تلاوت قرآن کریم کے آداب (قسط سوم۔ آخری)
’’قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے‘‘
تلاوت کے پسندیدہ اوقات
اگرچہ قرآن کریم کی تلاوت کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں، دن رات کسی بھی وقت تلاوت کی جاسکتی ہے۔ رسول کریمﷺ نے بھی فرمایاہے: وَاتۡلُوۡہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اٰنَآءَ الَّلۡیۡلِ وَاٰنَآءَ النَّھَارِ۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد2صفحہ350مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان)قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کیا کرو، رات اور دن کے اوقات میں۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صبح کے وقت کی جانے والی تلاوت زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ط اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِکَانَ مَشۡھُوۡدًا۔(بنی اسرائیل: 79)سورج کے ڈھلنے سے شروع ہوکر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دے۔ یقیناً فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اُس کی گواہی دی جاتی ہے۔
صبح کے وقت انسانی ذہن بہت پرسکون، تازہ دم اور ہشا ش بشاش ہوتا ہے۔ ایسے پرسکون ماحول میں انسان قرآن کریم کے مضامین کوبہترطور پر سمجھ سکتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے۔ اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔ جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مدّنظر نہ رکھا جاوے اوراس پر پورا غور نہ کیا جاوے، قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے۔ ‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 285 ایڈیشن 1988ء)
ظاہری ادب ملحوظ رکھا جائے
قرآن کریم کے ظاہری ادب کو بھی ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے شعائراللہ کی عزت وتکریم کو تقویٰ کی علامت قرار دیاہے۔ جیسا کہ فرمایاہے: وَمَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَاللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ۔(الحج: 33)اور جو کوئی شعائراللہ کو عظمت دے گا تو یقیناً یہ بات دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے۔
قرآن کریم کو کسی ایسی جگہ پر نہیں رکھنا چاہیے جہاں اس کے احترام میں کچھ فرق آئے۔ نہ کسی کی طرف پھینکنا چاہیے۔ رسول کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے: یَاأَھۡلَ الۡقُرۡاٰنِ لَا تَتَوَسَّدُوۡالۡقُرآنَ۔ (البیہقی فی شعب الایمان للبیہقی جلد2 صفحہ350مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)اے اہل قرآن! تم قرآن کو تکیہ نہ بناؤ۔ پس قرآن کریم کے ظاہری ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا بھی قرآن کریم کے آداب میں شامل اورباعث خیر وبرکت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۔ مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ۔ (عبس: 14تا15)معزز صحیفوں میں ہے۔ جو بلند وبالا کئے ہوئے، بہت پاک رکھے گئے ہیں۔
متفرق آیات کے بعد دعائیہ کلمات
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر ایسی دعائیہ اور استفہامیہ آیات ہیں جو سوالیہ رنگ رکھتی ہیں۔ ان آیات کی تلاوت کے وقت جواباًجو کلمات پڑھنے چاہئیں۔ ذیل میں ان کا مختصر ذکر کیا جا رہاہے۔
سورۃ الفاتحہ کے آخر پر وَلَاالضَّآلِّیۡنَ کے جواب میں آمِیۡن کہنا چاہیے یعنی: اے اللہ قبول فرما۔ حضرت وائل بن حجرؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: میں نے سنا رسول اللہﷺ غَیۡرِ الۡمغۡضُوۡبِ عَلَیۡھِمۡ وَلَاالضَّآلِّیۡنَ کہہ کر اٰمِیۡن کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے۔ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ باب القرأۃ فی الصلوٰۃ)
عَنۡ أَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَاأَمَّنَ الۡاِمَامُ فَأَمِّنُوۡا فَاِنَّہُ مَنۡ وَّافَقَ تَأۡمِیۡنُہُ تَأۡمِیۡنَ الۡمَلَائِکَۃِ غُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡبِہِ۔ (صحیح البخاری، کتاب الأذان۔ باب جَھۡرُ الۡاِمَامِ بِالتَّأۡمِیۡنِ، حدیث نمبر780)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ کیونکہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہوگی اس کے جو گناہ پہلے ہوچکے ہوں ان کی مغفرت کی جائے گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آمین کہے اور آسمان پر ملائکہ بھی آمین کہیں اور پھر وہ ایک دوسرے کے مطابق ہوجائیں تو جو گناہ اس سے پہلے ہوچکے ہوں ان کی مغفرت کی جائے گی۔ (صحیح البخاری، کتاب الأذان۔ باب فَضۡلُ التَّأۡمِیۡنِ، حدیث نمبر781)
سورۃ البقرۃ کی آخری آیت میں جو دعائیں رَبَّنَا کے الفاظ میں شروع ہوتی ہیں، ان کے جواب میں آمین کہنا چاہیے۔ جب یہ الفاظ سنے یا پڑھے: وَاعۡفُ عَنَّا وَاغۡفِرۡلَنَا وَارۡحَمۡنَا اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر۔ تو ان کے جواب میں آمین بھی کہے اور آخر پر یہ دعا پڑھی جائے۔ رَبِّ اغۡفِرۡلِیۡ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الۡحَمۡدُ۔ اے اللہ ! میرے گناہ بخش دے۔ اے ہمارے ربّ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔
سورت آل عمران میں جب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھے یا سنے !
شَھِدَاللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُواالۡعِلۡمِ قَآئِمًا بِالۡقِسۡطِ …۔ (آل عمران: 19)اللہ انصاف پر قائم رہتے ہوئے شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور فرشتے بھی اور اہلِ علم بھی (یہی شہادت دیتے ہیں)۔
ان الفاظ کے جواب میں یہ اقرار کیا جائے کہ وَاَنَا اَشۡھَدُ بِہٖ۔ اور میں بھی یہی گواہی دیتا ہوں۔
سورت بنی اسرائیل کے آخرمیں جب اللہ تعالیٰ کا درج ذیل ارشاد پڑھا جائے: وَکَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا اور تُو بڑے زور سے اُس کی بڑائی بیان کیا کر۔ تو اس کے جوب میں اَللّٰہُ اَکۡبَرُکہا جائے یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالےسے یہ روایت درج ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں دکھ اور بیماری سے بچنے کے لیے جو دعا سکھائی اس میں چند ابتدائی کلمات کے بعد سورت بنی اسرائیل کی آخری آیت بھی شامل ہے۔
تَوَکَّلۡتُ عَلَی الۡحَیِّ الَّذِیۡ لَا یَمُوۡتُ، اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدً وَّلَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَلَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا۔ (تفسیر ابن کثیر (مترجم) جلد سوم صفحہ 89۔ ناشر: مکتبہ قدُّوسِیہ اردو بازار لاہور۔ سن اشاعت 2006ء)
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔(الاحزاب: 57)یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔
یہ آیت پڑھتے یا سنتے وقت دلی محبت کے ساتھ درود شریف پڑھناچاہیے یا کم ازکم اس طرح دعا کرے: اَلسَّلَامُ عَلَیۡکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحۡمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ اَللّٰھُمۡ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔
سورت یٰس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَھِیَ رَمِیۡمٌ۔(یٰس: 79)کون ہے جو ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ وہ گل سڑچکی ہوں گی؟
اس کے جواب میں کہا جائے:
یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ وَہُوَ بِکُلِّ خَلۡقٍ عَلِیۡمُ۔(یٰس: 80)انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کی خَلق کا خوب علم رکھنے والاہے۔
سورت یٰس کی ایک اور آیت میں فرمایا: اَوَلَیۡسَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَھُمۡ۔(یٰس:82)کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسے پیدا کردے؟
اس آیت کریمہ کو پڑھنے یا سننے والا یہ کلمات پڑھے۔
بَلٰی وَھُوَالۡخَلّٰقُ الۡعَلِیۡمُ۔(یٰس: 82)کیوں نہیں۔ جبکہ وہ تو بہت عظیم خالق (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
قرآن کریم میں آنحضرتﷺ کا بابرکت نام چار مرتبہ آیا ہے۔ ان مواقع پر آپﷺ کا نام پڑھتے یا سنتے وقت دلی محبت سے درود یعنی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر سورۃ الفتح میں مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ(الفتح: 30)کے جواب میں صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہیے۔
سورۃ الواقعہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ءَاَنۡتُمۡ تَخۡلُقُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡخٰلِقُوۡنَ۔ (الواقعہ: 60)کیا تم ہو جو اُسے پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں؟
اس آیت کے جواب میں بَلۡ اَنۡتَ یَا رَبِّ پڑھنا چاہیے۔ یعنی اے میرے ربّ تو ہی یہ کام کرتا ہے۔
سورۃ الواقعہ کی ایک اور آیت میں فرمایا: ءَاَنۡتُمۡ تَزۡرَعُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الزّٰرِعُوۡنَ۔(الواقعہ: 65)کیا تم ہی ہو جو اُسے اُگاتے ہو یا ہم اُگانے والے ہیں؟
اس آیت کے جواب میں بھی بَلۡ اَنۡتَ یَا رَبِّ پڑھنا چاہیے۔ یعنی اے میرے ربّ تو ہی یہ کام کرتا ہے۔
سورۃ الواقعہ میں فرمایا:
ءَاَنۡتُمۡ اَنۡزَلۡتُمُوۡہُ مِنَ الۡمُزۡنِ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡزِلُوۡنَ۔ (الواقعہ: 70)کیا تم ہی نے اسے بادلوں سے اُتارا ہے یا ہم ہیں جو اُتارنے والے ہیں؟
اس آیت کے جواب میں بھی بَلۡ اَنۡتَ یَا رَبِّ پڑھنا چاہیے۔ یعنی اے میرے ربّ تو ہی یہ کام کرتا ہے۔
سورۃ الواقعہ کے ایک اور مقام پر فرمایا:
ءَاَنۡتُمۡ اَنۡشَاۡتُمۡ شَجَرَتَہَاۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡشِـُٔوۡنَ۔(الواقعہ: 73)کیا تم اس کا شجر (نما شُعلہ) اُٹھاتے یا ہم ہیں جو اسے اُٹھانے والے ہیں؟
اس آیت کے جواب میں بھی بَلۡ اَنۡتَ یَا رَبِّ پڑھنا چاہیے۔ یعنی اے میرے ربّ تو ہی یہ کام کرتا ہے۔
سورۃ الواقعہ میں دومقامات پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے: فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ۔(الواقعہ: 75و97)پس اپنے ربِ عظیم کے نام کے ساتھ تسبیح کر۔
اس کلمہ کے جواب میں کہا جائے: سُبۡحَانَ رَبِّیَ الۡعَظِیۡمِ پاک ہے میرا ربّ بڑی عظمت والا۔
عَنۡ عُقۡبَۃَ بۡنِ عَامِرٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتۡ (فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ)قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہﷺ اجۡعَلُوۡھَا فِی رُکُوۡعِکُمۡ۔ (ابوداؤد، کتاب الصلٰوۃ، باب مایقول الرجل فی رکوعہ وسجود)حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب سورۃ الواقعہ کی آیت فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ نازل ہوئی کہ ’’پس اپنے ربِ عظیم کے نام کے ساتھ تسبیح کر۔ ‘‘تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے رکوع میں رکھو۔
سورۃ الرحمٰن کو عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن کہا گیا ہے۔ اس سورۃ میں متعدد بار فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ پس (اے جنّ وانس!)تم دونوں اپنے ربّ کی کس کس نعمت کاانکارکروگے۔ اس کا موقع محل کے مطابق بار بار استعمال پڑھنے والے پر ایک مسحورکن کیفیت پیدا کردیتاہے۔ ان کلمات کے جواب میں رسول اللہﷺ نے جو دعا سکھائی ہے اس کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ صحابہؓ کے پاس تشریف لائے، اور ان کے سامنے سورۃ الرحمٰن کی شروع سے آخرتک تلاوت کی۔ صحابہ خاموش رہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: میں نے یہ سورت جنوں کے سامنے پڑھی تھی، انہوں نے تم سے بہتر ردّ عمل ظاہر کیا۔ جب بھی میں یہ آیت پڑھتا۔ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِِ’’پس (اے جنّ وانس!)تم دونوں اپنے ربّ کی کس کس نعمت کاانکارکروگے۔ ‘‘تووہ کہتے: لَا بِشَیۡءٍ مِنۡ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الۡحَمۡدُ۔ یعنی اے ہمارے ربّ ! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو بھی نہیں جھٹلاتے اور تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، سورۃ الرحمٰن)
سورۃ الملک کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ۔ (الملک: 31)تُوکہہ دے کہ اگر تمہارا پانی گہرائی میں اُتر جائے تو کون ہے جو تمہارے پاس چشموں کا پانی لائے گا؟
اس آیت کو پڑھنے یا سننے والے کوکہنا چاہیے کہ اَللّٰہُ یَاۡتِیَنَا بِہٖ وَھُوَ رَبُّ الۡعَالَمِیۡنَ۔اللہ ہی اس کو ہمارے پاس لائے گا اور وہ سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔
سورۃ الشمس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاَلۡھَمَھَا فُجُوۡرَھَا وَتَقۡوٰھَا۔(الشّمس:9)پس اُس کی بے اعتدالیوں اور اس کی پرہیزگاریوں (کی تمیز کرنے کی صلاحیت) کو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔
اس آیت کے جواب میں یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
اَللّٰھُمَّ اٰتِ نَفۡسِیۡ تَقۡوٰھَا وَزَکِّھَا اَنۡتَ خَیۡرُ مَنۡ زَکَّھَا اَنۡتَ وَلِیُّھَا وَمَوۡلٰھَا۔ اے اللہ، میرے نفس کو تقویٰ عطا فرمااور اسے پاک کردے توہی بہتر پاک کرنے والا ہے توہی اس کا ساتھی اور مالک ہے۔
سورۃ التین، سورۃ القیامۃ اور سورۃ المرسلٰت کے بعض کلمات کے بعد جو الفاظ ادا کرنے چاہئیں ان کا ذکر رسول اللہﷺ کے ایک ارشادِ مبارک میں ملتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی سورۃ التین آخر تک پڑھے تو آیت اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ۔’’کیا اللہ سب فیصلہ کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ اچھا فیصلہ کرنے والا نہیں؟ ‘‘کے بعد کہے: بَلٰی وَأَنَا عَلٰی ذالِکَ مِنَ الشَّاھِدِیۡنَ۔ بے شک اللہ ہی سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے اور میں اس پر گواہ ہوں۔ سورۃ القیامۃ کی آخری آیت: اَلَیۡسَ ذٰلِکَ بَقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنۡ یُّحۡیِ الۡمَوۡتٰی۔’’ کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ وہ مُردوں کو زندہ کرسکے؟ ‘‘پڑھی جائے تو بَلٰیکہنا چاہیے یعنی ہاں یقیناً اللہ اس پر قادر ہے۔ سورۃ المرسلٰت کی آخری آیت فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ۔’’پس اس کے بعد وہ اور کس بیان پر ایمان لائیں گے؟ ‘‘تک پہنچے تو اس کے بعد کہے: اٰمَنَّا بِاللّٰہ یعنی ہم اللہ پر ایمان لائے۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب مقدارالرکوع والسجود)
رسول کریمﷺ سورۃ الاعلیٰ کی دوسری آیت تلاوت کرتے وقت جو دعائیہ کلمات پڑھتے تھے ان کے بارے میں روایت ہے کہ عَنۡ ابۡنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا قَرَأَ سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی قَالَ سُبۡحَانَ رَبِّیَ الۡأَعۡلٰی۔ (ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء فی الصلاۃ)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ (سورۃ الاعلیٰ کی تلاوت کرتے ہوئے) جب سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی۔’’اپنے بزرگ وبالا ربّ کے نام کا ہر عیب سے پاک ہونا بیان کر۔ ‘‘پڑھتے تو جواب میں کہتے: سُبۡحَانَ رَبِّیَ الۡاَعۡلٰی یعنی پاک ہے میرا ربّ جو بہت بلند شان والا ہے۔
سورۃ الغاشیہ کی آخری آیات: اِنَّ اِلَیۡنَا اِیَابَھُمۡ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَھُم۔(الغاشیہ: 27تا28)یقیناً ہماری طرف ہی اُن کا لَوٹنا ہے۔ پھر یقیناً ہم پر ہی اُن کا حساب ہے۔ پڑھی یا سنی جائے تو اس کے جواب میں یہ دعا کی جائے: اَللّٰھُمَّ حَاسِبۡنِیۡ حِسَابًا یَّسِیۡرًا یعنی اے اللہ !مجھ سے بہت آسان حساب لینا۔
سورۃ التین کی آخری آیت: اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ۔(التین: 9)کیا اللہ سب فیصلہ کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ اچھا فیصلہ کرنے والا نہیں؟ پڑھنے یا سننے کے بعد یہ الفاظ کہے: بَلٰی وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاھِدِیۡنَ۔ یعنی ہاں ہاں اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں۔
سورۃ النصر کی آخری آیت سنیں یاپڑھیں تو درج ذیل دعا پڑھنی چاہیے۔
عَنۡ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡھَا: قَالَتۡ مَا صَلَّی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃً بَعۡدَ أَنۡ نَزَلَتۡ (اِذَاجَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ) اِلَّا یَقُوۡلُ فِیۡھَا سُبۡحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمۡدِکَ اللّٰھُمَّ اغۡفِرۡلِی۔ (صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ اذا جاء نصراللّٰہ)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سورۃالنصر نازل ہونے کے بعد نبی کریمﷺ جب بھی نماز پڑھتے تو آخر پر یہ دعا مانگتے۔ سُبۡحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمۡدِکَ اللّٰھُمَّ اغۡفِرۡلِی یعنی اے ہمارے ربّ! پاک ہے تو اپنی حمد کے ساتھ، اے اللہ مجھے بخش دے۔
قرآن کریم کی تلاوت کااصل مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھا جائے اور اس میں بیان مضامین پرغوروتدبر کیا جائے اور اُن کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا جائے۔ جہاں دعا کا مقام آئے وہاں رک کر دعا کی جائے اور جہاں عذاب کا ذکر ہو تو اللہ تعالیٰ سے اُس کی پناہ مانگنی چاہیے۔ رحمت کے ذکر پر یہ دعا مانگیں۔ اَللّٰھُمَّ اَدۡخِلۡنَا فِیۡ رَحۡمَتِکَ اے اللہ ! ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما۔ تلاوت کرتے ہوئے جن آیات میں عذاب وسزا کا ذکر ہو وہاں یہ دعا مانگنی چاہیے۔ اَللّٰھُمَّ لَا تُعَذِّبۡنَا۔ اے اللہ ! ہمیں عذاب نہ دینا۔
رسول اللہﷺ نماز تہجد میں بھی لمبی تلاوت کیا کرتے تھے۔ آپ کا مبارک طریق یہ تھا کہ ٹھہر ٹھہر کرعمدہ طریق پر تلاوت کرتے۔ جب کوئی سوال والی آیت آتی تو اللہ سے سوال کرتے اور جب کوئی پناہ مانگنے والی آیت آتی تو اللہ کی پناہ مانگتے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول کریمﷺ کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کی توفیق پائی۔ آپ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے پہلی رکعت میں سورت بقرہ، آل عمران اور النساء کی بڑے دھیمے انداز میں تلاوت کی۔ جب آپؐ ایسی آیت سے گزرے جس میں تسبیح ہوتی تو تسبیح کرتے اور جب آپ کسی سوال کی آیت سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب ایسی آیت سے گزرتے جہاں (اللہ کی) پناہ مانگنے کا ذکر ہوتا تو پناہ طلب کرتے۔ (صحیح مسلم، کتاب صلَاۃ المسافرین و قصرھا، بَاب اسۡتِحۡبَابِ تَطۡوِیلِ الۡقِرَاءَ ۃِ فِی صَلَاۃِ اللَّیۡلِ، حدیث نمبر1283)حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول اللہﷺ کے ساتھ نفل نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا ۔آپؐ نے سورت بقرہ کی تلاوت کی۔ آپ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرے مگر رُک کر رحمت طلب کی۔ اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر وہاں توقّف فرماکر عذاب سے پناہ مانگتے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہٖ و سجودہٖ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے۔ جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا تعالیٰ سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے اور بداعمالیوں سے بچے جس کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی …جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتاہے۔ پھر آگے چل کر اور قسم کا چنتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھاوے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 3صفحہ 519، ایڈیشن 2003ء)
قرآن کریم کے مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے۔ مثلاً سورۃ البقرۃ آیت 200، سورۃ النساء آیت 107، سورت ھودآیت53وغیرہ۔ ان آیات کو سن کر یا پڑھتے ہوئے: اَسۡتَغۡفِرُ اللّٰہَ’میں اللہ کی بخشش چاہتا ہوں‘ پڑھنا چاہیے۔
سجدات قرآن
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر ایسی آیات بیان ہوئی ہیں جن کو پڑھنے یا سننے پر سجدہ کرنا چاہیے۔ نماز باجماعت کی صورت میں اگر امام سجدہ تلاوت کرے تو مقتدی بھی سجدہ بجالائیں۔
سجدۂ تلاوت کی مختلف دعائیں کتب احادیث و صلحائے امت کی تحریروں میں ملتی ہیں۔ اگر وہ یاد ہوں تو انہیں پڑھا جائے اور اگر وہ دعائیں یاد نہ ہوں تو سجدہ میں پڑھی جانے والی تسبیح پڑھ لی جائے۔ اپنی زبان میں دعائیں بھی کی جاسکتی ہیں۔
نبی کریمﷺ کا طریق عمل یہ تھا کہ جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اُس کے حضور سجدہ ریز ہونے کا ذکر ہوتا آپ اس جگہ تلاوت روک کر سجدہ کیا کرتے۔ قرآن کریم میں پندرہ ایسے مقامات ہیں جہاں سجدہ کرنا چاہیے۔ بعض نے چودہ کہا ہے، ان کے نزدیک سورت ص کا سجدہ ضروری نہیں۔ وہ اسے مستحب کہتے ہیں۔
فقہاء میں سے احناف سجدۂ تلاوت کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک قاری کو چاہیے کہ آیتِ سجدہ پر لازمی سجدہ کرے جبکہ دیگر ائمہ نے اسے سنت قرار دیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ رات کو سجدہ تلاوت کرتے تو یہ دعا پڑھتے: سَجَدَ وَجۡھِیۡ لِلَّذِیۡ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمۡعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوۡلِہٖ وَقُوَّتِہٖ۔ (جامع ترمذی، کتاب الدَّعَوۡاتَ، بَابُ مَا جَآءَ مَا یَقُوۡلُ فِیۡ سُجُوۡدِ الۡقُرۡاٰنِ، حدیث نمبر1351)میرا چہرہ اس ہستی کے سامنے جھک گیا جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی قوت اور طاقت سے قوت شنوائی اور بینائی بھی عطاکی۔
مستدرک حاکم میں سجدہ تلاوت کی درج ذیل دعا بیان ہوئی ہے: اَللّٰھُمَّ سَجَدَلَکَ سَوَادِیۡ وَخَیَالِیۡ وَاٰمَنَ بِکَ فُؤَادِیۡ۔ (مستدرک حاکم، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل والتسبیح، جزء اوّل صفحہ716)اے میرے اللہ ! میرا سارا وجود اور ساری طاقتیں تیری اطاعت اور فرمانبرداری میں جھک گئیں اور میرا دل تجھ پر ایمان لے آیا۔
مختلف کتابوں میں سجدہ تلاوت کی مندرجہ ذیل دعا بھی بیان ہوئی ہے۔
سَجَدَلَکَ رُوۡحِیۡ وَجَنَانِیۡ۔ میری روح اور میرا دل تیری فرمانبرداری میں لگ گئے ہیں۔
قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں۔ ہمیں اس عظیم نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور اسے اپنے محبوب کا کلام سمجھتے ہوئے نہایت توجہ، انہماک اور دلی محبت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ نیکیوں میں سبقت لے جانے والوں میں شامل رکھے اور قرآن کریم کے نور سے کماحقہ ٗفائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین
٭…٭…٭