یاجوج وماجوج کی زمینی تدبیریں اور خداتعالیٰ کی آسمانی تقدیریں (قسط اوّل)
آخری زمانے میں غلبہ اسلام ایک اٹل حقیقت ہے
بنی اسرائیل کے صحیفوں میں، انجیل میں، پھر احادیث نبویہؐ اور قرآن شریف میں ان اقوام کے متعلق
اور ان کے طریق کا ر اور انجام کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابلِ توجہ ہے
گرچہ شاہینِ خرد برسرِ پروازی ہست
اندریں بادیہ پنہاں قدر اندازی ہست
یاجوج و ماجوج، دابّۃ الارضاور دجّال
آج ان تینوں ناموں کی مصداق وہ اقوام ہیں جنہوں نے عیسائیت کو قبول تو کیا لیکن عملاً اس سے بہت دُور جا پڑیں۔ حتّٰی کہ ان اقوام میں سے بعض نے خدا تعالیٰ کی ہستی کا بھی انکار کر دیا، خدا تعالیٰ کے ماننے والوں کا مذاق اڑاناشروع کر دیا اور مذہبی کتب کو خرافات کا انبار قرار دیا۔ حالانکہ ان کا یہ مسلک اور یہ موقف بجائے خود خدائے واحد کی ہستی کا ثبوت ہے کیونکہ کتب سماوی متفقہ طور پر خبر دے رہی تھیں کہ آئندہ آخری زمانہ میں ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے صحیفوں میں، انجیل میں، پھر احادیث نبویہ اور قرآن شریف میں ان اقوام کے متعلق اور ان کے طریق کا ر اور انجام کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابلِ توجہ ہے خصوصاً اہلِ رو س کے لیے کیونکہ ان کا انجام نہایت ہی بھیا نک ہے۔
یاجوج ماجوج اور آسمانی نوشتے
ماجوج کے متعلق پیدائش باب 10میں مرقوم ہے کہ ’’بنی یافث یہ ہیں جمر اور ماجوج اور مادی اور یاوان اور توبل اور مسک اور تیراس۔ ‘‘
اور حزقیل باب 39میں لکھا ہے: ’’پس اے آدمزاد تو جوج کے خلاف نبوّت کر اور کہ خداوند یوں فرماتا ہے۔ دیکھ اے جوج ! روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا۔ مَیں تیرا مخالف ہوں۔ ‘‘
اس حوالے میں جوج سے مراد یاجوج ہے اور روش سے رشیا یعنی روس ہے اور مسک سے مراد ماسکو ہے اور توبل سے مراد ٹومالسک کا علاقہ ہے۔
حدیث شریف میں مذکور ہے: عن عبداللّٰہ ابن عمر عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال اِنَّ یاجوج وماجوج من وُلد اٰدم ولو اُرسلوا افسدوا علی الناس معایشھم ولن یموتَ منھم رجلٌ اِلَّا ترک من ذرّیتہٖ الفًا فصاعدًا واِنّ من ورائھم ثلاث اُمَمٍ تاول و تاریس و مسک۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر و الاوسط ورجالہ ثقات) یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاجوج و ماجوج (کوئی دیو یا بھوت نہیں ہیں بلکہ) اولاد آدم ہیں۔ اگر انہیں کھول دیا جائے تو لوگوں کی معاشی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیں اور یاد رکھو کہ اگر ان میں سے ایک مرے گا تو ہزار یا ہزار سے بھی زائد چیلے اپنے پیچھے چھوڑ جائےگا۔ اوران کے پیچھے تین قومیں یعنی تاول، تاریس اور مسک ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یاجوج ماجوج کا اصل مولد روسی علاقہ ہے۔ لیکن ماجوج اقوام کچھ زمانہ کے بعد مغرب کی طرف بڑھیں اور بعض جزائر میں سکوت اختیا رکرلی اور پھرعیسائیت کو قبول کر لیا۔ چنانچہ ماجوج کے متعلق حزقیل باب 39میں لکھا ہے کہ ’’مَیں ماجوج پر اور ان پر جوبحری ممالک میں امن سے سکونت کرتے ہیں آگ بھیجوں گا۔ ‘‘
یاجوج و ماجوج کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ خطبہ دیا اور صحابہ کرام کو ان اقوام سے بہ الفاظِ ذیل متعارف فرمایا: انّکم تقولون لا عَدُوَّ انکم لن تزالو تقاتلون حتّٰی یأتی یاجوج وماجوج عراض الوجوہٗ صغار العیون، صھب الشعاف، ومن کلّ حدبٍ ینسلون کأَنَّ وجوھھم الجان المطرقۃ۔ (رواہ احمد و الطبرانی ورجالھما رجال الصحیح)یعنی آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تمہارا دشمن نہیں رہا حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ آپ لوگوں کو متواتر اپنے کئی دشمنوں سے لڑنا پڑے گا تا وقتیکہ یاجوج ماجوج اقوام ظاہر ہو جائیں۔ یہ لوگ چوڑے چوڑے چہروں والے ہیں، آنکھیں چھوٹی ہیں اور ان کی داڑھیوں کے سرے کے بال بھورے رنگ کے ہیں۔ یہ ہر بلندی پر دوڑکر چھا جائیں گے اوران کے چہرے اُلٹی ڈھال کی طرح ہیں۔
اِس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یاجوج ماجوج کا جو حُلیہ بیان فرمایا ہے۔ وہ روسی اقوام اور ان کے پڑوسی چینی اقوام کا حُلیہ ہے۔ نیز اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج کے ظہور پر اسلام کی مدافعانہ جنگیں ختم ہوجائیں گی۔ کیونکہ اول تو یاجوج ماجوج کو کسی مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔ وہ اگر کسی قوم سے لڑیں گے تو سیاسی اغراض کے ماتحت اور دوم یہ کہ مسلمانوں میں اُن سے لڑنے کی طاقت ہی نہیں ہوگی۔
یاجوج ماجو ج کے مقاصد
یاجوج ماجوج کے مقاصد پر، اوراُن کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جو تدبیریں وہ اختیار کریں گے اُن پر بھی آسمانی کلمات روشنی ڈالتے ہیں۔ چنانچہ حزقیل باب 38میں لکھا ہے کہ ’’خداوند یوں فرماتا ہے کہ اُس وقت (یعنی آخری زمانہ میں) یوں ہوگا کہ بہت سے مضمون تیرے دل میں آئیں گے اور تُو ایک بڑا منصوبہ باندھے گا اور تُو کہے گا کہ مَیں دیہات کی سرزمین پر حملہ کروں گا۔ مَیں ان پر حملہ کروں گا جو راحت و آرام سے بستے ہیں ….تا کہ تُو لوٹے اور مال کو چھین لے۔ ‘‘
پھر حزقیل باب 11میں ’’شمال کے باشاہ ‘‘یعنی روس کے متعلق لکھا ہے: ’’بادشاہ اپنی مرضی کے مطابق چلے گا اور تکبّر کرے گا اور سب معبودوں سے بڑا بنے گا اور الہٰوں کے اِلٰہ کے خلاف بہت سی حیرت انگیز باتیں کہے گا اور اقبالمند ہوگا……کسی اور معبود کو نہ مانے گا بلکہ اپنے آپ ہی کو سب سے بالا جانے گا……وہ بیگانہ معبود کی مدد سے محکم قلعوں پر حملہ کرے گا۔ جو اس کو قبول کریں گے ان کو بڑی عزت بخشے گا ……اور خاتمہ کے وقت میں شاہِ جنوب اس پر حملہ کرےگا۔ ‘‘
ان حوالوں سے ظا ہر ہے کہ یاجوج اورماجوج ایک نیا معبود تراشیں گے اور وہ نیا معبود اُن کا حیرت انگیز فلسفہ ہو گا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت سے محروم کرکے جوع الارض کی بیماری میں مبتلا کر دے گا۔ لہٰذا ان کا معبود اس دنیائے فانی کی عیش وعشرت اور کھانا پینا ہوگا۔ اور یہ کہ یاجوج اور ماجوج ایک دوسرے پر حملہ کریں گےاور ایک دوسرے کے ساتھیوں پر بھی حملہ کریں گے اور اُن کے حملے کا ہتھیار نہ صرف عام آلاتِ جنگ ہوں گے بلکہ اُن کا فلسفہ اور پروپیگنڈا بھی اُن کا ہتھیار ہوگااور یہ کہ دنیا دوحصوں میں منقسم ہوگی۔ ایک حصہ شاہِ شمال یعنی روس کے ساتھ ہوگا اور دوسرا اس کے حریف کے ساتھ جو اس کے مقابل شاہِ جنوب ہوگا۔
بخاری شریف میں بھی انہی دو بلاکوں کی باہمی جنگ و جدال کو ’’ اقتتال فئتین عظیمتین‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ دونوں بلاک آخری زمانے میں ایک دوسرے سے نبر دآزما ہوں گے۔ اور انجیل میں ماجوج کو سمندر کا حیوان اور یاجوج کو زمین کا حیوان قرار دے کر اُن کے مقاصد اور طریق کار پر مندرجہ ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے: ’’اور مَیں نے ایک حیوان کو سمندر میں سے نکلتے ہوئے دیکھا…اس کی شکل تیندوے کی سی تھی اور پاؤں ریچھ کے سے…بڑے بول بولنے اور کفر بکنے کے لئے اسے ایک مُنہ دیا گیا اور اسے بیالیس مہینے تک کام کرنے کا اختیار دیا گیا او راس نے خدا کی نسبت کفر بکنے کے لئے مُنہ کھولا کہ اس کے نام اور اس کے خیمہ یعنی آسمان کے رہنے والوں کی نسبت کفر بکے۔ اور اسے یہ اختیار دیا گیا کہ مقدسوں سے لڑے اور اُن پرغالب آئے اور اُسے ہر قبیلہ اور اُمّت اوراہلِ زبان اور قوم پر اختیار دیا گیا۔ اور زمین کے وہ سب رہنے والے جن کے نام اس بَرَّہ کی کتاب حیات میں لکھے نہیں گئے جو بنائے عالم کے وقت سے ذبح ہوا ہے اس حیوان کی پرستش کریں گے۔ ‘‘(مکاشفہ باب 12)
اس حوالے میں ماجوج کا یعنی انگریزوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے او رخدا کی نسبت کفر بکنے سے مراد تثلیث کا عقیدہ اور یورپین فلسفہ ہے اور بیالیس ماہ سے مراد 1260دن ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار نبوت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش تک پورے بارہ سَو ساٹھ سال کا زمانہ ہے۔ یعنی ہزار محمدی کے بعد یہ حیوان یا دابۃ الارض نکلنا شروع کرے گا اور دو سو سال کے عرصے میں چھا جائےگا اور پھر حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش ہوگی اور اس کے بعد اس حیوان کے تنزل اور زوال کے اسباب پیدا ہونے شروع ہوجائیں گے اور بنائے عالم سے ذبح ہونے والے بَرَّہ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک ہے اور کتابِ حیات میں لکھے ہوئے ناموں سے مراد سچّے مسلمان اور مخلص مومن ہیں۔
پھر یاجوج کے متعلق اسی مکاشفہ میں لکھا ہے: ’’پھر مَیں نے ایک اَور حیوان کو زمین میں سے نکلتے ہوئے دیکھا ……وہ بڑے بڑے نشان دکھاتا تھا یہاں تک کہ آدمیوں کے سامنے آسمان سے زمین پر آگ نازل کر دیتا تھا……اور اس نے سب چھوٹے بڑوں، دولتمندوں اورغریبوں، آزادوں اور غلاموں کے دہنے ہاتھ یا ماتھے پرایک ایک چھاپ کرادی تاکہ اس کے سوا جس پر نشان یعنی اس حیوان کا نام یا اس کے نام کا عدد ہو اور کوئی خرید وفروخت نہ کر سکے۔ حکمت کا یہ موقع ہے جو سمجھ رکھتا ہے وہ اس حیوان کا عددگن لے کیونکہ وہ آدمی کا عدد ہے اور اس کا عدد چھ سو چھیاسٹھ ہے۔ ‘‘
اِس حوالے میں زمین کے حیوان سے مراد دابۃ الارض ہے جس کا اوّلین مصداق روسی ہیں۔ نیز اِس حوالے سے یاجوج کے معنے پر بھی روشنی پڑتی ہے کیونکہ لفظ یاجوج کا مادہ اَجّ یعنی آگ ہے اور روس آج جس رنگ میں آسمان سے زمین پر آگ نازل کر رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اور اس کا عدد جو چھ سو چھیاسٹھ بتایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ مختلف زمانوں میں مختلف صورتوں میں تغیر و تبدّل پاتا رہا ہے۔ تورات میں اسی روس کو تیراس کہا گیا ہے اور حدیث میں اسے تاریس کہا گیا ہے۔ سوعجب نہیں کہ کسی زمانے میں اسے تُرُوس بھی کہا گیا ہو اور اسی تروس سے یہ روس یا روش بن گیا ہو۔ لہٰذا اگر ایسا ہوا ہو تو پھر تروس کے اعداد پورے چھ سَو چھیاسٹھ ہیں۔
اِس موقع پر یہ بات قابلِ ذکر معلوم ہوتی ہے کہ روس دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جو رَاسَ یَرُوْسُ رَوْسًا سے بناہے اور رَاسَ رَوْسًا کے معنے ہیں أَکَلَ أَکْلاً کثیرًا۔ یعنی بہت زیادہ کھایا اور مشی متبخترًا اور پھر ناز سے چلنے لگا۔ نیز راس السیلُ کے معنے ہیں جمع الغثاء وحملہ۔ یعنی سیلاب نے کوڑے کرکٹ کو جمع کر لیا اور پھر اُسے اٹھا کر بہنے لگا۔ سو ان معنوں کے اعتبار سے رُوس آج اسم بامسمّٰی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اُس نے اپنے ایک منکر اور جاحد کے کچھ ایسے نام رکھ چھوڑے کہ ہزاروں سالوں کے بعد اس کے اپنے نام ہی اللہ تعالیٰ کے موجودہونے کی شہادت دینے لگے۔
انجیل میں جس طاغوت کو حیوان کہا گیا ہے قرآن مجید اور حدیث میں اس کا نام دابۃ الارض رکھاگیا ہے۔ دابۃ الارض کے لفظی معنی زمین کے جانور یا زمین کے کیڑے کے ہیں۔ اس سے طاعون بھی مراد ہے اور یاجوج ماجوج بھی مراد ہیں۔ کیونکہ دونوں کا کام اپنی جرح سے دوسرے کو مجروح کرنا ہے۔ طاعون کا کیڑا بدنِ انسانی میں طعنہ زنی اور نیش زنی کرتا ہے اور یہ قومیں بدن کے علاوہ اپنے علم کلام اور فلسفیانہ جرح کے وارسے روحِ انسانی کو بھی مجروح کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ (النمل:83) یعنی جب لوگوں پر فرد جرم لگ جائے گا تو ہم اُن کو سزادینے کے لئے زمین سے ایک ’’دابۃ‘‘کو پیدا کردیں گے جو انہیں مجروح کرےگا۔ کیونکہ ان لوگوں کو ہماری آیات پر یقین نہیں رہے گا۔
اس آیت میں لفظ تکلّم دومعنی دیتا ہے۔ ایک کلام کرنے کے اور دوسرے زخمی کرنے کے۔ اوریہاں دونوں معنی مراد ہیں۔ نیز اس آیت میں لفظ ’’دابۃ‘‘ اور لفظ ’’تکلّم‘‘ یاجوج ماجوج کی پالیسی اور طریق کا رپر بھی روشنی ڈالتے ہیں کیونکہ دابّۃ کے اصل معنے ایسے جاندار کے ہیں جو دبے پاؤں چلے یا جس کے چلنے کی آہٹ محسوس نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں ریچھ کو دُبّکہتے ہیں کیونکہ جب وہ چلتا ہے تو اُس کے قدموں کی آہٹ نہیں محسوس ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ یوحنا عارف کو اس جانور کے پاؤں ریچھ کے دکھائے گئے۔ گویا مقصود یہ ہے کہ یاجوج ماجوج اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسی چالیں چلیں گے جسے عام لوگ محسوس نہ کر سکیں گے۔ پھر ایسے ہی لفظ ’’تکلّم‘‘ بھی ان کے طریقِ کار پر روشنی ڈالتا ہے یعنی پہلے تو یہ لوگ اپنی چرب زبانی اور سحر نگاری سے عوام کو قابو کریں گے اور اُن کا یہ ہتھیار اتنا کار گر ہوگا کہ اولادِ آدم کا بیشتر حصہ اُن کے آگے سر تسلیم خم کر دےگااور وہ اپنے دجل و فریب سے لاکھوں راست رو انسانوں کو کجروبنا دیں گے۔ انہیں گمراہ کردیں گے۔ گر دیکھا جائے تو درحقیقت زبان کا ہتھیار آہن کے ہتھیار سے زیادہ مؤثر اور زیادہ کارگر ہے۔ کیونکہ لوہے کا ہتھیار تو صرف بدن کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن زبان کے ہتھیا رکا وار دل پر پڑتا ہے۔ عالمِ اسلام کو زیادہ نقصان اسی فلسفہ نے پہنچایا ہے اور مسلمانوں کو اسلام سے دور پھینک کر اسے مغرب کے نقشِ قدم پر چلا دیا ہے اور اس میں ایک ایسی روح بھر دی ہے کہ وہ مغربی تہذیب و تمدّن اورمغربی فلسفہ کو اسلامی تہذیب و تمدّن اورقرآنی معارف پر ترجیح دیتا ہے اور یہ ایک ایسا نقصان ہے کہ جس کی تلافی آہنی ہتھیاروں سے پہنچائے ہوئے نقصان سے زیادہ مشکل ہے۔ سچ ہے
جِرَاحَاتُ السِنَانِ لَھَا اِلْتِئَامٌ
وَلَا یَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللِّسَانُ
یعنی نیزوں کے زخم مندمل ہوجاتے ہیں لیکن زبان کے زخم مشکل سے مندمل ہوتے ہیں۔
قرآن کریم کے اسلوب بیان کے پیشِ نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود قرآن کریم لفظ ’’تکلِّم‘‘ کے معنے کلام کو پہلا درجہ دیتا ہے۔ کیونکہ آگے فرمایا وَ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ لَا يَنْطِقُوْنَ۔ یعنی جب یہ بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے مستوجبِ سزا ٹھہر کر سزاپائیں گے تو پھر اُن میں بات کرنے کی سکت نہ رہے گی اور سارا فلسفہ دھرا دھرا یا رہ جائے گا۔ لہٰذا یہ ’’لَایَنْطِقُوْنَ ‘‘ کے الفاظ لفظ ’’تکُلِّمُ‘‘ کے معنی کلام کو ترجیح دینے کا فائدہ پہنچاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کے متعلق ’’یُکَلِّمُ النَّاس‘‘ کے الفاظ رکھے گئے ہیں۔ کیونکہ مسیح کا کلام دجال کے لادینی فلسفہ کو کھا جائے گا۔
پھر بائبل میں یاجوج ماجوج کی عیّاری اور فریب کاری کی روش کو دانی ایل باب 11میں دکھایا گیا ہے: ’’ان دونوں بادشاہوں کے دل شرارت کی طرف مائل ہوں گے۔ وہ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر جھوٹ بولیں گے پر کامیابی نہ ہوگی۔ کیونکہ خاتمہ مقررہ وقت پر ہوگا۔ ‘‘
حدیث شریف میں بھی ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کی زبانیں شہد سے زیادہ شیریں ہوں گی لیکن دل بھیڑیوں کی طرح ہوں گے۔
یاجوج ماجوج کی تباہی
اس کے متعلق بھی بہت سی پیشگوئیاں موجود ہیں۔ اس تباہی کے اکثر اسباب اب مہیّا ہو چکے ہیں اور کچھ ہورہے ہیں اور تباہی کے ابتدائی آثار بھی ظاہر ہو چکے ہیں۔
اشارے دستِ قدرت کے نمایاں ہوتے جاتے ہیں
خدا کے دین کی نصرت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
بائبل میں لکھا ہے کہ ’’تُو اپنی جگہ سے شمال کی دُور اطراف سے آئے گا تواور بہت سے لوگ تیرے ساتھ جو سب کے سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے ایک بڑی فوج اور بھاری لشکر۔ تو میری اُمّت اسرائیل کے مقابلے کو نکلے گا اور زمین کو بادل کی طرح چھپا لے گا۔ یہ آخری دنوں میں ہوگا۔ اور مَیں تجھے اپنی سرزمین پر چڑھالاؤںگا تاکہ قومیں مجھے جانیں جس وقت مَیں اے جوج اُن کی آنکھوں کے سامنے تیری تقدیس کراؤں۔ خدا وند خدایوں فرماتا ہے کہ کیا تو وہی نہیں جس کی بابت مَیں نے قدیم زمانہ میں اپنے خدمت گزار اسرائیلی نبیوں کی معرفت جنہوں نے اُن ایام میں سالہاسال تک نبوّت کی فرمایا تھا کہ مَیں تجھے اُن پر چڑھالاؤں گا اور یوں ہوگاکہ اُن ایّام میں جب جوج اسرائیل کی مملکت پر چڑھائی کرےگا تو میرا قہر میرے چہرے سے نمایاں ہوگا۔ خداوند فرماتا ہے کیونکہ مَیں نے اپنی غیرت اور آتش قہر میں فرمایا کہ یقیناً اس روز اسرائیل کی سرزمین میں سخت زلزلہ آئےگا۔ یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور میدان کے چرندے اور سب کیڑے مکوڑے جو زمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور تمام انسان جو روئے زمین پر ہیں میرے حضور تھرتھرائیں گے اور پہاڑ گر پڑیں گے اور کراڑے بیٹھ جائیں گے اورہر ایک دیوار زمین پر گر پڑےگی اور مَیں اپنے سب پہاڑوں سے اس پر تلوار طلب کروںگا۔ خداوند خدا فرماتا ہے اور ہر ایک انسان کی تلوار اس کے بھائی پر چلے گی اور مَیں وبا بھیج کر اور خونریزی کر کے اسے سزا دوںگا اور اس پر اور اس کے لشکروں پر اور اُن بہت سے لوگوں پر جو اُس کے ساتھ ہیں شدّت کا مینہ اور بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤں گا اور اپنی بزرگی اور تقدیس کراؤں گا اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہونگااور وہ جانیں گے کہ خداوند مَیں ہوں۔ ‘‘(حزقیل باب 38)
پھر لکھا ہے کہ ’’ساتویں (فرشتے) نے اپنا پیالہ ہوا پر الٹا اور مقدس کے تخت کی طرف سے بڑے زور سے یہ آواز آئی کہ ہو چکا۔ پھر بجلیاں اور آوازیں اور گرجیں پیداہوئیں اور ایک ایسا بڑا بھونچال آیا کہ جب سے انسان زمین پر پیداہوئے ایسا بڑا اور سخت بھونچال کبھی نہ آیا تھا۔ او راس بڑے شہر کے تین ٹکڑے ہو گئے او رقوموں کے شہر گر گئے…اور ہر ایک ٹاپو اپنی جگہ سے ٹل گیا اور پہاڑوں کا پتہ نہ لگا اور آسمان سے آدمیوں پر من من بھر کے بڑے بڑے اولے گرے۔ ‘‘(مکاشفہ باب 17)
پھر لکھا ہے: ’’اور جب ہزار برس پورے ہو چکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور اُن قوموں کو جو زمین کی چاروں طرف ہونگی یعنی یاجوج ماجوج کو گمراہ کر کے لڑائی کے لئے جمع کرنے کو نکلے گا۔ اُن کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا او روہ تمام زمین پر پھیل جائیں گی اور مقدسوں کی لشکر گاہ اور عزیز شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی اورآسمان پر سے آگ نازل ہو کر اُن کو کھا جائے گی۔ ‘‘(مکاشفہ باب 3)
اس حوالے میں ہزار سال سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے ہزار سال ہیں اور عزیز شہر اسلامیوں کا مرکز مکہ معظمہ ہے جس میں بیت اللہ الحرام یعنی خانہ کعبہ ہے۔ اور بیت الحرام کے معنے عزت والے اور حرمت والے گھر کے ہیں لہٰذا ’’عزیز شہر ‘‘ اور ’’مقدسوں کی لشکر گاہ ‘‘سے مراد عالمِ اسلام ہے۔
پھر حزقیل باب 39میں لکھا ہے کہ ’’ پس اے آدمزاد تُو جوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ کہ خدا وند خدا یوں فرماتا ہے۔ دیکھ اے جوج روش او رمسک اور توبل کے فرمانروا مَیں تیرا مخالف ہوں او رمَیں تجھے پھرا دونگا اور تجھے لئے پھرونگا اور شمال کی دُور اطراف سے چڑھالاؤںگا اور تجھے اسرائیل کے پہاڑوں پر پہنچا ؤنگا اور تیری کمان تیرے بائیں ہاتھ سے چھڑا دونگااور تیرے تیر تیرے داہنے ہاتھ سے گرا دوںگا۔ تو اسرائیل کے پہاڑوں پر اپنے سب لشکر اور حمایتوں سمیت گر جائےگا…اور مَیں ماجوج پر اور اُن پر جو بحری ممالک میں سکونت کرتے ہیں آگ بھیجوں گا اور وہ جانیں گے کہ میں خدا وند ہوں۔ اور مَیں اپنے مقدس نام کو اپنی امت اسرائیل پر ظاہر کروں گا…اور قومیں جانیں گی کہ مَیں خداوند اسرائیل کا قدوس ہوں۔ دیکھ وہ پہنچا اور وقوع میں آیا۔ خداوند فرماتا ہے یہ وہی دن ہے جس کی بابت مَیں نے فرمایا تھا تب اسرائیل کے شہروں کے بسنے والے آگ لگا کر ہتھیاروں کو جلائیں گے یعنی سیروں اور بھریوں کو۔ کمانوں اور تیروں کو اور بھالوں اور برچھیوں کو اور وہ سات برس تک اُن کو جلاتے رہیں گے یہاں تک کہ نہ وہ میدان سے لکڑی لائیں گے اورنہ جنگلوں سے کاٹیں گے کیونکہ وہ ہتھیار ہی جلائیں گے اور وہ اپنے لُوٹنے والوں کو لُوٹیں گے اور اپنے غارت کرنے والوں کو غارت کریں گے خداوند خدافرماتا ہے۔ ‘‘
اس حوالے میں اسرائیل سے مراد نیک لوگ ہیں مسیح موعود کی جماعت کو بھی بنی اسرائیل قرارد یا گیا ہے او رپھر جن ہتھیاروں کا ذکر کیا گیا ہے ضروری نہیں کہ وہی ہتھیار ہوں۔ مراد آلاتِ حرب ہیں خواہ وہ کسی قسم کے ہوں۔
(مطبوعہ ماہنامہ الفرقان ربوہ جون1963ءصفحہ34تا41)
(جاری ہے)