تلاوت قرآن کریم کے آداب (قسط دوم)
’’آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ قرآن شریف غم کی حالت میں نازل ہوا ہے۔ تم بھی اسے غم ہی کی حالت میں پڑھا کرو‘‘
غورو فکر اور تدبر واطمینان سے تلاوت
قرآن شریف ہدایت کی آخری راہ، فلاح کا سیدھا راستہ، علم وحکمت کا بحر ذخار اور معرفت الٰہی عطا کرنے والا کلام ہے۔ اس قدر بابرکت کلام سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ پوری دلجمعی، توجہ اور غوروتدبر کرتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے۔ قرآن کریم کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے اور اُسی سے مدد اور استمداد طلب کی جائے۔ اگر جلدی جلدی قرآن شریف پڑھا جائے تو غوروتدبر کا موقع نہیں ملے گا اور نہ ہی اس کے اندر پوشیدہ خزانوں پر اطلاع ہوگی۔ جو لوگ قرآن کریم پر غوروتدبر نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے افسوس کا اظہار فرمایا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ (النساء: 83)پس کیا وہ قرآن پر تدبّر نہیں کرتے؟
قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُھَا (محمد: 25)پس کیا وہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا دلوں پر اُن کے تالے پڑے ہوئے ہیں؟ جبکہ قرآن کریم پر غوروتدبر کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡٓا اٰیٰتِہٖ لِیَتَذَکَّرَ اُولُواالۡاَلۡبَابِ (ص: 30)عظیم کتاب جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا، برکت دی گئی ہے تاکہ یہ (لوگ) اس کی آیات پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑیں۔
قرآن کریم کے ایک اور مقام پرکلامِ پاک کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنےاور اس کے معانی و مفہوم کو سمجھنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: وَلَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ(طٰہٰ: 115)پس قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کر۔ نیز فرمایا: لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لَتَعۡجَلَ بِہٖ (القیامۃ: 17)تُو اس کی قراء ت کے وقت اپنی زبان کو اس لئے تیز حرکت نہ دے کہ تُو اسے جلد جلد یاد کرے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’پڑھنے والا جب قرآن شریف پڑھے تو جلدی نہ کرے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 272)
رسول کریمﷺ کا ارشادِ مبارک ہے: عَلَیۡکُمۡ بِتَعَلَّمِ الۡقُرۡآنِ وَکَثۡرَۃِ تِلَاوَتِہِ وَکَثۡرَۃِ عَجَائِبَۃِ تَنَالُوۡنَ بِہِ الدَّرَجَاتِ فِی الۡجَنَّۃِ۔ (کنزالعمّال، کتاب الایمان والاسلام الباب السابع فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ حدیث: 2368)تم پر قرآن سیکھنا، اس کی کثرت سے تلاوت کرنا اور اس کے عجائبات پر غوروفکر کرنا لازم ہے۔ اس طرح تم جنت کے عالی درجات تک رسائی پالو گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَقُرۡاٰنًا فَرَقۡنٰہُ لِتَقۡرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکۡثٍ وَّ نَزَّلۡنٰہُ تَنۡزِیۡلًا۔ (بنی اسرائیل: 107)اور قرآن وہ ہے کہ اسے ہم نے ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تُو اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے بڑی قوت اور تدریج کے ساتھ اتارا ہے۔
رسول کریمﷺ کا اسوۂ حسنہ قرآن کریم کے اسی حکم کے مطابق تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ آپﷺ قرآن کریم کو بڑی محبت، وقار اور اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کرپڑھتے تھے۔
عَنۡ یَعۡلَی بۡنِ مَمۡلَکٍ اَنَّہٗ سَاَلَ اُمُّ سَلَمَۃَ زَوۡجَ النَّبِیِﷺ:عَنۡ قِرَا َٔۃِ النَّبِیِّ وَصَلٰوتِہٖ فَقَالَتۡ وَمَا لَکُمۡ وَصَلٰوتُہٗ وَکَانَ یُصَلِّیۡ قَدۡرَ مَا نَامَ ثُمَّ یَنَامُ قَدَر مَا صَلّٰی حَتّٰی یُصۡبِحَ ثُمَّ تَنَعَّتۡ قِرَآءَ تَہٗ فَاِذَا ھِیَ تَنۡعَتُ قِرۡأَۃً مُفَسَّرَۃً حَرۡفًا حَرۡفًا۔ (جامع ترمذی، ابواب فضائل قرآن عن رسول اللّٰہﷺ۔ بَابُ: مَا جَاءَ کَیۡفَ کَانَتۡ قِرَاءَ ۃُ النَّبِیّﷺ)حضرت یعلیٰ بن مملک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ نبیﷺ کاقرآن کریم کی تلاوت کا کیا طریق تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپﷺ کی قراء ت ’’ قراء تِ مفسّرہ ‘‘ہوتی تھی یعنی جب آپﷺ تلاوت کیا کرتے تھے تو سننے والے کو ایک ایک حرف کی الگ الگ سمجھ آرہی ہوتی تھی۔ ایک اور روایت سے پتا چلتا ہے کہ نبی کریمﷺ قرآن کریم کی آیات جدا جدا کرکے پڑھتے تھے۔
کَانَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ یُقَطِّعُ قِرَا َٔتَہٗ یَقُوۡلُ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعَالَمِیۡنَ ثُمَّ یَقِفُ ثُمَّ یَقُوۡلُ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ثُمَّ یَقۡفُ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب فضائل القرآن، باب آداب التلاوۃ ودروس القرآن)رسول اللہﷺ قرآن کریم جدا جدا کرکے پڑھتے تھے یعنی اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعَالَمِیۡنَ پڑھ کر ٹھہر جاتے، پھر الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ پڑھ کرٹھہر جاتے جاتے تھے، یعنی درمیان میں وقفہ فرماتے تھے۔
حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبیﷺ کی قراءت کے متعلق سوال کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الوتر باب استحاب الترتیل فی القراء ۃ)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ !آپؐ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے سورۂ ھُوۡدٌ، اَلۡوَاقِعَۃ، اَلۡمُرۡسَلَات، عَمَّ یَتَسَائَلُوۡن اور اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتُ نے بوڑھا کردیا ہے۔ (جامع ترمذی، اَبۡوَابُ تَفۡسِیۡرِ الۡقُرۡاٰن۔ بَابَ سُوۡرۃ الۡوَاقِعَۃِ )
پس قرآن کریم کی عظمت و شان اور بلند مقام کا تقاضا ہے کہ اسے بڑی محبت اور دلجمعی سے پڑھا جائے۔ جب تک لطف و سرورباقی رہے اُس وقت تک تلاوت جاری رکھی جائے۔ اس کیفیت کے زائل ہونے پر تلاوت کسی دوسرے وقت تک مؤخر کردینا زیادہ مناسب ہے۔ نبی کریمﷺ نے بھی یہی نصیحت فرمائی ہے کہ جب تک دل تلاوت قرآن کی طرف مائل رہے تلاوت کرنی چاہیے لیکن توجہ منتشر ہونے پر تلاوت چھوڑ دینی چاہیے۔
عَنۡ جُنۡدَبِ بۡنِ عَبۡدِاللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّﷺقَالَ اقۡرَؤُوا الۡقُرۡآنَ مَاائْتَلَفَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ، فَاِذَااخۡتَلَفۡتُمۡ فَقُومُوۡا عَنۡہٗ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب اقرَؤُواالۡقُرۡآنَ مَا انۡتَلَفَتۡ قُلُوۡبُکُم)تم قرآن کی تلاوت اس وقت تک کرو، جب تک تمہارے دل اس کی طرف مائل ہوں اور جب تمہاری توجہ منتشر ہونے لگے، تو تم (اس کی تلاوت چھوڑ کر) اُٹھ جائو۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ صحیح اور حقیقی فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونے دیتا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا جواز بھی مہیا نہیں کرتا اور نہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بے خوف بناتا ہے۔ قرآن کریم سے ان کی توجہ ہٹا کر کسی اور کی طرف انہیں راغب کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یاد رکھوعلم کے بغیر عبادت میں کوئی بھلائی نہیں اور سمجھ کے بغیر علم کا دعویٰ درست نہیں۔ اور تدبر اور غوروفکر کے بغیر محض قراءت کا کچھ فائدہ نہیں۔(سنن الدارمی المقدمۃ باب من قال العلم الخشیۃ و تقوی اللّٰہ )
قرآن کریم پر غوروتدبر کرنے سے متعلق رسول کریمﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ مَنۡ أرَادَ عِلۡمَ الۡأَوَّلِیۡنَ وَالآخِرِیۡنَ فَلْیُثَوِّرِ الۡقُرۡآن۔(کنزالعمال، کتاب الایمان والاسلام، الباب السابع، فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ حدیث:2454)جو اوّلین وآخرین کا علم جمع کرنے کا خواہش مند ہو، وہ قرآن پر غوروتدبر کرے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اپنی آنکھوں سے بھی عبادت میں حصہ لیا کرو۔ صحابہ نے پوچھا: یہ کیسے ہو؟ تو آپؐ نے فرمایا: آنکھوں سے قرآن کو دیکھنا، اس میں غوروفکر کرنا اور اس کے عجائبات کو سمجھنا۔ (العظمۃ جلد اوّل صفحہ 226حدیث: 12۔ الفضل انٹرنیشنل21؍اکتوبر 2016ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم پر تدبرو تفکر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف تدبّرو تفکرّ و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍیَلۡعَنُہُ الۡقُرۡاٰنُ۔ یعنی بہت سے ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتاہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبّر وغور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 157، ایڈیشن 2003ء نظارت نشرواشاعت قادیان)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کی تلاوت کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہر ایک شخص کا جو قرآن شریف پڑھتا ہے یا سنتا ہےیہ فرض ہے کہ وہ اس رکوع کے آگے نہ چلے جب تک اپنے دل میں یہ فیصلہ نہ کرے کہ مجھ میں یہ صفات یہ کمالات ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو وہ مبارک ہے اوراگر نہیں تو اسے فکر کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئیں کہ وہ ایمان صحیح عطا فرماوے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 101)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم نہ ختم ہونے والا سمندر ہے۔ انسان ساری عمر قرآن کریم سیکھتا رہے پھر بھی وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے قرآنی علوم سب کچھ حاصل کرلیا ہے۔‘‘(خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 690)
پس قرآن شریف کو خوب نکھار کر، آہستہ آہستہ اورپوری توجہ سے پڑھنا چاہیے تاکہ اُس کے معنی و مطالب کو جاننے اور سمجھنے کی توفیق ملے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُواالۡاَلۡبَابِ (ص: 30)عظیم کتاب جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا، برکت دی گئی ہے تاکہ یہ (لوگ) اس کی آیات پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑیں۔
حضور علیہ السلام کا ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ’’قرآن شریف کی اصل غرض اور غایت دنیا کوتقویٰ کی تعلیم دینا ہے … لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں، مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دُھند پڑھتا جاتا ہے۔ نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے۔ اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لیے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ق اور ع کو پورے طور پر اَدا کردیا۔ قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے، مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 284تا285، ایڈیشن 2003ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزتلاوت قرآن کریم کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم …پر غور بھی کریں۔ جب غورکریں گے، پڑھیں گے، سمجھیں گے تو تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والے ہو سکیں گے کہ ھُدًی لِّلۡنَاسِ کہ انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ ان انسانوں کے لیے ہدایت ہے جو اس سے ہدایت لینا چاہتے ہیں اور ہدایت پڑھے اور سمجھے بغیر تو نہیں مل سکتی۔ پس اس کا پڑھنا اور پڑھ کر سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ہدایت دلائل کے ساتھ ہے۔ تم لوگوں کو صرف یہ حکم نہیںدے دیا کہ تم اس کو پڑھو، اس میں ہدایت ہے بلکہ ہر ہدایت کی دلیل دی گئی ہے۔ اس کو سمجھو، پڑھو اور اپنے اوپر لاگو کرو کیونکہ دلائل کے ساتھ سمجھی ہوئی بات پر عمل دل کی گہرائی سے ہو سکتا ہے۔ حقیقی رنگ میں ہوسکتا ہے۔ اس ہدایت کی روح کو سمجھتے ہوئے ہوسکتا ہے …اس پر عمل کرنے والا بھی دوسروں سے مختلف نظر آتا ہے۔ جو بھی قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر رہا ہے وہ دوسروں سے بہرحال مختلف نظر آئے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍جولائی 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم اگست 2014ء صفحہ5)
خشوع وخضوع سے تلاوت
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡھِمۡ اٰیٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا(مریم:59) جب اُن پر رحمان کی آیات تلاوت کی جاتی تھیں وہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گرجاتے تھے۔ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا: وَیَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ یَبۡکُوۡنَ وَیَزِیۡدُھُمۡ خُشُوۡعًا۔ (بنی اسرائیل: 110) وہ ٹھوڑیوں کے بَل روتے ہوئے گِر جاتے تھے اور یہ اُنہیں انکساری میں بڑھا دیتا تھا۔ نیز فرمایا: اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِھًامَّثَانِیَ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّھُمۡ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُ ھُمۡ وَقُلُوۡبُھُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ۔ (الزمر: 24) اللہ نے بہترین بیان ایک ملتی جلتی (اور) بار بار دُہرائی جانے والی کتاب کی صورت میں اُتارا ہے۔ جس سے ان لوگوں کی جلدیں جو اپنے ربّ کا خوف رکھتے ہیں لرزنے لگتی ہیں پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف (مائل ہوتے ہوئے ) نرم پڑ جاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے قرآن سناؤ! میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ ! میں آپ کو قرآن سناؤں؟ آپؐ پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ہاں سناؤ۔ چنانچہ میں نے سورت النساء پڑھی جب میں فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیۡدٍ وَّجِئۡنَابِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِِ شَھِیۡدًا آیت پر پہنچا تو آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ اب بس کرو۔ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، با قَوۡلِ الۡمُقۡرِیءِ لِلۡقَارِیءِ)
پس قرآن کریم کے معنی ومطالب کو سمجھنا اور اس کی بلند شان کا دل میں جاگزین ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں پڑھنے والے کے دل میں خشیت پیدا ہوگی اور اُس کا دل پاکیزگی کی طرف مائل ہوگا۔ نبی کریمﷺ نے بھی تلاوت کرتے وقت خاص طور پر گریہ وزاری کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ قرآن غم کے ساتھ اُترا ہے۔ پس جب تم قرآن کریم کی تلاوت کرو تو گریہ وزاری کیا کرو۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے والی صورت بناؤ اور قرآن کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور جو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میںسے نہیں۔ (سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، حدیث: 7231)
رسول اللہﷺ کاایک اور ارشاد مبارک ہے: اِنَّ أحۡسَنَ النَّاسُ قِرۡاءَۃً مَنۡ اِذَا قَرأَ القُرۡآنَ یَتَحۡزَنُ فِیۡہ۔ (کنزالعمال کتاب الاذکار من قسم الاقوال باب السابع فی تلاوۃ القراٰن و فضائلہ حدیث: 2748)لوگوں میں سب سے اچھی قراءت والا شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے تو اس میں رنجیدہ وسنجیدہ ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاہے کہ أحۡسَنُ النَّاسُ قَرَاءَ ۃً الَّذِی اِذَا قِرأَ رَأیتَ أنَہ یَخۡشَی اللّٰہ۔ (کنزالعمال کتاب الاذکار من قسم الاقوال باب السابع فی تلاوۃ القراٰن و فضائلہ حدیث: 2750)لوگوں میں سب سے اچھی قراءت والا شخص وہ ہے کہ جب تُو اس کو پڑھتا دیکھے تو سمجھے کہ وہ اللہ سے ڈر رہاہے۔ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کس شخص کی قراء ت اچھی اور خوبصورت ہے تو آپﷺ نے فرمایا: جب تو اس کو سنے تو محسوس کرے کہ اس کے دل میں خشیت اللہ اور خوف ہے۔ (مشکوٰۃ باب فضائل القرآن )
آنحضرتﷺ نے فرمایاہے: قرآن کو دردوغم کے ساتھ پڑھا کرو کیونکہ یہ غم کی کیفیت کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ (فردوس الاخبار جلد اوّل صفحہ 133حدیث: 312)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آنحضرتﷺ کے درج بالا ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ قرآن شریف غم کی حالت میں نازل ہوا ہے۔ تم بھی اسے غم ہی کی حالت میں پڑھا کرو۔‘‘(ملفوظات جلد 3صفحہ 152، ایڈیشن 2003ء)
تلاوت ِقرآن کی مقدار
قرآن کریم کے ادب کا تقاضا ہے کہ اُس کی تلاوت اس وقت تک کرنی چاہیے جب تک انسان کا دل اُس میں لگارہے اور طبیعت پر کچھ بوجھ محسوس نہ ہو۔ البتہ جب طبیعت اُکتا جائے تو تلاوت بند کر دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: فَاقۡرَءُ وۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ (المزمل: 21)پس قرآن میں سے جتنا میسّر ہو پڑھ لیا کرو۔
اگرچہ قرآن کریم کوکثرت سے پڑھنے کے بے شمار فوائد اور برکات ہیں لیکن رسول کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو تنگی سے بچانے کی خاطرتلاوت کی ایک مقدارمقرر فرمادی ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو، رضى اللّٰه عنهما قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم ” اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ ” قَالَ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً قَالَ ” فَاقْرَأْهُ فِي عِشْرِينَ لَيْلَةً ” قَالَ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً قَالَ ” فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلاَ تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ ” (صحیح مسلم۔ کتاب الصیام۔ بَاب: النَّھۡیُ عَنۡ صَوۡمِ الدَّھرِۡ…حدیث: 1950)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں مجھے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر مہینے میں (پورا) قرآن پڑھ لیا کرو۔ وہ کہتے ہیں میں نے کہا مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تو پھر بیس راتوں میں پڑھ لو۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تو پھر سات (دنوں) میں پڑھ لو، اور اس سے زیادہ نہ کرو۔
آنحضرتﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ایک مہینے میں قرآن کا دَور مکمل کیا کرو۔ (حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ ) میں نے عرض کی: مجھے اس سے زیادہ کی توفیق ہے۔ آپؐ نے فرمایا: پھر ایک ہفتہ میں مکمل کرلیا کرو اس سے زیادہ جلدی نہ کرو۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فی کم یقرأ القرآن)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میںنے پوچھا: یارسول اللہ! کتنے وقت میں مَیں قرآن ختم کروں؟ فرمایا: ایک ماہ میں اسے ختم کرو۔ میںنے کہا: یارسول اللہ ! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: اسے پچیس دن میں ختم کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: اسے بیس دن میں ختم کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: اسے پندرہ دن میں ختم کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: اسے دس دن میں ختم کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: پانچ دن میں ختم کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: نہیں۔ (سُنَن الدَّارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فِیۡ خَتۡمِ الۡقُرۡآنِ)
عَنۡ عَبۡدِ اللّٰہِ بۡنِ عَمۡرٍو اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمۡ یَفۡقَہۡ مَنۡ قَرَأَ الۡقُرۡاٰنَ فِیۡ اَقَلَّ مِنۡ ثَلَاثٍ۔ (جامع ترمذی، اَبۡوَابُ الۡقِرَاءَۃِ، ، حدیث نمبر859)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن کو تین دن سے کم میں پڑھا وہ اسے سمجھ نہیں سکا۔
پس تلاوت اُتنی ہی مقدار میں کرنی چاہیے جس سے قرآن کریم کے مضامین کو سمجھا جاسکے، طبیعت بھی بوجھل نہ ہو اور بشاشت قلبی بھی برقرار رہے۔
تلاوت کے وقت خاموشی
جس وقت قرآن شریف کی تلاوت ہو رہی ہو، ادب کا تقاضا یہی ہے کہ کلام اللہ کونہایت توجہ، خاموشی اور انہماک سے سنا جائے تاکہ اس کلام کے ساتھ وابستہ زیادہ سے زیادہ فیوض وبرکات کو حاصل کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے تلاوت کے وقت خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایاہے: وَاِذَا قُرِیٴَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَاَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔ (الاعراف: 205)اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
تلاوت کے وقت شورو غل کرنا دراصل انکار کرنے والوں کا شیوہ ہے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ جب کانوں میں قرآن کریم کی آواز پہنچے توخاموشی سے اسے سنا جائے۔ بچوں کو بھی شور کرنے سے منع کرنا چاہیے تاکہ بچپن سے ہی اُن کے دلوں میں قرآن کریم کی عظمت جاگزیں ہونا شروع ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کفار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے: وَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِھٰذَ الۡقُرۡاٰنِ وَالۡغَوۡا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ۔ (حٰمٓ السّجدۃ: 27)اور اُن لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا، کہا کہ اس قرآن پر کان نہ دھرو اور اُس کی تلاوت کے دوران شور کیا کرو تاکہ تم غالب آجاؤ۔
رسول اللہﷺ نے توجہ اور غور سے تلاوت سننے والوں کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوہرا اَجر عطا کیا جائے گا۔ فرمایا: اِنَّ الَّذِی یَقۡرَأُ الۡقُرۡآنَ لَہٗ أَجۡرٌ وَاِنَّ الَّذِی یَسۡتَمِعُ لَہٗ أَجۡرَانِ۔ (سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فضل من استمع الی القرآن) جو قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اس کے لیے ایک اجر ہے اور جو غور سے سنتا ہے اس کے لیے دُوہرا اَجر ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’پرستش کی جڑھ تلاوت کلام الٰہی ہے کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور سچے محب کے لیے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے۔‘‘(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 283)
(جاری ہے)
٭…٭…٭