حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
استغفار وہ ہتھیار ہے جس سے شیطان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور توبہ اس ہتھیار کا استعمال کرنا ہے۔ یعنی ان عملی قوتوں کا اظہار جس سے شیطان دُو ر رہے۔ ہمارا نفس کبھی مغلوب نہ ہو اور اس کے لئے وہ نیکیاں اور اعمال کرنے کی مسلسل کوشش ضروری ہے جن کے کرنے کا ہمیں خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے، ورنہ استغفار نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ بخشش کا حصول ممکن نہیں۔ ایک روزہ دار نمازیں بھی پڑھ رہا ہے، نوافل بھی ادا کر رہا ہے، قرآن کریم کی تلاوت بھی کر رہا ہے اگر ممکن ہو اور وقت ہو تو درس بھی سن لیتا ہے۔ لیکن اگر اُن احکامات پر عمل نہیں کر رہا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بھائیوں کے حقوق کے بارے میں قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں تو یہ حقیقی توبہ استغفار نہیں ہے، روزوں سے حقیقی فیض پانے کی کوشش نہیں ہے۔ حقیقی فائدہ تبھی ہو گا جب استغفار سے جو قوت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے استعمال کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کو ڈھانکنے کی جو قوت عطا کی ہے، جن گناہوں کو دُور کرنے کی توفیق بخشی ہے، استغفار کرتے ہوئے اپنے دل کو ایک انسان نے گناہوں سے جو خالی کیا ہے تو فوری طور پر انہیں نیکیوں سے بھرنے کی کوشش کی جائے۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی جائیں۔ ورنہ اگر دل کا برتن نیکیوں سے خالی رہا تو شیطان پھر اسے انہیں غلاظتوں سے دوبارہ بھر دے گا۔ اس لئے خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التحریم: 9) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توبہ کرتے ہوئے جھکو۔ پس وہی استغفار دائمی بخشش کا سامان کرتا ہے جس کے ساتھ خالص توبہ ہو، جس کو پھر انسان نیکیوں سے بھرتا چلا جائے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ہمیشہ خیال رکھے۔ ایک مسلسل کوشش کرے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ستمبر 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍ اکتوبر 2008ء صفحہ 6)