حجۃ الاسلام
یہ عاجز تو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دےکہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لیے دروازہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہے و بس
تعارف
اپریل 1893ءمیں یہ رسالہ شائع ہوا۔ اس رسالے میں حضور علیہ السلام نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور بعض دوسرے عیسائی صاحبان کو اس عظیم الشان دعوت کے لیے بلایا کہ دنیا میں زندہ اور بابرکت اور اپنے اندر آسمانی روشنی رکھنے والا مذہب صرف اسلام ہے جبکہ عیسائی مذہب تاریکی میں پڑا ہوا ہے اور زندہ مذہب کی علامتیں اس میں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح 22؍مئی 1893ء کو جو مباحثہ ہونے والا تھا اس کی ضروری شرائط بھی اس رسالے میں درج کی گئیں۔ مباحثہ کے علاوہ مباہلہ کرنے اور نشان دکھانے کے لیے بھی عیسائیوں کو دعوت دی گئی اور وہ خط و کتابت بھی درج کی گئی ہے جو مسلمانان جنڈیالہ اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مابین ہوئی۔
اس رسالے میں مولوی محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک رؤیا کی بنا پر یہ پیشگوئی بھی کی گئی ہے کہ وہ میرے (حضرت مسیح موعود کے) ایمان کو مان لے گا اور اپنی موت سے پہلےمیری تکفیر سے تائب ہو گا۔ یہ پیش گوئی بزبان حال اس وقت پوری ہوئی جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت مباہلہ میں شامل نہ ہوا اور حضور علیہ السلام نے مباہلہ سے پہلے بذریعہ اشتہار یہ شائع کر رکھا تھا کہ اگر شیخ محمد حسین دس ذی القعدہ کو مباہلہ کے لیے حاضر نہ ہوا تو اس روز سے سمجھا جائے گا کہ وہ پیشگوئی جو اس کے حق میں چھپوائی گئی تھی کہ وہ کافر کہنے سے توبہ کرے گا پوری ہوگئی۔
اور قولی لحاظ سے اس وقت پوری ہوئی جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ضلع گوجرانوالہ کے منصف لالہ دیو کی نندن کے روبرو عدالت میں حلفی شہادت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو مسلمان فرقوں میں سے شمار کیا۔
مضامین کا خلاصہ
کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے
ہر قوم کا دعویٰ ہے کہ بہتیرے ان میں خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہے مگر ثبوت طلب بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ان سے محبت رکھتا ہے یا نہیں۔
خدا تعالیٰ کی محبت کی علامات
1) اللہ تعالیٰ خود ان کو مخاطب کر کے اناالموجودکی بشارت دیتا ہے۔ تب انسان خدا تعالیٰ سے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے۔
2) پھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ وہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر ان پر ظاہر کر دیتا ہےاور وہ اس طرح پر کہ ان کی دعائیں جو ظاہری امیدوں سے زیادہ ہوں قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ ان کو اطلاع دیتا ہے۔
اسلام کی حقیقت اور حقانیت کی اوّل نشانی
یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راست باز جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں۔ تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا۔
ڈاکٹر پادری کلارک صاحب کا جنگ مقدس اور ان کے مقابلہ کے لیے اشتہار
ڈاکٹر صاحب نے مندرجہ بالا عنوان سے بذریعہ اپنے خطوط اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ علمائے اسلام کے ساتھ ایک جنگ مقدس کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر علمائے اسلام اس جنگ سے منہ پھیر لیں تو آئندہ ان کو استحقاق نہیں ہوگا کہ مسیحی علماء کے مقابل پر کھڑے ہو سکیں اور چونکہ یہ عاجز (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) انہیں روحانی جنگوں کےلیے مامور ہو کر آیا ہے اس لیے بلا توقف ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط اطلاع دی کہ ہماری عین مراد ہے کہ یہ جنگ وقوع میں آ کر حق اور باطل میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہو جائے۔ نا صرف اسی پر کفایت کی بلکہ چند معزز دوست بطور سفیر ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں امرتسر بھیجے گئے۔
تب بالاتفاق یہ بات قرار پائی کہ یہ مباحثہ بمقام امرتسر واقع ہو اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے اس جنگ کا پہلوان مسٹر عبداللہ آتم تجویز کیا گیا۔ یہ بھی ان کی طرف سے تجویز ہوا کہ فریقین تین تین معاون اپنے ساتھ رکھنے کے مجاز ہوں گے۔ ہر فریق کو چھ چھ دن فریق مخالف پر اعتراض کرنے کے لیے دیے گئے۔ یہ بھی قرار پایا کہ مجلس انتظام کے لیے ایک ایک صدر انجمن مقرر ہو۔ فریقین ایک سو ٹکٹ چھاپ کر پچاس پچاس اپنے اپنے آدمیوں کے حوالہ کریں گے۔ یہ بات قرار پائی کہ یہ بحث 22؍مئی 1893ءسے شروع ہونی چاہیے۔ انتظام، مقام مباحثہ اور تجویز مقام مباحثہ ڈاکٹر صاحب کے ذمہ ہوا۔ یہ قر پایا کہ 15؍مئی 1893ءتک فریقین ان شرائط کو شائع کر دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا تھا اس لیے ان کی خدمت میں 25؍اپریل 1893ءکو لکھا گیاکہ وہ شرائط جو میرے دوستوں نے قبول کی ہیں مجھے بھی قبول ہیں لیکن یہ بات تجویز ہو جانا ضروری ہے کہ کیونکر سمجھا جائے گاکہ فلاں فریق کو شکست ہوئی ہے۔
بعد ازاں حضورؑ نے مثالیں دے کر واضح فرمایا کہ اب تک جو مباحثات پادری صاحبوں اور اسلام کے مابین ہوتے رہے ہیں ان میں وہی اعتراضات اور جوابات ہوتے ہیں مگر دوسرے فریق کے لوگ کبھی قائل نہیں ہوتے کہ انہیں شکست ہو گئی ہے۔
پادری صاحبان کے اعتراضات اور ان کے جوابات
فرمایا: پادری صاحبان کی طرف سے وہی معمولی اعتراضات ہوں گےمثلاً اسلام زور شمشیر سے پھیلا ہے، اسلام میں کثرت ازدواج کی تعلیم ہے، اسلام کا بہشت ایک جسمانی بہشت ہے۔ ایسا ہی ہماری طرف سے بھی وہی معمولی (حسب معمول) جواب ہوں گے کہ اسلام نےتلوار اٹھانے میں سبقت نہیں کی اورصرف بوقت ضرورت امن قائم کرنے کی حد تک تلوار اٹھائی ہے۔ اسلام نے عورتوں، بچوں اور راہبوں کو قتل کرنے کے لیے حکم نہیں دیا۔ تلوار کی لڑائیوں میں سب سے بڑھ کر توریت کی تعلیم ہے جس کی روح سے بے شمار عورتیں اور بچے بھی قتل کیے گئے۔ ایسا ہی کثرت ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی یعنی معمول کے مطابق جواب ہو گا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعدد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ۔ بلکہ یہ قرآن کی فضیلت ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو رد کر دیا ہے۔ ایسا ہی بہشت کی نسبت جواب ہوگا کہ مسلمانوں کا بہشت صرف جسمانی نہیں بلکہ دیدار الٰہی کا گھر ہے۔
پھر ان خیالات کے اظہار کے بعد ڈاکٹر صاحب کو یہ صلاح دی گئی کہ مناسب ہے کہ چھ دن کے بعد فریقین اپنے مذہب کی تائید کے لیے خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان چاہیں اور ان نشانوں کے ظہور کے لیے ایک سال کی میعاد قائم ہو۔ مغلوب فریق پر لازم ہو گا کہ غالب فریق کا مذہب اختیار کرے۔ اگر انکار کرے تو نصف جائیداد سچے مذہب کی امداد کی غرض سے فریق غالب کو دے۔ افسوس کہ ایک ہفتہ سے زیادہ گزرتا ہے جو آج 3؍مئی1893ءہے کہ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے اس خط کا کچھ بھی جواب نہیں آیا۔
پھر سوال یہ ہے کہ اگر ایک سال کے عرصے میں دونوں طرف سے کوئی نشان ظاہر نہ ہو یا دونوں طرف سے ظاہر ہو تو فیصلہ کیوں کر ہو گا؟ فرمایا اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں مَیں اپنے تئیں مغلوب سمجھوں گا۔
فرمایا: مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جل شانہ نے اپنے الہام سے فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح بلاتفاوت ایسا ہی انسان تھا جس طرح اور انسان ہیں۔ مگر خدا کا سچا نبی اور اس کا مرسل اور برگزیدہ ہےاور مجھ کو یہ بھی فرمایا کہ جو مسیح کو دیا گیا وہ بمتابعت نبی علیہ السلام مجھ کو دیا گیا ہے اور تو مسیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کر دے گا اور یکسر الصلیبکا مصداق ہوگا۔
اگر نشان ظاہر نہ ہو تو پھر میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں اور نہ صرف وہی سزا بلکہ موت کی سزا کے لائق ہوں۔ اگر ڈاکٹر صاحب بعد اشاعت اس اشتہار کے ایسے مضمون کا اشتہاربالمقابل شائع نہ کریں تو پھر صریح ان کی گریز متصور ہوگی اور ہم پھر بھی ان کی منقولی اور معقولی بحث کے لیے حاضر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس بارے میں یعنی نشان نمائی کے امر میں اپنا اور اپنی قوم کا اسلام کے مقابل پر عاجز ہونا شائع کر دیں۔ یعنی یہ لکھ دیں کہ یہ اسلام کی شان ہے کہ اس سے آسمانی نشان ظاہر ہوں اور عیسائی مذہب ان برکات سے خالی ہے۔
میاں بٹالوی صاحب کی اطلاع کے لیے اشتہار
فرمایا: واضح ہو کہ شیخ بٹالوی صاحب کی خدمت میں وہ اشتہار جس میں بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کی ان کو دعوت دی گئی تھی یکم اپریل 1893ء کو پہنچایا گیا۔ بٹالوی صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ یکم اپریل سے دو ہفتے تک جواب چھاپ دیں گے۔ جب دو ہفتے تک جواب نہ آیا تو انہیں یاد دہانی کروائی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ اپریل کے اندر اندر چھاپ دیں گے۔ اب اپریل بھی گزرنے کو ہے۔ بٹالوی صاحب نے دو وعدے کر کے تخلف وعدہ کیا۔ ہم ان پر کوئی الزام نہیں لگاتے مگر انہیں شرم آنی چاہیے کہ وہ آپ تو دوسروں کا نام بلا تحقیق کاذب اور وعدہ شکن رکھتے ہیں مگر اپنے وعدوں کا کچھ بھی پاس نہیں کرتے۔ اب اگر ان کا جواب آیا تو لاچار دو ضروری رسالوں کی تالیف کے بعد ہی ان کے مقابلہ کی تاریخ شائع کی جائے گی۔
مسٹر عبداللہ آتھم کے خط کا جواب
فرمایا: آج اس اشتہار کے لکھنے سے ابھی فارغ ہوا تھا کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کا خط بذریعہ ڈاک ملا۔ سو اب اس کا بھی جواب ذیل میں لکھتا ہوں۔
قولہ: ہم اس امر کے قائل نہیں کہ تعلیمات قدیم کے لیے معجزہ جدید کی کچھ بھی ضرورت ہے۔
اقول: صاحب من، میں نے معجزہ کا لفظ اپنے خط میں استعمال نہیں کیا۔ ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہےاور ایمانداری کے پھلوں کا ذکر جیسا کہ قرآن کریم میں ہےایسا ہی انجیل میں بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ایمانداری کے پھل دکھلانے کی بھی آپ کو استطاعت نہیں۔
قولہ: بہر کیف اگر جناب کسی معجزہ کے دکھلانے پر آمادہ ہیں تو ہم اس کے دیکھنےسے آنکھیں بند نہ کریں گے اور جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے۔
اقول: بےشک یہ آپ کا مقولہ انصاف پر مبنی ہے۔ یہ عاجز تو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دےکہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کےلیے دروازہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہےو بس۔ اب آپ کیا اس با ت کے لیے تیار ہیں کہ نشان دیکھنے کے بعد اس مذہب کو قبول کر لیں گے اور اگر ہم نشان دیکھنے کے بعد دین اسلام اختیار نہ کریں تو نصف جائیداد اپنی اسلام کے لیے اس (مرزا غلام احمد علیہ السلام )کے سپرد کر دیں گے اور اگر ہم اس دوسری شق پر بھی عمل نہ کریں اور عہد توڑ دیں تو اس عہد شکنی کے بعد کوئی قہری نشان ہماری نسبت مرزا غلام احمد شائع کرنا چاہے تو ہماری طرف سے مجاز ہوگا کہ عام طور پر اخباروں کے ذریعہ سے یا اپنے رسائل مطبوعہ میں اس کو شائع کرے۔
قولہ: لیکن یہ جناب کو یاد رہے کہ معجزہ ہم اسی کو جانیں گے جو ساتھ تحدی مدعی، معجزہ کے ظہور آوے اور یہ کہ مصداق کسی امر ممکن کا ہو۔
اقول: اس سے مجھے اتفاق ہے تحدی اسی بات کا نام ہے کہ مثلاً ایک شخص منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کرے، اپنے دعویٰ کی تصدیق کے لیے کوئی ایسی پیشگوئی کرے جو انسان کی طاقت سے بالاتر ہو۔ لیکن میں اس جگہ آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب اس عاجز نے ملہم اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو 1888ءمیں مرزا امام دین صاحب جس کو آپ خوب جانتے ہیں، نے مجھ سے نشان طلب کیا تھا۔ تب بطور نشان ایک پیشگوئی کی گئی تھی جس کا مفصل ذکر میری کتاب آئینہ کمالات اسلام صفحہ279اور280میں موجود ہے اور وہ پیشگوئی 30 ؍ستمبر1892ءکو اپنی میعاد کے اندر پوری ہوگئی۔
سو اب بطور آزمائش آپ کے انصاف کے پوچھتا ہوں کہ یہ نشان ہے یا نہیں اور اگر نشان نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اور اگر نشان ہے تو آپ نے دیکھ بھی لیا ہے تو بتائیں کہ آپ کا عین فرض اس وقت ہے یا نہیں کہ اس نشان سے بھی فائدہ اٹھائیں۔
قولہ: مباہلات بھی از قسم معجزات ہی ہیں۔ مگر ہم بروئے تعلیم انجیل کسی کے لیے لعنت نہیں مانگ سکتے۔ جناب صاحب اختیار ہیں جو چاہیں مانگیں اور انتظار جواب ایک سال تک کریں۔
اقول: صاحب من مباہلہ میں دوسرے پر لعنت ڈالنا ضروری نہیں بلکہ اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ مثلاً ایک عیسائی کہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ درحقیقت حضرت مسیح خدا ہیں اور قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اگر میں اس بیان میں کاذب ہوں تو خدا تعالیٰ میرے پر لعنت کرے۔ سو یہ صورت مباہلہ انجیل کے مخالف نہیں بلکہ عین موافق ہے۔ آپ غور سے انجیل کو پڑھیں۔
ماسوا اس کے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر آپ نشان نمائی کے مقابلہ سے عاجز ہیں تو پھر یکطرفہ اس عاجز کی طرف سے سہی مجھ کو بسر و چشم منظور ہے۔ اب آپ کے خط کا ضروری جواب ہو چکا اور یہ اشتہار ایک رسالہ کی صورت میں مرتب کر کے آپ کی خدمت میں نیز ڈاکٹر کلارک صاحب کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری روانہ کرتا ہوں۔
والسلام علی من تبع الھدیٰ
شیخ محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک پیشگوئی
فرمایا: شیخ محمد حسین ابو سعید کی آج کل نازک حالت ہے۔ یہ شخص اس عاجز کو کافر سمجھتا ہے بلکہ اس کے کفر نامے میں کئی بزرگوں نے اس عاجز کی نسبت اکفر کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ سبحان اللہ ایک شخص اللہ جل شانہ اور اس کے رسول کریم پر ایمان رکھتا ہے اور پابند صوم و صلوٰۃ اور اہل قبلہ میں سے ہےاور تمام عملی باتوں میں سے وہ ایک بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مخالف نہیں، اس کو میاں بٹالوی صرف اس وجہ سے کافر بلکہ اکفر قرار دیتا ہے کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بموجب نص بین قرآن کریم فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ فوت شدہ سمجھتا ہے۔ میاں بٹالوی بطور افتراء کے یہ بھی کہتا ہے کہ یہ عاجز ملائک کا منکر اور معراج نبوی کا انکاری اور نبوت کا مدعی اور معجزات کو بھی نہیں مانتا۔ انہیں غموں میں مر رہا ہے کہ کسی طرح ایک مسلمان کو تمام خلق اللہ کافر سمجھ لے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اب اس شخص کا بہت برا حال ہے۔ ہم اس کے خیرخواہوں سے ملتجی ہیں کہ اس نازک وقت میں ضرور اس کے حق میں دعا کریں۔ و انی رأیت ان ھذا الرجل یؤمن بایمانی قبل موتہ و رأیتکانہ ترک قول التکفیر و تاب۔ و ھذہ رؤیا ی و ارجوا ان یجعلھا ربی حقا۔
بعد ازاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محمد بخش صاحب آف جنڈیالہ کا خط محررہ 11؍اپریل 1893ءنقل فرمایا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ قصبہ جنڈیالہ کے عیسائیوں نے بہت شور مچایا ہوا ہے کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء و دیگر بزرگان دین کوموجود کر کے جلسہ کریں اور دین حق کی تحقیقات کی جائیں۔ نیز حضورؑ سے راہنمائی طلب فرمائی کہ ان کو کیا جواب دیا جائے۔
پھر حضورؑ نے جو 13؍اپریل 1893ء کو مسیحان جنڈیالہ کی طرف ایک خط رجسٹری کروایاجس کا مضمون یہ تھا کہ میں نے آپ کی وہ تحریر جو آپ نے میاں محمد بخش صاحب جنڈیالہ کو بھیجی اول تا آخر پڑھی۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کا ہم سے کچھ زیادہ حق نہیں بلکہ جس حالت میں خداوند کریم نے اس عاجز کو انہی کاموں کے لیے بھیجا ہے تو یہ سخت گناہ ہوگا کہ ایسے موقع پر خاموش رہوں اس لیے میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لیے میں ہی حاضر ہوں…یہ بھی فریقین کو اقرار ہے کہ زندہ مذہب وہی ہو سکتا ہے کہ جن دلائل پر اس کی صحت کی بنیاد ہے وہ دلائل بطور قصہ کے نہ ہوں بلکہ دلائل ہی کے رنگ میں اب بھی موجود ہوں اور نمایاں ہوں۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ کوئی نبی پاک تھا مگر ہم میں سے کسی کو بھی پاک نہیں کر سکتا اور صاحب خارق تھا مگر کسی کو صاحب خوارق نہیں بنا سکتا اور الہام یافتہ تھا مگر ہم میں سے کسی کو ملہم نہیں بنا سکتا تو ایسے نبی سے ہمیں کیا فائدہ۔ مگر الحمدللّٰہ و المنّۃکہ ہمارا سید و رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسا نہیں تھا۔ اس نے ایک جہان کو وہ نور حسب مراتب استعداد بخشا کہ جو اس کو ملا تھا اور اپنے نورانی نشانوں سے شناخت کیا گیا۔ وہ ہمیشہ کے لیے نور تھا جو بھیجا گیا اور اس سے پہلے کوئی ہمیشہ کے لیے نور نہیں آیا…اب دنیا میں زندہ مذہب صرف اسلام ہے اور اس عاجز نے اپنے ذاتی تجارب سے دیکھ لیااور پرکھ لیا کہ دونوں قسم کے نور، اسلام اور قرآن میں اب بھی ایسے ہی تازہ بتازہ موجود ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں موجود تھے۔
اس اشتہار کے جواب میں مسیحان جنڈیالہ نے جواب دیا کہ ہمارا دعویٰ نہ آپ سے مگر جنڈیالہ کے محمدیوں سے ہے۔ ہم آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ ہاں اگر جنڈیالہ کے مسلمان خود آپ کی مدد قبول کریں تو ہمارا کچھ عذر نہ ہو گا۔ لہٰذا انہی سے آپ فیصلہ کر لیں بعد ازاں ہم بھی حاضر ہیں۔ اس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے لکھا کہ اپنے چند عزیز دوست بطور سفیر منتخب کر کے آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں۔ چنانچہ بعد ازاں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بمعیت معزز سفارت امرت سر پہنچے اور مقابلہ کے لیے دعوت دی۔ جس کے بعد فریقین میں مباحثہ کی شرائط طے پائیں۔ جن میں مباحثہ کا مقام، وقت، اشخاص کے ساتھ ساتھ بعض معین سوالات کا بھی فیصلہ کیا گیا جن پر بحث کرنا مقصود تھی۔ پھر آخری اشتہار حضور علیہ السلام نے اس مضمون کا شائع کیا کہ اس مباحثہ سے پہلے یہ بات تصفیہ پا جانی چاہیے کہ اس مباحثہ اور مقابلہ کی علت غائی کیا ہے۔ چنانچہ مغلوب فریق یا تو فریق غالب کا مذہب اختیار کرے اور یا اپنی کل جائیداد کا نصف حصہ اس مذہب کی تائید کے لیے فریق غالب کو دے دے جس کی سچائی ثابت ہو۔
٭…٭…٭