نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 11)
مشاورت کی اصل غرض
’’اصل غرض اس قسم کی مجلس کے انعقاد اور باہمی مشوروں سے یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ روح رہے کہ ہم مل کر کام کریں اور سلسلہ کی ترقی کی تجاویز میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ اگر یہ غرض حاصل نہیں ہوتی تو اِس مجلس کا مقصد بالکل فوت ہو جاتا ہے۔
یہ خیال کرنا کہ یورپ کی طرح ہم نے بھی اپنی ایک پارلیمنٹ بنا لی ہے کسی صورت میں صحیح نہیں۔ آخر ہم نے جو ساری دُنیا کو چھوڑا اور اپنے تعلقات لوگوں سے قطع کر کے ایک ایسے گوشہ میں آگئے جہاں دُنیوی اعزازات اور دُنیوی مفادات میں سے کوئی چیز بھی نہیں تو ہماری غرض یہ تو نہ تھی کہ ہم یورپین لوگوں کی کسی خاص بات میں نقل کریں بلکہ ہماری غرض یہ تھی اور یہی ہے کہ ہم اُس رستہ پر چلیں جس پر چلنے سے خدا خوش ہوتا ہے۔ پس دُنیا خواہ کچھ کہے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارا خدا کیا کہتا ہے، ہمارا رسول کیا کہتا ہے، اور کس بات کے کرنے کی وہ ہمیں تاکید کرتا ہے۔ اگر ہم اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چل پڑتے ہیں تو ہمارا مدعا ہمیں حاصل ہو سکتا ہے اور اگر ہم اس کے بتائے ہوئے راستہ پر نہیں چلتے تو اپنے مقصد اور مدعا میں ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘ (خطاب فرمودہ24؍مارچ1940ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ487تا488)
نمائندگانِ شوریٰ کی حد بندی
’’جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اس سال نمائندگان کے انتخاب کو بعض خاص شرائط عائد کر کے محدود کر دیاگیا ہے یعنی جماعتوں کو اب اس طرح کُلّی آزادی حاصل نہیں رہی کہ وہ اپنی جماعتوں میں سے جتنے نمائندے چاہیں بھجوا دیں بلکہ حدبندی کر دی گئی ہے اور جوں جوں ہماری جماعت ترقی کرے گی اس کے ساتھ ساتھ یہ پابندیاں شاید اور بھی بڑھانی پڑیں گی۔ بلکہ شاید کیا یقیناً ایسا وقت آئے گا جب بجائے جماعتوں کے مختلف اضلاع بلکہ صوبوں سے نمائندے منتخب کرنے پڑیں گے کیونکہ کوئی مجلس شوریٰ ایسی وسیع نہیں ہو سکتی کہ ہزاروں لاکھوں آدمی اس میں بلائے جا سکیں۔ جب خدا ہماری جماعت کو ساری دُنیا میں پھیلا دے گا تو اُس وقت ضلعوں اور صوبوں بلکہ مختلف مُلکوں کے نمائندے ہی لئے جائیں گے ہر جماعت سے نمائندہ نہیں لیا جاسکے گا۔ پس اِس پابندی پر جماعتوں کو بُرا نہیں منانا چاہئے۔ یہ ایک مجبوری ہے اور یہ مجبوری اب بڑھتی ہی جائے گی لیکن بہرحال جب تک چھوٹی جماعتوں کو اپنے نمائندے بھیجنے کا حق حاصل ہے اُس وقت تک انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اِس حق سے فائدہ اُٹھائیں اور مجلس شوریٰ کے موقع پر بہترین نمائندے منتخب کر کے بھیجا کریں۔ مگر میں دیکھتا ہوں جہاں ایک حصہ مخلصین کا ایسا ہے جس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُس کے نمائندے قابل ہوں وہاں بعض جماعتیں ایسی ہیں جن کے نمائندے مجبوری کے نمائندے ہوتے ہیں یعنی اُن کے دلوں میں مجلس شوریٰ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ صرف یہ پوچھ لیتے ہیں کہ کسی کا قادیان جانے کا ارادہ تو نہیں؟ اور جب کوئی شخص کہہ دے کہ میرا ارادہ قادیان جانے کا ہے کیونکہ وہاں مَیں اپنا مکان بنانا چاہتا ہوں یا مجھے کوئی اور کام ہے تواُسی کو اپنا نمائندہ بنا دیتے ہیں۔ یامثلاً کسی نے کہا کہ میں لاہور اور امر تسر اپنے کسی تجارتی کام کے سلسلہ میں جارہا ہوں تو اُسے ہی کہہ دیتے ہیں کہ مہربانی کر کے قادیان سے بھی ہوتے آنا اور وہاں مجلس شوریٰ میں ہمارا نمائندہ بن جانا۔ بلکہ بعض نے تو نمائندگی کو ایسا ہی کام سمجھ لیا ہے جیسے مشہور ہے کسی بنیےنے سردی کے دنوں میں دوسرے کے نہانے کو اپنا نہانا فرض کر لیا تھا۔ وہ بھی بجائے اِس کے کہ اپنی جماعت میں سے کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجیں قادیان کے افراد کو ہی اپنا نمائندہ سمجھ لیتے ہیں۔‘‘ (خطاب فرمودہ11؍اپریل1941ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ513تا514)
مجلسِ شوریٰ کی اہمیت
’’جماعتوں کے اندر ابھی تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ یہ مجلس شوریٰ کتنی اہم ہے اور دُنیاکی آئندہ ترقی کا انحصار اِس پر کس حد تک ہے۔ شروع شروع میں تو چونکہ جماعت کے لوگوں کو اِس کی اہمیت کا بالکل ہی علم نہیں تھا، اس لئے کئی سال تک تو یہی خیال کیا جاتا تھا کہ ہمارے مشورہ دینے کا کیا فائدہ ہے۔ فیصلہ تو اُنہوں نے وہی کرنا ہے جو اُن کا جی چاہے گا۔ ہمارے ہاں چونکہ آخری فیصلہ خلیفہ کا ہوتا ہے اس لئے وہ خیال کرتے تھے کہ ہمارا کچھ کہنا یا نہ کہنا برابر ہے جب اُنہوں نے ہی فیصلہ کرنا ہے تو وہ جو جی چاہے فیصلہ کر لیں۔ مگر آہستہ آہستہ اب اس خیال کا زور ٹوٹ گیا ہے گو کسی قدر اب بھی پایا جاتا ہے۔ پہلے بالعموم یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جو فیصلہ کرنا ہے اُنہوں نے ہی کرنا ہے اس لئے ہمارے مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر اب ہمارے دوست اس بات کو سمجھنے لگ گئے ہیں کہ باوجود اس کے کہ خلیفۂ وقت کا فیصلہ آخری ہوتا ہے پھر بھی مجلس شوریٰ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ‘‘(خطاب فرمودہ11؍اپریل1941ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ514)
بلاوجہ بحث کو لمبا نہ کیا جائے
’’اِسی طرح اَور کئی نقائص ہیں جو آہستہ آہستہ دُور ہو رہے ہیں۔ گو اب بھی بعض دفعہ دوستوں کو یہ دورہ ہوجاتا ہے کہ وہ بِلاوجہ بحث کو لمبا کر دیتے ہیں مگر جو دوست ہر سال اِس مجلس میں شامل ہوتے ہیں وہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اب اِس نقص میں بھی کمی ہو رہی ہے اور زیادہ تر دوست اُسی وقت بولتے ہیں جب اُن کا بولنا مفید ہوتا ہے۔ اِسی طرح تجربہ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب دوستوں کی رائے زیادہ صائب ہوتی ہے اور زیادہ غور اور زیادہ فکر سے تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ اسی طرح جو دوست بولنا چاہتے ہیں، وہ محل اور موقع کے مناسب حال بولتے ہیں۔ غرض میں دیکھتا ہوں کہ مجلس شوریٰ کے کاموں میں برابر ترقی ہوتی جا رہی ہے اور دوستوں پر اس کی اہمیت زیادہ سے زیادہ روشن ہو رہی ہے۔ ‘‘(خطاب فرمودہ11؍اپریل1941ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ514)
نمائندگان کے انتخاب میں احتیاط کی جائے
’’میں جیسا کہ ہمیشہ نصیحت کیا کرتا ہوں آج پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جیسا کہ نمائندگان کےانتخاب کے وقت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ نمائندے مجلسِ شوریٰ میں شامل ہونے کے اہل اور صائب رائے رکھنے والے ہوں۔ ‘‘(خطاب فرمودہ11؍اپریل1941ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ518)
ممبران سب کمیٹی کے انتخاب کا طریق
’’سب کمیٹیوں کے لئے ممبران کا انتخاب کرتے وقت بھی احتیاط سےکام لینا چاہئے۔ مجھے شکایت پہنچی ہے کہ اِس بارہ میں دوست اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کرتے بلکہ خود میرے کانوں نے ایک دفعہ سنا کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ فلاں سب کمیٹی کے لئے تم میرا نام پیش کر دو۔ کسی سب کمیٹی کے لئے خود اپنا نام پیش کر دینا بشرطیکہ جس امر پر غور کرنے کے لئے سب کمیٹی بنائی گئی ہو اُس میں کوئی شخص مہارت رکھتا ہو، کوئی حرج کی بات نہیں مگر دوسرے سے اپنا نام پیش کرانا اور کہنا کہ تم میرا نام پیش کرو ایک معیوب امر ہے کیونکہ اِس طرح وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اُس کا نام پیش کرنے کی دوسرے لوگوں نے ضرورت محسوس کی ہے حالانکہ وہ خود پیش کرا رہا ہوتا ہے۔ اوّل تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی عہدہ کے لئے اپنا نام پیش نہ کرو۔ تا ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں چونکہ وہی لوگ شامل ہوتے تھے جو رات دن آپ کے قرب و جوار میں رہتے تھے اِس لئے آپ جانتے تھے کہ کون مشورہ دینے کا اہل ہے اور کون نہیں۔ مگر ہماری یہ مجلس شوریٰ مختلف جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے اور میں ہر ایک کے متعلق یہ نہیں جانتا کہ وہ کسی خاص امر کے متعلق مشورہ دینے کا اہل ہے یا نہیں۔ اگر قادیان کے لوگوں تک ہی یہ مجلس شوریٰ محدود ہو تو میں خود ہی سب کمیٹیوں کے لئے ممبروں کا انتخاب کر لوں لیکن چونکہ ہماری اِس مجلس میں بیرونی جماعتوں کے بھی دوست کثرت سے شریک ہوتے ہیں اور مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں سے کون قانون کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے، کون اخلاق کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے، کون تعلیم کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے، کون آڈٹ کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے اس لئے اگر کوئی دوست اپنا نام آپ پیش کر دیں یا کوئی دوست اپنی ذاتی واقفیت کی بناء پر کسی اَور دوست کا نام تجویز کر دیں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں لیکن دوسرے کو یہ کہنا کہ تم میرا نام پیش کرو سخت معیوب بات ہے۔ اِس طرح ایک طرف تو وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ میں بہت بڑا قابل انسان ہوں اور دوسری طرف وہ اپنے آپ کو منکسرالمزاج ظاہر کرنا چاہتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ خود نمائی اور خود ستائی کا دِلدادہ ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ میرا نام کسی نہ کسی سب کمیٹی میں ضرور آجائے۔ مگر اس دوست کے متعلق بعد میں یہ عجیب بات معلوم ہوئی کہ باوجود اپنا نام خود پیش کرانے کے وہ سب کمیٹی کی میٹنگ میں شامل ہی نہ ہوئے۔ پس آئندہ کے لئے اس بارہ میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ جن دوستوں کے نام لکھائے جا رہے ہیں آیا وہ مجلس شوریٰ میں شامل بھی ہیں یا نہیں؟ بعض دفعہ کوئی دوست یونہی دوسرے کا نام پیش کر دیتے ہیں اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوست قادیان میں آئے ہی نہیں۔ یہاں ہم مشورہ کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے اور چونکہ امانت میں خیانت جائز نہیں اِس لئے اگر کوئی دوست کسی ایسے دوست کا نام پیش کر دیتے ہیں جو آئے ہی نہیں تو وہ امانت میں خیانت سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘(خطاب فرمودہ11؍اپریل1941ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ518تا520)
ممبران سب کمیٹی محنت سے کام کریں
’’جو دوست سب کمیٹیوں کے لئے تجویز کئے جائیں اُنہیں چاہیے کہ وہ محنت سے کام کریں اورکوشش کریں کہ سلسلہ کی مشکلات کے حل کے لئے جو تجاویز پیش کریں وہ ایسی ہوں جن پر عمل کیا جا سکتا ہو۔ شروع شروع میں بہت سے دوست محض ایک تحریک کی خاطر ایسی کئی تجاویز پیش کر دیتے تھے جو گو اچھی ہوتی تھیں مگر ہم اُن پر عمل نہیں کر سکتے تھے لیکن اب بالعموم ایسی ہی تجاویز پیش کی جاتی ہیں جو ہمارے دائرۂ عمل میں ہوتی ہیں اور جن کے بجالانے پر ہم قدرت رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک ضروری امر ہے کہ مجلس شوریٰ میں جو تجویزیں پیش کی جائیں وہ ایسی ہی ہوں جو عمل کے قابل ہوں۔ ایسی نہ ہوں جن پر ہم عمل ہی نہ کر سکتے ہوں۔ خواہ مقدرت کی کمزوری کی وجہ سے، خواہ اس وجہ سے کہ حالات ان پر عمل کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوں، خواہ اس وجہ سے کہ ان پر عمل کرنے سے کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہو اور خواہ اس وجہ سے کہ ان سے بہتر تجاویز پہلے موجود ہوں۔ ‘‘(خطاب فرمودہ11؍اپریل1941ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ520)
(جاری ہے)