں بھجواتیں۔ چنانچہ میں نے اس سال کے نمائندگان کی جو لسٹیں دیکھی ہیں ان میں بعض منافق بھی نظر آئے ہیں، بعض نہایت کمزور ایمان والے بھی مجھے دکھائی دئیے ہیں، بعض بڑ بولے اور معترض بھی میں نے دیکھے ہیں اور بعض یقینی طور پر ایسے لوگ ہیں جو اپنے اندر بہت تھوڑا ایمان رکھتے ہیں۔ اگر جماعتیں اپنے نمائندگان کا صحیح انتخاب کرتیں تو اِس قسم کی کوتاہی اور غفلت ان سے کبھی سرزد نہ ہوتی مگر افسوس ہے کہ جماعتیں یہ نہیں دیکھتیں کہ کون نمائندگی کا اہل ہے بلکہ وہ یہ دیکھا کرتی ہیں کہ کون فارغ ہے جسے قادیان بھیجا جا سکتا ہے اور جب نمائندگی کا سوال ہو تو وہ پوچھ لیتی ہیں کہ کیا کوئی فارغ ہے اور کیا وہ قادیان جا سکتا ہے؟ اِس پر جو بھی کہہ دے کہ میں فارغ ہوں اُسے بھجوا دیا جاتا ہے اور یہ قطعی طور پر نہیں سمجھا جاتا کہ اِس مجلس شوریٰ کی ذمہ داریاں کتنی وسیع ہیں اور کتنے اہم فرائض ہیں جو نمائندگان پر عائد ہوتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ایک شخص فارغ تھا یا صرف اِس لئے کہ ایک شخص بڑبولا اور معترض تھا یا صرف اس لئے کہ ایک شخص زیادہ آسودہ حال تھا یا صرف اس لئے کہ ایک شخص آگے آنا چاہتا تھا، اُنہوں نے ان کو نمائندہ بنا کر قادیان بھیج دیا۔ حالانکہ وہ شخص جو آگے آنا چاہے اور خود بخود کوئی عہدہ مانگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے شخص کے متعلق یہ فرمایا کرتے تھے کہ اُسے وہ عہدہ نہیں دیا جائے گا۔ پس میں جماعت کو آپ لوگوں کی وساطت سے پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ جو کام خدا کا ہے وہ تو بہرحال اسے پورا کرے گا مگر جس کام کا ہمارے ساتھ تعلق ہے اگر ہم اس کام کو دیانت داری کے ساتھ سرانجام نہیں دیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نزول میں دیر لگ جائے گی۔
پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور نمائندگی کے لئے ہمیشہ اہل لوگوں کو منتخب کرو۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں میرا یہ خیال ہے کہ جماعت نے ابھی تک مجلس شوریٰ کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ اُنہوںنے صرف اس کو ایک مجلس سمجھ لیا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس میں اُنہوں نے اپنی جماعت کا کوئی نمائندہ نہ بھیجا تو ان کی سبکی ہو گی اِسی لئے اُنہوں نے کامل غور سے کام نہیں لیا اور نمائندہ کے طور پر بعض منافقین کا بھی انتخاب کر لیا ہے۔ اِسی طرح اُنہوں نے بے نمازیوں کو بھی چُن لیا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی چُن لیا ہے جن کا کام سلسلہ پر ہر وقت اعتراضات کرتے رہنا ہے۔ صرف اِس لئے کہ وہ بڑے بڑبولے تھے یا صرف اس لئے کہ وہ معترض تھے یا صرف اس لئے کہ وہ دولت مند تھے یا صرف اس لئے کہ وہ خواہش رکھتے تھے کہ انہیں آگے آنے کا موقع ملے۔ حالانکہ اس مجلس شوریٰ کے سپرد ایک ایسا کام ہے جس کی اہمیت اور نزاکت ایسی عظیم الشان ہے کہ اس کو کسی وقت بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور وہ یہ کہ اِس مجلس کے سپرد ایک کام یہ بھی ہے کہ اگر کسی خلیفہ کی ناگہانی موت ہو جائے تو یہ مجلس اُس کی وفات پر جمع ہو اور نئے خلیفے کا انتخاب کرے۔ اگر اس جماعت کے اندر بھی منافقین شامل ہوں، اگر اس جماعت کے اندر بھی کمزور ایمان والے لوگ شامل ہوں، اگر اس جماعت کے اندر بھی بے نمازی شامل ہوں، اگر اس جماعت کے اندر بھی وہ بڑبولے اور معترض شامل ہوں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے بالکل خالی ہوں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اس مجلس میں بھی پارٹی بازی شروع ہو جائے گی اور کوئی کسی کی طرف جھک جائے گا اور کوئی کسی کی طرف اور لڑائی جھگڑا اور فساد شروع ہو جائے گا۔ جیسے بعض ناقص العقل اور کمزور جماعتوں میں پریذیڈنٹ وغیرہ کے انتخاب کے موقع پر اِس قسم کے جھگڑے ہو جایا کرتے ہیں اور جماعت کا ایک حصہ کسی کے متعلق پراپیگنڈہ کرتا رہتا ہے اور دوسرا حصہ کسی کے متعلق۔ اور انتخاب کے موقع پربجائے سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کرنے کے ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ جس کااس نے انتخاب کیا ہے وہی پریذیڈنٹ ہو۔ اگر اس قسم کے جھگڑے اور اس قسم کی پارٹی بازی مجلس شوریٰ میں بھی شروع ہو گئی تو اُس وقت خلافت خلافت نہیں رہے گی بلکہ ایک ادنیٰ دُنیوی انتظام ہو گا جو نہ دین کے لئے مفید ہو گا اور نہ دُنیا کے لئے۔ اس مجلس میں تو ان لوگوں کو شامل ہونے کے لئے بھیجنا چاہئے جن کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ وہ سلسلہ کے فائدہ کے لئے اپنے باپ اور اپنی ماں کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہ ہوںکجا یہ کہ وہ اِدھر اُدھر کی باتیں سُنیں اور سلسلہ کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے لگ جائیں۔ اِس قسم کے آدمی تو مجلس شوریٰ سے ہزاروں میل کے فاصلہ پر رہنے چاہئیں کُجایہ کہ ان کو نمائندہ بنا کر اس مجلس میں شامل کر لیا جائے۔
پس یہ ایک خطرناک غفلت ہے جو اس دفعہ جماعت نے کی اور میں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ جماعتیں میری اس ہدایت کو یاد رکھیں گی۔ بلکہ میں جماعت کے کارکنوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ میرے اتنے حصۂ تقریر کو الگ شائع کر دیں اور آئندہ مجلس شوریٰ کے موقعوں پر ہمیشہ اسے شائع کرتے رہیں تاکہ جماعتیں اُن لوگوں کا انتخاب کر کے بھیجا کریں جو تقویٰ اور دیانت اور عبادت کے لحاظ سے بڑے ہوں۔‘‘(خطاب فرمودہ22؍مارچ1940ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ431تا433)
(جاری ہے)