حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
رمضان کے روزے اور قرآنِ کریم کی تلاوت اور اسے سمجھنا، اور عبادتوں کے معیار اس لئے بلند کرنے کی کوشش کرنا کہ رمضان میرے معیارِ عبودیت اور بندگی کو مزید بڑھائے گا ایک خاص رات رکھی ہے۔ ایک کوشش اور شوق کے ساتھ بلند معیار حاصل کرنے کے لئے مومن جب جُت جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے پر بے انتہا مہربان ہے، جو اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ بندہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے میرے ان الفاظ کو سامنے رکھ کر کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ یعنی دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں نہ صرف اس کی دعا سنتا ہوں بلکہ رمضان کے آخری عشرہ میں جو مَیں نے اپنے بندوں کے لئے ایک لیلۃالقدر کے پانے کاکہا ہے وہ بھی عطا کرتا ہوں۔ آسمان سے اتر کر بندوں کے قریب تر آ جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ آج کی رات تم مانگو مَیں تمہیں عطا کروں گا۔ پس جب بندہ اپنا عہد پورا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قبولیتِ دعا بلکہ روحانی مقام میں اضافے کے وعدے کو پورا فرماتا ہے۔ ہمارا خدا یقیناً سچے وعدوں والا خدا ہے۔ اگر کبھی کہیں کمی ہے تو ہمارے عملوں میں، ہماری کوششوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر سال رمضان کا مہینہ اور اس مہینے میں یہ دس دن رکھ کر جن میں ایک رات لیلۃ القدر ہے جو بندے کو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کی انتہا ہے، بھیجتا ہے توپھر بندے کو اس ایک رات کی تیاری کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے؟ جس کو یہ ایک رات میسر آ جائے اس کو خدا تعالیٰ کی نظر میں جو مقام ملتا ہے وہ تمام زندگی کی عبادتوں کے برابر ہے۔ یعنی یہ ایک رات اس کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ اس کی شخصیت وہ نہیں رہتی جو پہلے تھی اور یہی حالت ہونی چاہئے۔ ورنہ تو اس ایک رات کا حق ادا نہیں ہو گا۔ ایک مومن کی تو شان ہی یہ ہے کہ اس کی روحانی حالت بہتری کی طرف ہمیشہ جاری رہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ اگست 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍ ستمبر 2010ء صفحہ 5-6)