روزوں میں ہمارے لئے دو اہم سبق
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
پھر رمضان کے ذریعہ استقلال کی عادت بھی ڈالی جاتی ہے کیونکہ یہ نیکی متواتر ایک عرصہ تک چلتی ہے۔ انسان دن میں کئی کئی مرتبہ کھانے کا عادی ہوتا ہے۔غرباء اور امراء،شہری اور دیہاتی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عام ایّام میں کئی دفعہ کھاتے پیتے ہیں۔ مگر رمضان میں تمام کھانے سمٹ سمٹا کر صرف دو بن جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاں دوسرے ایّام میں وہ ساری رات سوئے رہتے ہیں وہاں رمضان کے ایّام میں انہیں تہجداور سحری کے لیے اٹھنا پڑتا ہے اور دن کو بھی قرآن کریم کی تلاوت میں اپنا کافی وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ غرض رمضان کے ایام میں اپنی عادت کی بہت کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے۔ ہے اور یہ قربانی ایک دن نہیں دو دن نہیں نہیں بلکہ متواتر ایک مہینہ تک بغیر نا غہ کے کرنی پڑتی ہے۔پس روزوں سے استقلال کا عظیم الشان سبق ملتا ہے۔اور درحقیقت بغیر مستقل قربانیوں کے کوئی شخص خدا تعالیٰ کو نہیں پا سکتا کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ وہ عارضی ہوتی ہے۔بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسّہ اس لیے لٹکا رکھا ہے کہ جب نماز پڑھتے پڑھتے انہیں اونگھ آنے لگے تو اس کا سہارا لے لیں۔تو آپ نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں۔عبادت وہی ہے جسے انسان بشاشت سے ادا کرسکے۔اور جس کے نتیجہ میں ایسا ملال پیدا نہ ہو جو اس کےدوام اور استقلال کوقطع کرنے کا موجب بن جائے۔اسی طرح روزوں کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مومنوں کو ایک مہینہ تک اپنے جائز حقوق کو بھی ترک کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ انسان گیارہ مہینے حرام چھوڑنےکی مشق کرتا ہے مگر بارھویں مہینہ میں وہ حرام نہیں بلکہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے۔ یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے ہم کس طرح حرام چھوڑ سکتے ہیں۔مگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیں۔ ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حلال چھوڑنے کی عادت پیدا کئے بغیر دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں اکثر فساد اس لیے نہیں ہوتے کہ لوگ حرام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اکثر فساد اس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ حلال کو بھی ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو ناجائز طور پر کسی کا حق دبا ئیں مگر وہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں جو لڑائی اور جھگڑے کو پسند کر لیں گے مگر اپنا حق چھوڑنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ سینکڑوں پاگل اور نادان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دنیا میں عظیم الشان فتنہ و فساد پیدا کردیتے ہیں۔ اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ دنیا کا امن برباد ہو رہا ہے۔حالانکہ اگر وہ ذاتی قربانی کریں تو بہت سے جھگڑے اور فساد مٹ سکتے ہیں اور نہایت خوشگوار امن قائم ہو سکتا ہے۔پس رمضان کا مہینہ بھی یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم صرف حرام ہی نہ چھوڑوبلکہ خدا تعالیٰ کے لئے اگر ضرورت پڑ جائے تو حلال یعنی اپنا حق بھی چھوڑ دو۔ تاکہ دنیا میں نیکی قائم ہو اور خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو۔
( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر 379۔380)
(مرسلہ:حافظ مزمل شاہد مربی سلسلہ کانگو کنشاسا)