کیا حدیث عُلَمَاء أُمَّتِیْ کَأَنْبِیَاءِبَنِیْ إِسْرَائِیْل موضوع ہے؟ (حصہ دوم)
حدیثِ نبویؐ عُلَمَاء أُمَّتِیْ کَأَنْبِیَاءِبَنِیْ إِسْرَائِیْل کے حوالے سے پہلے حصےمیں ذکر کیا گیا تھا کہ بڑے بڑے شیعہ اور سنی علماء نے اسے نہ صرف اپنی کتب تفاسیر اور کتبِ فقہ میں درج کیا ہے بلکہ اس کی بنیاد پر استدلال بھی کیے ہیں۔
ان کتب میں سے چند کے حوالہ جات یہاں نقل کیے جارہے ہیں:
٭…’’ لا جرم کانت درجات الأنبیاء في قوۃ النبوۃ مختلفۃ۔ ولھذا السر؛ قال النبیﷺ ( علماء أمتي کأنبیاء بني اسرائیل)‘‘(تفسیر کبیر الرازی سورۃ یونس آیت57)اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کے درجات قوت نبوت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ نبیﷺ کے قول ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں ‘‘ کا یہی راز ہے۔
٭…’’و إما أن یکون کاملا و یقدر علی تکمیل الناقصین و ھم الأنبیاء و کذلک قال علیہ السلام ’’علماء أمتی کأنبیاء بني اسرائیل‘‘(تفسیر کبیر الرازی الجزء التاسع عشر، سورۃ ابراہیم آیت11)اور اگر وہ کامل ہو اور ناقصوں کی تکمیل پر قدرت رکھتا ہو تو ایسے لوگ نبی ہوتے ہیں اور اسی لیے نبی علیہ السلام نے فرمایا’’ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں ‘‘
٭…’’أن النفوس علی ثلاثۃ أقسام: ناقصۃ و کاملۃ لا تقوی علی تکمیل الناقصین و کاملۃ تقوی علی تکمیل الناقصین (فالقسم الأول) العوام (والقسم الثانی) ھم الأولیاء (والقسم الثالث) ھم الأنبیاء، ولھذا السبب قال صلی اللّٰہ علیہ واسلم (علماء أمتی کأنبیاء بني اسرائیل)‘‘(تفسیر کبیر الرازی الجزء السابع والعشرون سورۃ فُصّلت آیت33)لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں: ناقص اور ایسے کامل جو ناقصوں کی تکمیل نہیں کرسکتے اور ایسے کامل جو ناقصوں کی تکمیل کرسکتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ عوام ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ اولیاء ہوتے ہیں اور تیسری قسم کے لوگ انبیاء ہوتے ہیں۔ لہٰذا اسی وجہ سے نبیﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔‘‘
٭…فإذا جعل قلیلا من امتہ مع الرسل والأنبیاء والأولیاء الذین کانو فی درجۃ واحدۃ، یکون ذلک إنعامًا فی حقہم ولعلہ إشارۃ إلی قولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘علماء أمتی کأنبیاء بنی إسرائیل‘‘(تفسیر کبیر الرازی الجزءالتاسع و العشرونصفحہ 149)پس جب امت میں سے کچھ لوگ رسولوں نبیوں اور اولیاء کے ساتھ شامل کیے جاتے ہیں تو وہ ایک ہی درجہ میں ہوتے ہیں۔ یہ ان کے حق میں انعام ہوتا ہے اور غالباً نبیﷺ کے قول ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں ‘‘ میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
٭…’’أنہ إذا جعل قلیل منھم مع الأنبیاء والرسل المتقدمین کانو فی درجۃ واحدۃ، و ذلک یوجب الفرح لانہ انعام عظیم ولعل الإشارۃ إلیہ بقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام’’علماء أمتی کأنبیاء بنی إسرائیل‘‘(اللباب فی علوم الکتاب الجزء الثامن عشرصفحہ 382)جب ایسا ہو کہ امت میں سے کچھ لوگ پہلے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ شامل کئے جاتے ہیں تو وہ ایک ہی درجہ میں ہوتے ہیں۔ اور یہ خوشی کا مقام ہے کیونکہ یہ ایک عظیم انعام ہے اور غالبا ًنبیﷺ کے قول ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں ‘‘میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
٭…’’و یکفی شرفا لھذہ الامۃ المرحومۃ ما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حق علمائھم علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘(روح البیان جلد اول الجزء الثانی صفحہ248سورۃ البقرۃآیت144)یہ اس امت مرحومہ کا شرف ہے جو نبیﷺ نے ان کے علماء کے بارے میں فرمایا: ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔‘‘
٭…’’و فی روایۃ أخری أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل قال بعضھم ھذا الحدیث لا أصل لہ ولکن معناہ صحیح لما تقرّر أن العلماء ورثۃ الأنبیاء‘‘(حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نورالایضاح فی مذہب الامام الاعظم أبی حنیفہ صفحہ4)اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔ اُن میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے لیکن اس کے معنی صحیح ہیں کیونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اس کو تقویت دیتی ہے۔
٭…’’اور یہ جو پہلے مذکور ہوا ہے کہ کامل تابعدار کمال متابعت کے سبب اپنے متبوعوں کے کمالات جذب کرلیتے ہیں، مراد ان سے متبوعوں کے اصلیہ کمالات ہیں نہ کہ مطلقًا تاکہ تناقض پیدا نہ ہو۔ بلکہ یہ لوگ انبیاء میں سے اپنے ہر ایک نبی کی مخصوصہ ولایت سے بہرہ ور ہوئے ہیں۔ اور سب امتوں کے درمیان یہی امت تابعداری کے سبب اس تجلی سے مخصوص ہے۔ اور اس دولت عظمیٰ سے مشرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ امت خیرالامم ہے اور اس امت کے علماء بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔‘‘(اردو ترجمہ مکتوبات امام ربانی حصّہ چہارم دفتر اول، صفحہ 569)
٭…’’آخرت کی نجات اور ہمیشہ کی خلاصی حضرت سید الاولین و الآخرینﷺ کی متابعت پر وابستہ ہے۔ آپ ہی کی متابعت سے حق تعالیٰ کی محبوبیت کے مقام میں پہنچتے ہیں۔ اور آپ ہی کی متابعت سے تجلی ذات سے مشرف ہوتے ہیں۔ اور آپ ہی کی متابعت سے مرتبہ عبدیت میں جو کمال کے مراتب سے اوپر اور مقام محبوبیت کے حاصل ہونے کے بعد ہے سرفراز فرماتے ہیں۔ اور آپ کے کامل تابعداروں کو بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی طرح فرماتے ہیں۔‘‘
(اردو ترجمہ مکتوبات امام ربانی حصّہ چہارم دفتر اول، صفحہ 570)
(مرسلہ: انصر رضا۔ واقف زندگی، کینیڈا)